قومی عزت و وقار کا تحفظ
روزنامہ ایکسپریس بدھ 5 دسمبر 2001ء
پاکستان کو شاہرہ آزادی پر گامزن ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ یہاں جمہوری اصولوں اور اقدار و روایات کی پامالی کا بدقسمت دور شروع ہوگیا اور علاقی سازشوں کے ذریعے آئے دن حکومتیں بننے اور ٹوٹنے لگیں۔ سول اور فوجی نوکر شاہی اور سیاست داں اپنے اپنے اقتدار و اختیار کو بچانے یا اقتدار پر قبضہ کرنے کی تگ و دو میں ایسے منہمک ہوئے کہ ملک کی ترقی و خوشحالی حتٰی کہ اس کی سالمیت کی بھی پروا نہیں رہی۔ قوم اذیت کے سا تھہ اس صورت حال کو کسی نہ کسی طرح برداشت کرتی رہی لیکن پھر اسے بڑے سانحات سے دوچار ہونا پڑا۔ سیاست اور جمہوریت کی ابجد سے نابلد حکمرانوں نے پاکستان کو مملکت کی روح یعنی حاکمیت اعلٰی یا اقتدار اعلٰی ہی سے محروم کرنا شروع کردیا۔ ہمارے آئین میں ویسے تو حاکم اعلٰی یا مقتدر اعلٰی اللہ جل شانہ ہی ہے لیکن معروف معنوں میں مملکت کی بنیادی ہیئت میں جو لوازمات شامل ہیں ان میں ہر قسم کے فیصلے کا اختیار ملک کے عوام کو حاصل ہوتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ حکومت اور مملکت میں جو فرق ہے ہمارے حکمراں اس کی تمیز ہی کھو بیٹھے ہیں۔ اگر سوال اقتدار کو بچانے یا اس کے حصول کا ہو تو وہ حکومت کو مملکت پر ترجیح دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ ملک میں ایسی حکومتوں اور ایسی سیاسی جماعتوں کی کمی نہیں جو اپنی طاقت میں اضافے کی خاطر ملک دشمن عناصر کی حمایت و تعاون حاصل کرنے میں بھی عار نہیں سمجھتے بلکہ اگر اقتدار کے حصول میں معاون بن سکتے ہوں تو وہ دہشت گردوں کو بھی سینے سے لگانے میں دیر نہیں کرتے لیکن اگر کوئی فرد یا جماعت کسی کے اقتدار کے لئے خطرہ ہو تو ملک کی روایت یہ بن گئی ہے کہ ان کو ختم کرنے کا کوئی بھی حربہ ہاتھہ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ یہ کیفیت تشویشناک بھی ہے اور شرمناک بھی۔
یہ بدقسمتی ہے کہ آج پاکستان اقتدار اعلٰی سے تقریباً محروم ہے۔ اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھہ ایک فوجی حکومت کے دور میں ہورہا ہے۔ اس سال 11 ستمبر کے بعد کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں کہ ایک طرف تو ہم ایٹمی قوت ہونے کے دعوے دار ہیں اور اس دعوے میں سچے بھی ہیں لیکن ہم نے عملاً پتھروں اور غلیلوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کرنے والے نہتے فلسطینیوں اور امریکی طیاروں سے برستی ہوئی آگ کے مقابلے میں ثابت قدم عراقی عوام کے مقابلے میں خود کو بہت زیادہ بزدل ثابت کردیا ہے اور یہ محض مفروضہ نہیں، ایک تلخ حقیقت ہے جس سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہے اور وہ اس کیفیت پر دل گرفتہ ہیں ۔ ایک آزاد خود دار اور خود مختار قوم کو ہر گز یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک ہی ٹیلی فون پر کسی کو " دہشت گرد" تسلیم کرلے اور اس سلسلے میں کوئی ثبوت بھی طلب نہ کرے ۔ آج ہمارے کئی ہوائی اڈے پاکستانی طیاروں کے لئے ممنوعہ علاقے بن چکے ہیں۔ ہمارا کام نہ صرف یہ رہ گیا ہے کہ دور سے اس کی حفاظت کرتے رہیں۔ یہ بھی قرین انصاف نہیں کہ اگر امریکہ کسی تنظیم کےافراد کو دہشت گرد قرار دے کر اس کے اثاثوں کو منجمد کردے تو ہم بھی عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے امریکہ کی تقلید میں ان پر پابندی لگادیں یا ان کے اثاثوں کو منجمد کرلیں۔ ہمارے ملک کے آئین اور قانون کی اپنی اہمیت ہے جو کسی کی دوستی یا دشمنی کی بنا نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ ہم بھی پابندی لگاسکتے ہیں لیکن جرم ثابت ہونے کے بعد ہی ایسا کیا جانا چاہئے۔ محض امریکہ کی شہادت ہی کافی نہیں ہونی چاہئے اور اس سلسلے میں ہم نے جہادی، فدائی یا دہشت گرد تنظیموں میں کوئی فرق بھی روا نہیں رکھا ہے۔
بھارت میں متعین امریکی سفیر نے ہفتے کشمیر میں " دہشت گردی" کے حوالے سے پاکستان مخالف بیان دیا۔ اخباری اطلاعات یہ ہیں کہ ہماری طرف سے اس بیان پر " دوستانہ احتجاج" کیا گیا۔ دبے الفاظ میں کئے گئے اس احتجاجی بیان سے بین السطور یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ہم ان الزامات کو کسی حد تک تسلیم کررہے ہیں۔ جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس پر کھل کر اور بھرپور احتجاج کیا جاتا تاکہ کشمیر پر ہمارے موقف کو تقویت حاصل ہوتی۔ یوں بھی یہ ہمارے ملک کے وقار کا تقاضا ہے کہ ہم دنیا کی کسی بھی طاقت کے سامنے اصولوں پر سودے بازی ہر گز نہ کریں اور نہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کریں۔
اسامہ بن لادن کی القاعدہ تنظیم کے نیٹ ورک کو ختم کرنے کے عزم کی تکمیل کی شوق میں امریکی ، پاکستان کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہر عرب طالب علم کو القاعدہ کا رکن اور دہشت گرد سمجھہ کے ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تقریباً تمام عرب طلبہ پاکستان سے اپنے اپنے ملک چلے گئے ہیں ، لیکن بات صرف اتنی سی نہیں ہے۔ اب عرب سیاح بھی اسی ڈر سے پاکستان کا رخ نہیں کررہے اور یورپی اور امریکی ویسے بھی ادھر کم آتے ہیں۔ خبریں یہ ہیں کہ اب عرب سیاح بڑی تعداد میں بھارت کا رخ کررہے ہیں جس کی وجہ سے بھارت کی آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہونے کی توقع ہے۔ عرب سیاح اس لئے بھی بھارت کو ترجیح دینے پر مجبور ہوں گے کہ یورپ اور امریکہ میں ان کو نہ صرف شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ امریکہ میں عربوں کے علاوہ اپنے انتہائی قریبی اتحادی پاکستان کے باشندوں کو بھی خاص طور پر گرفتار کیا جارہا ہے۔ ان میں سے بیشتر پر الزام ہے کہ ویزا کی مدت سے زیادہ وہاں مقیم ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ اپنے کئی ہوائی اڈے تک ان کے حوالے کردیئے ہیں جہاں بھی امریکی آنا چاہے اپنے طیاروں میں آئے اور جب چاہے واپس چلا جائے، ہم ان کے بارے میں کوئی ریکارڈ تک رکھنے کے مجاز نہیں۔ ایک آزاد ملک میں کسی غیر ملکی کو اتنی آزادی کی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ ویسے بھی سفارتی اصولوں کے تحت جو ملک ہمارے شہریوں کے ساتھہ ویسا ہی برتاؤ کر سکتے ہیں ۔ اگر پاکستانیوں کو ویزا دینے میں امریکہ سختی برتے تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم انہیں جہاں اور جب چاہیں آنے جانے کی کھلی چھوٹ دے دیں۔ سلامتی کے نقطہ نگاہ سے بھی یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہماری سرزمین پر آنے اور یہاں سے جانے والوں کے بارے میں معلومات ہمیں حاصل ہیں۔
یہ امر بھی انتہائی افسوسناک ہےکہ ہمارے ممتاز ایٹمی سائنس داں سلطان بشیر الدین محمود اور ان کے ساتھیوں سے القاعدہ اور طالبان سے رابطوں کے بارے میں تفتیش امریکی سفارت خانے میں کی جارہی ہے۔ قومی تذلیل کی یہ بہت ہی بری مثال ہے۔ پہلے تو ہم محض امریکہ کے اشارے پر اپنے قابل فخر اور مایہ ناز سپوتوں کو بار بار گرفتار کرنے اور انہین رہا کرنے کا کھیل کھیلتے رہے اور پھر ان سے تفتیش کا حق بھی امریکہ ہی کو دے دیا ہے۔
القاعدہ تنظیم سے تعلق کے شبہ میں لوگوں کو کسی بھی ثبوت کے بغیر گرفتار کرکے ہم امریکہ کے حوالے کرتے جارہے ہیں اور امریکہ بھی پاکستان سے اپنی گہری اور مستقل دوستی کا یقین دلا رہا ہے۔ ذرا سی بھی آزمائش کرلی جائے اور ان لٹیروں کو جو کروڑوں روپے قومی خزانہ سے لوٹ کر امریکہ چلے گئے ہیں اور رقم وہاں جمع کرلی ہے، انہیں امریکہ سے طلب کیا جانا چاہئے ۔ اس رقم کی واپسی کا بھی مطالبہ کرنا چاہئے اس لئے امریکہ ویسے بھی ناجائز دولت کو اپنے یہاں منتقل نہیں کرنے دیتا کم از کم اس کا دعویٰ یہی ہے۔
25 نومبر کو مزار شریف کی جیل میں جس وحشیانہ بمباری اور گولہ باری کے ذریعے جیل میں بند پاکستان، عرب ممالک اور چیچنیا سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کا قتل عام کیا گیا ہے، وہ نازی بربریت کا نمونہ ہے۔ یہ کہنا کہ قیدیوں نے بغاوت کردی تھی، قتل کا محض ایک بہانہ ہے۔ قیدیوں کے پاس نہ صرف یہ کہ ہتھیارنہیں تھے بلکہ شمالی اتحاد کے فوجی ان کا پہرہ دے رہے تھے ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ نہتے قیدیوں نے مہلک ہتھیاروں سے لیس فوجیوں پر حملہ کرکے انہیں بے قابو کردیا تھا۔ اگر حالات نے پلٹا کھایا تو امریکہ کا یہ جرم شاید کبھی اسے عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کردینے کے لئے کافی ہوگا۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اس وحشیانہ قتل عام کے خلاف امریکہ سےدوستانہ نہیں بلکہ پروقار انداز میں احتجاج کرے۔ اگرہم اسی طرح سمجھوتا کرنے چلے گئے تو پھر ہمیں کم از کم پندوہ بیس لاکھہ پاکستانیوں کو بھی امریکہ کے حوالے کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا جو حکومت کے الفاظ میں اس کی افغان پالیسی کے خلاف ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد پاکستان کو انتہا پسندوں سے اور امریکہ کو دہشت گردی کا ساتھہ دینے والوں سے نجات مل جائے گی۔
دوستی کے دعووں کے برعکس امریکی عوام کو پاکستان سے شدید نفرت ہے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات کی خریداری کے لئےدیئے گئے آرڈر منسوخ کردیئے گئے ہیں۔ پاکستان میں مقیم امریکی سفیر نے امریکیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے دوست پاکستان کی مصنوعات خریدیں لیکن یہ اپیل صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اس لئے کہ امریکہ، پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے ہوئے اسے کمزور کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے عوام کا رویہ بھی افسوسناک ہے۔ ہم شروع ہی سے غیر ملکی مصنوعات کے شوقین رہے ہیں۔ جب کہ قومی جذبے کا تقاضا ہےکہ ہم اپنی مصنوعات ہی کی سرپرستی کریں۔ اس سے ہم اس نقصان سے بچ جائیں گے جو ہماری برآمدات میں رکاوٹ کے باعث ہورہا ہے۔ اگر ہم نے ابھی منصوبہ بندی نہ کی تو غیر ملکیوں کی طرف سے کتنی ہی امداد اور قرضے دیئے جائیں ہم محتاج ہی رہیں گے۔ جب تک ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش نہیں کریں گے۔ ہم ترقی، خوشحالی اور سالمیت اور استحکام حاصل نہیں کر پائیں گے۔
اطلاعات ہیں کہ افغانستان سے آنے والے پاکستانی مجاہدین کو ہم ملک میں داخل ہونےسے روک رہے ہیں ۔ یہ جہاد کی غرض سے افغانستان گئے تھے۔ حکمرانوں کی معلومات کےلئے یہ بتانا شاید مفید ہوگا کہ تھائی لینڈ میں ایک برطانوی خاتون کو منشیات اسمگل کرنے کے جرم میں چند برسوں کی قید ہوگئی تھی تو برطانیہ پریشان ہوگیا تھا اور خود برطانوی وزیر اعظم تھائی لینڈ گئے اور حکومت سے گفتگو کرکے اس خاتون کو رہائی دلوائی۔ بنگلہ دیش میں اک امریکی باشندے کو بھی اسی جرم میں سزادی گئی تھی لیکن امریکہ کے سفیر نے اس کو بھی رہا کروالیا تھا جب کہ ہمارے یہاں سے منشیات فروشوں کو طلب کرکے امریکہ بھیجا جاتا ہے تاکہ انہیں سزا دی جاسکے۔
حکمرانوں اور ملک کے عوام کا فرض ہے کہ وہ فکرو تدبر سے کام لیں اور قومی عزت و وقار کو سر بلند رکھنے کے لئے بڑے سے بڑے خطرے کے مقابلے میں تیار رہیں۔ ٹیپو سلطان شہید نے شاید ہماری رہنمائی کے لئے ہی کہا تھا کہ " شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ کی زندگی سے بہتر ہے۔"
No comments:
Post a Comment