امریکہ کی دوستی کا انداز اور ہمارا رویہ

روزنامہ جنگ بدھ 5 ستمبر 2001ء

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائی چند برسوں کے سوا پاک امریکی دوستی کی گاڑی یکطرفہ ہی چلتی رہی ہے۔ پاکستان کی وفاؤں اور امریکہ کی جفاؤں کی داستان طویل بھی ہے اور تلخ بھی۔ امریکہ سے دوستی کے سبب پاکستان کو بعض وقت سنگین خطرات سے بھی دوچار ہونا پڑا لیکن اس دوستی کو نبھانے میں ہماری طرف سے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ اس کے برعکس امریکہ کی طرف سے ہمیں سیاسی میدان میں نقصان پہنچانے، ہماری اقتصادی اور عسکری قوت کو کمزور کرنے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی کی راہوں کو مسدود کرنے بلکہ ہماری توہین و تذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھہ سے نہیں جانے دیا گیا۔ یہ باتیں مفروضہ ہیں نہ کسی تنگ نظری یا تعصب کا نتیجہ یہ تو وہ روشن حقائق ہیں جن پر دیانت داری کے ساتھہ غور کرنے والا امریکی بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا۔ اسی پس منظر میں حالیہ دنوں کے دوران امریکہ کی طرف سے دیئے گئے بیانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو اطمینان ہوتا ہے کہ کئی عشروں کے بعد ہی سہی ہمارے بارے میں امریکہ کی سوچ میں شاید بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ اسی سلسلے میں ہر اس پاکستانی کا خوشی سے جھوم اٹھنا یقینی ہے جس نے 23 اگست کے اخبارات میں امریکی معاون وزیر دفاع برائے عالمی امور پیٹر روڈمین سے منسوب ایک بیان میں یہ پڑھا ہے کہ " امریکہ پاکستان کو کھونا نہیں چاہتا، پاکستان سے دوستی فائدہ مند ہے۔ امریکہ بھارت تعلقات میں وسعت کی گنجائش محدود ہے وہ امریکہ کا اتحادی نہیں بنے گا۔" اگر بات یہیں تک رہتی تو ہم امریکہ کی طرف سے ہر اہم مرحلہ پر ہتھیاروں کی خریداری اور ان کی ادا کردہ کروڑوں ڈالروں کی ضبطی، بچوں کی مشقت کے نام پر کھیلوں کے سامان اور قالین وغیرہ کی تجارت پر بندش، کبھی کسی ملک سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور کبھی یہ ٹیکنالوجی دوسرے ملک کو منتقل کرنے کے مضحکہ خیز الزامات لگا کر ہمارے خلاف دفاعی اقتصادی اور تجارتی پابندیاں عائد کرتے رہنے کی مشق کے باوجود ہم امریکہ کی ان باتوں پر بھروسہ کرلیتے ہیں کیسا ہی گیا بیتا پاکستانی کیوں نہ ہو اس کا خون کھول جائے گا جب وہ پیٹر روڈمین کے بیان میں یہ پڑھے گا کہ " بھارت امریکہ کا اتحادی نہیں بنے کیونکہ وہ اپنی آزادی اور غیرجانبداری کو اہمیت دیتا ہے" اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھہ بھی نہیں کہ امریکہ کی اتحادی اور دوست صرف وہی قوم بن سکتی ہے جسے اپنی آزادی، خودمختاری وار عزت وقار کبھی بھی عزیز نہ ہو۔ لیکن امریکی اہلکار یا امریکہ پر برسنے سے پہلے ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ اپنے ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم سے کوئی ایسی حرکتیں تو سرزد نہیں ہو گئیں جو ایک آزاد، خودمختار اور خود دار قوم کی شان کے خلاف ہوں اور جن سے پیٹر روڈ مین کو یہ سب کچھہ کہنے کا موقع مل گیا۔ ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی ہوگا کہ ماسوائے چند ہمارے حکمراں پاکستان کے مقابلے میں امریکی مفادات اور اسکی خواہشات کی تکمیل کو ترجیح دیتے رہے ہیں اور اس کا سبب غلط یا صحیح تاثر ہے کہ امریکہ جس فرد کا چاہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے سر پر بٹھا کر اقتدار اس کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ پھر پاکستان میں کچھہ ایسے اقدامات بھی کئے گئے جن کے بارے میں حساس دانشوروں اور ذمہ دار سیاستدانوں کی طرف سے یہ کہا گیا کہ پاکستان کی خودمختاری پر ان سے زد پڑی ہے ان میں سے چند کا ذکر کرکے یہ دیکھتے ہیں کہ ان سے ہماری خودمختاری کو کس قدر صدمہ پہنچا۔ ہم نے ایک پاکستانی شہری یوسف رمزی کو امریکہ کی طلب پر اس کے حوالہ کردیا تاکہ وہ اس پر مقدمہ چلا سکے۔ یوسف رمزی نے پاکستان میں کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا تھا۔ ایک اور پاکستانی ایمل کانسی بھی امریکہ کو مطلوب تھا۔ ہمارے حکمرانوں نے ایمل کانسی کے ٹھکانے کا سراغ لگانے اور اسے گرفتار کرکے امریکہ لے جانے کے سلسلے میں اجازت دی کہ امریکی خفیہ ادارے اپنے جاسوسوں کے ذریعے جب جہاں اور جو کاروائی بھی ضروری سمجھتے ہوں کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً ایک ایسے شہری کو جس نے پاکستان میں کوئی جرم نہیں کیا تھا انتہائی ذلت آمیز طریقہ پر گرفتار کرکے امریکہ پہنچادیا گیا۔ امریکہ کے ایک اشارے پر ایاز بلوچ کو جیل سے رہا کرکے امریکی سفارت خانہ کے حوالہ کردیا گیا جسے امریکی حکام نے امریکہ بھیج دیا۔ ایاز بلوچ بھی ایک پاکستانی شہری تھا جس نے اپنے ملک کے خلاف گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا تھا اور اسے ملک کی فوجی عدالت کی طرف سے طویل قید کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ بھی امریکہ نےجس پاکستانی کو طلب کیا ہم نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اس کی خواہشات کی تکمیل میں کسی کوتاہی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ایسا کرتے وقت نہ پاکستان کی عدالتوں سے رجوع کیا نہ اپنے ملک کے آئین و قانون اور روایت کا احترام ملحوظ رکھا۔ پھر ایک امریکی ریاست کے اٹارنی جنرل نے ایمل کانسی کی گرفتاری کے عوض چند لاکھہ ڈالر انعام دیئے جانے کے حوالے سے پاکستانیوں کو گالی دینے کی سنگین گستاخی کی لیکن اس وقت کے وزیر اعظم نے شان خسروی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی طلب کئے بغیر ہی گستاخ کو معاف کردیا۔

اگر پاکستان میں کبھی کسی امریکی کا قتل ہوگیا تو معاملہ کی تفتیش و تحقیق حتٰی کہ زخمیوں سے ملاقات اور لاشوں کے معائنے سے بھی پاکستانی پولیس اور متعلقہ حکام کو دور رکھا گیا۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اس کی حدود میں رونما ہونے والے کسی بھی قسم کے واقعے سے اس کو کس طرح لاتعلق کیا جاسکتا ہے اور لیجئے اسامہ بن لادن کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے امریکہ نے آزاد اور خودمختار افغانستان پر میزائلوں کی بارش کردی اور یہ سب کچھہ پاکستان کی بحری، فضائی اور زمینی حدود کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا گیا۔ خود ہماری اپنی سرزمین پر بھی کئی میزائل گرے یا عمداً گرائے گئے لیکن کیا مجال کہ پاکستان کے حکمرانوں کو جھوٹے منہ ہی امریکہ سے احتجاج کے دو الفاظ کہنے کی توفیق نصیب ہوئی ہو۔ بدقسمتی سے آج بھی صورتحال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ تلاش میں رہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کا کوئی جھوٹا سچا ساتھی یا ایسا شخص جس کی "نیت" امریکہ کے خلاف دہشت گردی کرنے کی ہو ہاتھہ لگ جائے تاکہ اسے امریکہ کی خدمت میں پیش کرکے " دہشت گردی کے خلاف تعاون" کی سند حاصل کی جاسکے۔ پھر یہ بھی انتہائی افسوسناک ہے کہ افغانستان کے خلاف عائد ناجائز اور غیر انسانی پابندیوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی غرض سے پاکستان میں اقوام متحدہ کو مبصر تعینات کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ خود پاکستان کے ترجمان کا یہ اعتراف ہے کہ اقوام متحدہ کے اس اقدام سے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری متاثر ہوگی۔

امریکہ کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ اسی تاریخ کے اخبارات سے ہوتا ہے جس تاریخ کو پیٹرروڈمین کا بیان چھپا ہے خبر یہ ہے کہ "پاکستانی سفارت کار امریکی صدر اور جنرل پرویز کی ملاقات کے لئے کوشاں ہیں" اسی خبر کے اگلے حصہ میں بتایا گیا ہے کہ " امریکی ذرائع کے مطابق صدر بش واجپائی سے ملاقات کے خواہشمند ہیں۔ اگر بش واجپائی ملاقات ہوئی تو پھر بش پرویز ملاقات کے امکانات بھی روشن ہوجائیں گے کیونکہ امریکہ جنوبی ایشیاء کے حساس خطے میں کوئی غلط سگنل نہیں بھیجنا چاہتا۔" 25 اگست کے اخبارات سے معلوم ہوا کہ پاکستان نے بین الاقوامی ادارہ مالیات (ائی ایم ایف) کو یقین دلایا ہے کہ دو سال تک وہ دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں کرے گا۔ جس قوم کو بھارت جیسا بدخواہ، جارح اور توسیع پسند پڑوسی ملا ہو اس قوم کی طرف سے اس قسم کی یقین دہانیاں خودکشی کے مترادف ہیں۔ پچھلے دنوں خبریں آئیں کہ صدر مملکت کیوبا کا دورہ بھی کریں گے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ امریکہ کے کہنے پر وہ دورہ ختم کردیا گیا ہے۔ کون سی قربانی ہے جو ہم نے امریکہ کی خاطر نہیں دی لیکن جب ہم نے اس سے چند قومی مجرموں کو ہمارے حوالہ کرنے کی بات کی تو ہمیں ٹکا سا جواب مل گیا کہ اپنا کیس پیش کرو اور عدالت میں ثابت کرو۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ پاکستان کی عدالتیں یہاں کا قانون یہاں کا آئین احترام اور عمل کا متقاضی ہے ۔ عالمی اداروں کے ہاتھوں اپنی آزادی اور خودمختاری کو سودا کرنے یا بڑی طاقتوں کے اشاروں پر ناچنے والوں کو تاریخ میں ذلت و رسوائی کی علامت کے طور پر محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس تلخ حقیقت سے چشم پوشی ممکن ہی نہیں کہ ملک کے بیشتر حکمرانوں اور نوکر شاہی کی بدعملی، ناقص منصوبہ بندی اور ذاتی و گروہی مفاد پرستی کے سبب ہمارے وطن عزیز کی آزادی ، خودمختاری اور عزت و وقار کو ناقابل معافی نقصان پہنچاہے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر ایرا غیرا پاکستان پر پھبتی کسنے اور اس پر حکم چلانے لگتا ہے کوئی بھی خود دار قوم اس صورتحال کو برداشت نہیں کرسکتی ہے۔ دنیا میں قائم اس تاثر کو ختم کرنے کیلئے قوم کے ہر فرد کو دیانت داری اور عزم و حوصلہ کے ساتھہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوگا۔

تاریخ کشمیر کا واحد حل استصواب رائے

روزنامہ جنگ پیر 9 جولائی 2001ء

کشمیر کے حوالے سے دونوں ملکوں کی قیادت کو اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو آزادانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب رائے کا حق دیئے بغیر مسئلہ کا کوئی اور منصفانہ ، پائیدار، باعزت اور قابل قبول حل ممکن نہیں جہاں تک خود مختار یا منقسم کشمیر کا تعلق ہے تو ایسا تصور 3 جون 1947ء کے اس منصوبہ آزادی کی روح اور منشاء کے بھی صریحاً خلاف ہے جس کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں تھیں۔ اس منصوبہ کے تحت آزادی سے قبل بھارت میں موجود تقریباً پانچ سو سے زیادہ چھوٹی بڑی ریاستوں کے لئے لازمی تھا کہ وہ پاکستان میں شمولیت اختیار کریں یا بھارت میں، ان میں سے کسی بھی ریاست کو آزادی کے اعلان کا اختیار تھا نہ انہیں آبادی کی بناء پر تقسیم کیا جاسکتا تھا ، اس سلسلہ میں پس پردہ یہ غیر تحریری اصول بھی کارفرما تھا کہ پاکستان یا بھارت کے ساتھہ الحاق کا فیصلہ کرتے وقت والئی ریاست کے باشندوں کی خواہش اور جغرافیائی محل وقوع کا خیال بھی رکھے گا۔ وائسرائے ہند ماؤنٹ بیٹن نے جسے 15 اگست 1947ء سے گورنر جنرل کی حیثیت سے بھارت کی ملازمت کرنی تھی اپنے منصب کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان دشمنی کا بھرپور مظاہرہ کیا اس نے والیان ریاست سے ملاقاتیں کرکے چند کے سوا تمام ریاستوں کو آزادی سے پہلے ہی بھارت میں شمولیت اختیار کرنے پر رضامند کرلیا۔ بیکانیر اور جیسلمیر کی سرحدیں پاکستان سے ملتی تھیں اور ان کے والیان بوجوہ پاکستان کے ساتھہ الحاق کے خواہاں تھے لیکن ماؤنٹ بیٹن کے لئے ایسا ہونے دینا اذیت کا باعث تھا اس نے اپنی ذاتی دوستی کا واسطہ اور ہندو دھرم کی ایکتا کی دہائی دے کر ان والیان ریاست کو بھی پاکستان میں شمولیت اختیار کرنے سے روک دیا۔

حیدرآباد دکن جیسی بڑی اور رامپور جیسی چھوٹی ریاستوں کو طاقت کے زور پر بھارت میں شامل کرلیا گیا البتہ کشمیر کو وہ شروع میں نہ چھیڑ سکا اس لئے کہ آبادی اور محل وقوع ہر دو لحاظ سے ریاست جموں و کشمیر پاکستان کا فطری حصہ تھا لیکن ماؤنٹ بیٹن زیادہ دنوں تک خبث باطن پر قابو نہ رکھہ سکا اور الحاق کی جعلی دستاویز کی بنیاد پر وہاں بھارتی فوج اتاردی جس کے نتیجہ میں وہاں ظلم و بربریت اور خونریزی کا دور شروع ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔

سربراہان حکومت سے زیادہ اور کس کو ادراک ہوگا کہ قوموں کے تنازعات کو حل کرنے کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ اناپسندی ، ہٹ دھرمی اور متعصبانہ ذہنی تحفظات کے بجائے انسان دوستی، حقیقت پسندی، عدل و انصاف اور برابری کے اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی دیانتدارانہ اور مخلصانہ کوشش کی جائے اگر اٹل بہاری واجپائی اور جنرل پرویز مشرف انہیں اصولوں کے مطابق گفتگو کا آغاز کریں اور انہیں آگے بڑھائیں تو یہ نہ صرف تاریخ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے بلکہ خطہ کی تیز رفتار اور یقینی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کی ٹھوس بنیاد بھی فراہم ہو جائے گی لیکن مخدوم مصلحتوں ، ناجائز بیرونی دباؤ یا کسی طاقت کے مفادات یا ارادوں کی تکمیل کی خاطر کوئی وقتی یا غلط فیصلہ کرلیا گیا تو ایسا فیصلہ نقش برآب ثابت ہوگا، خودمختار یا منقسم کشمیر کو اور تو اور خود کشمیری عوام بھی تسلیم نہیں کریں گے اور نتیجتاً وہاں خانہ جنگی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور چند بیرونی طاقتیں یہی چاہتی ہیں تاکہ برصغیر پاک و ہند ہمیشہ بدامنی، بداعتمادی اور غربت کا شکار رہ کر ان کا دست نگر بنا رہے، بیرونی طاقتیں اچھی طرح سمجھتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت اگر دوست بن گئے تو دنیا سے بڑے بڑوں کی چوہدراہٹ کا سورج ہمیشہ کیلئے غروب ہوجائے گا۔

خودمختار کشمیر کی صورت میں بھارت کا اپنی عادت کے مطابق اسے اپنے زیر اثر لانے کی سازش میں ملوث ہونا بھی لازمی امر ہے جس کے توڑ کے لئے کشمیری عوام کے ساتھہ پاکستان کو بھی مجبوراً میدان میں آنا پڑے گا جہاں وہ آج کھڑے ہیں ، اگر استصواب رائے کہ علاوہ مسئلہ کے کسی اور حل کی تلاش شروع کردی گئی تو پر نصف صدی اس کی تگ و دو میں اور مزید نصف صدی کو عملی شکل دینے میں صرف ہو جائے گی۔

بھارت کے وزیر خارجہ نے جو اپنے ملک کے وزیر دفاع بھی ہیں ، کشمیر کے بارے میں اپنے ملک کے آئین کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن وہ شاید بھول گئے کہ بھارتی آئین تو خود ثابت کرتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں بلکہ تنازع علاقہ ہے اور اس کیلئے آئین کی ابتدائی شق 370 کو پیش کیا جاسکتا ہے پھر اسی آئین کے جدول اوّل میں جو بھارت کی مختلف ریاستوں کی حد بندی سے متعلق ہے جموں و کشمیر کو صرف وہ علاقہ بھارت کی ریاست کے طور پر مذکورہ ہے جس علاقہ پر نفاذ آئین یعنی 26 جنوری 1950ء سے فوری قبل بھارت کا قبضہ تھا اور دنیا جانتی ہے کہ اس وقت صورتحال کیا تھی، اسلئے بھارتی آئین کے مطابق آزاد کشمیر کو تو کسی بھی لحاظ سے موضوع گفتگو بنایا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہم پاکستانی چونکہ حقیقت پسند واقع ہوئے ہیں اس لئے تنازع کشمیر کے حل کی خاطر مقبوضہ اور آزاد کشمیر کو ایک اکائی سمجھتے ہوئے اس کے مستقبل کا فیصلہ اسی حیثیت سے کرنا چاہتے ہیں۔

بھارت نے جنرل پرویز مشرف جو جس انداز میں دعوت مذاکرات دی ہے وہ بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے۔ اقوام عالم کی تاریخ میں شاید اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے سے جاری نام نہاد جنگ بندی کے خاتمہ کا اعلان کیا جائے یعنی جنگ شروع کی جائے اور اس کے بعد دوسری ہی سانس میں تنازعات کے حل کیلئے بات چیت کی دعوت دیدی جائے، اب تک تو یہ ہوتا رہا ہے کہ اگر گھمسان کی جنگ بھی ہورہی ہو تو مذاکرات کی غرض سے جنگ بندی کردی جاتی ہے اس صورتحال کا تکلیف دہ بلکہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کے کشمیر دشمن اس اقدام کے خلاف پاکستان کی طرف سے ہلکی سی صدائے احتجاج تک بلند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ منافقت پر مبنی بھارت کے ظالمانہ اعلان جنگ بندی کے جواب میں پاکستان نے اظہار خیر سگالی کے طور پر لائن آف کنٹرول سے اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کا جو فیصلہ کیا تھا، اس اعلان جنگ کے ساتھہ ہی وہ فیصلہ بھی واپس لے لیا جاتا پاکستان کا اقدام کو علامتی ہی ہوتا لیکن بھارت کو یہ پیغام ضرور مل جاتا کہ پاکستان کشمیری عوام کی جان و مال اور عزت و آبرہ کے تحفظ کے سلسلے میں لاتعلق نہیں رہ سکتا لیکن افسوس کہ اس سلسلے میں ہم اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کرپائے، جہاں تک دعوت مذاکرات کا تعلق ہے تو یہ دراصل جنرل پرویز مشرف کی طرف سے اس پیشکش کا مثبت اور خوش آئند جواب ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھہ کسی بھی شرط کے بغیر کسی بھی جگہ جانے کیلئے تیار ہیں اور یہ بات وہ پہلے دن سے کہتے آرہے تھے۔

بھارت کے حکمراں کل تک جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو تسلیم اور تنازعات کے حل کی غرض سےپاکستان کے ساتھہ مذاکرات کے سوال پر بدک جایا کرتے تھے۔ آج وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جنرل پرویز مشرف کے ساتھہ جلد از جلد مذاکرات اور بات چیت کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھارتی قیادت سے یہ توقع بھی کی جاسکتی ہے کہ وہ "اٹوٹ انگ" جیسے نعروں کو ترک کرکے زمینی حقائق کو سمجھنے کی مخلصانہ اور دیانتدارانہ کوشش کرے گی بھارتی عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے حکمرانوں کو مجبور کردیں کہ عدل و انصاف اور برابری کی بنیاد پر باہمی تنازعات کو حل کرنے میں کھلے دل سے تعاون کریں تاکہ ہمارے سروں پر منڈلانے والے ایٹمی جنگ کے مہیب سائے چھٹ جائیں اور ہم اچھے پڑوسیوں کی طرح امن و سلامتی کی فضا میں ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کرنے کے قابل ہوسکیں۔

"تاریخ کا قرض" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔چند وضاحتیں

روزنامہ جنگ پیر 9 جولائی 2001ء

محترم نذیر ناجی صاحب کے قلم سے "جنگ" کراچی میں "تاریخ کا قرض" کے زیر عنوان جو کچھہ لکھا گیا ہے اسے پڑھ کر ایک عام اور سچے پاکستانی کے ذہن کا مکدر ہونا بھی لازمی ہے۔ اہل قلم کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی جذبات و خواہشات اور اپنی پسند ناپسند سے مغلوب ہوکر بلا تحقیق ایسی باتیں لکھنے سے باز رہیں جس سے قوم کے اپنے اسلاف سے متنفر یا اپنے ماضی اور حال پر شرمسار اور اپنے مستقبل سے مایوسی کا شکار ہو جانے کا امکان ہے ۔ اسی طرح قلم کاروں اور دانشوروں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ تاریخ کے قرض یاد دلانے یا انہیں اتارنے کے لئے قوم کو تیار کرنے کے شوق میں محض سنی سنائی اور غیر ثقہ باتوں کو تاریخ کا حصہ بنا کر پیش کرنے کے الزام سے خود کو بچائیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح ہمارا معاہدہ مکھی کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے بالکل اسی طرح تاریخ بھی مکمل جھوٹ کو قبول نہیں کرتی۔ آج کی نسل سے تعلق رکھنے والا جو بھی فرد مذکورہ بالا کالم پڑھے گا اس کے ذہن میں ضرور یہ خیال پیدا ہوگا کہ اس کے اسلاف سازشی، ناشکرے اور نااہل ہی نہیں بلکہ اپنے بابا کے قتل جیسے گھناؤنے جرم میں بھی برابر کے شریک تھے ، اس لئے انہوں نے اس سانحہ پر صدائے احتجاج تک بلند نہیں کی۔ کالم نگار کا یہ مقصد نہیں ہوگا لیکن اس باوصف قوم کی اس محبت اور خلوص کی توہین ہے جو وہ قائد اعظم کے لئے رکھتی ہے۔ بابائے قوم کو ماردیا جائے اور عوام خاموش رہیں، احتجاج نہ کریں، سڑکوں پر نہ آئیں یہ تو بڑی بے حسی کی بات ہے لیکن ثقاہت کے معیار سے کم تر باتیں پھیلا کر کےقوم میں بے چینی پھیلانے کے بارے میں بھی چھان بین ہونی چاہئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بابائے قوم کی موت ہر لحاظ سے فطری تھی، وہ ناگہانی ہر گز نہیں تھی۔ یہ بات کل بھی کوئی راز نہیں تھی اور آج بھی سب جانتے ہیں کہ کوئٹہ میں قائد اعظم کو اگر کوئی ذہنی صدمات تھے تو ان میں کشمیر سرفہرست تھا۔ بڑی تعداد میں تباہ حال مہاجرین کی آمد اور بھارت میں مسلم کش فسادات بھی بابائے قوم کے لئے مسلسل اذیت کا بڑا سبب تھے۔ یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے بعد قائد اعظم نے کسی سرکاری تقریب میں شرکت نہیں کی، اس لئے کہ ان کی صحت اس کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس سے پہلے بعض دانشور قائد اعظم کی موت کو قائد ملت لیاقت علی خان کے سرتھوپنے جیسی بددیانتی کا ارتکاب کرچکے ہیں اور اس جھوٹ کو پھیلانے کی کوشش کی جاچکی ہے کہ بابائے قوم کو زہر دیا گیا تھا۔ قائد اعظم اور قائد ملت کے درمیان اختلافات کی اختراع بابائے قوم کے آخری معالجین میں سے کسی کا کارنامہ ہوسکتا ہے۔

بابائے قوم کی "ناگہانی موت" کی کہانی کا پس منظر کچھہ بھی کیوں نہ ہو اسے بلاتحقیق آگے بڑھانا قرآنی تعلیمات کے خلاف تو ہے ہی اس وقت کے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے ساتھہ ساتھہ پوتی قوم کو الزام دینے کے مترادف ہے، اگر لیاقت علی خان کو براہ راست ملوث نہ بھی کیا جائے تو تب بھی بحیثیت وزیر اعظم ان کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس موت کی تحقیق کرواکر مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچاتے۔ چوہدری محمد علی کا شمار ملک کے دیانتدار افراد میں ہوتا ہے ، خود قائد اعظم کی ہدایت پر انہیں ملک کا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا اور بحیثیت گورنر جنرل قائد اعظم کی تقریری کا سرکاری اعلامیہ بھی انہی کے دستخطوں سے جاری ہوا تھا۔ مولانا ابولکلام آزاد نے لکھا ہے کہ چوہدری محمد علی نے پاکستان کے قیام کو یقینی بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ بہرحال یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ راقم الحروف کو چوہدری صاحب سے نیاز مندی حاصل رہی ہے۔ بارہا ان سے ملاقات اور مختلف معاملات پر گفتگو کا بھی موقع ملا۔ ایک نشست میں مرحوم سے قائد اعظم اور قائد ملت کے مابین مبینہ اختلافات اور نقص ایمبولینس کی فراہمی جیسے معاملات پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ قائد اعظم بڑے فرد شناس تھے۔ لیاقت علی خان 1937ء سے قائد اعظم کے ساتھی تھے اور خود بابائے قوم نے انہیں اپنا دست راست اور بااعتماد ساتھہ قرار دیا تھا۔ قائد اعظم عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے کہ اگر انہیں معمولی سا شبہ بھی ہوجاتا کہ قائد اعظم کے ساتھہ کسی نےکوئی گستاخی کی ہے تو وہ اس کا کچومر نکال دیتے ، چاہے وہ کوئی بھی ہوتا۔ ایمبولینس کے سلسلے میں چوہدری صاحب کا کہنا تھا کہ قائد اعظم وضع داری میں یکتا تھے، وہ یہ برداشت کرنے کے لئے ہر گز تیار نہ تھے کہ سرکاری یا غیر سرکاری کوئی بھی شخص انہیں اسٹریچر پر بے بس دیکھے ، اس لئے انہی کی ہدایت پر کوئٹہ سے ان کی کراچی آمد کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ ان کے ذاتی عملے نے کراچی فون کرکے اپنے طور پر ایمبولینس کا انتظام کیا اور وہ بھی ایک عام مریض کے لئے اگر قائد اعظم سرکاری طور پر کوئٹہ سے سفر کرتے تو مجال نہیں تھی کہ قائد ملت اور ان کی کابینہ کے اراکین ان کے استقبال کے لئے نہیں پہنچتے اور بہترین ایمبولینس کاروں کے قافلے میں لانے کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ دریں حالات جو ایمبولینس بھیجی گئی وہ راستے میں ایک مہاجر بستی کے قریب خراب ہوگئی جو اتفاقیہ واقعہ تھا اور وہاں موجود لوگ بھی یہی سمجھہ رہے تھے کہ ایمبولینس میں کوئی عام مریض ہے اگر لوگوں کے کان میں یہ بھنک بھی پڑ جاتی کہ وہ مریض بابائے قوم ہے تو لاگ یقیناً اس ایمبولینس کو اپنے سروں پر اٹھا کر گورنر جنرل ہاؤس پہنچادیتے۔ چوہدری محمد علی نے یہ بھی بتایا کہ قائد اعظم کے معالج یا سیکریٹری نے ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے بھی کسی ڈاکٹر یا سرکاری اہلکار کو پہلے سے اعتماد میں نہیں لیا۔ ہمارے معزز کالم نگار اور دوسرے حضرات یہ کیوں فراموش کردیتے ہیں کہ قائد اعظم آزادی سے پہلے ہی ٹی بی کے موذی مرض میں مبتلا تھے لیکن ان کے غیر مسلم معالج نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا پورا پورا پاس رکھتے ہوئے اس بیماری کو راز ہی رکھا یہاں تک کہ محترمہ فاطمہ جناح تک کو اس کی خبر نہیں تھی اور اس کا ثبوت ماؤنٹ بیٹن کا (خباثت سے بھرپور) یہ بیان ہے کہ اگر مجھے محمد علی جناح کی بیماری کے بارے میں علم ہوجاتا تو آزادی کو موخر کردیتا تاکہ بھارت تقسیم ہونے سے بچالیا جاتا۔ بہرحال قائد ملت اور بابائے قوم کے اختلافات کے اس افسانے کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے عظیم بھائی کی رحلت کے بعد مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، لیاقت علی خان وغیرہ سے زیادہ خوش نہیں تھیں۔ چوہدری محمد علی نے اس کا سبب یہ بتایا کہ قائد اعظم کی حیات میں محترمہ فاطمہ جناح کو سرکاری سطح پر جو اہمیت حاصل تھی وہ ان کی رحلت کے بعد کم ہوگئی اور بیگم لیاقت علی خان کو خاتون اوّل کا درجہ حاصل ہوگا۔ گو حکومت نے محترمہ فاطمہ جناح کے مقام اور وقار کو ملحوظ رکھنے کی پوری کوشش کی اور وزیر اعظم تک ان ان سے مشورہ کی غرض سے ملا کرتے تھے اس کے باوجود وہ بدلے ہوئے حالات سے جلد سمجھوتہ نہیں کر پائیں اور ان کا یہ ردعمل فطری تھا۔

جہاں تک قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کا تعلق ہے تو ہم جانتے ہیں کہ اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے ایک سے زیادہ کمیشن مقرر کئے گئے بلکہ کئی کی تحقیقاتی رپورٹیں بھی آئیں لیکن قوم اور حکومت اس سے مطمئن نہیں تھی کیونکہ اس میں ذمہ داروں کا تعین نہیں کیا جاسکا تھا پھر ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے والے ذمہ دار افراد رپورٹ کے ساتھہ ہی ایک ہوائی حادثہ کا شکار ہوگئے۔ اس سلسلے میں چوہدری محمد علی سے میں نے دریافت کیا تھا کہ آپ ان کے بہت قریب تھے ان کی اس طرح شہادت سے قوم میں بڑی مایوسی ہے کہ اس کے محرکات کا پتہ نہیں لگایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ 1955ء میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد میں نے پہلا حکم قائد ملت کی شہادت کی از سر نو تحقیقات ہر کا دیا تھا لیکن وہ بھی بے نتیجہ ثابت ہوئی اور اس سلسلے میں میرے دل میں ایک خلش رہی لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ اگر امریکہ کے صدر کینیڈی کی موت کے اصل محرکات اور اس قتل کے پیچھے افراد کے بارے میں کسی حتمی نتیجہ پر نہیں پہنچا جاسکا ہے تو ہم پاکستان میں بھی اگر قائد ملت کی شہادت کا کھوج لگانے میں ناکام ہیں تو شاید یہ ارادتاً نہیں ہوا۔

بیروت کے ایک ہوٹل میں حسین شہید سہروردی کے " پراسرار انداز میں قتل" کی حقیقت یہ ہے کہ ان پر دل کا جان لیوا دورہ پڑا تھا اور بستر مرض سے انہوں نے اپنے کسی دوست کو فون کرنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن دورہ اتنا شدید تھا کہ انہیں اس کا موقع نہیں ملا۔ پھر اگر یہ قتل ہی تھا تو لبنان کی حکومت کے ذریعہ تحقیقات کروائی جانی چاہئے تھی لیکن ان کے اہل خانہ سمیت کسی کو بھی اس کا شبہ نہیں ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ حکومت یا ان کی صاحبزادی یا ان کے مداحوں میں سے کوئی اس کا مطالبہ کرتا اور وہ پورا نہیں ہوتا۔ لبنان کی حکومت سے بھی اس کا مطالبہ کیاجاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ محترم کالم نگار نے لکھا ہے کہ حسین شہید سہروردی کے انتقال کے بعد " پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصوں کو مربوط رکھنے والی کوئی سیاسی کڑی باقی نہی رہی نتیجہ یہ ہوا کہ 1970ء میں پاکستان دولخت ہوگیا۔" اس کا مطلب یہ ہوا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا ایک ساتھہ رہنا کسی فرد واحد کی ذات سے مشروط تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سہروردی کو "قتل" نہ کیا جاتا اور جب وہ طبعی موت سے ہمکنار ہوتے تو تب بھی تو ملک کو دولخت ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا تھا۔ بہرحال ایسی سوچ تحریک پاکستان کی تاریخ سے بے خبری کا نتیجہ ہے اگر ملک کے دونوں بازوؤں کا اتحاد سہروردی ہی سے مشروط تھا تو پھر پاکستان کا قیام تو منطقی طور پر قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت سے مشروط نہ ہونا چاہئے تھا اور ان کی "ناگہانی موت" کے بعد پاکستان کے وجود کا جواز بھی ختم ہوجاتا آج تو کسی کو ان لوگوں میں شامل نہیں کیا جاسکتا جن سے قائد اعظم نے قوم کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی تھی (یعنی غیر ملکی ایجنٹوں) جو قوم میں انتشار، بے چینی اور مایوسی پھیلاتے ہیں لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ان میں سے کسی سے کسی کا جذباتی لگاؤ ہے اس لئے ذمہ داروں کے نام لینے سے احتراز کیا جارہا ہے ورنہ پوری قوم کو معلوم ہے کہ اس میں کس کس کا کتنا حصہ ہے۔

جہاں تک بھٹو صاحب کا معاملے کا تعلق ہے تو پاکستان کی عدالت میں ان کا طویل مقدمہ چلا۔ استغاثہ اور مستغیث کی طرف سے وکیل دفاع کے لئے موجود تھے دونوں طرف سے بیانات ہوئے اور گواہیاں پیش کی گئیں۔ عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا اس سلسلے میں راقم الحروف کی چند معروف ماہرین قانون سے گفتگو کے دوراں بھی معلوم ہوا کہ عدالتی بنچ کا اکثریتی فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہوتا ہے یہاں تک کہ اس فیصلہ سے اختلاف کرنے والے جج صاحبان کی طرف سے بھی اس کی مخالفت توہین عدلات کے زمرہ میں آتی ہے۔ پھر جو فیصلہ سامنے آیا اور اس پر نظرثانی کی درخواست دی گئی جو مسترد کردی گئی اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھٹو محروم کو پھانسی قانون پر تحت دی گئی تھی اس لئے اسے "بے رحمانہ قتل" قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ہاں اگر جیل میں بے تشدد ہوا ہے تو اس کے ذمہ داروں کی باز پرس ضرور ہونی چاہئے اور ایسے لوگوں کو سخت سزا بھی ملنی چاہئے تھی لیکن اس کا بھی بہترین وقت ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی کے پہلے اور دوسرے دور اقتدار میں تھا اب نہیں اور اگر خود بھٹو مرحوم کی صاحبزادی نے اس معاملہ کی ازسرنو تحقیقات کی ضرورت نہیں سمجھی تو اس کے آگے کچھہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا متبادل

روزنامہ جنگ منگل 25 جون 2001ء

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے ساتھہ ہونے والے ظلم و جبر، ناانصافی اور حق تلفی پر خاموش رہتا ہے نہ اپنی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے باز آتا ہے چاہے سب کچھہ اس کے والدین ، عزیز و اقارب ، دوست احباب، معاشرے یا حکومت کسی کی طرف سے ہی کیوں نہ ہو۔ ہر آزاد اور جمہوری معاشرہ میں لوگوں کو احتجاج کا حق حاصل ہوتا ہے اب یہ احتجاج کرنے والے گروہ، تنظیم یاجماعت پر منحصر ہے کہ وہ اس کے لئے پر امن طریقہ اختیار کرتے ہیں یا پر تشدد، لیکن یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ غریب اور تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں لوگوں کو پینے کیلئے صاف پانی اور آمدورفت کیلئے پختہ سڑکیں تک نہیں ہیں وہاں نہ صرف ہڑتالیں بڑے شوق کے ساتھہ کی جاتی ہیں بلکہ وہ ماردھاڑ، گھیراؤ جلاؤ اورتوڑ پھوڑ سے بھرپور ہوتی ہیں لوگ شہری سہولتوں کو جو اتفاق سے انہیں حاصل ہیں توڑتے پھوڑتے ہیں، بسوں کو آگ لگاتے ، ٹریفک سگنلز ، بجلی اور ٹیلیفون کی تنصیبات کو دل کھول کر نقصان پہنچاتے، نجی اور سرکاری املاک کو جلاتے، صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے حتٰی کہ لوگوں کو ہلاک و زخمی بھی کردیتے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یا تو ہڑتالیں ہوتی نہیں اور اگر کبھی ایسی نوبت آ بھی جائے تو نہ کسی کی نکسیر پھوٹتی ہے نہ کسی کار کا شیشہ ٹوٹتا ہے نہ زبردستی کاروبار بند کرایا جاتا ہے نہ ٹریفک میں خلل ڈالا جاتا ہے اور اگر کسی صنعتی ادارے کے کارکنان کو شکایت ہوتی ہے تو کھانے یا آرام کے وقفہ کے دوران وہ اپنے ادارہ کے احاطہ میں یا باہر کھلی جگہ جمع ہوکر تقریریں کرتے، اپنے مطالبات کا ذکر کرتے اور وقفہ کے خاتمہ کے ساتھہ ہی اپنے کام پر واپس چلے جاتے ہیں وہ نہ سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں نہ پیداوار میں کمی کرتے ہیں اسلئے کہ وہ جانتے ہیں ادارہ کی پیداوار کم ہوگی اور اگر اسے نقصان ہوگیا تو ادارہ ہی بند ہوجائے گا وہ ملکی سرمایہ کو اپنا ہی سرمایہ سمجھتے ہیں اسلئے کہ انہیں معلوم ہے تمام قومی ملکیت میں ہر شہری کا برابر کا حصہ ہوتا ہے بجلی کے ایک بلب کو بھی توڑا جائے گا تو یہ قومی نقصان ہوگا جبکہ ہم مشتعل ہوجائیں تو ملک کی ہر چیز کو آگ لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔

جیسے ہی ہڑتال کا اعلان ہوتا ہے حکومت کی طرف سے بلا تاخیر یہ اعلان آجاتا ہے کہ "ہڑتال بلا جواز ہے۔ شہری اسے نظر انداز کردیں ان کے تحفظ کو یقنیی بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرلئے گئے ہیں" اور ایسا کیوں نہ ہو شہریوں کی جان ومال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت وقت کی بنادی آئینی ذمہ داری ہے لیکن عوام بالخصوص کراچی کے شہری ہڑتال اور "حفاظتی اقدامات" کی روح اور ان کے حقیقی معانی و مفہوم کو خوب سمجھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں ایک ہڑتال کے موقع پر میں نے اپنے نواسے سے جو پہلے جماعت کا طالب علم ہے کہا کہ آج ہڑتال کی وجہ سے سڑکیں سنسان ہیں بسیں ، کاریں اور ٹرک وغیرہ کچھہ بھی نہیں چل رہے ہیں تم اپنی سائیکل لیجاؤ اور سڑک پر خوب چلاؤ، اس نے برجستہ کہا "تاکہ میری سائیکل جلادی جائے"۔ ہڑتالیں کسی اعلٰٰی مقصد کے حصول کیلئے کی جاتی ہیں جبکہ ہمارے یہاں بیشتر ہڑتالوں کا تعلق کسی کی رہائی یا کسی کی گرفتاری سے ہوتا ہے یا کسی کے خلاف شکایات سے لیکن اس کی تمام تر زد صرف ان عوام پر پڑتی ہے جن میں سے اکثر روزانہ مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں لیکن ہڑتال کے دن گھروں میں بیٹھے سوچتے رہتے ہیں کہ شام بچوں کو کیا کھلائیں گے ، مریض دوا سے یا اسپتال جانے سے محروم، ملک کا آئین تو روزگار اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے کا حق دیتا ہے لیکن ہم انہیں نہ صرف اس حق سے محروم کر دیتے ہیں بلکہ ہڑتال کے سبب وہ حبس بیجا میں رہنے پر بھی مجبور کردیئے جاتے ہیں اور عوامی خدمت کے تمام ادارے مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے احتجاج انسانی فطرت کا تقاضا ہے ہر آزاد معاشرہ میں افراد کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔ لیکن انسان کو حاصل تمام حقوق قانون، تہذیب ، رواداری اور انصاف سے مشروط ہیں۔

ہڑتال احتجاج کی ایک صورت ہے اس لئے ہم اور بھی طریقے اختیار کرسکتے ہیں کہ ہمیں کسی گاڑی کو، کسی عمارت کو ، کسی ادارے کو جلانے کی ضرورت پڑے نہ کسی کو دھمکی دینے یا کسی کو ہلاک کرنے کی نوبت آئے۔ ہمارے معاشرہ میں جہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ایذا پہنچانے، رقم بٹورنے اور دھوکہ دینے کے نت نئے طریقے اختیار کرنے میں مہارت رکھتے ہوں تو کیا وہاں ایسے حضرات نہیں ہوں گے جو اپنے حتجاج کیلئے ایسے مہذبانہ راستے اختیار نہیں کرسکتے ہوں کہ ہمارا مقصد بھی پورا ہوجائے اور کسی کو تکلیف پہنچے نہ نقصان، اس کا بہترین حل تو یہ ہے جب تک پاکستان قرضروں کی لعنت سے چھٹکارا پا کر اپنے پیروں پر کھڑا اور ترقی و استحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوجاتا کسی بھی قسم کی ہڑتال، احتجاج، مظاہروں اور دھرنوں سے مکمل پرہیز کیا جائے اور اگر کوئی اہم مسئلہ درپیش ہو تو متاثرہ تنظیم ، گروہ یا جماعت کے ایک دودرجن رہنما بینر لیکر پریس کلبوں، گورنر ہاؤسز، کمشنر یا ڈپٹی کمشنر دفاتر کے سامنے ایک آدھ گھنٹے کھڑے ہوکر اپنا احتجاج نوٹ کروادیں اس سے مثبت تشہیر ہوگی لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ صرف ہڑتال ہی کام دے سکتی ہے تو پھر

· ہڑتال میں شرکت قطعی رضاکارانہ ہو اس کے لئے نہ گاڑیاں جلائی جائیں ، نہ فائرنگ کی جائے، نہ شہریوں کو خطرناک نتائج کی دھمکیاں دی جائیں۔

· ہڑتال کی نوعیت کچھہ کیوں نہ ہو تعلیمی اور صنعتی پیداوار کے ادارے اور ٹریفک ہر گز بند نہ ہوں۔

· ہڑتال کیلئے چند گھنٹوں کا وقت مقرر کیا جائے مثلاً صبح دس سے ایک دو بجے تک تاکہ روزانہ کما کر کھانے والے مزدور اور کاریگر روزگار سے محروم نہ رہیں نہ رکشا، ٹیکسی اور ریڑھی والوں کے کام پر برا اثر پڑے۔

· دھرنا دے کر یا رکاوٹیں کھڑی کرکے آمدورفت کے ذرائع اور شاہراہوں کو بند کرنا، انسان کے بنیادی حقوق ، آئین اور قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے اس سے بچنیا چاہئے۔

ہڑتالوں کی ایک قسم قومی نوعیت کی بھی ہوتی ہے جیسے 5فروری کو یوم کشمیر، اس دن پورے ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے۔ مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے علیحدہ علیحدہ جلوس نکلتے اور جلسے منعقد کئے جاتے ہیں ، کسی اعلٰی مقصد کے سلسلہ میں اظہار تشویش اور اظہار یکجہتی کا یہ منافقانہ نہ سہی عیاشانہ انداز ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اس دن یکجہتی کے بجائے کثیر الجہتی کا عملی ثبوت دیتے ہیں اور دشمن کو بتادیتے ہیں کہ ہم ایک نہیں، دوسرا فائدہ دشمن کا یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا اربوں کھربوں کا نقصان خود کرلیتے ہیں یہ سب کچھہ دشمن کے مفاد میں جاتا ہے۔ اسلئے ایک آزاد اور خود دار شہری کی حیثیت سے ہمارا فرض یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہم معمول سے زیادہ کام کریں، صنعتی پیداوار بڑھائیں، برآمدات میں اضافہ کی حقیقی کوشش کریں اور اگر ہمیں کسی کے مقاصد سے واقعی ہمدردی ہے تو اس دن کی آمدنی ان کے لئے وقف کردیں اگر کشمیر رقم نہیں بھیجی جاسکتی تو پاکستان میں کشمیری مہاجرین کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ان کی مدد کریں ، ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت کے منصوبے بنائیں، افغان بھائی بھی ہیں، یورپ میں بوسنیا، کوسوو، البانیہ اور مقدونیہ کے ستم رسیدہ مہاجر ہیں ان کی مدد کی جاسکتی ہے۔ گھر بیٹھہ کر تفریح گاہوں پر جاکر کسی اعلٰٰی مقصد سے اظہار یکجہتی خود فریبی سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے، ہمیں اس سے نکلنا چاہئے۔

مجسمے، طالبان اور عالمی رائے عامہ

روزنامہ جنگ اتوار 18 مارچ 2001ء

افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے ملک کو چھوٹے بڑے مجسموں ، مورتیوں اور چٹانوں میں تراشیدہ انسانی شبیہہ سے پاک کرنے کے فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر ممالک کی طرف سے فوری اور شدید ردعمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا مذہبی رواداری اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کے بارے میں کس قدر حساس اور ہم خیال و ہم آواز ہے۔ اس فیصلہ پر عملدرآمد رکوانے کی غرض سے بھارت میں ایک طبقہ کی طرف سے طاقت کے استعمال کی وکالت کی گئی ہے۔ پاکستان نے افغان سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاج کرنے اور مجسموں کو محفوظ رکھنے پر زور دینا ضروری سمجھا ہے۔ پیرس میں مسلم ممالک کے سفیر ایک اجلاس کے ذریعے اس فیصلہ کی مذمت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ جاپان نے افغانستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی ہے دیگر کئی ممالک نے بھی صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کا ساتھہ دیا ہے۔ امریکہ کے ایک عجائب گھر اور ایران کی طرف سے یہ مجسمے خریدنے اور بھارت نے انہیں افغانستان سے منتقل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے اس فیصلہ کو غیر دانشمندانہ اور تمام مذاہب کی توہین قرار دیا ہے۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ مہذب قومیں تہذیب اور ثقافت کی حفاظت کرتی ہیں ان کے خیال میں اس قسم کے اقدام سے دنیا میں اسلام کے بارے میں غلط تاثر پھیلے گا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے بھی غیر دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے اس فیصلہ کو فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ قطر کی حکومت کے الفاظ میں یہ مجسمے مشترکہ ورثہ ہیں جن کی حفاظت ضروری ہے۔ ان بیانات و خیالات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسانوں کی تو بات ہی کیا ہے ۔ آج کی دنیا تراشیدہ انسانی شکلوں کی تباہی اور بربادی بھی کسی حالت میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ غالباً طالبان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اکیسویں صدر کا مادہ پرست انسان اس طرح ہی رواداری اور تہذیب و ثقافت کا محافظ بن کر اٹھہ کھڑا ہوگا اور یہ سوچ بلا سبب بھی نہیں تھی اس لئے کہ آج افغانستان میں پانچ سات فٹ کے چلتے پھرتے لاکھوں زندہ مجسمے اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ ظالمانہ اور غیر انسانی پابندیوں کے نتیجہ میں غذائی اجناس اور ضروری ادویات کی شدید کمی کے باعث موت کی دہلیز پر کھڑے کردیئے گئے ہیں لیکن اس حالت زار پر آج کوئی نہیں جو ہمدردی کے دو بول بول سکے۔ بتوں اور مجسموں کے تحفظ کیلئے تو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک شدید واویلا مچایا جارہا ہے۔ بچوں، عورتوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو شدید سانپ سونگھہ گیا ہے کہ وہ چپ سادھے افغانستان کے اندر اور اس کے باہر افغانوں کی ہلاکتوں کے منظر سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔

ملک کے 95 فیصد سے زیادہ رقبہ پر حکومت کرنے والے طالبان کے رہنماؤں نے یہ بھی سوچا ہوگا کہ دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں سے صرف تین نے ہی انہیں تسلیم کیا ہے تو ہمارے کسی فیصلہ پر ردعمل بھی سامنے نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ جو قومیں نہ طالبان کی حکومت کے وجود کی قائل ہیں نہ ان کے ملک کے باشندے کسی امداد کے حقدار مانے جارہے ہیں تو پھر ہم بت توڑدیں یا مجسموں کو منہدم کردیں دنیا کو اس سے کیا۔ اگر اس فیصلہ کے خلاف آواز بھی اٹھائی جائے گی تو اس کا ہدف ملک کے دو پانچ فیصد باغی ہوں گے جو بیرونی اشاروں پر افغانستان میں فساد برپا کئے ہوئے ہیں اور اسی فساد کو مزید ہوا دینے کی خاطر انہیں فراخ دلی کے ساتھہ مہلک ہتھیار فراہم کئے جارہے ہیں۔ مالی اور اخلاقی امداد کے مستحق بھی وہی قرار پائے ہیں۔

طالبان حکومت کو یہ بھی تجربہ ہے کہ ڈھائی تین سال قبل جب افغانستان کو امریکہ نے میزائلوں کی بارش کرکے بستیاں تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اس وقت بھی دنیا میں خاموشی رہی۔ یہ جارحیت پاکستان کی خودمختاری کے خلاف بھی تھی لیکن پاکستان مسکراتے ہوئے بھی امریکہ سے اس کے خلاف شکایت نہیں کرسکا تھا۔ عراق میں لاکھوں بچوں اقوام متحدہ کے طرف سے عائد پابندیوں کے نتیجہ میں ہلاک ہوچکے ہیں لیکن اس ہلاکت پر کسی کی آنکھہ غمناک نہیں ہوتی خود عالم اسلام بھی بظاہر تو ان پابندیوں سے متفق ہی نظر آتا ہے اس لئے کہ پابندیاں چاہے عراق کے خلاف ہوں یا افغانستان کے لیبیا کے خلاف ہوں یا ایران کے امریکہ کی جارحیت سوڈان کے خلاف ہو یا افغانستان اور عراق کے یہ سب اسلئے "حق بجانب اور ضروری" ہیں کہ خاص طور پر امریکہ ایسا ہی چاہتا ہے۔

مجسموں کے تحفظ کی مہم میں دل و جان سے شریک ہونے والوں کو نہ مذہبی رواداری عزیز ہے نہ تہذیب و ثقافت سے دلچسپی۔ یہ واویلا ان کے قلبی احساسات کا حقیقی عکاس ہرگز نہیں بلکہ طالبان کے خلاف ان کے خبث باطن کا نتیجہ ہے بالفاظ دیگر دنیا کا یہ رویہ منافقت اور دوغلے پن کی بدترین مثال ہیں۔

چند باتوں کا ذکر ضروری ہے جو افغان حکومت کے فیصلہ کے سلسلہ میں وضاحت طلب ہیں ان میں سے ایک تو بی بی سی کا یہ فتویٰ ہے کہ "مجسمہ اس وقت بت بنتا ہے جب اس کی پرستش کی جائے" اگر اس مفروضہ کو صحیح تسلیم کرلیا جاتا ہے تو ہمیں یہ بھی مان لینا چاہئے کہ ان مجسموں کے ٹوٹنے سے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کا دل نہیں ٹوٹے گا اس لئے کہ ان مجسموں کی پوجا کوئی بھی نہیں کرتا۔ اسلام بلاشبہ دوسروں کے خداؤں کو گالیاں نہ دینے اور دوسروں کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی نہ کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن افغانستان کی حکومت اگر اپنے فیصلہ کا اعلان نہیں کرتی تو دنیا کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہاں اس طرح بت اور مجسمے اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں اگر یہ مجسمے کسی عبادت گاہ میں ہوتے تو ان کو توڑنے کی کوئی حمایت نہیں کرتا لیکن ان کی صورت تو یہ ہے کہ کوئی مسلمان ایک مکان خریدے اس میں ہندو دیوی، دیوتاؤں کے مجسمے رکھے اور دیواروں پر ان کی تصویریں بنی ہوں تو اس گھر کا نیا مالک اپنے گھر سے یہ سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دے گا۔ افغانستان کو دیئے جانے والے اس مشورہ کی کہ انہیں فروخت کردیا جائے یا کسی عجائب گھر میں رکھہ دیا جائے اس ناقابل تردید تاریخی واقعہ سے نفی ہوتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم نے بیت اللہ میں رکھے گئے 360 بتوں کو اپنے دست مبارک سے پاش پاش کرکے کعبہ کو پاک کیا تھا اگر اللہ کے آخری رسول اس وقت چاہتے تو ان بتوں کے بدلے اس قدر دولت مل جاتی کہ مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھر جاتی اگر ان بتوں کو فروخت نہیں کرتے تو بحفاظت کسی جگہ رکھا بھی جاسکتا تھا کہ ایسی جگہ کو آج ہم عجائب گھر کہہ سکتے ہیں۔ لیکن بت شکنی کے سوا اور کوئی راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ طالبان حکومت کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ یہ تو مجسمے ہیں رسول کریم نے تو جاندار کی تصویر والے پردے، تکیہ اپنے گھر میں برداشت نہیں کیا تھا یہ کیسے ممکن ہے کہ طالبان اپنے گھر میں یہ سب کچھہ برداشت کرلیں۔

مسلم ممالک کے سفیروں کے اجلاس میں منعقدہ پیرس میں ایک خاص بات یہ کہی گئی ہے کہ طالبان کی طرف سے مجسمے شکنی کے اقدام سے اسرائیل کو شہہ ملے گی اور وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کے خلاف کاروائی کے دفاع میں افغانستان کی مثال پیش کرے گا۔ گویا اسرائیل کو من مانی کرنے کے لئے کسی جواز کی ضرورت ہے۔ فلسطین کی سرزمین سے مسلمانوں کی جبری بے دخلی شام اور لبنان کے علاقوں پر قبضہ، عراق کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ، مساجد کی تالابندی، مقدس مقامات کی بے حرمتی اورنہتے مسلمان بچوں کی شہادت کے لئے اسرائیل کو جواز افغانستان نے مہیا کیا ہے یا خود مسلمان ملکوں کی بے حسی، احساس کمتری اور ان کی امریکہ نوازی نے؟

بھارت بھی افغان حکومت کے فیصلے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے وہاں حکومت کی شرکاء نے طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال پر زور دیا ہے۔ لیکن ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ ہم دشمن کی چال کو سمجھہ نہیں پارہے جن لوگوں نے بابری مسجد کو شہید کیا جو دیگر مساجد کو بھی ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی طرف سے طالبان کے خلاف بیان بازی قرآن کے اس فیصلہ کے عین مطابق ہے کہ کافر اور مشرک تو آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور ہمنوا ہیں اگر ہم حقیقت کی تہہ کو نہ سمجھیں تو یہ ہماری غفلت اور کج فکری کے سوا اور کچھہ نہیں۔ جب تک ہماری سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک ہم اقوام عالم میں اچھوتوں کی سی زندگی گزارتے رہیں گے ہمیں یہ سمجھہ لینا چاہئے کہ باعزت اور پروقار زندگی صرف وہی قومیں گزارتیں ہیں جنہیں مومن کی فراست، چیتے کو جگر اور شاہین کا تجسس عطا ہو۔

کیا امریکہ ثالثی کا اہل ہے؟

روزنامہ جسارت پیر27 مارچ 2000 ء

امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے ماضی کی طرح چند دن قبل اپنی اس پیشکش کو پھر دہرایا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت دونوں درخواست کریں تو وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی غرض سے ثالث کا کردار اداد کرنے کو تیار ہیں۔ موصوف نے خود کو کامیاب ثالث ثابت کرنے کے ضمن میں مشرق وسطیٰ اور شمالی آئرلینڈ میں قیام امن کے سلسلہ میں اپنی کوششوں کا حوالہ بھی دیا ہے لیکن یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا امریکا پاکستان اور بھارت کے اس تنازعہ میں ثالثی کا اہل ہے بھی کہ نہیں ماضی کے چند حقائق و واقعات کو اپنے پیش نظر رکھتے ہوئے ان شرائط پر بھی غور کرنا ہوگا جو ثالثی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ افراد، خاندانوں اور قبیلوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور تنازعات کے حل کے سلسلہ میں ابتدائے آفرینش ہی سے ثالث کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے اس کی افادیت کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ آج بھی بڑے بڑے تجارتی معاہدوں اور سودوں میں کسی ممکنہ اختلاف رائے یا تنازعہ کے تصفیہ کے لئے ثالث کی گنجائش رکھی جاتی ہے۔ لیکن ثالث بننے کے لئے ضروری ہے کہ وہ چند بنیادی شرائط پر پورا اترتا ہو، ان شرائط میں غیر جانبداری، دیانتداری، کردار میں پختگی ، معاملہ فہمی اور بے خوفی شامل ہیں اس کے علاوہ یہ بھی لازمی ہے کہ جسے ثالث بنایا جارہا ہے وہ ہر قسم کے لسانی، نسلی، علاقائی اور مذہبی تعصب سے بالاتر ہو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ فریقین کسی ذہنی تحفظ کے بغیر اس شخص پر متفق ہوں۔ انہی شرائط کی روشنی میں امریکا کے صدر بل کلنٹن کی شخصیت، ان کے کردار اور ان کے ماضی کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر میں بحیثیت ثالث پاکستان کے لئے قابل قبول ہیں یا نہیں ۔

سب سے پہلے تو ہمیں یہ کلیہ اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ امریکا کے سیاستدان اور سیاسی و غیر سیاسی عہدوں پر فائز حضرات ہمارے ملک کے سیاستدانوں اور غیر سیاستدانوں کی طرح دہری حیثیت اور دہری شخصیت کے مالک نہیں ہوتے، وہ کسی معاملہ پر دو متضاد آراء یعنی ذاتی اور سرکاری یا جماعتی اور غیر جماعتی نقطہ نظر نہیں رکھتے ۔ ہمارے یہاں تو بنیادی مسائل و معاملات پر بھی ایک ذمہ دار شخص دو متضاد رائے کا اظہار کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا لیکن اس کے برعکس امریکا کا صدر، وزیر، سفیر یا عام شہری اگر کسی تنازعہ کا کوئی حل پیش کرے گا تو وہ امریکی مفادات کے عین مطابق ہوگا بالفاظ دیگر جناب بل کلنٹن جو بھی فیصلہ کریں گے اس کے پیچھے عدل و انصاف ، دیانتداری ، غیر جانبداری اور بے لوثی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا بلکہ ان کا فیصلہ امریکی امریکی مفادات کا عکاس ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر کلنٹن کو ثالثی کی شرائط پر جانچنے کے ساتھہ ہمیں امریکا کی حکمت عملی، اس کے مفادات اور اس کی ضروریات کو اپنے پیش نظر رکھنا ہوگا پھر ہم امریکا کے اس رویئے سے بھی صرف نظر نہیں کرسکتے جو وہ پاکستان اور بھارت کے ساتھہ روا رکھتے آرہا ہے۔

پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی 52 سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان تو شروع ہی سے امریکا کا دوست اور اتحادی رہا ہے لیکن امریکا کا رویہ ہمارے ساتھہ ہمیشہ معاندانہ رہا ہے جبکہ ہمارے مقابلہ میں بھارت کے ساتھہ اس کا سلوک دوستانہ بلکہ مربیانہ رہا ہے حالانکہ بھارت ہمیشہ سے امریکا کے حریف روس کے اتحادی اور طفیلی ہے۔ جماعتی لحاظ سے بھی وہ پاکستان کے کے مقابلہ میں بھارت نواز ہیں اس لئے کہ ان کی ڈیموکریٹک پارٹی روایتاً پاکستان مخالف رہی ہے۔ ماضی پر جب ہم ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہماری بے لوث اور مخلصانہ دوستی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا نے پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرکے روس کا پاکستان کا دشمن بنایا اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکا ایک جاسوس طیارہ یو ٹو (U-2) جب روس میں مار گرایا گیا تو روس نے نقشہ میں واشنگٹن پر نہیں پشاور پر سرخ دائرہ کھینچ کر دھمکی دی کہ آئندہ امریکا کا کوئی جاسوس طیارہ روس میں داخل ہوا تو پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے گا۔ 1965ء میں امریکا نے اپنے دشمن روس کے طفیلی بھارت کی اس طرح مدد کی کہ ہمیں نہ صرف ہتھیاروں کی فراہمی بند کردی گئی بلکہ فاضل پرزے تک دینے سے انکار کردیا گیا یہ تو سب ہی کو معلوم ہے کہ اس وقت ہمارے پاس بیشتر امریکی ہتھیار تھے جو ہمارے دوست نے ہمیں معمول کے خلاف مہنگے داموں فروخت کئے تھے۔ 1971ء کی جنگ میں امریکا نے ہمیں ایسے مقام پر پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا جہاں بھارت کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ افغانستان میں روس کے سامنے ڈٹ جانے پر امریکا نے پاکستان کو مہنگے داموں ایف۔16طیارے فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن جب ان کی حوالگی کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ یہ طیارے نسبتاً کم معیار کے ہیں جبکہ قیمت ہم سے اعلیٰ معیار کے طیاروں کی وصول کی گئی تھی ۔ بہرحال جب پاکستان کی طرف سے ان طیاروں کو وصول کرنے سے انکار کردیا گیا تو انہیں جدید آلات سے لیس کیا گیا لیکن پہلی کھیپ کے بعد ہمارے دوست امریکا پر اچانک یہ راز کھل گیا کہ پاکستان کو مزید ایف-16 طیارے دینا علاقائی امن کے لئے خطرناک ہے، اس لئے اس نے نہ صرف طیارے ہی دینے سے انکار کردیا بلکہ کروڑوں ڈالر جو پاکستان نے ان کی قیمت کے طور پر دیئے تھے وہ بھی پریسلر ترمیم کے بہانے دبا کر بیٹھہ گیا۔ برسوں کے بعد امریکا نے قسطوں میں یہ رقم ادا کرنے کا وعدہ کیا لیکن تاحال یہ ادائیگی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ امریکا نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ ہمارے وہ پرزے بھی ہڑپ کرنے کی کوشش کی جو وہاں مرمت کے لئے بھیجے گئے تھے۔ ہم پر کبھی چین سے میزائل خریدے، کبھی ایران کو میزائل ٹیکنالوجی منتقل کرنے اور کبھی شمالی کوریا کے ساتھہ ایٹمی معاملات کے تبادلے کے الزام لگا کر دہشت گرد ملک قرار دینے کی دھمکیاں دی گئیں۔ کبھی آپس کے جھگڑے کے نتیجہ میں قتل ہونے والے عیسائی لڑکے کا صدر کلنٹن نے ماتم کیا کبھی ایک پادری کی مبینہ خودکشی پر آسمان کو سر پر اٹھا کر پاکستان کو مذہبی منافرت کا مرتکب قرار دیا گیا۔ کبھی قالین بانی میں بچوں کی مشقت کے نام پر قالین کی خریداری بند کی گئی، کبھی اسی بہانہ ہمارے یہاں کھیلوں کے سامان کی برآمد پر پابندی کی سازش کی گئی ۔ اب سیالکوٹ میں تیار ہونے والے آلات جراحی کو بھی اسی بھونڈے الزام کے تحت بیرونی دنیا میں ممنوع قرار دینے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ جو اسامہ بن لادن کل تک بطل جلیل،عظیم مجاہد، جری انسان اور اشتراکیت کے دشمن کی حیثیت سے جانا جاتا تھا وہ آج دہشت گرد ، قاتل اور امریکا کے لئے سب سے سے بڑے خطرے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ افغانستان پر محض اس لئے پابندیاں عائد کردی گئی ہیں کہ اس نے اسامہ کو اپنے یہاں قیام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے اور پاکستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسامہ کو امریکا کے حوالے کرے۔

دوسری طرف بھارت پر امریکہ کی عنایت کی داستان بڑی طویل ہے۔ 1962ء میں چین نے اپنے علاقہ نیفا (NEFA) کو بھارت کے ناجائز قبضہ سے آزاد کروانے کے لئے حملہ کیا تو پاکستان کیلئے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کروانے کا ایک سنہری موقع ہاتھا آیا لیکن امریکا نے پاکستان پر دباؤ ڈال کر اسے اس سلسلہ میں غیر فعال بنادیا۔ 1947ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ بھاری پانی کے حصول میں چشم پوشی کا مظاہرہ کرکے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ خود امریکا نے بھارت کو جدید ترین کمپیوٹرز فراہم کرکے ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے اور مختلف قسم کے مہلک ہتھیار بنانے میں بالواسطہ مدد دی اس کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت کے پاس کئی قسم کے میزائل موجود ہیں۔ 1998ء میں بھارت کے ایٹمی تجربہ کے جواب میں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر امریکا نے پاکستان پر پابندیاں لگانے میں بڑی سرعت کا مظاہرہ کیا لیکن چند ماہ کے بعد ہی پاکستان کے مقابلہ میں بھارت پر سے کئی پابندیاں اٹھالی گئی۔

سطور بالا کی روشنی میں ہم بلاخوف تردید اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ امریکا کسی اصول و اخلاق کا پابند ہے کہ اس کے فیصلے اور اقدامات عدل و انصاف اور انسانی حقوق سے مطابقت رکھتے ہیں اس کی حکمت عملی محور تو فقط اقتصادی و سیاسی مفادات کے باوجود محض اسلام دشمنی ہے۔ لاکھہ اختلافات کے باوجود محض تجارتی مفادات کی خاطر امریکا نے ایک طرف تو چین کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دے رکھا ہے اور دوسری طرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت، اس کی ترقی اور دنیا میں بڑھتے ہوئے اس کے اثرات کو روکنے کی خاطر وہ بھارت کو اس کے مقابلہ پر لانے کے لئے پاپڑ بیل رہا ہے۔ اس طرح امریکا بھارت کی منڈی پر جو پاکستان کے مقابلے میںچھہ سات گناہ بڑی ہے قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ ایسے میں پاکستان امریکا سے اگر دوستی کی توقعات رکھتا ہے تو یہ محض خوش فہمی بلکہ خود فریبی کے سوا کچھہ بھی نہیں۔

ان تلخ حقائق اور واضح شہادتوں کے بعد بھی اگر پاکستان کے حکمرانوں نے صدر کلنٹن کو بطور ثالث قبول کرلیا تو یہ سنگین جرم سے کم نہیں ہوگا اور وہ ہمارے لئے یقیناً دوسرے ماؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلف ثابت ہوں گے۔ اس لئے کہ امریکا بھارت کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ پاکستان کی ناراضگی کی اسے کل پروا تھی نہ آج ہے اور نہ امریکا عالمی رائے عامہ کو کوئی اہمیت دیتا ہے۔ ہمارے ارباب اقتدار کو چاہئے کہ وہ " ہمیں امریکی ثالثی قبول ہے" کی رٹ لگانا چھوڑ دیں ، اگر صدر کلنٹن اور دنیا کے دوسرے ممالک کشمیر کے پرانے لیکن خطرناک اور سنگین تنازعہ کو حل کروانے میں واقعی مخلص ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں منظور کردہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو آزادانہ فیصلے کا حق دلوائیں۔ مسئلہ کشمیر کا اس کے علاوہ کوئی بھی حل نہ دیرپا ثابت ہوگا، نہ فریقین اسے دل سے قبول کریں گے۔

چند کڑوی گولیاں کھانی پڑیں گی

روزنامہ جنگ اتوار 13 دسمبر 1998ء

امن صرف انسانوں ہی کی نہیں آبادی میں رہنے والے چرند اور پرند کی بھی بنیادی ضرورت ہے اس لئے کہ دوسری تمام بنیادی ضرورتوں کی تکمیل امن ہی سے مشروط ہے۔ روزگار اور تعلیم کا حصول ، علاج و معالجے کی سہولتیں ، عبادت، اظہار خیال، اجتماع اور آمد رفت کی آذادی ار مجلسی سرگرمیاں صرف پر امن ماحول ہی میں ممکن ہیں اور اس کی حقیقت کو جاننے کے لئے ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ مک کا سب سے بڑا شہر کراچی اس کا ثبوت ہے۔ منی پاکستان ،عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر جس کا دوسرا نام تھا جسے ہر پاکستانی اپنا شہر کہتا تھا پھر وہی شہر اپنی آغوش میں پلنے اور بڑھنے والوں کیلئے اجنبی اور مقتل بنادیا گیا۔ گزشتہ بارہ سال سے کراچی ہر پہلو سے شہر پر آشوب بنا ہوا ہے یہاں ناجائز ہتھیاروں کے حصول اور ان کے استعمال کی ایسی آزادی دی گئی کہ غیر مہذب اور قبائلی معاشرہ کو بھی اس پر رشک آنے لگا۔ قاتلوں، ظالموں اور دہشت گردوں کی سرپرستی اس طرح کی گئی کہ امن پسند شہری ہر طرف سے مایوس ہوکر خود کو دہشت گردوں کی پناہ میں دینے ہی میں عافیت سمجھنے پر مجبور ہو گئے۔ اگر ہم غور کریں تو اس وحشت ناک صورتحال کا بنیادی اور واحد سبب ہوس اقتدار کے دیوانوں کی "سیاسی مصلحتیں" ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت بھی بدقسمتی سے کبھی کم اور کبھی زیادہ لاقانونیت ہی کا شکار ہے ۔ اس دور میں بھی مغویوں کے تبادلے جنگی قیدیوں کے طرز پر ہوتے رہے اور سوختہ لاشیں ملتی رہیں ۔ وفاقی حکومت نے حکیم محمد سعید کی شہادت کے نتیجہ میں عوام کا غم و غصہ کا سیلاب روکنے کیلئے "سیاسی مصلحتوں" سے کام لیتے ہوئے نیم دلی کے ساتھہ صوبہ میں گورنر راج یعنی چوپٹ راج بن کر رہ جاتا۔ بہرحال بعد از خرابی بسیار سندھ میں گورنر راج کے قیام پر ہر پاکستانی کی بالعموم اور کراچی اور سندھ کے ہر باشندے کی بالخصوص یہ دلی خواہش اور دعا ہے کہ یہ تجربہ کامیاب ہو اور سندھ ایک مرتبہ پھر امن، بھائی چارہ اور محبت والفت کا گہوارا بن جائے۔ یہاں چند نکات بیان کئے جارہے ہیں جو مستقل اور پائیدار امن کے قیام کے لئے ضروری ہیں یہ یقینی ہے کہ ان کو مزید بہتر بنا کر زیادہ اچھے نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں نکتے یہ ہیں۔ (1) گرفتاری کیلئے صرف مجرموں ہی پر ہاتھہ ڈالا جائے، مطلوب کی عدم دستیابی پر بے گناہ عزیز و اقارب اور دوست احباب کو گرفتار کرنے کی قبیح اور غیر آئینی روایت سے اجتناب انتہائی ضروری ہے۔ (2) گرفتاری اور مقدمات کی سماعت میں غیر جانبداری سے کام لیا جانا چاہئے اور یہ غیر جانبدراری نظر بھی آنی چاہئے۔ (3) مختلف جماعتوں یا تنظیموں سے تعلق رکھے والوں کو محض تناسب قائم رکھنے کی غرض سے گرفتار نہیں کا جانا چاہئے۔ (4) گرفتاری ، رہائی اور فیصلوں کے سلسلہ میں کسی بھی قسم کا سیاسی دباؤ، اثر و رسوخ یا تعلق کو ہرگز قبول نہیں کیا جانا چاہئے۔ (5) امن کی کوششوں کا تعلق کسی کے اقتدار کو بچانا، بحال کرنا، محروم کرنا یا کسی قسم کے سیاسی مفادات کا حصول نہیں ہونا چاہئے۔ (6) اندھی ایف آئی آر کی بنیاد پر کسی بے گناہ کو سزا دلوائی جانی چاہئے اور نہ ہی کسی گناہ گار کو شک کا فائدہ دے کر رہا کیا جانا چاہئے۔ (7) عدالتوں کے پیش نظر "سزا" نہیں "انصاف" ہونا چاہئے اس لئے کہ اسلام عدل کی تلقین کرتا ہے۔ (8) ملزمین کو کسی بھی عوامی منصب پر فائز نہیں کیا جانا چاہئے۔ (9) صوبہ کو ہتھیاروں سے پاک کرنا بھی پائیدار امن کیلئے از بس ضروری ہے۔ (10) جذبہ خدمت سے سرشار دیانتدار، شریف النفس اور قانون کی پابند پولیس کے بغیر قیام امن کا تصور ممکن نہیں اس لئے ضروری ہے کہ پولیس کو فوری طور پر کالی بھیڑوں ، سیاسی کارکنوں ، قانون دشمن اور اخلاق باختہ افراد سے پاک کیا جائے تاکہ معاشرہ میں پولیس کی عزت و وقار میں اضافہ ہو اسے عوام کا تعان حاصل ہو اس طرح خود پولیس کا کام بھی بہت آسان ہوجائے گا۔ 12 سال سے جاری سندھ میں قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے مستقل خاتمہ کیلئے ان افراد کی ذمہ داری کا تعین کرنا بھی ضروری ہے جو اس دوران ہم سیاسی اور انتظامی مناصب ہی پر فائز ہے ان میں 1985ء سے اب تک کے تمام چیف سیکریٹری، آئی جی، ڈی آئی جی، ہوم سیکریٹری، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر شامل ہیں۔ جب تک ان حضرات کا سخت احتساب نہیں کیا جاتا اس وقت تک مستقل اور پائیدار امن کی خواہش ادھوری رہے گی اس لئے کوئی بھی طالع آزما سیاستداں "جمہوریت" کے نام پر اور کوئی بھی اعلٰی سرکاری افسر امن و انصاف کے نام پر کسی وقت بھی اپنا کھیل کھیلے کیلئے آزاد رہے گا اس کیلئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ ہی کے حاضر یا سبکدوش جج صاحبان پر مشتمل کم از کم پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے جو اس قدر بااختیار ہو کہ بدامنی کے ذمہ دار اہم افراد کیلئے سزا بھی تجویز کریں اور اپنی رپورٹ ذرائع ابلاغ کے تعاون سے مشتہر کریں۔ اگر ہم خلوص نیت کے ساتھہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک ترقی اور خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو اور ہم دنیا کی باعزت اور خوددار اقوام میں شمار کئے جائیں تو اس کیلئے چند کڑوی گولیاں کھانی ہی پڑیں گی۔

درگاہ حضرت بل کا محاصرہ

)تحریک آزادی کشمیر کا فیصلہ کن مرحلہ شروع ہوگیا۔(

روزنامہ جنگ پیر 8 نومبر 1993ء

28 اکتوبر 1947ء کو کشمیر میں بھارتی فوجوں کی یلغار دوسری عالمگیر جنگ کے شعلوں سے تازہ تازہ جھلسی ہوئی انسانیت کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف اور ان اصولوں کی کھلی توہین اور خلاف ورزی تھی جن اصولوں کو اپنا کر"ہم اقوام متحدہ کے عوام" نے عہد کیا تھا کہ دنیا کو ہمیشہ کیلئے امن و سلامتی اور محبت و یگانگت کا گہوارا بنائیں گے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد بھارتی غالباً دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے عدم جارحیت اور عدم مداخلت کے اصولوں کی دھجیاں بکھیر کر توسیع پسندی کی بدترین مثال قائم کی ۔ کشمیر میں چڑھ دوڑتے وقت بھارت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کے مہاراجہ نے اپنی ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھہ کرلیا ہے اور کشمیر پر "پاکستانی حملہ" کے خلاف فوجی مدد طلب کی ہے لیکن اب یہ بات تقریباً پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس دن بھارت نے کشمیر میں فوج کشی کی اس دن تک مہاراجہ نے نہ تو بھارت سے فوجی امداد طلب کی تھی نہ بھارت کے ساتھہ ریاست جموں کشمیر کے الحاق کی کسی دستاویز پر دستخط کئے تھے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ الحاق کے جس معاہدہ کو بہانہ بنا کر کشمیر پر حملہ کیا گیا تھا وہ معاہدہ ابھی بھارت کے گورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن کے پاکستان دشمن عیار ذہن ہی میں کلبلارہا تھا بعد میں الحاق کی جس دستاویز کے مندرجات سامنے آئے اس میں بھی بھارت کی اپنی شومئی قسمت سے یہ شرط شامل ہوگئی کہ ریاست میں حالات کے معمول پر آنے کے فوراً بعد وہاں کے عوام کی رائے کے مطابق کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا یعنی قطعی عارضی اور وقتی تھا۔

کشمیر کے مستقبل اور پائیدار حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ نے بھی بعد میں عوام ہی کو یہ اختیار دیا کہ وہ آزادانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب رائے کے ذریعہ اپنی سیاست کو پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں، بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اقوام متحدہ کی اس تجویز کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ وہ ریاست میں جلد از جلد ایسے حالات پیدا کرنے میں بھرپور تعاون کریں گے تاکہ عوام اقوام متحدہ کی زیر نگرانی اپنا حق خود ارادیت استعمال کرنے کے قابل ہوسکیں لیکن بھارت کی قیادت جو اپنی فطرت کے مطابق وعدوں اور عہد ناموں سے پھر جانے کی ایک تاریخ رکھتی تھی روس کے حق استرداد کی شہ پاکر کشمیر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کیلئے حیلے بہانے تلاش کرنے لگا اور اس مسئلہ کے پرامن حل کی راہ میں ایسے تاخیری حربے اختیار کئے کہ 1965ء میں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی لیکن پھر اقوام متحدہ بھارت کو اس بات پر تیار نہیں کرسکا کہ وہ منظور کردہ قراردادوں کی روشنی میں تنازعۂ کشمیر کا حل تلاش کرنے میں مدد کرے آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت ان تمام بین الاقوامی معاہدوں اور قراردادوں سے منحرف ہوچکا ہے جن پر عمل کرنے کا اس نے بارہا وعدہ کیا تھا اور یہ سب کچھہ دنیائے اسلام بالخصوص پاکستان کے خلاف اس عالمی سازش کا ایک کلیدی حصہ ہے جو یہود و ہنود نے تیار کی ہے۔

آج ہمارا علاقہ انتہائی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے۔ ایک طرف تو کشمیر کو آگ لگائی جارہی ہے وہاں کے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو قطعی محفوظ نہیں ہے اب تو درگاہ حضرت بل کا تقدس بھی بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں پامال کیا جاچکا ہے اور اس کا مقصد مسلمانان عالم کی توہین کرنا اور کشمیر کے غیرتمند مسلمانوں کو مشتعل کرکے زیادہ سے زیادہ تعداد میں ان کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کرنا ہے تاکہ نوجوانوں پر مزید ظلم و ستم کھلے عام کیا جائے یوں کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑنے والا کوئی نہ بچے اور اس طرح بھارت اپنے خیال میں مسئلہ کشمیر کو مستقل طور پر حل کرلینا چاہتا ہے لیکن بھارت کی یہ بڑی بھول ہے اسے اپنے سرپرست اور مربی اشتراکی روس کا وہ حشر یاد کرلینا چاہئے جس سے وہ افغانستان میں دوچار ہوکر اب تحلیل ہوچکا ہے، ظلم و جبر کسی بھی طور زیادہ عرصے باقی نہیں رکھا جاسکتا۔

علاقہ کی سنگین صورتحال کے باوجود بھارت کے وزیر اعظم نرسمہاراؤ نے پاکستان کی نئی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو مبارکباد دیتے ہوئے بظاہر "جرأت ، حوصلہ مندی اور تدبر" کا ثبوت دیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی وزیر اعظم سے کشمیر سمیت تمام معاملات پر گفتگو کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے تاکہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو معمول پر لایا جاسکے، بھارتی وزیر اعظم کی اس پیشکش کو ہم خلوص اور نیک نیتی ہی پر محمول کرنا چاہتے ہیں لیکن 15 اگست 1947ء کے بعد سے آج تک کے حالات اور واقعات ہمیں یہ سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم کی یہ تجویز دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بیدار ہونے والی رائے عامہ بھی مطمئن ہوجائے اور کشمیریوں کے قتل عام کی کھلی چھوٹ بھی اسے مل جائے ، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ باہمی تنازعات کو حل کرنے کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان گفتگو تو 15 اگست 1947ء ہی سے کسی نہ کسی سطح پر ہمیشہ ہی جاری رہی ہے اور 25 اکتوبر کو بھی دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ قبرص میں ملاقات کرچکے ہیں ۔ اگر بھارت کے وزیر اعظم کشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل میں واقعی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسرے مسائل بھی خوش اسلوبی کے ساتھہ حل کرلئے جائیں اور یہ کہ دونوں ہمسایہ ملک باہمی اعتماد اور دوستی کی فضا میں زندہ رہنے کے قابل ہوجائیں تو یہ قطعی مشکل نہیں ہے بس بھارتی حکومت آج یہ اعلان کردے کہ درگاہ حضرت بل کا محاصرہ اٹھایا اور بھارتی فوج کو مقبوضہ کشمیر سے واپس بلایا جارہا ہے اور یہ کہ چھہ ماہ کے اندر اندر مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کو آزادانہ اور غیر جانبدرانہ استصواب رائے عامہ کے ذریعہ اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے سازگار ماحول پیدا کردیا جائے گا تو سمجھہ لیجئے کہ ہمارے درمیان موجود پچھتر فیصد تنازعات حل ہوگئے اور باقی پچیس فیصد اس دن طے ہوجائیں گے جس دن کشمیری عوام اپنی آزاد مرضی کے مطابق پاکستان یا بھارت کے ساتھہ اپنی قسمت کو وابستہ کرنے کا فیصلہ کرلیں گے۔ بھارتی وزیر اعظم ذرا بھی ہمت و حوصلہ سے کام لیں اور وہ انسانی حقوق کے احترام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرنے کا عہد کرلیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر کا تنازع جسے وہ اس سال اپنے یوم آزادی کے کے موقع پر "چھوٹا سا" مسئلہ قرار دے چکے ہیں حل نہ ہوجائے۔

کشمیر میں انسانی حقوق کو جس بے دردی کے ساتھہ کچلا جارہا ہے اور دنیا اس سلسلے میں جس بے حسی اور لاتعلقی کا ثبوت دے دہی ہے وہ بہت ہی افسوسناک ہے، اس سلسلے میں امریکہ پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے خود اس کے سفیر نے 21 اکتوبر کو کراچی میں کہا تھا کہ "امریکہ انسانی حقوق کے بارے میں سخت موقف رکھتا ہے" لیکن یہ سخت موقف مقبوضہ کشمیر، بوسنیا ار فلسطین کے سلسلے میں کیوں اختیار نہیں کیا جاتا؟ سفیر موصوف نے یہ بھی کہا تھا کہ "ہمارے پاس مسئلہ کشمیر کیلئے کوئی سخت فارمولا نہیں ہے۔" حقیقت یہ ہے کہ اس کیلئے کسی نئے یا سخت فارمولے کو تلاش کرنے کی ضرورت نہٰں ہے۔ اقوام متحدہ نے 1949ء ہی میں اس مسئلہ کا بہت ہی منصفانہ فارمولا تیار کرلیا تھا جسے بھارت اور پاکستان منظور بھی کرچکے ہیں، اگر امریکہ واقعی آزادی اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے تو پھر اسے چاہیے کہ کشمیر کو بھی ہیٹی، صومالیہ اور کویت کی صف میں شامل کرکے علاقہ میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے میں مدد کرے۔

طریقہ انتخاب ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ یا متناسب

روزنامہ جنگ جمعرات 25 فروری 1993ء

1947ء میں ہماری قوم عزم و اتحاد ' بے لوثی' معاملہ فہمی اور جاں نثاری کا پیکر تھی اور آزادی کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی' خوشحالی اور سالمیت اس کے ہدف تھے لیکن چند سال کے اندر ہی معلوم نہیں ہمیں کیا ہوگیا کہ راستے سے بھٹک گئے اور ہر شعبۂ زندگی میں نفاق' مفاد پرستی' اقرباء پروری' بدعنوانی' بددیانتی' لسانی و علاقی عصبیت اور سہل انگاری جیسی لعنتوں کو ہم نے اپنا شعار بنالیا۔ ہم ملک کی بروقت آئین دے سکے نہ آئین کی حفاظت ہی کرسکے حتٰی کہ خود ملک کی یکجہتی تک کو ہم قائم نہ رکھہ سکے نظام حکومت اور طریقۂ انتخاب پر اتفاق رائے تو دور کی بات ہے ہمارے انتشار فکری کی اس سے بری اور کیا مثال ہوگی کی قومی شناختی کارڈ کے خانوں ہی پر قوم یک رائے نہیں ہوسکی ہے۔ صدر مملکت کی طرف سے اظہار خیال کے بعد پھر اس ضرورت کا احساس ہوا ہے کہ نمائندگی کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو ہماری ضروریات اور روایت کے مطابق بھی ہو اور اس میں نقائص بھی کم سے کم ہوں۔

طریقۂ انتخاب کے ضمن میں دنیا کے جمہوری ملکوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھہ ردو بدل کے ساتھہ نمائندگی کے دو طریقے رائج ہیں ایک تو وہ جو ہم نے اختیار کیا ہوا ہے اور دوسرا جو یورپ کے اکثر ملکوں نے اپنایا ہوا ہے ہمارا موجودہ طریقہ ہمیں برطانیہ سے ورثہ میں ملا ہے اور یہ دولت مشترکہ کے بیشتر ملکوں میں رائج ہے۔ کثرت رائے کا اصول تو دونوں طریقوں میں مشترک ہے لیکن ہمارے یہاں اضافی اکثریت کی بنیاد پر امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے جبکہ دوسرے طریقہ میں کامیابی کا انحصار متناسب اکثریت پر ہوتا ہے ہمارے یہاں ایک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حلقۂ انتخاب سے فرد امیدوار ہوتا ہے اور متناسب میں جماعت امیدوار ہوتی ہے اور اس میں حلقۂ انتخاب کثیر رکنیت کے اصول پر مقرر ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں مروجہ طریقۂ انتخاب کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں اکثریت کے بجائے اقلیت کے ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار بالعموم کا میاب قرار پاتا ہے یعنی متعلقہ حلقہ میں ناکام امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی مجموعی تعداد کامیاب امیدوار کے ووٹوں سے زیادہ ہوتی ہے اور اس طرح حلقہ کی اکثریت نمائندگی کے حق سے عملاً محروم رہ جاتی ہے یہ اس طریقہ کی کرشمہ سازی ہے کہ 1990ء کے عام انتخابات میں آئی جے آئی اور پی ڈی اے کے درمیان ووٹوں کا فرق تو صرف تین لاکھہ کے قریب تھا لیکن آئی جے آئی کے ایک سو سے زائد اور پی ڈی اے کے صرف 45 امیدوار ہی کامیاب ہوئے۔ اگر ہمارے یہاں مروجہ طریقۂ انتخاب کو خامیوں اور نقائص سے پاک کرنے میں مخلص ہیں تو یہ کام بہت آسان ہے لیکن اس کیلئے پہلی شرط تو یہ ہے کہ امیدوار کی اہلیت کا جو معیار آئین میں مقرر ہے اس پر سختی کے ساتھہ عمل کیا جائے تاکہ بلا روک ٹوک ہر شخص انتخابی دوڑ میں شریک نہ ہوسکے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ امیدوار کے کم سے کم ووٹ حاصل کرنے کی حد تقریباً 20 فیصد مقرر کی جائے اور جو امیدوار ووٹوں کی مطلوبہ تعداد حاصل نہ کرسکے اس کی صرف ضمانت ہی ضبط نہ کی جائے بلکہ اس پر یہ پابندی بھی عائد کی جائے کہ وہ آئندہ کم از کم چھہ سال تک کسی بھی انتخاب میں حصہ نہ لے سکے اگر کسی حلقۂ انتخاب میں کوئی امیدوار قطعی اکثریت یعنی ڈالے گئے ووٹوں میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر پائے تو اس حلقہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان پھر انتخاب کروایا جائے اور جو بھی زیادہ ووٹ حاصل کرے اسے کامیاب قرار دیا جائے۔

یک رکنی حلقہ ہائے انتخاب کا طریقہ ان ملکوں میں زیادہ کامیاب رہتا ہے جہاں دو جماعتی نظام مروج ہو ہمارے یہاں تو جماعتوں کی بھرمار ہے اس لئے اگر ہم کثیر رکنی حلقہ ہائے انتخاب کو اختیار کر لیتے ہیں تو اس کے اور بھی فائدے ہیں جن کا ذکر آگے آئے گا لیکن یہ طریقہ بالعموم متناسب طریقۂ انتخاب کا حصہ ہے جہاں تک جماعتی وفاداریاں بدلنے کا تعلق ہے تو اس کا تدارک بھی صرف قواعد و ضوابط پر سختی کیساتھہ عمل کرنے ہی سے ممکن ہے البتہ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ عام انتخابات میں بھاری اخراجات سے کس طرح بچا جائے تاکہ غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا اہل امیدوار بھی ان میں حصہ لے سکے۔

متناسب نمائندگی کے طریقۂ انتخاب کو اگر ہم اختیار کرتے ہیں تو اس کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ جماعتی وفاداریاں کی خرید و فروخت کی لعنت سے ہمیں چھٹکارا مل جائے گا۔ علاوہ ازیں اس طریقۂ انتخاب میں انتخابی حلقے یک رکنی یعنی محدود نہیں بلکہ کثیر رکنی یعنی بہت وسیع ہوتے ہیں اس لئے ہر قسم کی عصبیتوں سے ہمیں نجات مل سکتی ہے اس لئے کہ ایسی صورت میں جماعت یا امیدوار کو مختلف طبقوں اور علاقوں کی ترقی اور خدمت کی بات کرنی ہوگی اسے اپنی سوچ کو وسعت دیکر ہر شخص تک محبت اور الفت کا پیغام پہنچانا ہوگا کسی علاقائی یا لسانی طبقہ یا کسی برادری کے خلاف بات کرنے سے اجتناب برتا جائیگا مختلف علاقوں کا دورہ کرنا پڑے گا یہی باتیں عصبیت کے دیواتاؤں کی موت ثابت ہوں گی جس کی آج بالخصوص سندھ کو شدید اور فوری ضرورت بھی ہے کثیر رکنی حلقے ہونے کی بناء پر دھونس اور دھاندلی کے امکانات بھی بڑی حد تک کم ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ہمارا انتخابی نظام ہر قسم کی بدعنوانیوں سے پاک ہوجائے گا البتہ اس نظام کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ صوبوں کی تشکیل نو اس طرح کی جائے کہ یہ تعداد تقریباً 20 ہوجائے۔

متناسب طریقۂ انتخاب کے سلسلہ میں خرابیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے ان میں (1) پارٹی لیڈر کا مختار کل بن جانا۔ (2) چھوٹی بڑی عصبیتوں کا فروغ اور (3) غیر مستحکم اور مخلوط حکومتوں کا قیام، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

پارٹی لیڈر کے اختیارات

کہا جاتا ہے کہ متناسب نمائندگی کے طریقہ میں پارٹی لیڈر کو بے پناہ اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں اور وہ کسی بھی شخص کو نمائندہ مقرر کرسکتا ہے اس بناء پر نشستوں کا نیلام عام بھی کیا جاسکتا ہے وغیر ہم۔ لیکن ہمارے لئے یہ تو ضروری نہیں کہ کسی نظام کو اسکی خامیوں اور خرابیوں کے ساتھہ جوں کا توں اختیار کریں ہم یہ پابندی بھی لگا سکتے ہیں کہ انتخاب میں حصہ لینے والی جو جماعت انتخاب سے پہلے اپنے امیدواروں کی ترجیحی فہرست الیکشن کمیشن کو پیش کرے تاکہ آئین کے تقاضوں کے مطابق ہر امیدوار کے بارے میں چھان بین بھی کی جاسکے اس شرط کا یہ فائدہ ہوگا کہ رائے دہندگان کے سامنے جماعت کے ساتھہ اس کے امیدوار بھی ہونگے تاکہ امیدوار کی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھہ کر وہ کسی پارٹی کو ووٹ دے سکیں۔ انتخاب کے بعد کسی جماعت کی کوئی نشست خالی ہوتو اسی فہرست سے نمائندہ لے لیا جائے گا اس طرح نہ تو نشستوں کی تجارت ممکن ہوگی نہ غیر مستحق افراد ایوان میں پہنچ پائیں گے۔

عصبیتوں کا فروغ

اس خدشہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے کہ حلقہ انتخاب وسیع اور کثیر رکنی ہوگا اس لئے چھوٹی چھوٹی برادریاں اور چھوٹے چھوٹے طبقے بھی ایک دو اراکین کو ایوان میں بھیجنے میں کامیاب ہوجائیں گے جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ قوم مزید انتشار کا شکار ہوجائے گی اور اس طرح مختلف قسم کی عصبیتں فروغ پا کر قومی اتحاد اور سوچ کو پارہ پارہ کردیں گی لیکن اس کا توڑ یہ ہے کہ کم از کم چھہ سال تک کسی بھی انتخاب میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد کردی جائے اس طرح آہستہ آہستہ ملک سے علاقائی اور چھوٹی پارٹیوں سے بھی نجات مل جائے گی۔

غیر مستحکم حکومتیں

قطعی اکثریت رکھنے والی جماعت کی حکومت قابل ترجیح ضرور ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایسی حکومت مستحکم بھی ہو اور اس کا مظاہرہ سندھ اور پھر مشرقی پاکستان اسمبلی میں بار بار ہوتا رہا تھا جنرل ڈیگال سے پہلے فرانس بھی غیر مستحکم حکومتوں کیلئے مشہور تھا مخلوط حکومتیں بھی مستحکم حکومتیں ثابت ہوتی ہیں۔ آج بھارت میں اقلیتی حکومت قائم ہے غیر مستحکم حکومتیں وہاں ہوتی ہیں جہاں رائے عامہ غیر منظم ہو اور عوامی نمائندے نظم و ضبط اور جماعتی وفاداریاں کے بجائے مفاد کے بندے بن جاتے ہوں یا جہاں تحریص و تخویف کو بھی حکمرانی کے اصولوں کی حیثیت حاصل ہو جن ملکوں میں اصول اور اخلاق کو مقدم سمجھا جاتا ہے وہاں تو صرف ایک رکن کی اکثریت کے ساتھہ برسوں حکومت چلائی جاسکتی ہے لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مخلوط حکومتوں کا غیر مستحکم ہونا یقینی امر ہے اور اس کا تدارک چند قانونی پابندیوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے پہلی تو یہ کہ انتخاب میں حصہ لینے والی ہر جماعت کیلئے لازمی ہو کہ وہ اپنا منشور جاری اور اسکی نقل الیکشن کمیشن کو فراہم کرے دوسری یہ کہ حکومت سازی کی دعوت ایوان میں اکثریت رکھنے والی جماعت ہی کو دی جائے۔ اگر وہ جماعت حکومت کی تشکیل میں ناکام رہے تو دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت سے اس سلسلہ میں رجوع کیا جائے اگر کسی وقت کوئی بھی جماعت حکومت بنانے میں ناکام رہے تو ایسی صورت می انتخابی عمل کو دہرایا جائے لیکن اس مرتبہ صرف پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی تین جماعتوں ہی کو اس میں حصہ لینے کا حق حاصل ہو مخلوط حکومت میں شامل ہونے والی جماعتوں کیلئے یہ بھی ضروری ہو کہ وہ ایک مشروط منشور پر متفق ہوں اور اس سلسلہ میں باقاعدہ معاہدہ کیا جائے جسے الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ کروایا جائے معاہدہ کی خلاف ورزی یا حکومت کے کام میں رکاوٹ ڈالنے والی جماعت کے خلاف کاروائی میں ایسی جماعت کو چھہ سال کیلئے کسی انتخاب میں حصہ لینے سے روکنے کی گنجائش بھی رکھی جانی چاہئے انتخابات کے بعد ایوان کے اکثریتی اراکین کی حمایت یافتہ حکومت جب قائم ہوجائے تو یہ پابندی بھی ہو کہ کم از کم ایک سال تک اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش نہیں کی جاسکے پہلی بار پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کے بعد یہ پابندی دو سال کیلئے ہو۔

آئین میں ایک فرد' ایک ووٹ کی ضمانت ضرور دے گئی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے اس لئے کہ ملک بلکہ ایک صوبہ کے اندر بھی کچھہ حلقہ ہائے انتخاب تو ایسے ہیں جن میں رائے دہندگان کی تعداد بمشکل ایک لاکھہ ہے لیکن چند حلقے ایسے بھی ہیں جو کئی لاکھہ رانئے دہندگان پر مشتمل ہیں اور اس طرح انصاف، مساوات اور آئین کے تقاضوں کی نفی ہوتی ہے۔ متناسب طریق انتخاب کے ذریعہ بڑی حد تک اس کا تدارک ممکن ہے۔

آزاد، خودمختار اور مہذب معاشرہ میں فرد یا جماعت پر قانونی پابندیوں کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن سطور بالا میں چند پابندیوں کی جو تجاویز پیش کی گئی ہیں ان کے پیچھے یہ اصول کار فرما ہے کہ صحت یابی کیلئے مریض کو کڑوی گولیاں بھی پابندی کے ساتھہ کھانا پڑتی ہیں اسی طرح زوال پذیر معاشرہ کو سہارا دینے اور جسد سیاست کو لاحق خطرناک امراض سے نجات دلا کر اسے صحت مند اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم خود پر چند برسوں کیلئے پابندیاں عائد کرلیں ہماری ترقی ، خوشحالی اور عظمت کا راز اور ہماری نسلوں کے شاندار مستقبل کی ضمانت اس میں مضمر ہے۔ بہرحال قوم کے دانشور حضرات پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کیلئے جامع، قابل عمل اور ہر قسم کی خامیوں سے پاک نظام حکومت اور طریقۂ انتخاب وضع کریں۔

قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب کون؟

روزنامہ جنگ ہفتہ 22 جون 1991ء

لاہور میں 17 جون کے ایک واقعہ کے پس منظر میں پنجاب کے وزیر اعلٰی نے فوری کاروائی کی جس کے نتیجہ میں انسپکٹر جنرل پولیس کا تبادلہ ٹریفک پولیس لاہور کے سپرنٹنڈنٹ کی معطلی اور ٹریفک پولیس کے ایک اے ایس ائی کی گرفتاری عمل میں آئی۔ ملک میں اپنی نوعیت کا غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی وقت ضائع کئے بغیر اس قسم کا فیصلہ کیا گیا اور یہ امر اس بات کو ثبوت ہے کہ اگر حکمراں واقعی کچھہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ بڑے سے بڑا فیصلہ فوراً کرسکتے ہیں ورنہ تو صدیاں بیت جاتی ہیں لیکن زلف یار پھر بھی سر نہیں ہوپاتیں۔ اس واقعہ میں کاروں کے شیشوں پر سیاہ کاغذ لگانا غیر قانونی ہے اور مزید یہ کہ واقعہ میں ملوث رکن اسمبلی کی گاڑی پر ایسے شیشے لگے ہوئے تھے جس کی بناء پر اے ایس آئی مذکور اسے روک کر چالان کرنا چاہتا تھا جس پر صوبائی اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش ہوئی، ایوان میں شرم شرم کے نعرے بلند ہوئے اور حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین ایوان سے ایک ساتھہ باہر چلے گئے، صوبائی وزیر اعلٰی نے بعد میں کاروائی کا فیصلہ کیا ' موصوف کا یہ فیصلہ اپنے پہلو میں غور و فکر کے علاوہ امید اور مایوسی اور اطمینان و تشویش کے کئی نکتے بھی رکھتا ہے جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے اس لئے بھی کہ اس فیصلہ کا تعلق براہ راست ملک میں قانونی کی حکمرانی، امن و امان اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے بھی ہے۔

اگر قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ گاڑیوں کے شیشوں کو اس طرح سیاہ کرلیا جائے کہ باہر سے بیٹھے ہوئے نظر نہ آئیں لیکن اندر بیٹھے ہوئے باہر سب کچھہ دیکھہ لیں تو پھر مذکورہ گاڑی پر ایسا کیوں تھا اور اگر ایسا تھا تو کیا سرکاری گاڑیاں یا اراکین کی اسمبلی کی گاڑیاں اس پابندی سے مستشنٰی ہیں اگر ایسا ہے تو یہ بات عدل و مساوات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے ایسا قانون اس لئے بھی ناقص قرار پائے گا کہ اس سے امن و امان اور جان و مال کے دشمن بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں' سرکاری گاڑیاں عموماً ڈرائیور ہی چلاتے ہیں پھر سندھ کی طرح یہ جرائم پیشہ لوگ گاڑیاں چھین کر بھی انہیں استعمال کرسکتے ہیں ایسی صورت میں اس پابندی کا مقصد جو جرائم پر قابو پانا ہے فوت ہوجاتا ہے ویسے بھی اس قسم کا استشنا اراکین اسمبلی کا استحقاق نہیں ہونا چاہئے ' واقعات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی گاڑی کو اس کی اجازت نہیں ہے ایسی صورت میں یہ جاننے کے باوجود کے گاڑی کسی رکن صوبائی اسمبلی کی ہے اسے روک کر مذکورہ اے ایس آئی کا چالان کرنے کا اصرار قابل تعریف ، توصیف اور انعام کا مستحق تھا نہ کہ توہین و تضحیک اور سزا کا۔ اس نے یہ سوچے بغیر کہ وہ کس کے خلاف کاروائی کر رہا ہے دیانت اور جرأت کا مظاہرہ کیا تھا اور وہ اس سلوک کا ہر گز مستحق نہیں جو اس کے ساتھہ روا رکھا گیا اس ایک واقعہ سے قدم قدم پر قانون کی خلاف ورزیوں کے ہزاروں دروازے کھل جائیں گے جس کا فائدہ صرف قانون شکنوں ہی کا پہنچے گا اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ گاڑیوں کے نمبر بدلنا یا ان پر سرکاری گاڑی ہونے کی علامتی تختی لگانا کوئی مشکل نہیں۔

اس واقعہ سے تشویش اور مایوسی کا یہ پہلو سامنے آتا ہے کہ قانون شکن اب زیادہ حوصلہ مند ہوں گے اور وہ اہلکار جو دیانت اور خلوص کے ساتھہ اپنے فرائض منصبی ادا کرنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ہر اصلی اور جعلی بڑا آدمی قانون کی دسترس سے بالا ہوجائے گا' صوبہ سندھ تو اس آگ میں جل رہا ہے افسوس ہے پنجاب میں بھی اس کا آغاز ہونے کو ہے۔ اراکین اسمبلی نے جس جوش و خروش اور مکمل اتفاق اور ہم آہنگی کا مظاہرہ ایک رکن اسمبلی کے ساتھہ مبینہ زیادتی پر کیا ہے اس میں بھی تشویش کا یہ پہلو مضمر ہے کہ اس طرح من مانے فیصلے کروانا بہت آسان ہوجائے گا اور انتظامیہ کے اراکین اب بڑوں کے سامنے جی حضوریئے اور عوام کے ساتھہ فرعونئے کا کردار اختیار کرلیں گے ' سزا اور جزا کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ فریقین کو سنا جائے ایک فریق کو سن کر دوسرے کو سزا دینا ظلم و زیادتی کے مترادف ہے قاتل اور باغی کو بھی سنا جاتا ہے لیکن چالان کرنے کی کوشش کرنے والے کو اس بنیادی حق دیئے بغیر سزا دینا انصاف کا خون اور اس کے اس بنیادی حق کے خلاف ہے جو آئین اسے دیتا ہے۔

پنجاب کے تھانے بہت شہرت یافتہ ہیں وہاں معصوم بچیوں، بے گناہ خواتین اور بوڑھے مردوں کے ساتھہ جو کچھہ ہوتا ہے آئے دن اخبارات ان کی خبریں دیتے رہتے ہیں لیکن اسمبلی کے اراکین نے آج تک ان معاملات کے بارے میں پرزور آواز اٹھائی نہ متاثرین کے ازالہ کے لئے کبھی کوئی کوشش کی جبکہ ملک کا قانون، آئین اور دین سب یکساں حقوق اور مراعات دیتا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے قیام میں جتنی قربانیاں عام اور غریب لوگوں نے دی ہیں مراعات یافتہ اور اونچے طبقہ نے اس کا عشر عشیر بھی اس کے لئے نہیں کیا ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ملک کسی خاص طبقہ کے لئے نہیں قائم ہوا اس میں تو غریبوں اور مظلوموں کا حق زیادہ ہے اس لئے کہ جو شخص مظلوم ہے وہ تو خلیفہ وقت کے سامنے بھی قوی تر تھا ' اراکین اسمبلی کے اس قدم سے یہ امید البتہ بندھی ہے کہ وہ عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے اور معمولی دیہاتی پر ظلم کے خلاف بھی اسی طرح ایک آواز ہوجائیں گے تاکہ کوئی حکومت زیادتی کی اجازت دینے کے قابل نہ رہے۔

وزیر اعلٰی پنجاب کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ "اس افسوسناک واقعہ میں صرف اس اے ایس آئی کا ہی قصور نہیں بلکہ آرگنائزیشن کی تربیت کا قصور ہے" لیکن آرگنائزیشن کے ڈھانچہ اور اس کی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری تو حکمرانوں ہی پر عائد ہوتی ہے۔ ہمیں آزاد ہوئے 44 سال ہونے کو آئے لیکن ہم نے کسی بھی ادارہ یا آرگنائزیشن میں اس بنیادی تبدیلی کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جو ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی مملکت کا تقاضا ہے ' یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ برسراقتدار آنے والی حکومت ہر ادارے کو اپنے جماعتی یا گروہی مفادات کے لئے استعمال کرنے ہین پر اکتفا کرتی ہے یا پھر اپنی پیشرو حکومتوں کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے کر خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتی ہیں ' یہ خطرناک رجحان ہے جس میں فوری اور یکسر تبدیلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ہر سطح کے سرکاری ملازمین کی سوچ میں ایسی تبدیلی لانی ہوگی جو مسلم معاشرہ کے شایان شان ہو۔ قائد اعظم نے 25 مارچ 1948ء کو سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ "مجھے معلوم ہے کہ قدیم روایت ، قدیم ذہنیت، قدیم نفسیات ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور ان سے نجات پانا آسان نہیں لیکن اب یہ آپ کا عین فرض ہے کہ اس وزیر یا اس وزارت کی خفگی مول لیکر بھی جو آپ کے فرائض کی انجام دہی میں مداخلت کرتا ہے، عوام کے لئے خادم کی حیثیت میں کام کریں" بابائے قوم کا یہ پیغام سیاستدانوں کے لئے بھی ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کے ڈھانچہ کو بدلیں اور دیانتدار انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کریں۔

ہمارے ذہن میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت، دہشت گردی اور مجرمانہ سرگرمیوں کا واحد سبب قانون کا دہرا معیار اور معمولی باتوں کو نظر انداز کرنا ہے' اب لوگوں کو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ قانون صرف طاقتور ہی کا ساتھہ دیتا ہے تو پھر ہر شخص طاقتور بننے کی کوشش میں کلاشنکوف سے مسلح ہوتا ' گروہ بناتا ہے اور بینک ڈکیتیوں کے ذریعہ دولتمندوں میں شامل ہوکر قانون کو اپنے پاؤں تلے کچل ڈالتا ہے ' طاقتور بننے کے شوقین حکمراں جماعتوں یا اعلٰی افسروں کی کاسہ لیسی کرکے بھی یہ مقصد حاصل کرلیتے ہیں ایسا معاشرہ زیادہ عرصہ کھڑا نہیں رہ سکتا وہ شکست دریخت کا شکار ہوکر جلدی زمین بوس ہوجاتا ہے۔

اس سے قبل چند برس پہلے ایک صوبائی وزیر کو ایئر پورٹس سیکورٹی فورس کے ایک جوان نے جب ممنوعہ علاقہ میں داخل ہونے سے اس بناء پر روک دیا تھا کہ ان کے پاس اس کا اجازت نامہ نہیں تھا تب بھی بڑا شور اُٹھایا گیا تھا اور اس سے بھی پہلے ملتان کے ہوائی اڈے پر ایک بزرگ سیاسی رہنما کی تلاشی لینے کی کوشش کی گئی تھی تب بھی بڑا واویلا مچایا گیا تھا ' اب بھی کسی کو وی آئی پی لاؤنج وغیرہ میں جانے سے روکا جاتا ہے تو شور مچتا ہے حالانکہ قانون تو ہر شخص کی حفاظت کے لئے ایک ڈھال کے طور پر ہوتا ہے اس کی پابندی سے سب ہی کو فائدہ پہنچتا ہے اس لئے ملک کے عوام اور خواص سب کا فرض ہے کہ وہ ہوائی اڈوں، بس کے اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں، جلسے جلوسوں ، گلیوں اور سڑکوں ، مدرسوں اور مسجدوں، کارخانوں اور بازاروں ہر جگہ قانون کی پابندی کرکے خود کو محفوظ و مامون بنالیں لیکن اگر ہم نے اس کی خلاف ورزی کی تو یہ ڈھال کمزور ہوکر ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور ہم ہر لحاظ سے غیر محفوظ ہوکر رہ جائیں گے پھر ہم اصلاح احوال کرنا بھی چاہیں گے تو بھی نہیں کر پائیں گے اس لئے آج ہی ہم کیوں نہ پھنسی کو پھوڑا اور پھوڑے کا سرطان کی طرح ناقابل علاج بننے سے روک دیں۔