مہاتیر محمد کی غور طلب باتیں

روزنامہ جنگ اتوار 12 ستمبر 2004 ء

ملائشیاء کے سابق وزیر اعظم اور امتِ مسلمہ کے ایک مایہ ناز سپوت مہاتیر محمد نے شوریٰ ہمدرد پاکستان کے زیر اہتمام منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کے دوران ویسے تو فکر و دانش کی کئی باتیں کہی ہیں لیکن ان میں بھی چند ایسی اہم ہیں جن پر مزید غور و فکر بحیثیت امت اور بحیثیت ملت ان گھمبیرمسائل و مشکلات سے چھٹکارے کا باعث بن سکتا ہے جن سے عالم اسلام آج دوچار ہے۔ انہوں نے ایک بات تو یہ کہی کہ مسلم امہ میں وہ صلاحیت ہو جس سے دو اپنا دفاع کرسکے اور جن سے دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا ہوجائے اور دوسری یہ کہ اسلام میں ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں اور ریاست کو ہر صورت میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔ آج عالم اسلام جس تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے اگر ہم اس کے مضمرات کے صحیح ادراک کی صلاحیت رکھتے ہیں تو ہم اتفاق کریں گے کہ پہلا نقطہ ہی وقت کی آواز ہے یہ کہہ کر مہاتیر محمد نے بزدل، کمزور دل اور کمزور ایمان مسلمانوں کے دلوں میں ایک ولولہ تازہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اہم انتہائی دکھہ کے ساتھہ دیکھہ رہے ہیں کہ آج ہر جگہ مسلمان کو مارا جارہا ہے بلکہ دنیا کی ساری شیطانی قوتیں مجتمع ہو کر امت مسلمہ پر ٹوٹ پڑی ہیں اور بے دردی کے ساتھہ اس کو ظلم و جبر کا نشانہ بنا کر ہر روز بیسیوں مسلمانوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے شہید کیا جارہا ہے ان کی بستیوں کو اجاڑا جارہا ہے ان کے اداروں کو تباہ و برباد اور ان کی تہذیب و ثقافت کو ختم کیا جارہا ہے۔ عراق میں دریائے دجلہ و فرات سرخ ہورہا ہے ، فلسطین کو مسلمانوں کا مقتل بنا دیا گیا ہے، کشمیر پانچ عشروں سے ظلم و جبر کی بھٹی میں جل رہا ہے شیشان میں آگ برسانے کے منصوبے ہیں ، تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی جان مال اور مساجد غیر محفوظ ہیں، بوسنیا میں آئے دن مسلمانوں کی دس بارہ سال پرانی اجتماعی قبریں دریافت ہو رہی ہیں ان پر نہ تو امت مسلمہ کی قیادت کے دعویداروں کو کوئی غم ہے نہ انسانی حقوق کے علمبردار عالمی ادارے پشیمان۔ ان کے قاتلوں کو سکی نے عیسائی دہشت گرد قرار دیا جہ خود مسلمان حکمران اور دانشور بھی انہیں یہ نام دینے کی جرأت رکھتے ہیں مسلمانوں میں بزدلی کو قرآن میں ویسے بھی شیطانی نجاست سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے " اور لوگ جہاں تک ہوسکے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔" (سورۃ انفال) یہاں طاقتور اور تیار گھوڑوں سے مراد بہترین اور جدید سامان حرب ہے تاکہ اس سے دشمن پر خوف طاری رہے اور خوف انسان کو بزدل اور کمزور بنادیتا ہے۔ اس کا زندہ ثبوت پاکستان کا اپنا سبک رفتار اور طاقتور گھوڑا ہے جس سے پڑوس میں بھارت ہی نہیں ہزاروں میل دور ظلم پر قائم اسرائیل تک لرزہ براندام ہے بلکہ ان دونوں ملکوں کے سرپرست امریکہ تک کی یہ دلی خواہش بلکہ کوشش ہے کہ پاکستان کو اپنے اس گھوڑے یعنی ایٹمی صلاحیت سے جس طرح بھی ہوسکے محروم کردیا جائے۔ 1998ء میں ہم یہ تماشا دیکھہ چکے ہیں کہ 13 مئی کو بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد 27 مئی تک پڑوس میں ہر بونا کس طرح اچھل اچھل کر پاکستان کو نقشہ سے مٹانے کی دھمکیاں دینے لگا تھا لیکن 28 مئی کو جیسے ہی پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے اس سے اٹھنے والے گرد و غبار میں بھارت کی دھمکیاں نہ صرف دب گئیں بلکہ اس کا انداز تخاطب یکسر بدل گیا ادھر امریکہ نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ہمارے سر پر پابندیوں کا سہرا باندھ دیا قرآن کا زندہ معجزہ ہے کہ ایٹمی دھماکہ کرتے ہی بھارتی قیادت کی فوں فاں جی جناب میں بدل گئی قرآن مسلمانوں سے یہی چاہتا ہے اور مہاتیر محمد نے اسی حکم خداوندی کو یاد دلا کر پاکستان سے بجا طور پر یہ توقع وابستہ کی ہے کہ وہ اپنے گھوڑے کی حفاظت بھی کرے گا اور اسے مزید توانا اور طاقتور بھی بنائے گا بہرحال ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ بحیثیت مجموعی ہم ہتھیاروں کے سلسلہ میں اب بھی بہت پیچھے ہیں عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ اس طرف توجہ دے اس ضمن میں کراچی میں ہتھیاروں کی نمائش بھی دنیا کو یہ تاثر دینے میں معاون ثابت ہوگی کہ پاکستان اس میدان میں الحمدللہ آگے بڑھ رہا ہے جب تک پاکستان اور عالم اسلام مانگے تانگے یا کڑی شرائط پر خریدے گئے ہتھیاروں کا محتاج رہے گا اس وقت تک مسلمان دنیا پر رعب و دبدبہ اور خوف کی کیفیت طاری نہیں کر سکے گا اس سلسلے میں ہتھیاروں کے ساتھہ ساتھہ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا بھی سیکھیں مہاتیر محمد نے جو دوسری اہم بات کہی ہے کہ اسلام میں ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں اور یہ کہ ریاست کو ہر صورت میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔

جس طرح مسلمان کو ایمان سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح مسلم ریاست کو مذہب سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور ایسا کرنے والوں یا ایسا کرنے کے لئے سوچنے والوں کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہئے اس لئے کہ اسلام کو مسجد میں قید کرنے کے بعد کوئی بھی قوم یہ دعوٰی نہیں کرسکتی کہ ان کا ملک اسلامی ریاست ہے اور جس مسلم ملک میں ایسا کیا گیا وہاں بالعموم جابر و ظالم مطلق العنانی کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوگیا خود ہمارے اپنے ملک میں جو بے اطمینانی ، بدامنی ، بد عنوانی اور بد دیانتی، کام چوری بلکہ حرام خوری کا دور دورہ ہے اس کا سبب ملک میں اسلام کے ساتھہ ہمارا منافقانہ رویہ ہے۔ دنیا میں سب سے کم جرائم سعودی عرب میں ہوتے ہیں اور اس کا سبب وہاں بڑی حد تک اسلام کی حکمرانی ہے دعوائے اسلام اسلامی تعلیمات پر عمل کے بغیر جھوٹا ہے اسی طرح کسی مسلم ریاست کے لئے کسی طرح بھی یہ روا نہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال سکے اسلام میں جدت پسندی یا روشن خیالی کی پیوندکاری کی کوشش کرے یا اسلامی عکسریت پسندی یا جہادی دہشت گردی جیسی کافرانہ اصطلاحات کو بلا کراہیت قبول کر لے۔ مہاتیر محمد اسی بنا پر کہتے ہیں کہ ریاست کو ہر صورت میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا ویسے کوئی بھی دانشمند ہر گز ناقص اور نامکمل نظام کو اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی کا مطمع نظر بنانے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ مغربی پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر کمزور ایمان افراد کی تو بات الگ ہے لیکن خود خالق کائنات نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات قرار دیا ہے اس لئے ہمیں اس پر ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہئے۔ وہ لوگ عقل کے اندھے ہیں جو ملک کے نظام کے لئے غیروں سے رہنمائی اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ بے چین نظر آتے ہیں۔

ہمیں اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ اسلام ایک کل ہے جس میں انسانی زندگی کی وہ تمام جزیات شامل ہیں جن کا تعلق دنیا اور آخرت کی زندگی سے ہے۔ مسلمان یہ نہیں کہہ سکتا کہ عبادات کا تعلق اس کے دین سے ہے اور چوری اس کا پیشہ ہے یا دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اسلام میں "نیمے دروں و نیمے بروں" کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ کا فرماں ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اس لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں کی مملکت ہو اور اس کے حکمراں یا شہری یہ کہیں کہ ہمارا نظام حکومت غیر اسلامی یا لادینی ہوگا۔

بدقسمتی سے مغرب کے اثرات قبول کرنے والے پاکستان میں بھی حکومت اور دین کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی سازش میں شروع سے بڑے سرگرداں رہے ہیں اور اپنی اس سوچ کی تائید میں بابائے قوم کی اس تقریر کا حوالہ دینے سے بھی نہیں چوکتے جو انہوں نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی مجلس دستور ساز میں کی تھی لیکن جیسا کہ اس سے پہلے بھی مختلف مواقع پر لکھا جاچکا ہے معمولی سمجھہ بوجھہ رکھنے والا مسلمان بھی سمجھتا ہے کہ اس تقریر میں لادینیت یا سیکولر ازم کا پرچار نہیں ہے بلکہ اس میں بالواسطہ اسلامی نظام کے قیام کی اہمیت اور ضرورت ہی پر زور دیا گیا ہے۔ معترضین صرف اس ایک سوال کاہی جواب دے دیں کہ اقلیتی علاقوں کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا جو نذرانہ پیش کیا وہ اسلام سے آزاد ایک لادین پاکستان کے لئے پیش کیا تھا؟ کیا تاریخ میں سب سےبڑی تعداد میں لوگوں نے اپنے موروثی اور تاریخی ورثے کو محض اقتصادی بہتری کی امید پر چھوڑدیا تھا ؟ یہ مفسدانہ سوچ اور ناسمجھی کی باتیں ہیں ہمیں اپنے آپ کو صحتمند دل و دماغ کا مالک ثابت کرنے کے لئے غیر منتقی سوچ سے نجات پانی ہوگی۔

No comments:

Post a Comment