بھارت کے مسلم کش فسادات
روزنامہ جنگ بدھ 6 مارچ 2002ء
بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں جو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اشاروں کنایوں اور کبھی کھلے الفاظ میں برصغیر کی تقسیم کرنے سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے رہتے ہیں، اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے کبھی واہگہ کی سرحد پر جاکر اس پار بسنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کے ساتھ دوستی، محبت اور یکجہتی کے عملی ثبوت کے طور پر کبھی دیئے جلاتے، ایکتا کے گیت گاتے اور کبھی سرحد پار سے آنے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالتے ہیں، حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اس طرز عمل سے پاکستان کے عوام کی اکثریت دل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور ناخوش ہوتی ہے لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں ان کا مطمع نظر محض یہ ہوتا ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں کچھہ جگہ مل جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ طبقہ ہے جو اس کوشش میں بھی لگا رہتا ہے کہ کسی طرح یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ثابت کردیا جائے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم پاکستان کو لادین یعنی سیکولر مملکت بنانا چاہتے تھے۔
یہ جملہ ہائے معترضہ بدھ 27 فروری کو بھارت میں پھٹ پڑنے والے ہولناک مسلم کش فسادات کے پس منظر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہیں جن پر ہر پاکستانی غم سے نڈھال ہے لیکن یہ فسادات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھارتی سیکولرزم اور طرز جمہوریت کے مداحین اور مبلغین کے لئے بھی گہری تشویش کا باعث ہوں گے اس لئے کہ وہاں مسلمانوں کو وحشیانہ انداز میں شہید اور ان کی املاک کو تباہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ رہا ہے بلکہ اس لئے کہ ان واقعات سے پاکستان کے اس ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ بقول " رجعت پسند ' بنیاد پرست ور جداگانہ قومیت کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ عناصر" کی طرف سے مسلسل پیش کئے جانے والے نظریہ پاکستان کی سچائی ایک بار پھر ثابت ہوجاتی ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کے قتل عام کا تعلق ہے انہیں اس کا قطعی غم نہیں ہوتا یہ اس وقت غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں جبکہ کوئی غیر مسلم پاکستان میں قتل کردیا جاتا ہے چاہے یہ قتل آپس کے جگھڑے کی بنا پرکیوں نہ ہوا ہو ایسے واقعات بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے کی مصداق ان کے لئے پاکستان کو فرقہ ورایت اور مذہب کے نام پر کوسنے دینے کا سنہری موقع ہوتے ہیں۔ آج بھارت کی زمین ایک بار پھر خون مسلم سے سرخ ہورہی ہے لیکن اس کی مذمت میں دو الفاظ بھی سننے کو نہیں ملے اس سے پہلے بھی بھارت میں مسلم کش فسادات کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن کیا مجال کہ روشن خیال طبقے کو کبھی ان کی مذمت کی توفیق نصیب ہوتی ہو اس کا سبب شاید یہ ہو کہ ایک طرف تو امریکہ نے "اسلام" کو "دہشت گرد" کا متبادل نام دے کر دنیا کو یقین کرلینے پر مجبور کردیا ہے کہ اسلام کے پیروؤں کی حمایت میں بولنا دہشت گردی کی حمایت ہوگی جس کی سزا امریکہ جس طرح چاہے دینے کا حق رکھتا ہے۔ ان فسادات کے سلسلے میں اکثر رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے خاموشی افسوسناک بلکہ تشویشناک ہے۔ ایک عالمی خبر رساں ادارے سے نشر ہونے والا یہ تبصرہ معنی خیر تو تھا لیکن ہر حساس پاکستانی کے لئے باعث ندامت بھی کہ "پاکستان میں کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج کی خبر نہیں ملی ہے۔ اتوار کی صبح تک یہ بات ثابت تھی کہ ملک میں بحیثیت مجموعی ان واقعات سے لاتعلقی ہے وزارت خارجہ کو بیان تو بھارت کی طرف سے آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے جواب میں آیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس بیان کو رسمی تعزیت نامہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ صدر نے اس سے تھوڑا آگے بڑھ کر کہا ہے کہ "ٹرین پر حملہ افسوسناک ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلم اقلیت کے قتل کا لائسنس حاصل کرلیا جائے۔"
گودھرا ریلوے اسٹیشن پر ٹرین پر حملہ کے سلسلے میں دو خبریں یہ آئی تھیں ایک تو یہ کہ ریلوے کی زمین پر قائم کچی آبادی کو ختم کرنے کے حکومتی فیصلے پر مشتعل عوام نے مسافر ٹرین پر حملہ کردیا تھا اور دوسری یہ کہ ایودھیا سے آنے والے انتہا پسندوں کے خلاف رد عمل کے طور پر مسلمانوں نے یہ حملہ کیا تھا۔ بھارت میں تو مسلم دشمن جماعت کی حکومت ہے اس لئے یہ بات سمجھہ میں آتی ہے کہ اس نے خبر کے پہلے پہلو کو کیوں دبایا لیکن عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی بھارتی حکومت کےء مقاصد کو آگے بڑھانے اور مسلمانوں کے خلاف فسادات بھڑکانے میں پورا زور لگادیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں سینکڑوں مسلمانوں کو زندہ جلا کر شہید کردیا گیا اگر عالمی ذرائع ابلاغ ذرا بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے تو فسادات کا رخ مسلمانوں کے خلاف نہیں حکومت کے خلاف ہوتا۔ بھارت کی سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھہ یادیو نے روزنامہ جنگ کو انٹرویو میں کھل کر یہ بات کہی کہ "گودھرا اسٹیشن پر حملہ حکمراں جماعت نے کرایا ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ریلوے اسٹیشن پر ہر مذہب، ہر نسل کے لوگ ہوتے ہیں یہ اٹل جی کی شرارت ہے " اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ ٹرین پر حملے میں مسلمان ملوث ہیں تو دنیا کے ہر مہذب ملک کے قانون کے مطابق حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملزموں کو گرفتار کرے اور جو مجرم ثابت ہو اسے سزا دلوائے لیکن واقعات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کی شہہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا خواب دیکھنے والا بھارت ابھی تک تاریک دور سے باہر ہی نہیں نکل سکا ہے وہاں مسلمانوں ، عیسائیوں اور نیچی ذات کے ہندوؤں کے لئے آج بھی جنگل کا قانون رائج ہے۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ فیصلہ کس نے کیا کہ ٹرین پر حملہ کرنے والے مسلمان تھے لیکن یہ تو وہی حکومت ہے جس نے یکم اکتوبر کو سرینگر میں صوبائی اسمبلی پر اور 13 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا ذمہ دار پاکستان اور پاکستان کی تنظیموں کو قرار دیا تھا بمبئی سے دہلی جانے والے طیارے کے ڈرامائی "اغوا" کا سہرا بھی اسی حکومت نے پاکستان کے سر باندھ دیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں سکھوں' ہندو یاتریوں حتٰی کہ مسلمانوں کے اجتماعی قتل کا ذمہ دار بھی پاکستان کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ نیپال میں بھارت مخالف ہنگامے ' آسام میں ٹرینوں پر مسلح حملے جنوبی ہندوستان میں وزیر داخلہ ایڈوانی پر حملہ ' واجپائی کو قتل کرنے کی سازش ان سب کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دینے والی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلمانوں کے سلسلے میں کوئی منصفانہ رویہ اختیار کرے گی کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے اگر مستقبل قریب میں ایسی خبریں آنا شروع ہوجائیں کہ "شمالی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیچھے پاکستان اور آئی ایس آئی کا ہاتھہ ہے۔"
بھارت مسلم کش فسادات کے سلسلے میں خاموشی کا سبب یہ خوف معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام لگا کر ہم پر کوئی کاروائی نہ کر بیٹھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ ماضی میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرنا چاہتی ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ 18 اپریل 1950ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین ایک معاہدہ ہوا تھا جو "لیاقت نہرو پیکٹ" کے نام سے معروف ہے اس کے مطابق دونوں حکومتیں اپنی اپنی سرحدوں کے اندر اقلیتوں کے جان، مال، عزت و آبروہ اور تہذیب کے تحفظ اور قانون و اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے تقریر اور عبادت کی مکمل آزادی کی ضمانت دی گئی تھی بعد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اسی سلسلے میں ایک اور معاہدہ ہوا جو "نون نہرو معاہد" کہلایا۔
No comments:
Post a Comment