چند تاریخی شواہد جو میرے علم میں آئے
روزنامہ جنگ اتوار 25 جنوری 2004 ء
قائد اعظم کے خلاف پھیلائے جانے والے جھوٹ اور بہتان کو رد کرنے کے سلسلہ میں ڈاکٹر صفدر محمود نے جو جہاد شروع کررکھا ہے وہ اس کے لئے مبارکباد ہی کے نہیں بلکہ شکریہ کے مستحق بھی ہیں کہ وہ فرض کفایہ ادا کرکے اوروں کا بوجھہ بھی اتاررہے ہیں۔
"کھوٹے سکوں" کے سلسلہ میں راقم الحروف نے سب سے پہلے سردار شوکت حیات خان کے ایک بیان میں پڑھا انہوں نے کہا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ایک ملاقات کے موقع پر قائداعظم نے ان سے فرمایا تھا کہ "میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں" اس بیان کی اشاعت کے بعد راقم الحروف نے مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم سے ، جو پاکستان کے قیام سے پہلے اور اس کے بعد مسلم لیگی قیادت خاص طور پر قائد ملت خان لیاقت علی خان کے بہت قریب رہے تھے اور علمائے کرام کے 22 نکات کے علاوہ 1956ء اور 1973ء کے آئین کی تدوین میں جن کا کلیدی کردار رہا تھا، کھوٹے سکوں کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر قائد اعظم نے شوکت حیات سے ایسا کہا ہے تو ان کی مراد سردار صاحب ہی ہوں گے میں نے تو کبھی کسی بھی حوالہ سے یہ بات نہیں سنی۔ اس کے بعد ایک مرتبہ اسلام آباد میں سردار صاحب سے ان کی لائبریری میں ملاقات ہوئی۔ وہاں میری نگاہ الماری میں سجائی ہوئی ایک تصویر پر اٹک کر رہ گئی۔ یہ تصویر بھارت کے پہلے وزیز اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی تھی۔ سردار صاحب نے کہا اس تصویر کو دیکھہ کر شاید آپ کو کچھہ حیرت ہورہی ہے لیکن بات اصل یہ ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو میری پسندیدہ شخصیت ہیں اور ان سے ہمارے گھریلو تعلقات بھی تھے اس لئے میں نے اپنی لائبریری میں صرف انہی کی تصویر لگا رکھی ہے۔ بہرحال میری حیرت کا سبب یہ تھا کہ سردار صاحب جو مسلم لیگ کے ایک اہم رہنما ہیں ان کی لائبریری میں مسلم لیگی رہنما میں سے کسی کی تصویر کیوں نہیں۔ اس سے پہلے اخبارات میں پاکستان کے قومی پرچم کے سلسلے میں بھی سردار شوکت حیات خان کا یہ بیان پڑھ کر بہت تعجب ہوا تھا کہ اس کا ڈیزائن ماؤنٹ بیٹن کا تیار کردہ ہے ۔ ماؤنٹ بیٹن جیسے مسلم بیزار اور پاکستان مخالف شخص سے پرشم جیسی اپنی کسی اہم چیز کی نسبت جوڑی جائے تو ذہن میں مختلف قسم کےسوالات کا جنم لینا فطری تھا۔ لہٰذا پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی سے ایک مرتبہ بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ماؤنٹ بیٹن کو ڈیزائنگ سے بڑی دلچسپی تھی۔ ایک دن قائد اعظم سے ملاقات ہوئی تو اس نے پاکستان کے لئے قومی پرچم کا نمونہ سامنے کردیا لیکن قائد اعظم نے اسے دیکھتے ہی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ مسلمان اپنے پرچم میں کبھی صلیب کا نشان برداشت نہیں کریں گے۔ چوہدری صاحب کے مطابق ماؤنٹ بیٹن نے اس پرچم کے ایک کونے میں یونین جیک کا نشانہ بھی رکھا تھا جیسا کہ آسٹریلیا وغیرہ کے پرچموں میں آج بھی موجود ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے بھارت کا پرچم بھی اسی طرز کا بنایا تھا لیکن پنڈت نہرو نے بھی قائد اعظم کی تقلید میں اسے قبول نہیں کیا۔ مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ سردار صاحب کو اگر یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ اعلیٰ سطح کے رازداں ہیں تو انہوں نے پرچم والی بات پوری بیان کرنی چاہئے تھی۔
خیر بعد ازاں میں آزادی سے متعلق خفیہ دستاویزات کے مطالعہ سے بھی اس پورے واقعہ کی تصدیق ہوگئی جس میں خود ماؤنٹ بیٹن نے وہی کہانی بیان کی تھی جو چوہدری محمد علی مرحوم نے بتائی تھی۔ حالیہ دنوں میں ڈاکٹر صفدر محمود کے مضمون کے ذریعے قائد پر لگائے جانے والے الزام کا بھی انکشاف ہوا کہ قائد اعظم گورنر جنرل اور دستوریہ کا صدر ہونے کے ساتھ مسلم لیگ کے صدر کےمنصب پر بھی فائز تھے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دسمبر1947ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس تک وہ اس کے صدر ضرور تھے اس کے بعد اس کے صدر نہیں رہے۔ اس سلسلے میں مولانا ظفر احمد انصاری نے بتایا کہ جب مسلم لیگ کو پاکستان اور بھار ت کے لئےدو علیحدہ تنظیموں میں تقسیم کنے کے فیصلہ کے بعد پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کا سوال زیربحث آیا تو قائد اعظم اچانک غصے میں اٹھہ کر اجلاس سے تشریف لے گئے اس موقع پر انہوں نے کہا بھی تھا لیکن لوگ سن نہیں پائے اور بعد ازاں انہوں نے مسلم لیگ کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ مولانا کا خیال تھا کہ مولانا جمال میاں فرنگی محلی نے مسلم لیگ کی صدارت لے لئے قائد اعظم کا نام پیش کردیا تھا جو اس اصول کے منافی تھا کہ کوئی سرکاری منصب دار سیاسی پارٹی کی قیادت کرے خواہ وہ پاکستان کا بانی یا اس ملک کی خالق جماعت ہی کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ کو منظم کرنے کی ذمہ داری قائداعظم کے دست راست قائد ملت خان لیاقت علی خان کے سپرد کی گئی۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی بے محل نہ ہوگی جو ملک میں رواج پانے والی اس روایت سے متعلق ہے کہ اپنے ہر مخالف کا پاکستان دشمن کا خطاب دے کر خود حب الوطنی کا ٹھیکیدار بن جائے۔ روشن خیالی اور جدت پسندی آج کل ملک میں یہ ثابت کرنے کی بڑی کوشش کررہے ہیں کہ جن دینی جماعتوں اور عالموں نے قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی آج وہی پاکستان اور اس کے نظریہ کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں۔ قائداعظم سمیت مسلم لیگ کی قیادت کو یہ معلوم تھا کہ برصغیر میں کئی مسلمان ایسے ہیں جو پاکستان کے مخالف رہے ہیں ان میں سے بہت سے مسلمان ہجرت کرکے آنے پر مجبور ہوں گےاس لئے کہ انتہا پسند ہندو پاکستان مخالف مسلمانوں کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں چوکیں گے۔ اسی کے پیش نظر یہ اصول طے کرلیا گیا کہ 15 اگست 1974ء میں کو جو شخص بھی پاکستان کی مخالفت ترک کردے گا اس کے ماضی کو فراموش کردیا جائے گا اور اسے پاکستان آنے ، یہاں رہنے اور ہر قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا پورا حق حاصل ہوگا اور اسی اصول کے مطابق کانگریس سے تعلق رکھنے والے اراکین متفقّہ و دستوریہ آزادی کے ساتھہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھہ سکے۔ 11 اگست کو مجلس دستور ساز میں بانی پاکستان کے خطاب کا لب لباب بھی یہی ہے کہ ماضی کو بھول کر مستقبل کے لئے اپنی راہ کا تعین کیا جائے۔ عفو و درگزر کی اسی حکمت عملی کے تحت قائد اعظم نے صوبہ سرحد کے اس وقت کے کانگریسی وزیر اعلٰی ڈاکٹر خان تک کو یہ موقع دیا کہ وہ پاکستان سے اپنی وفاداری کا اعلان کرکے اپنے منصب پر فائز رہ سکتے ہیں لیکن ڈاکٹر خان نے نہ تو پاکستان کو تسلیم کیا نہ اس کے پرچم کو سلامی دی یہاں تک کہ اپنی سرکاری رہائشگاہ پر پاکستانی پرچم تک لہرانے کی اجازت نہیں دی اس لئے بحالت مجبوری 22 اگست کو انہیں وزارت علیا کے منصب سے معزول کرنا پڑا۔ ان حقائق کی روشنی میں آج کسی بات پر پاکستان دشمنی کی پھبتی قائد اعظم کے متعین کردہ اصولوں کی توہین اور ملک میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
No comments:
Post a Comment