امریکی دوستی کے دعوے

روزنامہ جنگ اتوار 29 اگست 2004 ء

پاکستان سے امریکہ کی دوستی کے دعوے تو اپنی جگہ لیکن اس کی دوستی کے انداز سے معلوم نہیں کیوں دشمنی جھلکتی نظر آتی ہے ماضی اور حال میں امریکی حکمرانوں کے بیانات کو نظر انداز کردیں تب بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ ہفتہ امریکی وزارت خارجہ کو ایک ایسی تحقیقی رپورٹ منظر عام پر لانے کے ضرورت کیوں پیش آئی جس کے بین السطور میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست نظر آتی ہے اور نتیجتاً اس کی ایٹمی صلاحیت غیر محفوظ قرار پائی جاتی ہے، امریکہ اس سے پہلے بھی یہی ثابت کرنے کی کوشش میں سرکرداں رہا ہے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت غیر محفوظ ہے اور یہ کسی بھی وقت "اسلامی دہشتگردوں" کے ہاتھہ لگ سکتی ہے مذکورہ بالا رپورٹ امریکی وزارت خارجہ کی فرمائش پر میری لینڈ یونیورسٹی کے مرکز برائے Center of International Development & Conflict Management کے ذریعہ کروائی گئی تھی اس رپورٹ میں الزام لگایا ہے کہ پاکستان میں مذہبی تشدد اور اقلتیوں کے خلاف تعصب بہت بڑھ گیا ہے ۔ بھارت کی حوصلہ افزائی اور پاکستان کی عوام نے مایوسی پھیلانے کی غرض سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ظاہری استحکام پائیدار نہیں اگر بھارت اور پاکستان کے درمیان کبھی تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی تو صرف بھارت ہی معاملہ کو سنبھالتے ہوئے جنگ روک سکتا ہے پاکستان داخلی تضادات کی بنا پر ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ جنرل پرویز مشرف کو ہٹائے جانے کی کوشش کو جاری رکھے جانے کی رٹ کا مقصد پاک فوج میں انتشار اور افتراق پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے لیکن قوم کو پختہ یقین ہے کہ انشاء اللہ پاکستان کی فوج پہلے کی طرح متحد اور منظم رہے گی ۔ سوچنا ہوگا کہ امریکہ آج ساری دنیا کے مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہےکیا وجہ ہے کہ امریکہ نے شمالی کوریا کی ایٹمی صلاحیت کو بھول کر اپنی تمام تر توجہ ایران پر مبذول کرلی ہے ادھر شام پر بھی اس کی نگاہیں ہیں سوڈان پر فوج کشی کا عندیہ دے رہا ہے، امریکی اہلکار اب تک یہ الزام لگانے سے باز نہیں آئیں ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی جانب سے درآندزی کی جارہی ہے۔ افغانستان میں امریکی سفیر بھی افغانستان میں ہماری سرحدوں سے دہشت گردوں کے داخلہ کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ 26 اگست کے اخبارات میں 11 ستمبر کمیشن کے نائب چیئرمین لی ہملٹن کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی میں پاکستان ایک بڑے مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے ان کے بقول جوہری ہتھیاروں پر اسلامی شدت پسندوں کا قبضہ ممکن ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ امریکہ ہر مسئلے پر مشرف کی حمایت نہ کرے۔ لیکن کم از کم پاک افغان سرحد کو سیل کیا جائے اور القاعدہ ارکان کی تلاش کی جائے ۔ انہوں نے یہ الزام بھی دہرایا ہے کہ طالبان ایک بار پھر منظم ہورہے ہیں یہ امر ناقابل فہم ہے کہ ہم یہ سب کچھہ کیوں خوشدلی کے ساتھہ برداشت کئے جارہے ہیں پاکستان اگر واقعی ایک کمزور، ناتواں اور متعصب ملک ہے تو پھر امریکہ ہم سے امداد اور تعاون کی امید کیوں رکھتا ہے؟ وہ کیوں چاہتا ہے کہ ہم امریکہ کو محفوظ تر بنانے کے لئے اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف کاروائی کریں اور اپنے معاشرے میں نفرت اور نفاق کے بیج بوئیں۔ پاکستانی قوم کے لئے تو یہ امر ہرگز باعث افتخار نہیں ، سنگین قسم کی جفا ئوں کے جواب میں بھی ہم امریکہ سے وفا کے یک طرفہ رشتہ میں کئی عشروں سے مضبوطی کے ساتھ بندھے چلے آرہے ہیں یہ بندھن اس وقت بھی کمزور نہیں پڑتا جب ہمیں بے جا پابندیوں میں جکڑ دیا گیا نہ اس وقت ہماری طرف سے اس دوستی میں فرق آیا جب بھارت کے کئی دنوں کے دورے کے مقابلے میں ہماری منت سماجت کے نتیجہ میں امریکہ کے سابق صدر نے شان بے نیازی کے ساتھہ صرف تین گھنٹوں کے لئے پاکستان کی سرزمین پر ہمیں شرف میزبانی بخشا تھا ۔ امریکہ کی وضع یہ ہے کہ وہ پاکستان کو صرف اپنے مفادات کے لئے قربانی کا بکرا بنانے سے کبھی نہیں چوکتا ہم کچھہ بھی کرلیں وہ پر کبھی اعتبار نہیں کرتا نہ ہمیں نقصان پہنچانے کے کسی موقع کو جانے دیتا ہے ۔ امریکہ کے مسلمان ملکوں کے خلاف اپنی جارحیت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دلفریب نام دے رکھا ہے۔ ہمیں دی جانے والی امداد کا ڈھنڈورا تو امریکہ سے زیادہ ہم پیٹتے رہتے ہیں لیکن ابھی بھی پچھلے دنوں پہلے یہ خبر بھی آئی تھی کہ پاکستان کے درجنوں ہوائی اڈے جو کہ ہم نے افغانستان کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کے حوالے کئے تھے اس کا پورا معاوضہ تک تاحال ہمیں ادا نہیں کیا گیا۔ ہم آج چلا چلا کر یہ تو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن افغان عوام کے خلاف کاروائی کے لئے ہم نے امریکہ کو آج بھی ہر قسم کی سہولتیں فراہم کررکھی ہیں بہرحال " سب سے پہلے پاکستان" کے نعرے کو امریکہ سے تعلقات کے سلسلے میں عملی شکل دینے کی اشد ضرورت ہے اس کے بغیر ہمارے لئے یہ دعویٰ مشکل ہوگا کہ ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم ہیں۔

No comments:

Post a Comment