بھارت سے دوستی کا تصور

روزنامہ جنگ جمعۃ المبارک 9 دسمبر 2005ء

بھارت کے ساتھ امن دوستی کی خاطر اپنے اصولی مؤقف اور بڑی حد تک قومی مفادات سے دستبرداری اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بیشمار قربانیاں ہماری قومی اور عزت و وقار کی علامت کی بجائے ایسی کمزوری بن گئی ہیں کہ ہر ایرا غیرا بڑی سے بڑی گالی سے ہمیں نوازتے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا، خاص طور پر بھارت سے آنے والے ہمارے محترم اور مہربان دوست جن میں وزیر، سیاستدان ، صحافی، دانشور، وکیل، سماجی کارکن، تاجر، سرکاری اہلکار، فلمی ستارے حتی کہ ناچنے گانے والے بھی کبھی پاک بھارت سرحد کو نفرت کی دیوار قرار دے کر اسے تحلیل کرنے کی بات کرتے ہیں اور کچھہ ایسے بھی ہیں جو ان سرحدوں کو سرے سے تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیتے ہیں۔ بھارت سرکاری سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی، ان کی تربیت اور سرحد پار ان کی دراندازی کا الزام لگانے سے آج تک باز نہیں آیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بھارتیوں کے اسی بڑے پن کو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ جو بھی کہنا چاہتے ہیں ہماری اپنی پاک سرزمین پر آکر وہ ہمارے کندھوں پر سوار ہوکر کہتے ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت گزارنے کے ساتھہ ساتھہ ہمارے سلسلے میں بھارت سرکار اور بھارتی عوام کے رویہ میں بڑی نمایاں تبدیلی آگئی ہے شروع میں ہر سطح پر اکھنڈ بھارت کی بات کھلم کھلا کی جاتی تھی اس وقت " ایک دھکا اور دو پاکستان توڑ دو" کا نعرہ وہاں بہت مقبول تھا جلسے، جلوسوں کی رونق بڑھانے اور اپنے دل کو بہلانے کی خاطر یہ نعرہ اکثر لگایا جاتا تھا لیکن اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان دن بند مضبوط ہوتا گیا یہاں تک کے اکھنڈ بھارت کا خواب چکنا چور ہوگیا اور دھکا دینے کی کوشش کرنے والوں کے ہاتھہ اور کندھے بھی ٹوٹنے لگے تو وہ سفارتکاری کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے اور اکھنڈ بھارت کی بجائے مشترک تہذیب و ثقافت اور مشترکہ تاریخ کی بات کی جانے لگی، گو الفاظ و معنی میں کوئی تفاوت نہین لیکن آخر الذکر یعنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کو مشترک قرار دینے سے بے پایاں محبت اور الفت جھلکتی تھی یہی سبب ہے کہ پاکستان میں بھی چند ایسے نادان دانشور، مورخ، اور کالم نگار مل گئے جو بڑھ چڑھ کر ان خیالات کی تائید میں سامنے آگئے یہی نہیں بلکہ یہ لوگ یہ ثابت کرنے لگ گئے کہ قائد اعظم اسلام سے آزاد سیکولر پاکستان چاہتے تھے لیکن مولویوں نے ساز باز کرکے اس مملکت کو پہلے اسلامی اور پھر جمہوریہ قرار دلوادیا ایسا لکھنے ہوئے وہ اس کا جواب نہیں دیتے کہ سیکولر پاکستان کی وجہ ضرورت ہی کیا تھی؟ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام کیوں کیا گیا؟ ان کو ہجرت پر کیوں مجبور کیا گیا؟ کیوں مسلمان خواتین کی پنجاب میں وسیع پیمانے پر بے حرمتی کی گئی؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ سیکولر پاکستان کی بات کرنے والوں کو پختہ یقین ہے کہ وہ غلط ہیں لیکن غیر ملکی اور خاص طور پربھارتی ذرائع ابلاغ میں جگہ پانے کے شوق میں وہ ایسا لکھہ رہے ہیں۔ یہ بڑے دکھہ کی بات ہے کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی بعض اوقات اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں وہ ہمارے قومی وقار کے منافی دیئے گئے بیانات کا جواب دینے کی بجائے وسیع پیمانے پر ان کی تشہیر کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ ہر پاکستانی بھارت کے ساتھہ دوستی اور تجارت کا خواہاں ہے۔ آمدورفت میں بھی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ راقم الحروف کے ماموں، بھتیجے اور دیگر کئی عزیز و اقارب آج بھی بھارت کے شہری ہیں لیکن وہ آزاد ملکوں کے تعلقات برابری کی بنیاد ہی پر قائم ہونے چاہئیں۔ تنازع کشمیر کے سلسلے میں ہر بھارتی کہتا ہے کہ سرحدوں کی تبدیلی سے ماورا اس کا کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے لیکن جو بین الاقوامی سرحد ہے اسے ماننے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان کے حکمران جو چاہیں کہتے رہیں اس ملک کے عوام بھارت کی بالادستی تسلیم کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے اگر ایسا ہی کرنا ہوتا تو ہم ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی خاطر لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرواتے نہ لٹ پٹ کر ہجرت کرتے نہ ہماری بہو، بیٹیاں درندگی کا شکار ہوتیں۔ ہماری طرف دوستی کا ہاتھہ بڑھانے والوں کو اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ پاکستان کی سرحدیں بھارت سے ملتی ہوں یا چین سے ، افغانستان سے ملتی ہوں یا ایران سے ہر صورت میں یہ مقدس سرحدیں ہیں اس لئے کہ یہ کسی لادین یا سیکولر ملک کی نہیں ایسی مملکت کی سرحدیں ہیں جس کے قیام کا واحد مقصد اسلامی نظام کا نفاذ تھا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ خود بابائے قوم اس سلسلے میں کیا فرماتے ہیں 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن میں تقریر کرتے ہوئے قائد اعظم نے واضح الفاظ میں بتادیا تھا کہ "میں ان لوگوں کی بات نہیں سمجھہ سکتا جو دیدہ و دانستہ اور شرارتاً یہ پروپیگینڈہ کرتے رہتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا اسلام کے اصول عام زندگی میں آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہوچکے ہیں یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی خوف اور ڈر نہیں ہونا چاہئے اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے ہر شخص سے انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ اسلام کا بنیادی اصول ہے۔"

اسلام اور مغرب

روزنامہ جنگ 12 جون 2005 ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک امریکی ٹیلیویژن کی کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ مغرب میں عام طور پر اسلام کو دو انتہائوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے بعض وقت یا تو انتہا پسندوں کو پیش کیا جاتا ہے یا پھر حد سے زیادہ آزاد خیال لوگوں کو پیش کیا جاتا ہے جو اپنی ہی ثقافت کے خلاف بولتے ہیں اور ایسا کبھی کبھی مغروب کو خوش کرنے کیلئے کیا جاتا ہے ان خیالات سے نہ صرف یہ کہ اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ بین السطور یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ مغرب خود یہ نہیں چاہتا ہے کہ وہاں اسلام کو اس کے اصل روپ میں پیش کرکے وہاں موجود بدگمانیوں کو دور کیا جائے اور اس کی وجہ غالباً یہ خوف معلوم ہوتا ہے کہ اگر مغرب کے عام لوگوں نے اسلام کی حقیقت کو سمجھہ لیا تو ایک طرف تو وہاں اسلام کے فروغ میں مزید تیزی آجائے گی اور دوسری طرف دہشت گرد قرار دیکر مسلمانوں کو قتل عام اور ان کے ملکوں کی اینٹ سے اینٹ بجا کر تباہ و برباد کرنے اور انہیں غلام بنانے کا جواز ختم ہوجائے گا۔ جبکہ امریکی صدر جارج بش نے 11ستمبر2001ء کے بعد واضح اور غیر فبہم الفاظ میں طویل صلیبی جنگ کا اعلان کرکے مسلمانوں کے خلاف اپنے ایجنڈے کا راز فاش کردیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ماضی میں صلیبی جنگوں کا آغاز گیارہویں صدی کے آخر میں ہوا اور تیرہویں صدی کے آخر میں مسلمانوں کی فتح مبین کے ساتھہ اختتام پذیر ہوا یعنی یہ جنگیں دو صدیوں تک وقفے وقفے سے جاری رہیں۔ جنرل پرویز مشرف، شوکت عزیز، ڈاکٹر عبداللہ بداوی اور دیگر مسلمان حکمراں مسلم مفکروں، دانشوروں اور ذرائع ابلاغ پر زور دیتے رہتے ہیں کہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات یعنی امن، رواداری، روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے نظریئے کو پیش کر کے مغرب میں پائی جانے والی منفی سوچ بدگمانیوں اورغلط تصورات کے ازالے کی منظّم اور اجتماعی کوشش کریں صدر پاکستان تو اعتدال پسند اور روشن خیال اسلام اور ترقی پسند مسلمان کی اصطلاحات اندرون اور بیرون ملک اکثر استعمال کرتے رہتے ہیں لیکن مغرب کے کسی بھی حکمراں نے آج تک ان کی اس بات کو تسلیم ہی نہیں ہے کہ اسلام دہشت گردی کا دین نہیں ہے ویسے حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے آگے پیچھے کسی قسم کے تعریفی یا توصیفی الفاظ لگانے کی قطعاً کوئی ضرورت ہے نہ گنجائش، اس لئے کہ خود اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کا نام دیا اور رواداری اور، امن پسندی اور احترام آدمیت اس کا جزولانیفک ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی "پانی کا سمندر" کہے یا "لکھنے کا قلم" ویسے بھی کتنا ہی زور لگا دیا جائے، کتنی ہی دلیلیں پیش کردی جائیں، کتنے ہی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر شہر یا عقوبت خانوں کو آباد کرنے کیلئے ان کو امریکہ کے حوالے کردیا جائے مغرب خاص طور پر یہودی اور عیساءی دنیا کا قائد امریکہ ہر گز یہ مان کر نہیں دے گا کہ مسلمان انتہا پنسد دہشت گرد اور رجعت پسند نہیں ہیں۔ یہ راقم الحروف کا محض قیاس نہیں بلکہ خود خالق کائنات کا فیصلہ ہے۔ قرآن حکیم میں وہ فرماتا ہے"اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟ ایک اور جگہ ارشاد ہے۔"مسلمانو! تمہیں مال اور جان دونوں کی آزمائش پیش آکر رہیں گی اور تم اہل کتاب اور مشرکین سےبہت سی باتیں سنو گے۔" یہ اور اس قسم کی درجنوں خبروں کے باوجود بھی اگر ہم میں سے کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو اسلام کی حقیقت کو تسلیم کرانے میں کامیاب ہوجائے گا تو گویا وہ خود کو اللہ تعالیٰ سے بھی بڑا دانا اور حکیم سمجھتا ہے نعوذ باللہ۔ بہتوں کے لئے یہ بات ہضم کرنا شاید ممکن نہیں ہو کہ اسلام اور مسلمانوں کی حقیقت کیا ہے عیسائی اور یہودی علماء اور دانشور ہم میں سے اکثر کے مقابلے میں زیادہ جانتے ہیں اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام تو محض صلیبی سازش کا ایک حصہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہم مسلمانوں میں سے بھی کچھہ لوگ اس کا کل پرزہ بننے کی فاش غلطی کربیٹھے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو یہ تکلیف وہ حقیقت سامنے آئے گی کہ دہشت گردی کے نام پر شروع کردہ صلیبی جنگ کا نشانہ ماضی کی طرح آج بھی صرف ایسے جوان بنائے جارہے ہیں جو اسلام کی فہم زیادہ رکھتے اور اس اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ عالم اسلام آج پھر انتہائی عدم استحکام اور غیریقینی کیفیت کا شکار ہے۔ صاحبان بصیرت یہ بات غلط نہیں کہہ رہے کہ ہمارے لاکھہ دعوئوں کے باوجود پاکستان کی عزت و وقار اور اس کی سالمیت و آزادی آج سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ہے، یہ قابل فخر نہیں بلکہ باعث تشویش ہے کہ امریکہ جنرل پرویز مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب سے زیادہ قابل اعتماد حلیف قرار دے لیکن پاکستان کو القاعدہ کا سب سے بڑا ٹھکانہ، مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کیلئے تربیتی کیمپوں کا ذمہ دار بھی گردانتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جوہری اثاثوں کے سلسلے میں بھی مسلسل یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمارے یہ اثاثے غیر محفوظ ہاتھوں میں ہیں جو کسی وقت بھی انتہا پسندوں کے ہاتھہ لگ سکتے ہیں۔ آزاد اور خود مختار ملک کے حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ محدود مفادات اور ذاتی پسند اور ناپسند سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کے مفادات کو فوقیت دیں۔ فیصلے کرتے وقت اگر ہم نے مشاورات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی واضح ہدایت کو نظر انداز کردیا تو تباہی و بربادی اور ذلت اور رسوائی کو اپنے لئےمقدر کرنے کے ذمہ دار ہونگے اور تاریخ ہمیں نشان عبرت کے طور پر یاد رکھے گی۔ اگر ہم تاریخ میں زیادہ دور جانا نہیں چاہتے تو زیادی سے زیادہ چھہ عشروں ہی پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر دیکھہ لیجئے قرآن کی یہ بات بلا خوف تردید ثابت ہوجائے گی کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے وہ تو آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ فلسطین میں یہودی اور عیسائی وہاں کی اصل آبادی مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر قتل کرنے اور اپنی سرزمین سے ہجرت پر مجبور کردیتے ہیں ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں، بھارت کے مقابلے میں عیسائیوں نے مسلمانوں کوکھلی ناانصافیوں کا نشانہ بنا کر پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا۔ لبنان کی خانہ جنگی کے دوران عیسائی اور یہودی لاکھوں مسلمانوں کی اذیت ناک ہلاکت اور ان کو تباہ کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھی تھے اس سے پہلے مصر پر حملہ کرکے اسرائیل کے مقابلے میں اسے کمزور کرنے میں ان کا کردار واضح ہے۔ خود ہمارے ساتھہ امریکہ نے کیا کیا ہے ان میں سے چند کا ذکر تو خود جنرل پرویز مشرف نے مذکورہ بالا کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کردیا لیکن اور بھی بہت کچھہ ہے جو کہا نہیں گیا۔ یہودی اور عیسائی حکمرانوں ، دانشوروں اور مفکروں کا کمال یہ ہے کہ شمالی آئرلینڈ میں عیسائی فرقوں میں جاری خانہ جنگی کو عیسائی دہشت گردی کا نام دیتے ہیں نہ بوسنیا اور کوسووو وغیرہ میں لاکھوں مسلمانوں کے بہیمانہ قتل اور عفت مآب مسلمان خواتین کی بے حرمتی کے مجرموں کو عیسائی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ آج بھی وہاں اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں لیکن کسی کی آنکھہ نم نہیں ہوتی اس لئے کہ وہ قبریں مسلمانوں کی ہیں اس کے مقابلے میں منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث آسٹریلیا کی ایک عیسائی عورت کو انڈونیشیاء میں سزائے قید دیدی جاتی ہے تو دنیا کو سر پر اٹھا لیا جاتا ہے ۔ جب تک ہم قاتل اور دہشت گرداور اس کے مذہب کو الگ الگ خانوں میں نہیں رکھیں گے اس وقت تک یہ دنیا تصادم ، عدم اعتماد اور بدامنی کی لعنتوں سے نجات نہیں پائے گی۔

بلدیاتی انتخابات میں نگراں مقرر کرنے کا معاملہ

روزنامہ جنگ اتوار 28 ربیع الاول 1426 ھ 8 مئی 2005ء

چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے بالآخر یہ فیصلہ کر ہی لیا گیا کہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے بلدیاتی ادارے تخیل اور ناظمین کی جگہ نگراں مقرر کردیئے جائیں گے بین الصوبائی اجلاس میں مقامی حکومتوں کے حکم میں کل 77 ترامیم منظور کی گئی ہیں جو صوبائی حکومتیں بذریعہ حکم نافذ کریں گی۔ ان کے مطابق بلدیاتی اداروں میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کردار کو وسعت دینے سے متعلق ضابطہ کار کے علاوہ صوبائی اسمبلی کی منظوری کے بغیر مقامی حکومت کمیشن کی سفارش پر کسی بھی ضلعی ناظم کو برطرف کرنے کا اختیار صوبائی وزرائے اعلٰی کو حاصل ہوجائے گا ان ترامیم کے بعد مقامی حکومتوں کے ڈھانچہ میں بنیادی تبدیلی آجائے گی اور عملاً وزیر اعلٰی کو ان اداروں پر بالادستی حاصل ہوجائے گی البتہ 5 کے اضافہ کے ساتھہ شہری ضلعی حکومتوں کی تعداد نو ہوجائے گی جو ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ ابھی چند روز پہلے دیہی ترقی اور بلدیات کے وزیر مملکت ظفر اقبال وڑائچ اور قومی تعمیر نو بیورو کے چیئرمین دانیال عزیز کے بیانات اس ضمن میں آئے تھے ان میں اول الذکر کا کہنا تھا کہ ایڈمنسٹریٹروں کے تقرر کے بغیر اگر انتخابات کروائے گئے تو بااثر ضلعی ناظم بدعنوانیوں اور دھاندلیوں کے بل بوتے پر دوبارہ عوام پر مسلط ہوجائیں گے جس کے سبب حکومت کی نیک نامی کم ہونے کا خطرہ ہے لیکن قومی تعیمر نو بیورو کے چیئرمین نے یہ کہہ کر چونکا دیا تھا کہ اب تک وہ اس نظام کو بچانے کے چوکیدار بنے ہوئے ہیں ورنہ صوبائی حکومتیں تو اس کے درپے ہیں اور وہ عوامی اختیار ختم کرکے ملک میں انگریزوں کا فرسودہ نظام دوبارہ لانا چاہتی ہیں نیز یہ بھی کہ صوبائی حکومتوں کی ضد کے آگے مجبور ہوکر ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے ہوں گے۔ وزیر مملکت کا بیان دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ملک میں بدقسمتی سے بدعنوانی کی جڑیں بہت گہرائی اور ان کا دائرہ بہت وسیع ہے اور ان سے وہ ادارے بھی محفوظ نہیں رہے جن کا قیام کا بنیادی مقصد ہی سیاسی اور مالی منفعت سے بالاتر ہوکر شہریوں کی خدمت کے جذبہ کو فروغ دینا اور ملک کے چپہ چپہ پر ترقیاتی منصوبوں کا جال بچھانا تھا۔ البتہ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ نگراں (انڈمنسٹریٹر) کے تقرر کے بغیر انتخابات کے انعقاد سے حکومت کی نیک نامی کیوں کر کم ہوگی اس لئے کہ ہر قسم کی بدعنوانی اور دھاندلی سے پاک غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخاب کروانے کی ذمہ داری انتخابی کمیشن کے ساتھہ خود صوبائی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ ایسے میں عوام اگر کسی موجودہ بااثر یا بے اثر ناظم کو پھر منتخب کرلیتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض کا حق حاصل نہیں نہ حکومت کے لئے یہ کسی بھی صورت روا ہے کہ وہ اپنے کسی ناپسندیدہ ناظم کو ناکام اور اپنے پسندیدہ ناظم کو کامیاب کروانے کے جتن کرے ایسی صورت میں انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ قرار نہیں دیا جاسکے گا اس سے حکومت اور انتخابی کمیشن دونوں ہی کی بڑی بدنامی بھی ہوگی وار حکمرانوں کی جمہوریت پسندی اور انتخابی کمیشن کی غیر جانبداری کا مجرم کھل جائے گا اور انتخابات اسے لوگوں کا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ بھی رہی ہے کہ ہر حکومت نے بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ اپنا حریف سمجھتے ہوئے بیشتر وقت انہیں معطل ہی رکھا۔ موجودہ بلدیاتی نظام صدر جنرل پرویز مشرف کا رائج کردہ ہے اور سب سے زیادہ وہی اسے جاری رکھنا اور کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ تقریباً تمام ہی صوبائی حکومتیں اس سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ طویل تعطل کے بعد بحال کردہ مقامی حکومتوں کی طرف سے ایسے ترقیاتی منصوبے مکمل کرلئے گئے یا شروع کئے گئے جو شہریوں کے لئے باعث اطمینان ہیں حالانکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے ان کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمراں ذمہ داریوں سے آزاد سارے اختیارات اپنے ہاتھہ میں رکھنا چاہتے ہیں وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ دنیا بھر میں شہری حکومتوں کا تصور مقامی سطح پر عوام کے مسائل کو حل اور ان کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی ہے اس لئے حکومتیں ان کے ساتھہ بھرپور تعاون کرتی ہے۔ بھارت کا پنچایتی نظام افادیت اور کارگزاری کے لحاظ سے دنیا کے بہترین اور کامیاب نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے ہمارے برعکس وہاں حکومت اور نوکر شاہی خود اس نظام کو تقویت پہنچانے میں پیش پیش رہی ہیں وہ جانتی ہیں کہ اس طرح حکومتیں بڑت اور سنگین مسائل کی طرف توجہ دینے کے لئے وقت اور وسائل نکال لیتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں سیاست اور عوامی نمائندگی کا تصور اس قدر محدود ہوکر رہ گیا ہے کہ اراکین اسمبلی تو دور کی بات ہے مرکزی وزراء تک اپنے حلقہ انتخاب سے ماورا سوچنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ یہ سوچ حال ہی کی پیداوار ہے ورنہ بہتوں کو معلوم ہے کہ مولوی فرید احمد چٹگام کے ایک دور دراز علاقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی تھے لیکن جب وہ کراچی ، لاہور یا اسلام آباد آتے تھو تھرپارکر ، چولستان، تربت اور صوبہ سرحد کے لوگ ان تک اپنے مسائل پہنچاتے تھے اور وہ ان کے حل کے لئے بھرپور کوشش کرتے تھے۔ مولوی فرید احمد کو لوگ اس لئے ترجیح دیتے تھے کہ وہ بہت فعال متحرک اور بے باک تھے ورنہ اس دور کا رکن قومی اسمبلی سمجھتا تھا کہ پورا پاکستان اس کا حلقہ ہے اسی طرح رکن صوبائی اسمبلی پورے صوبہ کی نمائندگی اپنا فرض سمجھتا تھا لیکن اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے اور ہم اپنی ذات تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں حد تو یہ ہے کہ نامزد وزیر اعظم شوکت عزیز کو اس مقصد کے تحت تھرپارکر سے قومی اسمبلی کا رکن منتخب کروایا گیا تاکہ علاقہ کی قسمت کھل جائے۔ کامیابی کے بعد وہ اس حلقہ کی نمائندگی سے تو دستبردار ہوگئے لیکن یہاں کے لئے انہوں نے اربوں روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہم تو چاہتے ہیں کہ ملک کے ہر علاقے کے لئے اس سے بھی زیادہ رقم کے منصوبے شروع کئے جائیں لیکن وزیر اعظم کی طرف سے صرف اپنے حلقہ انتخاب پر رقم کی یہ بارش اس لئے قابل فخر قرار نہیں دی جاسکتی کہ اس کے پیچھے کارفرما محرکات وزیر اعظم کے شایان شان نہیں ملک کا ہر پسامندہ علاقہ وزیر اعظم کی توجہ کا یکساں مستحق ہونا چاہئے۔

اگر قانون میں ترمیم کے بعد شہری حکومتوں کو ختم کرکے نگراں کے تقرر کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو اس سے ملک کی حزب اختلاف کی طرف سے اس مطالبہ کا جواز پیدا ہوجائے گا کہ قومی اور صوبائی انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ساتھہ ہی تمام وزارتیں ختم کرکے وہاں بھی نگراں مقرر کئے جائیں اور انصاف بھی اس کا متقاضی ہوگا کہ حکمراں اپنے لئے بھی وہی انتظام بخوشی قبول کریں جو آج وہ خود ناظمین کے سلسلہ میں کررہے ہیں۔ اس سے عوام کو بھی بڑی حد تک اطمینان ہوجائے گا کہ انتخابات میں دھاندلیاں نہیں ہوں گی حالانکہ بقول پیر صاحب پگارا فرشتوں کو انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے سے روکنا پھر بھی مشکل ہوگا ویسے بھی ہمیں اب بلدیاتی اور قومی ہر سطح پر شفاف انتخابات کو یقینی بنانا ہوگا اس لئے کہ اور تو اور امریکہ کی خواہش بھی یہی ہے اور آج امریکہ کی خواہش حکم کا درجہ رکھتی ہے اورہم تو ٹھہرے اس کے انتہائی بااعتماد دوست اور حلیف ہمیں اس کا پورا اہتمام کرنا چاہئے کہ انتخابات پر یورپی یونین ، دولت مشترکہ یا امریکہ کی انگلی نہ اٹھا سکے لیکن ان سب سے زیادہ یہ کہ خود پاکستان کے عوام انتخابات کو صاف ستھرا سمجھیں۔

یہ بیان کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی نظام کو ختم کرکے ملک میں انگیزوں کا فرسودہ نظام دوبارہ لانا چاہتی ہیں حزب اختلاف کے کسی رہنما سے نہیں بلکہ قومی تعمیر نو بیورو کے موجود چیئرمین سے منسوب ہے۔ ایک ذمہ دار منصب پر فائز سرکاری شخصیت کا یہ کہنا ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت پسندی کے بلند بانگ دعوؤں کے پیچھے آمر مطلق چھپے بیٹھے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں تقریباً ہر ادارے کو چاہے اس کا تعلق مالیات و سرمایہ کاری سے ہو، صنعت و تجارت سے ہو یا فلاح عامہ سے ہو اگر ختم نہیں تو مفلوج ور بے اثر بنا کر ضرور رکھہ دیا گیا ہے یہاں تک کہ مجالس قانون ساز بھی اپنا بھرم بلکہ افادیت تیزی سے کھوتی جارہی ہے۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے کئی ضلعوں کو تقسیم کرکے منتخب ناظمین کو ہٹانے کے پیچھے یہ حکمت عملی بھی نظر آتی ہے کہ بلدیاتی نظام کو مکمل طور پر صوبائی حکمرانوں کی صوابدید سے مضبوط قرار دے کر ان کو بے وقعت ثابت کردیا جائے یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ بالا دست ادارے کے منتخب نمائندے نچلی سطح پر منتخب عوامی نمائندوں کو بیک جنبش قلم گھر بٹھادیں ایسا کرنا جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے کھلا انحراف ہے۔ ہمیں اس سے بچنا چاہئے اور عوام کے ہر منتخب نمائندے کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔

انسانی حقوق کی پامالی اور امریکہ

روزنامہ جنگ پیر 12 جمادی الاول ھ 20 جنوری 2005 ء

آج امریکہ کے ہاتھوں خلق خدا خاص طور پر مسلمانوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اذیب اور ذلت و رسوای کا جس طرح سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال تاریخ میں شاید ہی مل سکے۔ کوی مسلمان اس حقیقت کو منظر عام پر لانے کی جرات کر بیٹھتا ہے تو دہشت گردی کا تاج سجا کر اسے امریکی انصاف کے ایسے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے لیکن بھلا ہو ایمنسٹی انٹرنیشنل کا گوانتاناموبے میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے علاوہ اس کی تصدیق بھی اس کی حالیہ جاری کردہ رپوٹ میں کر دی گی ہے کہ امریکہ نے خفیہ مقامات پر بھی قید خانے بلکہ عقوبت خانے قائم کر رکھے ہیں جہاں انسانی حقوق کے کسی بھی ادارے کا نمائندہ پر نہیں مار سکتا مذکورہ بالا رپوٹ میں کوئی نئی بات نہیں ہے کہ یہ پہلے بھی کسی نہ کسی ذریعہ سے دنیا کہ معلوم ہوتی رہی ہے البتہ اس کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہو جاتی ہے کہ یہ ایک ایسے ادارے کی طرف سے تیار اور جاری کی گئی ہے جو خالص مغربی ہے۔ اس رپوٹ کے ھوشربا مندرجات سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رپوٹ کے جواب میں جارج بش نے دعوہ کیا ہے کہ امریکہ ہی وہ ملک ہے جو دنیا میں آزادی کے فروغ کے لئے کوشاں ہے نیز یہ بھی کہ امریکیوں کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کے سلسلے میں اگر الزام لگایا جاتا ہے تو اس کے بارے میں شفاف طریقے پر مکمل تحقیقات کی جاتی ہیں جبکہ ایمنسٹی کی رپوٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر اور منظم طور پر ان تمام اصولوں اور قوائد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے جن اسولوں کے تحت لوگوں کو اذیت دینے اور انہیں ناروا سلوک کا نشانہ بنانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ رپوٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گوانتانامو بے کے علاوہ بھی کئی خفیہ مقامات پر لوگوں کو حبس بے جا میں رکھا گیا ہے جن کے بارے میں نہ صرف کسی عالمی ادارہ ہی کو کوئی خبر نہیں ہے بلکہ ان قیدیوں کے عزیزوں تک کو اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ یہ صورت حال کس قدر اذیت ناک ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے لوگوں کے سینے میں انسان کا دل ہونا چاہیے صلیب احمر(ریڈ کراس) ایک ایسا عالمی ادارہ ہے جو کسی کا دشمن اور مخالف نہیں وہ بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذھب و ملک سب کا دوست اور ہمدرد ہے عالم اسلام میں یہ ادارہ حلال احمر(ریڈ کریسنٹ) کے نام سے کام کر رہا ہےدنیا میں ایسے ملک دو چار سے زیادہ نہیں جو ریڈ کراس کو ان مقامات کے معائنہ کی اجازت نہیں دیتے جہاں انسانی حقوق کی پامالی کا شبہ ہوتا ہے لیکن یہ دنیا کی بد قسمتی ہے کہ امریکہ گنتی کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم پر پردہ ڈالنے کی غرض سے ریڈ کراس کہ اپنے ظاہر اور خفیہ عقوبت خانوں کے معائنے کی اجازت نہیں ریتے۔ رپوٹ کے ذریعہ امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ تمام خفیہ حراستی مراکز کو ختم اور قیدیوں کو انسانی حقوق کے عالمی منشور کے مطابق مراعات اور حقوق دیے جائیں نیز یہ بھی کہ لوگوں کے مقدمہ چلائے بغیر اور بلاجواز قید کرنے انہیں اذیت دیے جانے کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کا اہتمام کیا جائے تاکہ اس سلسلے میں جو بھی مجرم پائے جائیں انہیں قرار واقعی سزا دی جائےعلاوہ ازیں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ ظاہر اور خفیہ تمام حراستی مراکز تک ریڈ کراس کے نمائندون کو جانے اور وہاں معلومات حاصل کرنے کی اجازت دی جائے لیکن امید نہیں کہ ان کا کوئی مثبت ردعمل سامنے آئے گا۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کے جواب میں شفاف تحقیقات کروانے کی اجازت بش کے دعوے کی حقیقت صرف اتنی سی ہے کہ عراق کی ابوغریب جیل کے قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی تحقیقات کے نتیجہ میں صرف ایک برگیڈیر کو کرنل کے عہدے پر تنزلی کی سزا دی گئی۔ قرآن حکیم کی بے حرمتی کے سلسلے میں نیوز ویک کی رپوٹ کو جھٹلانے کے علاوہ جریدہ کو اپنی رپوٹ واپس لینے پر دباو ڈالا گیا اور چند دنوں کے بعد بتایا گیا کہ تحقیقات سے صرف ایک گارڈ کی طرف سےقرآن پاک کی بے حرمتی ثابت ہوئی جس کا تبادلہ دوسری جگہ کر دیا گیا البتہ امریکی جنرل کے مطابق ایک سے زیادہ قیدیوں کیطرف سے اس جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ امریکہ کی حدود کے اندر کسی کو مقدمہ چلائے بغیر جیل میں رکھا جا سکتا ہے نہ وہاں قیدیوں کو اذیت دینے کی اجازت ہے اس لئے امریکہ نے ایسے ملکوں کو منتخب کیا ہے جہاں ان افراد کو بہیمانہ سلوک سے دوچار کیا جا سکے۔ گوانتاناموبے بھی امریکہ سے باہر کیوبا کا ایک حصہ ہے جن پر امریکہ قابض ہے۔ آج جو صورت حال ہے وہ ہر ذی شعور کے لئے تشویش کا باعث ہے اس لئے یہ امر دنیا بھر کے لوگوں کے مفاد میں ہے کہ امریکہ فروغ نفرت کی بجائے محبت کی فراوانی کے لئے اقدامات کرے تاکہ کرہ ارضی بنی آدم کے لئے امن ، سلامتی اور محبت کا گہوارہ بن جائے۔

اظہار خیال کی آزادی؟

روزنامہ جنگ اتوار 9 جنوری 2005ء

اظہار خیال کی آزادی کے حق کو بھرپور لیکن من مانے انداز میں استعمال کرنے کا ڈھنگ تو کئی ملک کے بعض کالم نگاروں سے سیکھے ایسا کرتے وقت وہ اخلاقی اور معاشرتی اقدار و روایات اور قومی عزت و وقار تک کو کچلنے میں بھی کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں نقطہ اسلام اور مسلمان اس سے چڑ ہے 4 جنوری کو روزنامہ جنگ میں پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کو "بیکار" قرار دیتے ہوئے وہ شکایت کرتے ہیں کہ " پاکستان نے اپنی منصبی ذمہ داریوں سے تجاوز کرتے ہوئے جگہ جگہ شہریوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کررکھی ہے۔"

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کم از کم موجودہ دور حکومت میں پہلی مرتبہ کھلم کھلا اسلامی شعائر حتٰی کہ عقیدہ جہاد سے بریت کے بعد اب داڑھی اور پردہ کا بھی مذاق اڑایا جانے لگا ہے اور ایسا کرنے والے مغرب کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ " جدید اور روشن خیال" کے ماننے والے ہیں جبکہ اللہ جل شانہ کے نزدیک خالق دین صرف "اسلام" ہے جو ہرقسم کی توصیف سے بالاتر ہے۔ جن لوگوں کو آج سرکاری ملازمت وغیرہ کے سلسلہ میں شہری سے اس کا مذہب پوچھنے پر اعتراض ہے کل کو وہ اس پر بھی معترض ہوسکتے ہیں کہ رشتہ کرتے ہوئے لوگ فریق ثانی کا مذہب یا مسلک معلوم کرتے ہیں۔ ملازمتوں کے سلسلہ میں بھارت میں جب لوگوں کا مذہب معلوم کیا جاتا ہے تو ہمارے کسی دانشور کو اس پر حیرت ہوتی ہے نہ اعتراض۔ ایک کالم نگار کا یہ کمال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بات کو منوانے کی خاطر عام قصے کہانیاں اور مفروضات و اختراعات اس انداز میں پیش کرتے ہیں گویا و تاریخ کے ناقابل تردید حقائق اور چشم دید واقعات ہوں۔

وقت، حالات اور ضرورت کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی بھی ان کیلئے کوئی مشکل کام ہے نہ ناپسندیدہ فعل انہیں اس کی بھی پرواہ نہیں کہ ان کی تحریریں تضاد بلکہ غلط بیانی کی شاہکار کی صورت میں اختیار کرلیتی ہیں۔ پچھلے دنوں " یہ رات" کے اس اندھیرے میں انہوں نے وہ واقعات بتائے اور وہ مناظر دکھائے جو اب تک ہماری نظروں سے اس لئے اوجھل تھے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا انہوں نے انکشاف کیا کہ مارچ 1949ء میں پاکستان کی پہلی مجلس دستور ساز میں منظور کی جانے والی قرارداد مقاصد کے منظوری کے پیچھے ایسے عالم تھے جو امریکہ کے اشارے پر آئین سازی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنا چاہتے تھے۔

مذکورہ کالم کو نچوڑ یہ ہے کہ اس ملک میں جو بھی غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر اخلاقی کام ہوئے ہیں ان سب کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جو برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں اور ان کے قائد اعظم کی خواہشات کی تکمیل کی خاطر یہاں اسلامی شریعت کے عین مطابق نظام حکومت کے قیام کے دل سے خواہاں رہے ہیں نیز یہ کہ بانیان پاکستان کم فہم لوگ تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد علمائے اسلام کے زیر اثر آگئے اور ملک کو مذہبی ریشہ دوانیوں کی آماہ جگاہ بنا کر رکھہ دیا۔ کالم میں اسلامی سوچ رکھنے والے علماء اور عوام کو جن الزامات سے نوازا گیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں:

بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام، قائد اعظم محمد علی جناح کا قتل، قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت، ملک غلام محمد کی بحیثیت گورنر جنرل ، خواجہ ناظم الدین کی برطرفی پہلی دستوریہ اور ملک کے عارضی دستور کا خاتمہ، اسکندر مرزا کا برسراقتدار آنا 7 اکتوبر 1958ء کے آئین کی منسوخی کے ساتھہ کابینہ اور پارلیمنٹ کا خاتمہ اور مارشل لاء کا نفاذ، 27 اکتوبر کو اسکندر مرزا کی معزولی، مارچ 1969ء میں جنرل یحیٰی کے ہاتھوں جنرل ایوب خان کی معزولی اور آئین کا خاتمہ، مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی اور مذہب کے نام پر لوگوں کا قتل عام، انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ، سقوط ڈھاکہ، 1973ء کے آئین کا اسلامی رنگ، قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جانا، جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پر قبضہ، افغانستان پر روسی قبضہ کے خلاف "جہاد" کے نام پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی دہشت گرد کاروائیاں، روس کی تحلیل، افغانستان میں طالبان کا اقتدار اور وہاں مثالی امن و امان کا قیام اور پوست کا مکمل خاتمہ۔

جناب پر یہ کشف بھی معنی خیز ہے کہ 1965ء میں پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت کی ذمہ دار بھی مذہبی قیادت ہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ بھارت نے حملہ کرکے کوئی زیادتی نہیں کی تھی۔ جن کار ہائے سیاہ کا سہرا مذہبی عناصر کے سر باندھنے کی جسارت کی گئی ہے ان میں ہر ایک پر ایک کالم لکھا جاسکتا ہے لیکن اس کی ضرورت اس لئے نہیں کہ قوم اس کج فکری کے پیچھے چھپے مقاصد کو خوب سمجھتی ہے ویسے بھی جو کچھہ لکھا گیا ہے اس کی کوہ قاف کی پریوں کی کہانیوں سے زیادہ حقیقت نہیں ہے لیکن ہمیں ان باتوں سے چوکنا ضرور رہنا ہے۔

ایسی تحریروں کا مقصد چاہے کچھہ بھی ہو لیکن ڈر یہ ہوتا ہے کہ کچے ذہن والے لوگ ان اختراعات کو کہیں اس طرح سچ نہ سمجھنے لگیں جس طرح بچے پریوں کی کہانیوں کو سمجھتے ہیں ویسے ہمیں یہ بھی سمجھہ لینا چاہئے کہ چند عناصر ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ کھل کر پاکستان اسلامی نشاۃ ثانیہ کی غرض سے قائم کیا گیا ہے اس لئے یہ عالمی دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز ثابت ہوسکتا ہے ایسے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابھی سے دبوچ لیا جائے تاکہ دنیا اسلامی دہشت گردوں سے محفوظ بنائی جاسکے۔ ویسے عقل کے اندھے اور ہٹ دھرم تو وہی بات کہیں گے جو کہتے آرہے ہیں لیکن جب ہم اپنے ملک کی 57 سالہ تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج تک یہاں جتنے بھی منتخب یا مسلط حکمراں آئے ان میں سے کوئی بھی عالم دین نہیں تھا نہ برسراقتدار آنے والی کسی سیاسی جماعت کے منشور میں اسلامی نظام کے نفاذ کو بنیادی حیثیت دی گئی بلکہ ایسے منشور پر سامنے آنے والی جماعتوں کو کبھی آگے بڑھنے ہی نہیں دیا گیا اس لئے کہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اسلامی طرز زندگی سے بچنا چاہتے ہیں وہ اس سلسلہ میں بابائے قوم کے اس اعلان کو حوالہ دیتے ہیں کہ پاکستان میں ملائیت کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے جبکہ ملائیت کا مطلب ہرگز اسلامی نظام حکومت نہیں اور اسلام کی تاریخ میں مغربی معنوں میں کبھی ملائیت قائم نہیں ہوئی اسلام تو متقیوں کو آگے لانے پر زور دیتا ہے البتہ مغرب پاپائیت کے شدید تسلط میں صدیوں رہا ہے اور Theocracyسے مراد پاپائیت ہی ہے جو ایک زمانہ میں مذہبی جنونیوں کا ٹولہ تھا۔

جب بابائے قوم ایمان اتحاد اور تنظیم کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اسلامی شریعت پر مبنی آئین اور نیک لوگوں کے ذریعہ حکمرانی ہے بہرحال 5 جنوری کو جناب نذیر ناجی نے جنگ میں جو بات لکھی ہے ہمیں توقع رکھنی چاہئے کہ وہ خود بھی اس پر عمل کریں گے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ "تحسین یا تنقید میں شاندار صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر تھوڑی سی توجہ حقائق پر بھی صرف کردی جائے تو اس میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔"

پولیس کا کردار اور سیاست

روزنامہ جنگ اتوار 19 دسمبر 2004 ء

سیاست میں ملوث ہونے کے باعث پولیس کا نظام تباہ ہوگیا ہے، پولیس کی سوچ بدلنی ہوگی اور پولیس کی کارکردگی اور رویئے سے ہی حکومت کی کارکردگی کا پتہ چلتا ہے ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے انتہائی مختصر الفاظ میں کئی عشروں پر محیط ایک ایسی تلخ حقیقت بیان کردی ہے جس سے کوئی بھی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا کے ہر مہذب، متمدن ، آزاد اور جمہوری معاشرہ میں ہر سطح کے سرکاری ملازم کے لئے سیاست شجر ممنوعہ ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں منافقت اور استحصال بیجا کا کاروبار اس قدر فروغ پا چکا ہے کہ عام شہریوں کے مقابلہ میں آج مختلف سرکاری ادارے ہی سیاست پر قابض ہیں اور امور مملکت پوری طرح ان ہی کی مرضی اور صوابدید کے تابع آچکے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ سرکاری ملازم سیاست کا کل پرزہ بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے لیکن جب آئینی، قانونی اور اخلاقی لحاظ سے "نااہل" افراد چور دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے لگے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اپنے قدم جمانے کی خاطر سرکاری اہلکاروں کو سیاسے میں ملوث کریں ادھر سرکاری ملازمین کو بھی اپنا مفاد ان طالع آزا حکمرانوں کا آلہ کار بننے میں نظر آیا جبکہ 25 مارچ 1948ء کو سرکاری اہلکاروں سے خطاب کرتے ہوئے بابائے قوم نے واضح الفاظ میں یہ بتادیا تھا کہ "آپ کو خادم کی حیثیت سے فرض ادا کرنا ہے۔ آپ کا اِس سیاسی جماعت یا اُس سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں یہ آپ کا کام بھی نہیں ہے۔" بانی پاکستان نے اس موقع پر بھی فرمایا تھا کہ " آپ تو شہری خادم ہیں اس لئے جو جماعت اکثریت حاصل کرلے گی وہی حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض اس حکومت کی خدمت کرنا ہے۔" اس سے مراد محض یہ تھی کہ سرکاری ملازمین حکومت وقت کے احکامات اور حکمت عملی کے تحت کام کریں گے برسراقتدار پارٹی کے کارکن کی حیثیت سے نہیں۔

وزیر اعظم کے بیان سے یہ تاثر ابھرا ہے گویا پولیس از خود سیاست میں ملوث ہوگئی حالانکہ ایسا نہیں ہے سچی بات یہ ہے کہ پولیس کو سیاست میں ملوث ہونے پر مجبور کیا گیا ہے اور اس کی پوری ذمہ داری شہری اور فوجی صاحبان اقتدار پر عائد ہوتی ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا پولیس کو سیاست میں دھکیلنے والے وہ حکمراں ہیں جو عوام میں جڑیں نہیں رکھتے سیاست میں ملوث کئے جانے کے نتیجہ میں پولیس کا اہم اور معزز ادارہ بدنام، تباہ و برباد اور ذلیل و رسوا ہوکر رہ گیا ہے ہمیں یہ اچھی طرز سمجھہ لینا چاہئے کہ سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ میں سیاسی کھیل شروع ہوگیا تو وہ جماعت اور وہ ادارہ اپنی افادیت سے محروم ہوکر بے وقعت ہوجائے گا۔ سیاسے کے سبب پولیس کے ادارہ کی بربادی کے کھلے دل سے اعتراف کے بعد وزیر اعظم کے پیش نظر یقیناً اس سے بھی زیادہ اہم ادارہ یعنی فوج کو اس قسم کی صورتحال سے بچانا ہوگا۔ اگر خدانخواستہ اس ادارہ میں شکست و ریخت کے آثار بھی نمایاں ہوگئے تو ہمارا بحیثیت قوم زندہ رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا اسلئے کہ ہمارا ازلی دشمن عرصے سے ایسے ہی کسی موقع کی تاک میں بیٹھاہے۔ شہریوں کی جان، مال اور عزت و آبرو اور امن و امان کی محافظ پولیس ہوتی ہے لیکن ملک و قوم کی آزادی اور خودمختاری کے تحفظ کی ضامن فوج ہوتی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ قوم کا وجود اور اس کی زندگی آزادی اورخودمختاری سے مشروط ہے۔ ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ الحمدللہ ہماری افواج تربیت، نظم و ضبط، حب الوطنی اور جذبہ جاں نثاری کے لحاظ سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہے اور اس کا یہ امتیاز اور تشخص قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ افواج پاکستان کو غیر عسکری اور غیر پیشہ ورانہ یعنی سیاسی سرگرمیوں سے قطعی دور رکھا جائے۔ کسی قسم کی پریشان کن صورتحال سے بچنے کے لئے ہمیں چاہیئے کہ "جس کا کام اسی کو ساجھے" کے اصول پر سختی کے ساتھ کاربند رہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے مقتدر اور بااثر حضرات کا رویہ قابل قدر نہیں رہا وہ اپنے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمات بنوانے، انہیں ہراساں کروانے اور انہیں گرفتار کرواکے رسوا کرنے تک سے باز نہیں آتے بلکہ انتہا یہ ہے کہ مصنوعی مقابلوں میں لوگوں کو قتل تک کروانے میں یہاں عار نہیں آتی لیکن اپنے دور کے رستم و سہراب جب ایوان اقتدار سے محروم ہوجاتے ہیں تو پھر ان کے ساتھہ وہی کچھہ کیا جاتا ہے جو وہ خود کرتے رہے تھے۔ ہمارے یہاں علاقہ کا چوہدری اور وڈیرہ ہی نہیں حکمران پارٹی کے ادنیٰ کارکن بھی ہٹلر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال معاشرہ کے لئے عذاب سے کم نہیں ہوتی اور آج ہم بدقسمتی سے ایسے ہی دوراہے سے گزر رہے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں بھرے بازاروں میں دن دہاڑے قتل، اغوا ، چوری، ڈکیتی اور دکانوں، کوچوں اور بسوں میں لوٹ مار کے واقعات کے علاوہ کار، موٹر سائیکل اور موبائل فون کا سرعام چھین لینا عذاب ہی کی مختلف صورتیں نہیں ہیں؟ اس تکلیف دہ کیفیت کے باوجود حکمرانوں کی طرف سے "سب ٹھیک ہے" کی راگنی لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی تو ہے ہی لیکن اس سے جگ ہنسائی کا سامان بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے یہ بالکل صحیح کہا کہ "پولیس کی کارکردگی اور رویئے ہی سے حکومت کی کارکردگی کا پتہ چلتا ہے۔ باالفاظ دیگر کسی بھی حکومت وقت کا چہرہ دیکھنا ہوتو وہاں کی پولیس کے رویہ کا جائزہ لے لیا جائے اسطرح آج حکومت کا چہرہ پولیس کے رویہ کے سبب بڑا ہی بھیانک منظر پیش کررہا ہے۔ یہ تو بجا ہے کہ "پولیس کا ہے کام خدمت عوام کی" لیکن یہ غور طلب ہے کہ عوام لفظ "خدمت" کو "زحمت" سے کیوں بدل دیتے ہیں۔

وزیر اعظم شوکت عزیز کہتے ہیں کہ پولیس کو اپنی سوچ بدلنی ہوگی لیکن حقیقت میں سوچ پولیس کو نہیں حکمرانوں کو بدلنی ہوگی۔ جس طرح پانی ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے بالک اسی طرح اچھائی اور برائی بھی اوپر ہی سے نیچے کی طرف آتی ہے۔ حکمراں اگر اپنے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات کی تکمیل کی خاطر پولیس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں، پولیس میں بھرتی کیلئے مقررہ کردہ معیار پر عملدرآمد یقینی بنالیں تو پولیس کا محکمہ فی الحقیقت عوام کی خدمت کا بہترین ادارہ ثابت ہوسکتا ہے اور عوام اس سے ڈرنے اور دور بھاگنے کے بجائے اس سے محبت کرنے لگیں لیکن اس کے لئے زبانی کلامی تبلیغ سے کام نہیں چلے گا پولیس کو عوامی خدمت کا قابل فخر ادارہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ پولیس کے چھوڑے بڑے اہلکاروں کو معقول تنخواہ دی جائے ان کو رہائش، تعلیم اور صحت کے میدان میں تمام ضروری سہولتیں اور مراعات دی جائیں۔ آج ہم بجا طور پر دعویٰ بھی کرتے ہیں اور فخر بھی کہ موٹر وے یا سپر ہائی وے کی پولیس انتہائی دیانتدار اور فرض شناس بھی ہے اور وہ کسی کو بھی قانون کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے یہ لوگ آسمان سے نہیں اترے ہمارے ہی معاشرے کے افراد ہیں لیکن انہیں اتنی تنخواہ مل جاتی ہے کہ وہ اپنی تمام جائز ضروریات بآسانی پوری کرلیتے ہیں اس لئے وہ رشوت اور بدعنوانی کی طرف راغب ہی نہیں ہوتے ویسے بھی انسان فطرتاً شریف النفس اور دیانتدار ہوتا ہے وہ ہر حال میں برائی اور حرام خوری سے بچنا چاہتا ہے لیکن کسی کو بھرتی ہونے اور تبادلہ کروانے کے لئے بھی رشوت دینی ہوگی یا اسے ہر ہفتہ جیسا کہ مشہور ہے اپنے افسر کو طے شدہ نذرانہ پیش کرنا ہوگا تو وہ یہ نذرانہ انہی سے وصول کرے گا جن کی خدمت پر اسے مامور کیا گیا ہے پولیس کا تعلق براہ راست عام شہریوں کی خدمت اور امن و امان کے قیام سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس میں فرشتے نہیں فرشتہ صفت جوانوں کی بھرتی کو یقینی بنایا جائے ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی سوچ ، اپنے رویہ اور اپنے قول و فعل میں انقلابی تبدیلی لائیں جب تک ایسا نہیں ہوتا پولیس اور عوام ایک دوسرے کو دشمن سمجھتے رہیں گے اور گھروں ، گلیوں اور بازاروں میں قانون کی دھجیاں بکھرتی رہیں گی۔ معقول تنخواہ اور ضروری سہولتوں کے بعد بھی کوئی بدعنوانی میں ملوث پایا جائے تو اسے سرعام پھانسی پر لٹکادیا جائے اسلئے کہ ایسا کرنے والا عادی مجرم اور معاشرہ اور اس کے اقدار کا دشمن ہی قرار پائے گا۔

وزیر اعظم شوکت عزیز کی دو ٹوک وضاحت

روزنامہ جنگ اتوار 28 نومبر 2004ء

وزیر اعظم شوکت عزیر نے بھارت میں واضح اور دو ٹوک الفاظ میں یہ بیان دے کر کہ پاکستان لائن آف کنڑول کو مستقل سرحد تسلیم نہیں کرے گا ااس غلط فہمی کی جڑ کاٹ دی ہے جو گزشتہ دنوں صدر مملکت کے بیان کے نتیجے میں پیدا ہو گئی تھی کہ تنازع کشمیر کے حل کی خاطر پاکستان اپنے اس اصولی اور تاریخی موقف سے ہٹ گیا ہے کشمیری عوام کو آٓزاد مرضی کے مطابق مسلئہ کشمیر کے حل کے سلسلے میں صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیر اعظم کے ان بیانات سے استصواب رائے کے اس اصول پر کاربند رہنے کے عزم کا اظہار ہونا ہے جو اقوام متحدہ نے کیے تھے اور بھارت اور پاکستان نے بھی اسے تسلیم کیا تھا۔

لیکن اس خطہ کے عوام کی بدقسمتی کہ بھارتی عالمی سطح پر کئے گئے استصواب رائے کے وعدے سے مکر گئے اور اب بھارت کی دلیل یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کئی مرتبہ انتخابات کرائے جاچکے ہیں اور جو استصواب کا بدل ہیں اس لئے ان کے بقول کشمیر کے مستقبل کے بارے میں وہی فیصلہ حتمی ہوگا جو مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کرے گی۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی نگرانی میں عام انتخابات اور استصواب رائے میں رات دن کا فرق ہے اول الذکر کے موقع پر بھارت کسی غیر جانبدار ادارہ کو اپنے مبصر بھیجنے کی اجازت تک نہیں دیتا تو پھر انہیں کس طرح آزاد اور غیر جانبدار قرار دیا جاسکتان ہے پھر ان انتخابات میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا تناسب پانچ سات فیصد سے زیادہ کبھی نہیں رہا جبکہ استصواب رائے کا اقوام متحدہ کی نگرانی میں کروایا جانا ہے اور اس میں تمام کشمیری باشندوں کو جو دنیا کے مختلف علاقوں میں بحیثیت مہاجر مقیم ہیں حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا جبکہ بھارت تو انسانی حقوق کے کسی ادارے کے نمائندوں تک کو بھی مقبوضہ کشمیر آنے کی اجازت نہیں دیتا اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسی ہزار سے زیادہ ان قبروں کو اور ان سیکڑوں مسلم خواتین کو جن کی عصمتوں کو بھارتی فوجیوں نے تار تار کردیا ہے دنیا کی نظروں سے چھپایا جائے اگر بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے منعقدہ انتخابات استصواب رائے کا بدل ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جانی چاہئے کہ ایک مرتبہ بیک وقت آذاد اور جموں کشمیر میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی استصواب رائے کرالیا جائے اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے دوہمسایوں کے درمیان موجود تنازع خوش اسلوبی کے ساتھہ حل ہوجائے گا اور دوسرا یہ کہ اس سے وہ داغ بھی دھل جائے جو اقوام عالم سے کئے گئے اپنے وعدے سے پھر جانے کے سبب بھارت کے چہرے پرلگا ہوا ہے۔

بھارت کو کھلے دل کے ساتھہ یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہئے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے عوام اور حکومتیں اپنے ہمسایوں کے ساتھہ تمام تنازعات کو ختم کرکے معمول کے تعلقات کی بحالی کے زیادہ خواہاں ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں منقسم خاندانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس دورے کے دوران "دونوں ملکوں کے درمیان دیوار برلن گرانے کا عزم" کے اظہار سے پاکستان کے عوام کو بڑا دھچکا پہنچا ہے اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم شوکت عزیز سے ٹیلیفون پر اپنی گفتگو کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے ایک ایسے عمل کو شروع کرنے پر زور دیا جس کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان حائل دیوار برلن کو گرایا جاسکے۔

بھارت کے دانشور، صحافی، سیاستداں، حکمراں اور عام شہری جب بھی پاکستان آتے ہیں تو ان کی طرف سے دونوں ملکوں کے درمیان قائم "نفرت کی دیوار" یا "دیوار برلن" کو ختم کرنے کی بات ضرور کی جاتی ہے۔ قائداعظم نے بھارت کے ساتھہ تعلقات اور دوستی کی بنیاد سے مشروط کیا تھا اور اس اصول سے انحراف کرکے کسی بھی ملک سے دوستانہ تعلقات قائم نہیں کئے جاسکتے اور پاکستان کی ابتدائی حکومتوں نے ہمیشہ اس اصول کو اپنے پیش نظر رکھا حتٰی کہ اس وقت ہمارے پاس نہ منظم فوج تھی نہ ہتھیار تھے لیکن ہم نے کبھی دب کر بات کی نہ کوئی سمجھوتا کیا آج ہم بجا طور پر ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی بھارت کے ساتھہ ایسے معاہدوں کے لئے بے چین نظر آتے ہیں جن سے بھارت کا تشخص علاقہ کے چوہدری کی حیثیت سے ابھرتا ہے بھارتی وزیر اعظم کی ٹیلیفون پر گفتگو میں دیوار برلن کا حوالہ اور دورہ سری نگر کے موقع پر کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینا اور ہماری طرف سے اس پر خاموشی ان کے حوصلہ بلند کرنے کے مترادف ہے نیویارک میں صدر پرویز مشرف سے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھہ کی اچھی باتوں کے بعد پھر اٹوٹ انگ کی رٹ لگانا ویسے بھی ناقابل فہم ہے۔

یہاں ایک اور بات کا ذکر بھی بے محل نہیں ہوگا اور وہ یہ کہ پچھلے دنوں شوشا بھی چھوڑا گیا تھا کہ قائداعظم کشمیر میں استصواب رائے کے مخالف تھے مگر اس کی تائید میں کوئی مستند اور مصدقہ دستاویز تو منظر عام پر نہیں لائی گئی ہے۔ بھارت کی طرف سے استصواب کے وعدے سے انحراف کے سبب جنوبی ایشیا 57 برسوں سے بدامنی اور بے اعتمادی کا شکار چلا آرہا ہے اگر آج بھی بھارت اپنی عہد شکنی کے ازلے کے لئے تیار ہو جائے تو یہ علاقہ امن و سلامتی کا گہوارا بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے اور نتیجتا بھارت اور پاکستان کے عوام جہالت، غربت، بیماری اور بیروزگاری کی لعنت سے چھٹکارا پا کر شاہرہ ترقی پر گامزن ہوسکتے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کے حل کی تجاویز

روزنامہ جنگ اتوار 7 نومبر 2004ء

صدر جنرل پرویز مشرف نے بتایا ہے کہ نیویارک میں ملاقات کے دوران بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھہ نے اصرار کیا تھا کہ کشمیر کے حل کے لئے کوئی نئی تجویز دی جائے اور اسی کے جواب میں انہوں نے کشمیر کو 7 علاقوں میں تقسیم کرنے، آزاد رکھنے، غیر فوجی بنانے یا اقوام متحدہ کے زیر انتظام دینے کی تجویز دی ہے۔ جب ہم ان تجاویز پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح ہم نے اپنے دیرینہ اور مضبوط موقف سے مکمل بریت کا اعلان کرکے اپنے تمام پتے کھول کر رکھہ دیئے ہیں۔ بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سیدھے سادھے بلکہ بھولے بھالے نظر آنے والے لیکن زیرک سیاستداں اکھاڑے میں اترے بغیر ہی ہمیں سیاسی مات دینے میں کامیاب ہوگئے۔ صدر پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ من موہن سنگھہ سے اصرار کرتے کہ تنازع کشمیر کے حل کے لئے نئی یا متبادل تجاویز پیش کریں لیکن س کے برعکس جنرل پرویز مشرف نے اس سلسلے میں پہل کرنا معلوم نہیں کیوں ضروری سمجھا اس سلسلے میں بھارت کی بدنیتی کا اندازہ بھی اس بات سے ہوجاتا ہے کہ اس تجاویز کے بارے میں نئی دہلی سے کسی حوصلہ افزاء ردعمل کے بجائے بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ کہہ کر جنرل پرویز مشرف کے اس فلسفہ کو سفارتی زبان میں تقریباً رد کردیا ہے کہ جموں و کشمیر ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر میڈیا کے ذریعے بات چیت نہیں کی جاسکتی بلکہ ایسی تجاویز مذاکرات میں پیش کی جائیں بھارتی قیادت کی شان بے نیازی دیکھئے کہ کسی بھی قابل ذکر وزیر کی طرف سے اس سلسلے میں کسی قسم کا اظہار خیال نہیں کیا گیا ویسے یہ بات بھی کسی حد تک درست بھی معلوم ہوتی ہے کہ 57 برس سے تصفیہ طلب تنازع کے بارے میں جس کے حل کے لئے اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھی موجود ہوں اور جس کی بناء پر دونوں ملکوں میں جنگیں بھی ہوچکی ہوں اس کے سلسلے میں کسی ایک فرد کی طرف سے ذاتی خواہش کے تحت تجاویز کسی استقبالیہ میں پیش کردی جائیں اور پھر یہ سمجھہ لینا کہ ہم اس تنازع کے حل کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں خود فریبی سے زیادہ کچھہ نہیں ہے جب تک پاکستان، بھارت اور کشمیری عوام اس کے کسی حل پر متفق نہیں ہوتے اس وقت تک بات نہیں بنے گی اور ایسی صورت میں مذاکرات سے باہر تجاویز پیش کرنا اور قوم کو اس پر اظہار رائے کی دعوت دینا مشق لا حاصل ہی نہیں بلکہ قومی نقطۂ نگاہ سے یہ ایک خطرناک راستہ بھی ہے اس لئے اس پر بحث کرکے دنیا کے انتشار اور دشمن کے سامنے ہم ایک منقسم قوم کی حیثیت سے آجائیں گے ویسے بھی کشمیر کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے اس کا مستقل، پائیدار اور باعزت حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ آزاد اور مقبوضہ جموں و کشمیر ایک اکائی ہے اس لئے مختلف ٹکڑے کرکے اس کا حل اسی طرح ممکن نہیں جس طرح ہم بخار میں مبتلا کسی شخص کے علاج کے لئے پہلے اس کے سر کا بخار اتارنے کی کوشش کریں پھر اس کے بازوؤں کا اس کے بعد دھڑ اور آخر میں دائیں اور بائیں ٹانگوں کا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خود ہماری اپنی حکومت کو بھی ان تجاویز کے پیش کئے جانے پر پریشانی کا سامنا ہے ہمارے وزیر خارجہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ یہ تجاویز حرف آخر نہیں اور یہ صدر کی ذاتی رائے ہے صدر یا وزیر اعظم کی بھی ذاتی اور سرکاری رائے میں تضاد ہوگا تو پھر کیا یہ فکری انتشار کی صورت نہیں ہوگی اور اس سے موقف میں کمزوری کو بھی پہلو نمایاں ہوگا جس سے دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا سکتا ہے ہمیں ہر سطح پر اس دوئی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ استصواب رائے کے ذریعے تنازع کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار داد کے مطابق ہے جسے پاکستان کے علاوہ بھارت کی اس وقت کی قیادت نے تسلیم کیا تھا اس لئے ہمیں اسی ایک نکتے پر زور دینا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ یہ کہہ کر اس مسلمہ اصول کو ترک کرنے پر زور دیا جا رہاہے کہ اگر ہم استصواب رائے پر زور دیتے رہے تو سو سال تک لڑتے رہیں گے لیکن ہمیں اچھی طرح سمجھہ لینا چاہئے کہ محدود مصلحتوں، ناجائز بیرونی دباؤ یا کسی طاقت کے مفادات یا ارادوں کی تکمیل کی خاطر کوئی وقتی یا غلط فیصلہ کرلیا گیا تو ایسا فیصلہ نقش بر آب ثابت ہوگا اس لئے کہ خود مختار یا منقسم کشمیر کو اور تو اور کشمیری عوام بھی تسلیم نہیں کریں گے اور نتیجتاً وہاں خانہ جنگی کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا بعض بیرونی طاقتیں بلکہ خود ہماری آستینوں میں چھپے ہوئے دشمن بھی یہی چاہتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند ہمیشہ بدامنی، بے اعتمادی اور غربت کا شکار رہیں۔ مفاد پرست بیرونی طاقتوں کو بخوبی احساس ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تنازعات ختم ہوگئے اور وہ برابری کی بنیاد پر دوستی قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دنیا سے بڑوں کی چوہدراہٹ کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہوجائے گا۔ خودمختار کشمیر کے سلسلے میں بھارت اپنی عادت کے مطابق اسے اپن زیر اثر لانے کی کوشش سے باز نہیں آئے گا جس کے جواب میں کشمیری عوام کے ساتھہ پاکستان بھی اس کا توڑ کریں گے اور اس طرح کشمیر آج سے بھی بدتر جھگڑوں اور سازشوں کا مرکز بن کر رہ جائے گا اس لئے عقل و دانش کا تقاضا ہے کہ کشمیر کے تنازع کو استصواب رائے کے ذریعے ہی حل کرانے کی کوشش کی جائے اور آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدرانہ رائے شماری کے ذریعے تنازع کے حل میں یہ راز بھی پوشیدہ ہے کہ فیصلہ چاہے پاکستان کے حق میں ہو یا بھارت کے حق میں اس سے کسی بھی فریق کو شکست کا احساس ہوگا نہ کسی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکثریتی فیصلہ کی وجہ سے وہ عناصر بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے جو شرارت کے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں 3 جون 1947ء کے منصوبہ آزادی کے مطابق پاکستان اور بھارت کا قیام عمل میں آیا تو اس منصوبہ کی شرائط کے تحت بھی کشمیر کو تقسیم کیا جاسکتا ہے نہ اسے آزاد حیثیت دی جاسکتی ہے اگر آج ہم نے اس منصوبہ کے بنیادی اصولوں میں تبدیلی قبول کرلی تو پھر صوبہ سرحد سے بھی یہ آواز اٹھائی جاسکتی ہے کہ ازسر نو ریفرنڈم میں آزادی کی گنجائش بھی رکھی جائے یہ وہ مطالبہ ہوگا جسے محولہ بالا منصوبہ کے مطابق بھی رد کیا گیا تھا ۔ ان کے علاوہ کشمیر سے متعلق بنیادی اصولوں کو ترک کرنے سے پہلے ہمیں ان سوالات کا جواب بھی دینا ہوگا کہ گزشتہ پندرہ سولہ برسوں کے دوران پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی حمایت سے جاری تحریک آزادی کے 80 ہزار سے زیادہ شہیدوں کی قربانی کا حساب کون دے گا۔ کیا ان سب کا سودا امن کے غیر یقینی نوبل انعام سے کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے عوام اور پاکستان کی ہر حکومت کی شروع سے یہ خواہش بھی رہی ہے اور کوشش بھی کہ تنازع کشمیر کو حل کرکے دونوں ملک شاہراہ امن و دوستی پر گامزن ہوجائیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ اس کے تصفیہ میں رکاوٹیں پیدا کیں اس لئے بہتر ہوتا کہ ارباب اقتدار بھارتی قیادت سے یہ ضرور معلوم کر لیتے کہ بھارت کے آئین میں وہ کشمیر سے متعلق ترمیم کرنے کے لئے تیار ہیں یا آئین کی موجودہ صورتحال میں بھی وہ کوئی معاہدہ کرسکتے ہیں؟ لیکن عام خیال یہ ہے کہ بھارت کی کوئی حکومت اپنے آئین سے ماورا کسی تصفیہ کے لئے تیار نہیں ہوگی ایسی صورت میں مذاکرات یقینی طور پر تنسیع اوقات ہوں گے۔ جنرل پرویز مشرف کی خواہش کے مطابق اگر قوم ان کی پیش کردہ کسی تجویز یا استصواب رائے ہی پر متفق ہوجاتی ہے تو کیا من موہن سنگھہ نے ہقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اسے تسلیم کرلیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا تو پھر ہمیں چاہئے کہ ایسی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے اس لئے کہ زندہ اور سمجھدار قومیں سراب کے پیچھے نہیں دوڑا کرتیں۔ اپنی تجویز پر قوم کو بحث کی دعوت دینے کا منتقی نتیجہ یہی نکلے گا اور وہ اس طرح کہ وہ عناصر جو اپنے دل میں بھارت سے محبت کی دیوی اور پاکستان سے نفرت کے دیوتا چھپائے بیٹھے تھے اب ان تجاویز کی آڑ میں قوم میں فکری انتشار پیدا کرنے اور پاکستان کے نظریئے پر کلہاڑا چلانے کے لئے کھل کر کام کریں گے اور ان کی موجودگی میں صدر مملکت کے بقول پاکستان کو دشمنوں کی اور کشمیر پر اپنا حق جتانے کی لئے بھارت کو وکیلوں کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ انہوں نے تو یہ کہنا شروع بھی کردیا ہے کہ صدر پرویز مشرف کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز 57 سال پرانی پاکستان کی غلطیوں کے ازالہ کی کوشش ہے۔ گویا تنازع کشمیر کی تمام تر ذمہ داری پاکستان اور مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں کشمیر کے حوالے سے ہم ہی نے بھارت پر کئی جنگیں تھونپی ہیں اور اسی تنازع کا تصفیہ نہ ہونے کا سبب بھی پاکستان کی ہٹ دھرمی ہے۔ اس مسئلہ کے سبب پاکستان کو ہونے والے نقصان پر بھی وہ مگر مچھہ کے آنسو بہاتے ہوئے قوم کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اپنے سے پانچ گنا بڑی طاقت سے مقابلہ ہمارے بس میں نہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج آزاد کشمیر کو وجود بھارت کی منظم اور مسلح افواج کے مقابلہ میں غیر فوجی غیر مسلح لیکن جذبہ جہاد سے سرشار پر عزم عوام ہی کا مرہون منت ہے ایسے عناصر چاہتے ہیں کہ قوم کو بزدلی کو درس دے کر عظیم ہمسایہ کی غلامی نہیں تو کم از کم بالادستی قبول کرلی جائے اسی مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے وہ پاکستان کے بانی اور تحریک آزادی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے والی قوم پر یہ بہتان لگاتے ہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ تو لادین پاکستان چاہتے تھے اور اس کے حصول میں وہ کامیاب بھی ہوگئے تھے لیکن بعد میں ایک سازش کے تحت اسلام کے نام لیواؤں نے اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان بنادیا۔ اس طرح ڈر یہ ہے کہ صدر پرویز مشرف کی تجاویز کا بھارت کی طرف سے تو کوئی مثبت جواب نہیں دیا جائے گا البتہ اپنی قوم کے اندر انتشار اور بے اعتمادی پیدا کرنے کی غرض سے کچھہ لوگ استعمال کرجائیں گے۔ جنرل پرویز مشرف چاہتے ہیں کہ وہ ان تجاویز پر بحث کریں لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخصوص ٹولے اور جی حضوریوں کے بجائے محب وطن دانشوروں کو مدعو کریں ورنہ انہیں راستہ سے بھٹکانے کی سازش کامیاب ہو جائے گی اس میں نقصان صرف پاکستان کا ہوگا۔

نیا یہود نوازامریکی قانون

روزنامہ جنگ پیر25 اکتوبر 2004 ء

گزشتہ ماہ راقم نے لکھا تھا کہ امریکہ اسرائیل کا یرغمالی بنا ہوا ہے لیکن اب یہ حقیقت یوں منکشف ہوگئی ہے کہ وہ نیا بھر میں یہود مخالف رویئے پر نظر رکھے اور یہود دشمنی کے حوالہ سے مختلف ممالک کی درجہ بندی کرے۔ سال رواں کی 20 جنوری کو امریکی کانگریس کے منظور کردہ بل پر امریکی صدر نے دستخط کرکے اب اسے باقاعدہ قانون کی حیثیت دے دی ہے۔ 9 ماہ تک اس بل پر دستخط میں تاخیر کا سبب یہ تھاکہ امریکی وزارت خارجہ کے علاوہ چند دانشور بھی اس کے مخالف تھے ان کا خیال تھاکہ اس قانون سے مسلم دنیا میں امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوگا۔ بہرحال گزشتہ سال کے آخری تین ماہ اور سال رواں کے ابتدائی تین ماہ کے دوران دنیا کے مختلف خطوں میں پیش آنیوالے جن معمولی واقعات کو انتہائی سنگین قرار دیتے ہوئے اس قانون کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ان میں سرفہرست تو ملائیشیا کے اس وقت کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کا بیان ہے جو 16 اکتوبر 2003 ء کو اسلامی کانفرنس میں دیا گیا تھا جس کا ماحصل یہ تھا کہ آج دنیا پر عملاً یہودی حکومت کر رہے ہیں آخری فتح تک جن کا مقابلہ کرنا ہوگا اس لئے کہ چند لاکھہ یہودی دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتے۔ امریکی کانگریس کو اس پر بھی تشویش تھی کہ عرب اور مسلمان ملکوں میں یہودیوں کے خلاف کتابوں کی اشاعت اور ٹیلیویژن پروگراموں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر میں یہودی دانشوروں نے دنیا پر حکمرانی کے لئے جو خفیہ دستاویز تیار کی تھی اس پر آج ہم عمل ہوتا بھی دیکھہ رہے ہیں لیکن امریکی کانگریس نے اس دستاویز کو من گھڑت اور افسانوی قرار دے دیا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ترکی، روس، کینیڈا، آسٹریلیا اور فرانس میں یہودیوں کی عبادت گاہوں کے باہر بم دھماکے یا چند قبروں کے کتبوں پر نازی نشان سواستیکا بنا دیئے جانے وغیرہ کو بھی اس قانون کی ضرورت بتایا گیا ہے یہودیوں کے درد میں مبتلا یہی امریکی کانگریس ہے جو کبھی افغانستان کو ننگی جارحیت کا نشانہ بنانے کی قرار داد منظور کرتی ہے اور کبھی عراق کی آزاد اور خودمختار مسلم مملکت کے شہریوں کے خون سے دجلہ و فرات کا رنگ سرخ کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔ مسلمان ملکوں پر مختلف پابندیاں لگاتی ہے، اگر اسے کسی ملک کی ایٹمی صلاحیت سے ڈر ہے تو وہ مسلمان ہے اگر کسی ملک کو ایٹمی بجلی گھروں سے محروم رکھنا ہے تو وہ بھی مسلمان ہی ہیں۔ بہرحال امریکی کانگریس کو یہود مخالف رویئے پر نظر رکھنے کے لئے قانون بنا کر دنیا میں اپنے اور یہودی مخالفین میں اضافہ کی بجائے اس امر پر غور کرنا چاہیئے تھا کہ دنیا میں یہودیوں کے خلاف جذبات کیوں ابھر رہے ہیں کیا وجہ تھی کہ جرمنی کا ہٹلر یہودیوں کو دنیا کی سب سے زیادہ قابل نفرت قوم سمجھتا تھا۔ خود یورپ کے معروف دانشور اور ڈرامہ نویس یہودیوں کو انتہائی ظالم اور سفاک سمجھتے رہے تھے آج ہم دیکھہ رہے ہیں کہ یہودی ہر قسم کےمہلک ہتھیاروں سے لیس نہتے فلسطینیوں کو بیدردی کے ساتھہ ہلاک کررہے ہیں ان کی بستیوں کو تباہ کررہے ہیں۔ عراق میں ہر روز شہریوں کو بمباری کرکے ہلاک کیا جارہا ہے بستیاں اجاڑی جارہی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ صدام کے بغیر آج کا عراق محفوظ اور خوش بھی ہے اور یہاں آزادی بھی پہلے سے زیادہ ہے ان کے بقول آج افغانستان بھی آزاد، خودمختار اور پرامن ملک ہے۔ 1998ء میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کا قانون نافذ کیا گیا تاکہ جس ملک پر چاہے مذہبی آزادی پر قذغن کا الزام لگا کر اس پر پابندیاں عائد کرسکے اس قسم کی تمام قانون سازی دوسرے ملکوں میں بیجا مداخلت کی غرض سے کی جاتی ہے اگر امریکہ انصاف پسند ہوتا تو فرانس میں مسلم طالبات کو اور ترکی کی رکن پارلیمنٹ پر سر نہ ڈھانپنے کی پابندیوں کے خلاف ضرور آواز اٹھاتا۔ آٹھہ ماہ پہلے منظور کردہ بل کو انتخابات کے پندرہ دن پہلے قانونی شکل دینے کا مقصد یہودی رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی طرف سے بش کی حمایت اسی قانون کے نفاذ کو نتیجہ ہے۔ امریکہ میں اب عنوانیاں، ظلم و جبر اور ناانصافیاں فروغ پارہی ہیں۔ امریکہ کو مذہبی آزادی اگر کہیں نظر نہیں آتی تو وہ بھی مسلم ممالک ہیں ہمیں دو ٹوک الفاظ میں دنیا کو بتادینا چاہئے کہ ہمارے یہاں اقلیتوں کے ساتھہ نارواسلوک نہیں کیا جاتا نیز یہ کہ شیعہ اور سنی میں سے کوئی اقلیت ہے نہ اکثریت یہ سب ایک جسم اور ایک ہی جان ہیں اگر کسی ایک ہندو کو اغوا کیا گیا ہے تو بیسیوں مسلمان بھی اغوا کئے گئے ہیں لیکن ہندو کو ہندو ہوئے کے سبب ہرگز اغوا نہیں کیا گیا۔ بہرحال مذکورہ بالا قانون کے نفاذ سے مہاتیر محمد کے اس خیال کی بھی بھرپور تائید ہوتی ہے کہ آج دنیا پر یہودی قابض ہیں۔

شاید ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاپتے

روزنامہ جنگ اتوار 17 اکتوبر 2004 ء

یہ تو ہمیں تسلیم ہے کہ دنیاوی علوم و آگہی اور سائنس و ٹیکنالوجی اور عکسری قوت کے لحاظ سے آج یورپ اور امریکہ دنیا میں سب سےزیادہ ترقی یافتہ ہیںلیکن اہل مغرب کے اس دعوے کی تائید نہیں کی جاسکتی کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ مہذب اور متمدن، آزادی اور انسانی حقوق کے محافظ ہیں۔ بحیثیت مجموعی مغرب کا یہ دعویٰ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا کہ وہاں عورت کو مردوں کے مساوی حقوق اور عزت و احترام حاصل ہے۔ بیلجیئم کے وزیز خارجہ نے حال ہی میں ان تہذیبوں کو جہاں عورتوں پر سترپوشی کے لئے زور دیا جاتا ہے برا بھلا کہہ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ایسے کرنا عورت کو کمتر درجہ دینے کے مترادف ہے موصوف کو وہ عناصر بھی پسند نہیں جو جنسی مساوات کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے اپنے بیان میں نام تو نہیں لیا لیکن ان کی تقریباً تمام باتوں کا مقصد بالواسطہ اسلام کے پیروکاروں کوہدف تنقید تضحیک بنانا ہے۔ مغرب کی چکا چوند سے متاثر ہو کر بیشتر مسلمان حکمراں اور دانشور بیلجیئم کے وزیر خارجہ کے خیالات کے بڑی حد تک ہمنوا ہیں لیکن جو لوگ شے کی حقیقت کو دیکھنے والی نظر رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ آزادی ، انسانی حقوق اور مساوات مرد و زن کے دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے ان دعوؤں کے پول افغانستان، عراق اور فلسطین میں آئے دن کی بمباری اور ابو غریب جیل میں قید مردوں اور عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک، گوانتاناموبے ، خلیج میں بغیر مقدمے چلائے مسلمانوں کی قید تنہائی سے کھلتے جارہے ہیں۔ آج مسلمان کتنے ہی گئے گزرے کیوں نہ ہوں اگر عورت کا احترام کہیں باقی ہے تو وہ صرف مسلم معاشرہ ہی ہے۔ یہ دعویٰ نہ تو خوش فہمی کی بنا پر ہے نہ کسی عصبیت کا نتیجہ ابھی ہم دیکھیں گے کہ ، ہمارا دعویٰ کتنا سچا ہے۔ بیلجئیم کے وزیر خارجہ کو اعتراض ہے کہ خواتین کو جسم ڈھانپنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اچھا لباس اور اچھا زیور عورت ہی کوزیب دیتا ہے اور مردوں کے لئے ریشم اور سونے کا استعمال حرام ہے لیکن مغرب جو مادہ پرستی کی دوڑ میں اندھا ہوچکا ہے اس نے آہستہ آہستہ عورت کو پہلے سونے، چاندی کے زیور سے محروم کیا اور اسے بناوٹی دھاتوں سے بہلایا جانے لگا پھر اسے ڈاروں کے نظریۂ ارتقا کے مطابق ابتدائی دور میں دھکیل کر لباس سے محروم کردیا گیا مغرب میں عورت کے احترام کا معیار کیا ہے؟ یہی نا کہ اسے ہرقسم کی اشیائے صرف کی تشہیر کا ذریعہ بنانے کی خاطر اسے بے لباس منظر عام پر لایا جائے مغرب یہ الزام لگاتا ہے کہ مشرق یا عالم اسلام میں عورت محکوم اور مجبور ہے اور کئی علاقوں کی خواتین متحرک خیموں (Moving Tents) کا نمونہ پیش کرتی ہیں اور مسلم معاشرے پر مرد پوری طرح مسلط ہیں لیکن دیکھنے والی آنکھہ تو یہ دیکھتی ہے کہ مسلم معاشرہ میں مرد پھٹے پرانے لباس کو بھی گوارا کرلیتا ہے لیکن عورت کو چاہے وہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کسی بھی حیثیت میں ہو مکمل لباس مہیا کرتا ہے۔ عورتوں کے لباس کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے "اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اور اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں (یعنی گھونگھٹ ڈال لیا کریں) یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ شریف، باحیا اور خاندانی عورتیں ہیں لونڈیاں یا اخلاق باختہ نہیں) اور ستائی نہ جائیں۔ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے (الاحزاب ۵۹)۔

اس کے برعکس مغرب میں مرد بیک وقت تہہ در تہہ کئی لباس زیب تن کئے رہتا ہے لیکن عورت بیچاری کو گرمی، سردی یا برسات کوئی بھی موسم ہو چند گرہ کپڑا بالائے ناف اور چند گرہ کپڑا زیر ناف استعمال کے لئے دیا جاتا ہے اسے بے لباس کرکے مردوں کی محفلوں کو اس کے رقص سے گرمایا جاتا ہے بیشتر کلبوں اور محفلوں میں مرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی عورت کے ساتھہ آئے چاہے وہ عورت کوئی بھی ہو۔ اعتراض ہوتا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرلیتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی ان کی بیویاں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں اس کے بر خلاف جہاں مردوں کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت نہیں وہاں میاں اور بیوی بے اعتمادی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ مرد اپنی زندگی میں کتنی ہی عورتوں کو طلاق اور اسی طرح عورت مرد سے طلاق حاصل کرتی ہے اس کے علاوہ وہاں مغرب میں طلاق کا تناسب مشرق یا مسلم معاشرے کے مقابلہ میں بہت زیادہ ایسا کیوں ہے اس کی وضاحت خود مغرب کو کرنی ہے کہ کیا ایسا جنسی مساوات کا نتیجہ ہے یا عورت کو انسان کے بجائے ہاتھہ کا میل سمجھنے کا۔ مغرب جمہوریت اور انسانوں کے اظہارخیال کی آزادی کا بڑا عملبردار بنتا ہے لیکن ابھی ترکی کی پارلیمنٹ میں ایک مسودہ قانون پیش کیا گیا تھا جس میں مرد اور عورت کی بدکاری کو جرم قرار دیا جانا تھا لیکن اس مسودہ اورسے بدکاری سے متلعق شق کو نکالنا پڑا اس لئے کہ ترکی یورپی یونین کی رکنیت کا امیدوار ہے اور یورپی یونین ایسے کسی ملک کو رکنیت دینے کے لئے تیار نہیں جس میں بدکاری کو جرم قرار دیا گیا ہو۔ ترکی ہی کی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن کی رکنیت کو اس لئے ختم کردیا گیا کہ وہ سر کو ڈھانپتی تھی یعنی وہ یہ ثابت کررہی تھی کہ وہ مسلمان ہے۔ ابھی فرانس میں عورتوں خاص طور پر تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم مسلمان بچیوں پر سر نہ ڈھانپنے کی پابندی لگادی گئی ہے جو اسلام بیزاری کی بدترین مثال ہے حالانکہ کہا یہ جارہا ہے کہ تمام طالبات پر یہ پابندی ہے کہ ان کے لباس سے مذہب پرستی کا اظہار نہ ہو۔ اگر مسلمان قیادت واقعی بیدار اور جرأت مند ہوتی تو وہ اپنے اپنے ملکوں میں بھی غیر ملکیوں پر شریفانہ لباس کی پابندی لگاسکتی تھی یہ بے حسی کی علامت ہے کہ مغرب ہمیں لباس اور فکروعمل کی آزادی دینے کے لئے تیار ہے نہ آئین و قانون سازی اپنی اقدار کے مطابق کرنے دیتا ہے ہم بھی مغرب کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ جنس پرستی، عریانیت اور فحاشی کو فروغ دینے سے باز رہا جائے وہ ہماری سوچ تک پر پابندی لگائے جارہے ہیں اور ہم ان کی ڈگڈگی پر ناچتے چلے جارہے ہیں ۔ مسلمان حکمرانوں اور مسلمان دانشوروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مغرب میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور فحاشی کے سیلاب سے نہ صرف اپنے خطوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی تدابیر کریں بلکہ خود مغرب کو بھی یہ بتانے کی کوشش کریں کہ وہ آزادی کے نام پر عورت کو استحصال کرنے اور محض جنسی تسکین کا ذریعہ بنانے کی نہیں بلکہ تکمیل انسانیت کا ذریعہ بنائیں۔

صدر کی وردی کا مسئلہ

روزنامہ جنگ اتوار 3 اکتوبر 2004ء

اپنے حالیہ غیر ملکی دورہ کے دوران صدر جنرل پرویز مشرف نے اس امر کی اہمیت کو اجاگر کرکے دنیا کو باور کرانے کا خصوصی اہتمام کیا کہ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے تسلسل کی ضرورت ہے لیکن اس سال کے آخر تک اگر وردی اتارنے کے اپنے وعدوں پر عمل کیا تو شاید یہ تسلسل قائم نہ رہ سکے انہوں نے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کو بنیاد پرستی، دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مکمل طور پر آزاد کروانے کی جو کوشش کررہے ہیں فوج کی سربراہی کو چھوڑنا پڑا تو ان کی یہ کوشش اپنی طاقت اور توازن کھو سکتی ہے۔ بیانات کے اس انداز سے چند بنیادی باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے ان میں سب سے اہم اور پہلی یہ ہے کہ آئین کا تقاضا ہے کہ صدر مملکت 31 دسمبر2004ء سے پہلے فوجی منصب سے علیحدہ ہوجائیں دوسرا یہ کہ صدر مملکت کو اس سلسلے میں قوم سے کیا گیا وعدہ بھی یاد ہے تیسرا یہ کہ ہمارے ملک کے ماہرین قانون آئین اور دانشوروں کا یہ موقف بھی تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ہمارے یہاں وردی، والا وردی والا ہی ہوتا ہے اور بے وردی والا چاہے وہ صدر مملکت ہی کیوں نہ ہو کمزور بھی ہوتا ہے اور وردی والے کے دباؤ میں بھی رہتا ہے حالانکہ ملک کو صدر بہ لحاظ عہدہ افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے۔ اگر یہ خدشات حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے تو صدر مملکت ہر گز یہ نہ کہتے کہ وردی اتارنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تسلسل قائم رہنا مشکل ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی فوج الحمدللہ دنیا کی بہترین ، منظم ترین اور نظم و ضبط کی پابند فوجیوں میں شمار ہوتی ہے اس کی طرف سے یہ خطرہ نہیں ہونا چاہئے کہ صدر کے احکامات کی پابندی نہیں کرے گی لیکن اگر جنرل پرویز مشرف کو اس قسم کا کوئی ڈر ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خود فوج کو سیاسی جماعت کا روپ دے دیا ہے اور آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملک کے ہر شعبہ سے متعلق تمام فیصلے بالواسطہ یا بلاواسطہ جنرل پرویز مشرف خود کرتے ہیں جبکہ پارلیمانی جمہوریت میں وزیر اعظم ، کابینہ اور پارلیمنٹ اس کے مجاز ہیں۔ بیرونی دنیا میں نمائندگی کا اختیار بلکہ حق وزیر اعظم کا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سارک سربراہ کانفرنس ہو یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ان میں جنرل پرویز مشرف تشریف لے جاتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوس سے وزیر اعظم ہی بین الاقوامی فورموں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فوج کے بہت زیادہ عمل دخل کی بناء پر ہی صدر مملکت کو یہ ڈر ہوگا کہ ہوسکتا ہے فوج کی آئندہ قیادت دہشت گردی کے نام پر لڑی جانے والی ہماری جنگ کو امریکہ کے مفادات کی جنگ قرار دے کر اپنے نوجوانوں کو بلاوجہ خطرات میں ڈالنا پسند نہ کرے یا جن اہداف کو جنرل پرویز مشرف آج "قومی مفاد" قرار دے رہے ہیں آئندہ کی فوجی قیادت انہیں اس تناظر میں نہ دیکھے یہ بہرحال تمام مفروضات ہیں لیکن ہمیں اس رجحان کو ختم کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہوگی اور یہ کارنامہ جنرل پرویز مشرف جس بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں دوسرا نہیں کرسکے گا۔ اگر پاکستان کی فوج کا تشخص اور اس کی صلاحیت کو برقرار رکھنا ہے تو اسے ملکی سیاست سے الگ تھلگ رکھنا ہوگا صدر مملکت کو ان کے تیار کردہ منصوبوں میں رکاوٹ کا ڈر تو ویسے بھی نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ آج دنیا کی سب سے بڑی قوت قاہرہ اور اس کے صدر جارج بش کی حکومت کی طرف سے انہیں مکمل اور غیر مشروط حمایت حاصل ہے حتٰی کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی مکمل بحالی کے اپنے اصولی موقف سے بھی صرف نظر کرنے پر مجبور ہے کہ اسے باوردی صدر کی زیر قیادت پاکستان کی اشد ضرورت ہے اور وردی نہ اتارنے کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاول بھی ہمارے وزیر اطلاعات کی اس بات سے اتفاق کرنے پر مجبور ہیں کہ صدر پرویز مشرف کو آئندہ چند دنوں میں اہم فیصلے کرنے ہیں کولن پاول نے بہرحال وردی کے معاملے کو پیچیدہ ضرور قرار دیا ہے۔ اہم فیصلوں کا جہاں تک تعلق ہے تو آزاد اور خودمختار قوموں کو تو ہر وقت اور مسلسل اہم فیصلے کرنے کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے ہم کوئی جامد یا غلام قوم نہیں کہ چند اہم فیصلے کرکے بیٹھے رہیں جیسا کہ پہلے فرض کیا گیا جمہوری ملکوں میں فیصلے پارلیمان کو کرنے ہوتے ہیں کسی فرد واحد پر اس کا بوجھہ نہیں ڈالا جاتا صدر کو چاہئے کہ جس کا کام اسی کو ساجے کے مصداق وہ پارلیمنٹ کو فیصلوں کی ذمہ داری پوری کرنے دیں کہ یہ ان کا حق بھی ہے اور وہی عوام کے سامنے براہ راست جوابدہ بھی ہیں۔ صدر نے اب یہ بھی کہا ہے کہ آئین کے تحت وہ فوجی سربراہ کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھہ سکتے ہیں اگر واقعی ایسا ہوتا تو پیپلز پارٹی کے باغی گروپ سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے وزیر داخلہ کو انفرادی اور پھر اجتماعی طور پر یہ درخواست کرنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ صدر وردی نہ اتاریں اور اس کے بعد تو گویا وزیروں اور وزرائے اعلٰی کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا وردی نہ اتارنے کے مطالبہ کرنے کا۔ پھر پنجاب کے وزیر اعلٰی نے صوبائی مسلم لیگ اور صوبائی اسمبلی سے قراردادوں کی منظوری کا سلسلہ شروع کردیا جو بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ یہ دراصل قوم ہی کو نہیں خود صدر مملکت کو بھی گمراہ کرنے کی سازش نہیں تو غلطی ضرور ہے۔ آئین میں اگر کسی بات کی گنجائش ہے تو اس پر عملدرآمد کرنے کے لئے صدر سے درخواست کرنے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے اس لئے کہ صدر وردی میں ہیں اور 31 دسمبر کی تاریخ بھی اسی وردی میں رہتے ہوئے پارکر جاتے لیکن دال میں کالا ہے اور وہ یہ کہ آئین اس کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا کہ یکم جنوری 2005ء کو پاکستان کا صدر وردی میں ملبوس نظر آئے اور وردی نہ اتارنے کی دہائی اسی بناء پر ہے۔

صدر کی طرف سے وردی اتارنے کا وعدہ آئین سے ماورا نہیں ہے یہ آئین کا تقاضا ہے لیکن اس کو وعدہ قرار دے کر یہ کہنا کہ مجلس عمل نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں شرکت نہ کرکے وعدہ خلافی کی ہے اس لئے صدر بھی اپنے وعدے پر عمل کے پابند نہیں رہے یہ انتہائی کمزور بلکہ خطرناک دلیل ہے صدر کا وعدہ پاکستان کے چودہ کروڑ عوام سے تھا فقط مجلس عمل سے نہیں اور مجلس عمل سے بھی اگر تھا تو سلامتی کونسل میں اس کی شرکت سے مشروط نہیں ہوگا پھر بھی صدر مملکت کے وعدے اور کسی فرد ، جماعت یا گروہ کے وعدے میں دن رات کا فرق ہوتا ہے آج ہمارے صدر کے ہر قوم اور عمل پر ساری دنیا کی نگاہ لگی ہوئی ہے ۔ صدر خود کہتے ہیں کہ دنیا میں پاکستان کے بارے میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرکے اس کا وقار بلند کرنا ہے وہ دنیا بھر میں دعوت دیتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرو انہیں ہر قسم کو قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہوگا لیکن جب دنیا دیکھے گی کہ ہم سے وعدہ کرنے والا شخص اپنی قوم سے کئے گئے وعدے اور آئین کے تقاضے ہی پورے نہیں کرتا تو اس سے ہمارا وقار قائم ہوگا کہ رہا سہا بھی اٹھہ جائے گا۔ ویسے بھی وعدے پورے نہ کرنے والوں کو اللہ بھی پسند نہیں کرتا اور اگر اللہ ہی کسی پسند نہ کرے تو دنیا کے ہزاروں بش اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور اگر اللہ کسی کو پسند کرے تو ہزار بش اسے نقصان نہیں پہنچاسکتے بشرطیکہ ہمارا اس بات پر کامل ایمان ہو۔ نیک نامی چاہے وہ فرد کی ہو یا قوم کی نہ تو امریکی امداد کے طور پر مل سکتی ہے نہ بازار سے خریدی جاسکتی ہے اس لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے قوم کی تمنا ہے کہ صدر مملکت جو "پاکستان پہلے" اور قومی مفادات کی بات سب سے زیادہ کرتے ہیں آئین کی پابندی اور اپنے وعدے کا پاس کرکے آئین کو مزید بے وقعت ہونے سے بچالیں اس لئے کہ قوم کی عزت ہی اس کے افراد کی عزت سے وابستہ ہوتی ہے۔

آج جنرل پرویز مشرف امریکی صدر بش اور مغرب کے کتنے ہی چہیتے کیوں نہ ہوں لیکن دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اپنا مقصد حاصل کرلینے کے بعد آنکھیں پھیرنے میں ایک لمحہ کی بھی دیر نہیں کرتا اس لئے کہ یہ امریکہ کی عادت سے بڑھ کی اس کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علاقہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے جب صدام حسین کو استعمال کیا جارہا تھا تب وہ امریکی حکمرانوں کے دل کا سرور اور آنکھوں کا نور تھے لیکن آج اسی صدام حسین کے دانت اسی طرح دکھائے جارہے ہیں جس طرح ہمارے یہاں قربانی کےجانوروں کی خریداری کے وقت دکھائے جاتے ہیں ۔ ہمیں عقل و خرد اور فکر و تدبر سے کام لینا چاہئے۔ پختہ سوچ اور پختہ کردار کا تقاضا ہےکہ مختلف افراد کی طرف سے تعریفی کلمات اور وقت بے وقت ٹیلیفونوں سے متاثر ہوں نہ اپنے مفادات کو قربان کیا جائے۔

بھارت اور سلامتی کونسل کی مستقل نشست

روزنامہ جنگ اتوار 26 ستمبر 2004 ء

بھارت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی حمایت کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ ایک ارب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت کو سلامتی کونسل میں مستقل نشست نہ دینا جدید دنیا سے ہم آہنگ نہیں لیکن اگر ٹونی بلیئر کی اس دلیل کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر چین،بھارت،امریکہ،روس،انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے زیادہ آبادی والے ملک مستقل رکنیت کے حقدار قرار پائیں گے اور برطانیہ اور فرانس جیسےکم آبادی والے ملکوں کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے ہاتھہ دھونا پڑجائیں گے۔ ٹونی بلئیر اور من موہن سنگھہ کی یہ باتیں اقوام متحدہ میں ان اصلاحات کی کوششوں کا حصہ ہیں جن کا شوشہ کوئی ایک عشرے پہلے چھوڑا گیا تھا لیکن آج دنیا کی قسمت کے ٹھیکیدار شاید یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا نفسیاتی طور پر اقوام متحدہ کی ہیئت میں ان تبدیلیوں کیلئے تیار ہے جو وہ لانا چاہتے ہیں۔ امریکہ چند ماہ پہلے سلامتی کونسل میں بھارت کی موجودگی کی ضرورت پر زور دے چکا ہے۔ بھارت ، جاپان ، جرمنی اور برازیل نے "انجمن ستائش باہمی" قائم کرلی ہے یعنی چاروں ملک مستقل رکنیت کیلئے ایک دوسرے کی دد کریں گے۔ پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی راہ روکنے کی پوری کوشش کرے گا لیکن اگر واقعی اقوام متحدہ میں اصلاحات لانا مقصود ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کی تعداد میں اضافہ نہیں بلکہ دنیا کو مستقل اراکین کی لعنت سے چھٹکارا دلایا جائے۔ آج کی سلامتی کونسل میں پانچ مستقل اور دس غیر مستقل نمائندے ہیں غیر مستقل ممبر دو سال کیلئے منتخب کئے جاتے ہیں پانچ مستقل اراکین یعنی امریکہ ، چین ، روس ، برطانیہ اور فرانس میں سے ہر ایک کو یہ حق حاصل ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرار دار کے خلاف رائے دے دے تو وہ قرار داد مسترد ہوجاتی ہے چاہے کونسل کے دس عام اور باقی چار مستقل اراکین اس قرارداد کے حامی کیوں نہ ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چند کروڑ افراد کی آبادی کا کوئی ایک ملک بھی اس حق استرداد کے سہارے ساری دنیا کے جذبات و احساسات پر پانی پھیر سکتا ہے اس طرح یہ ایک انتہائی ظالمانہ حق ہے جو پانچ ملکوں کو حاصل ہے دراصل اقوام متحدہ کے دو اہم اعضاء ہیں ایک جنرل اسمبلی جو تمام رکن ممالک پر مشتمل ہوتی ہے آج 190 سے بھی زیادہ ملک اس کےممبر ہیں۔ دوسرا سلامتی کونسل جو اقوام متحدہ کی اصل روح ہے اس کے فیصلوں پر عملدرآمد تمام ملکوں کیلئے لازمی ہوتا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اگر قرار داد کی زد کسی ایک مستقل ممبر یا اس کے کسی حواری پر پڑی تو اس قرار داد کی مخالفت میں رائے دےکر اسے بے اثر بنا دیا گیا۔ مثال کےطور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آج تک کوئی ایسی قرارداد منظور نہیں کی جاسکی جس میں نام لئے بغیر بھی اسرائیل کی مذمت اور اس کے کسی منصوبہ کی مخالفت کی گئی ہو اس لئے کہ امریکہ نے ایسی ہر قرار داد کو مسترد کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جان علیحدہ علیحدہ پانچ مستقل نمائندوں کے ہاتھوں میں ہے۔ آج دنیا میں آزادی، خود مختاری ، جمہوریت اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے لیکن سلامتی کونسل میں اس کے رویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ اسرائیل کا یرغمالی بنا ہوا ہے اور امریکہ نے اقوام متحدہ کو یرغمال بنا رکھا ہے اقوام متحدہ کی رائے کو ٹھکراتے ہوئے امریکہ نے عراق کو جس بدترین جارحیت کا نشانہ بنایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی دنیا میں چنگیز اور ہلاکو کی نسل پوری طرح سرگرم عمل ہے اسلئے دنیا کو پانچ مستقل اراکین کے تسلط سے بچانا ضروری ہے نہ کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین میں اضافہ کیا جائے اقوام متحدہ کے استحکام اور اس کے وقار میں اضافہ کیلئے بھی ضروری ہے کہ مستقل رکنیت کی شق ختم کرکے دنیا کو حق استرداد کی ستم سامانیوں سے نجات دلائی جائے دنیا کے صرف پانچ ملکوں کو لامحدود اختیارات دینا دنیا کے تمام آزاد اور خود مختار ملکوں کے انسانوں کی توہین کے مترادف ہے اسلئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل 23اور27کی شق 3 میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ مستقل اراکین کی گنجائش ختم ہوجائے اور اس کے تمام اراکین کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔ اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق آج کسی قرار داد کی منظوری کیلئے ضروری ہے کہ 15 میں سے کم از کم نو ممبروں کی حمایت حاصل ہو لیکن اس کیلئے یہ بھی لازمی ہے کہ پانچ مستقل اراکین میں سے کسی ایک بھی منفی ووٹ نہ ہو۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ قرار داد کی منظوری کیلئے تو کم از کم نو ممبروں کی حمایت ضروری ہے جس میں مستقل ممبر کا منفی ووٹ اس قرار داد کو بے اثر بنانے کیلئے کافی ہے۔ اقوام متحدہ کی بے بسی اور بے وقعتی کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں عراق پر حملہ اقوام متحدہ کی مرضی کے برخلاف اور اس کےاصولوں کی انتہائی سنگین خلاف ورزی ہے جس کی نشاندہی عالمی ادارہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے اس کے افتتاحی اجلاس کےموقع پر خود کی ہے البتہ یہ بات قابل غورہے کہ اس سچ کے بیان کےلئے انہیں ڈیڑھ سال کیوں انتظار کرنا پڑا کیا ایسا کرکے وہ خود بھی شریک جرم قرار نہیں پاتے بہرحال ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ ایسا عمداً کیا گیا اور اس کا مقصد محض عراق کی تباہی کو یقینی بنانا تھا اگر اقوام متحدہ آج امریکہ سے آزاد ہوتا اور سیکریٹری جنرل میں اس ادارہ کے شایان شان اخلاقی جرأت ہوتی تو امریکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے خلاف جارحیت کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اگر ایسا کرلیا جاتا تو اس جرم میں اسے ہرقسم کی پابندیوں میں جکڑ دیا جاتا یہی نہیں خود کوفی عنان کو بھی جرم کو چھپانے اور اقوام متحدہ کے وقار کو پامال کرنے کے الزام میں اور نہیں تو جنرل سیکریٹری کے منصب سے ضرور ہٹادیا جاتا ۔ اگر آج دنیا بیدار اور اس کی رائے عامہ منظم ہوتی یا وہ اسلام دشمنی کا شکار نہیں ہوری یا جارحیت کا نشانہ مسلم ملک کے بجائے کوئی عیسائی یا یہودی ملک ہوتا تو دنیا دیکھتی کہ حملہ آور جرائم کی عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہے لیکن بدقسمتی سے مسلمان قیادت خود پست ہمت اور احساس کمتری کا شکار ہے اس لئے ایسا ممکن نہیں۔ بہرحال اگر اقوام متحدہ کو پہلی عالمی جنگ کی کوکھہ سے جنم لینے والی جمعیت اقوام کے حشر سے بچانا ہے تو اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام ملکوں کو برابری کا درجہ دینا ہوگا اور مظلوم اقوام کو انصاف فراہم کرنا اور ظالم اور جابر ملکوں کا ہاتھہ روکنا ہوگا لیکن اس کیلئے بنیادی شرط یہ ہے کہ پہلے اقوام متحدہ کو امریکہ کے تسلط سے نجات دلائی جائے جب تک امریکہ کی لاٹھی کو توڑا نہیں جائے گا اس وقت تک دنیا میں ظلم و جبر کا سلسلہ دراز ہوتا رہے گا دنیا میں امن و آتشی، آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اقوام متحدہ ایک آزاد، طاقتور اور غیر جانبدار ادارہ ہے۔ آج دنیا کے مسلمان ہی نہیں امن پسند عیسائی ، یہودی اور ہندو سب ہی شدت کے ساتھہ یہ محسوس کررہے ہیں کہ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کو امریکہ بددیانتی پر مبنی اپنے مقاصد کے حصول میں کامیابی کیلئےاستعمال کرتا ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارہ (IAEA) کے ذریعہ پہلے وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ہوّا کھڑا کیا گیا پھر مختلف پابندیاں لگا کر دس لاکھہ بچوں سمیت پندرہ لاکھہ انسانوں کی ہلاکت کا سامان کیا اس پر صبر نہیں آیا تو آسمان سے آگ برسانے کا سلسلہ شروع کرکے بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پرجت گیا ، وہاں بہنے والے خون سے بھی دل کی پیاس نہیں بجھتی تو اب ایران کی جوہری صلاحیت پ واویلا مچانا شروع کردیا اور بغیر کسی جواز کے سوڈان میں اپنی فوجیں اتارنا چاہتا ہے اگر امریکہ واقعی جوہری ہتھیاروں سے نفرت کرتا ہے تو پھر اسرائیل کی ایٹمی صلاحیت سے کیوں چشم پوشی کی جارہی ہے۔ جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارہ کے نمائندوں کو ویسے تو اسرائیل جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن دنیا کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کیلئے ایک مرتبہ کارنامہ دے بھی لیا تو ہم نے دیکھا کہ اسرائیل حکام کے سامنے ان کا رویہ خوشمندانہ بلکہ معذرت خواہانہ تھا لیکن وہی نمائندے جب ایران جاتے ہیں رو ان کا رویہ تحکمانہ ہوجاتا ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے بالکل صحیح اور بروقت مشورہ دیا ہے کہ قیام امن کیلئے امریکہ کو اہم کردارادا کرنا چاہئے لیکن اس کیلئے پہلے خود امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی جارحیت کو ترک کرنا ہوگا صدر پاکستان کا یہ انتباہ بھی بروقت ہے کہ اسلامی دنیا اورمغرب کے درمیان آہنی دیوار پردہ حائل ہونے سے پہلے کچھہ اقدامات کونا ہوں گے، اگر دنیا بے آج ظلم اور نانصافی کا راستہ نہیں روکا تو کل ایک ایک کرکےہر ملک اس وحشت و بربریت کا شکار بنایا جاتا رہے۔