پاکستان کی سلامتی اور وقار
روزنامہ
پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جس کے شہریوں میں ایسے افراد خاصی تعداد میں پائے جاتے ہیں جو اپنے افکار و اعمال، تحریر تقریر اور نظم و نثر کے ذریعہ کبھی بالواسطہ اور کبھی بلاواسطہ ، کبھی خفی اور کبھی جعلی الفاظ میں پاکستان کے قیام ، اس کے نظریہ اور اس کے جواز و ضرورت کے بارے میں عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اپنے مستقبل پر ان کے اعتماد کو متزلزل کرانے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسا کرنے والے کبھی امن و دوستی کے حوالہ سے برصغیر کی تاریخ و ثقافت کو دونوں قوموں کا مشترکہ ورثہ اور نظریۂ پاکستان کو عدل و انصاف، انسانی حقوق ، رواداری وار روشن خیالی کے منافی وار ترقی ، خوشحالی اور سلامتی کی راہ میں رکاوٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غور کیا جائے تو اس مشق کو اس نظریۂ اکھنڈ بھارت کے تن مردہ میں تازہ روح پھونکنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے جسے ختم کرنے کیلئے برصغیر کے مسلمانوں کو عظیم جانی اور مالی قربانیاں دینی پڑی تھیں۔ یہی سبس ہے کہ بھارت کی غیر مسلم آبادی کی بھاری اکثریت آج بھی پاکستان کو تسلیم نہیں کرتی اسلئے کہ اس کے قیام سے "بھارت ماتا" کے ٹکڑے ہوگئے۔ لیکن اب بھارت کی خوش قسمتی سے اسے چند ایسے مردو خواتین مل گئے ہیں جو اسکے مقاصد کا آگے بڑھانے میں کھلم کھلا اس کی مدد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ وہ ابھی بھارت میں منعقد کردہ امن سبھا کی رونق سے مسحور ہو کر بھارت کی عظمت کے گیت گانے لگتے ہیں وہ کبھی پاکستان میں دوستی اور محبت کے نام پر سجائی جانے والی محفلوں میں بھارت سے معروف دانشوروں، صحافیوں، سابق فوجیوں، سفارتکاروں وار جانے پہچانے چہروں کی دلفریب باتوں پر خوش ہو کر رقص کرنے لگتے ہیں تاہم پاکستان کے مذکورہ دانشوروں اور امن و دوستی کے پیغامبروں اور ان کے بھارتی ہم مرتبوں میں یہ فرق نمایاں ہے وہ وہاں بھی اور یہاں بھی سرحدوں کو مٹادینے، تنازعات کو بھول جانے اور تجارت کو کھول دینے کی بات کرتے ہیں جبکہ یہاں والے وہاں جاتے ہیں تو اپنے کرم فرما میزبانوں کے جذبات کی قدر کرنے اور یہاں اپنے مہمانوں کی خاطر داری کے سبب انہی کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں شاید ان کے خیال میں مہمان کی تردید اور میزبان کی تکذیب اپنے وطن کی توہین سے زیادہ بڑی اور سنگین بداخلاقی ہے۔
ہمارے دانشور، سیاستدان، صحافی، شاعر، ادیب اور سابق سرکاری اہلکار پاکستان میں بھی مزے لوٹتے ہیں اور وہی دنیا بھر میں کہتے پھرتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا؟ بلا جھجھک پوچھتے رہتے ہیں کہ برصغیر میں اسلام کے نام پر علیحدہ وطن کی کیا ضرورت تھی جبکہ آ ج بھی بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان آباد ہیں؟ کبھی دھمکی دیتے ہیں کہ فلاں مطالبہ پورا نہیں ہوا تو وفاق ٹوٹ جائے گا۔ کبھی انہیں پاکستان اس لئے پسند نہیں آتا کہ یہاں سندھ کے وڈیرے، بلوچستان کے سردار اور سرحد کے خان اور ملک ان کے باجگذار بننے یا نہیں اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے کبھی پاکستان اس لئے ان کی آنکھوں میں کھٹکنے لگتا ہے کہ بھارت سے مقابلہ میں اس نے ایٹمی قوت بن کرعلاقہ میں بھارت کی بالادستی کے خواب کو چکنا چور کردیا، کبھ اس میں اس لئے کیڑے نظر آتے ہیں کہ یہاں سے مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند مجاہدین پشت پناہی اور اخلاقی امداد حاصل ہوتی ہے ۔ کبھی ملک و پنجاب سے آزاد کروانے اور کبھی فوجی آمریت سے نجات دلانے کے بہانے پاکستان کو کبھی ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی اس کے مستقبل کو مخدوش قرار دیا جاتا ہے۔ بارشیں نہ ہونے کی بناء پر خشک سالی اور دریاؤں میں پانی کی کمی کو بھی پاکستان کی افادیت ختم کرنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے یہ خطرہ کی نئی گھنٹی ہے کہ عالمی سندھی کانگریس کے بعد اب عالمی پنجابی کانفرنس کے نام سے بھی ناچنے گانے والوں کو جمع کرکے ہم ایک ہیں کا نعرہ لگا کردل کی بھڑاس نکالنے کا اہتمام کیا جانے لگا ہے۔
یہ حقیقت تو سب پر عیاں ہوگی کہ دنیا کی سب سے "پرانی" جمہوریت یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت یعنی بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی آزاد اور خودمختار ملک میں کسی بھی حالت میں کسی کو اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ اشاروں کنایوں میں اپنے ملک کے بارے میں باغیانہ زبان استعمال کرسکے۔ بھارت کی عظمت کے گن گانے والوں کیلئے تو یہ حقیقت باعث عبرت ہونی چاہئے کہ اپنے مقبوضۂ کشمیر میں آزادی کے اپنے حق کا مطالبہ کرنے والوں ، ان کے اہل خانہ اور دوست احباب سب ہی کو گردن زدنی قرار دے رکھا ہے اور وہاں مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس سات لاکھہ فوجی جلاد تعینات کررکھے ہیں۔
چند افراد کی طرف سے ایسے خیالات کی تشہیر تبلیغ یقیناً ناقابل برداشت ہے لیکن اس کا انتہائی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ وقتی مصلحتوں کے تحت اپنی نام نہاد روشن خیالی کی دھاک بٹھانے کے شوق میں دانشور رجعت پسندی کی تہمت سے بچنے کی خاطر سیاستداں، خود کو روادار اور وسیع النظر ثابت کرنے کے خیال سے اور اخبارات اپنی اشاعت میں اضافہ کی غرض سے پاکستان مخالف نظریات کے حامل افراد ار گروہوں کی پذیرائی کرتے ہیں ، سرکاری ذرائع ابلاغ ان کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش رہتے ہیں۔
اس پریشان کن اور خطرناک پس منظر میں حکمرانوں سے یہ سوال کرنے کی گستاخی کی جاسکتی ہے کہ قومی نظریات کے خلاف سرگرم عمل افراد کے خلاف ضروری کاروائی میں کیا مصلحتیں حائل ہیں؟ سیاسی رہنماؤں سے کیا یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ پاکستان مخالف عناصر کو سیاسی سرگرمیوں میں شامل کرنا دیانت اور حب الوطنی کے خلاف نہیں ؟ ماہرین و محافظین آئین و قانون کو کیا یہ بتانے کی زحمت دی جاسکتی ہے کہ اپنے وطن کے خلاف شرانگیز اور نفرت سے بھرپور باتیں کرکے قوم کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف کسی قسم کی قانونی یا عدالتی کاروائی نہیں کی جاسکتی ؟ اور کیا انہیں سرکاری اور عوامی مناصب کے لئے نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا؟ دانشور، علمائے دین و سیاست، محققین، تاریخ داں، تجزیہ نگار، شاعر اور ادیب حضرات یہ دریافت کرنے کی جسارت کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان مخالف نظریات کے مبلغین کے مقابلہ میں پسپائی کیوں اختیار کرتے جارہے ہیں؟ کیا قوم کا نفس ناطقہ یعنی اہل صحافت یہ بتانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ وہ وطن کے خلاف باتوں کی نمایاں اشاعت اور حب الوطنی پر مبنی مواد کو دبانے پر مجبور کیوں ہیں؟ پوری قوم سے بھی یہ سوال کرنا ہے کہ وہ اپنے درمیان ایسے لوگوں کو کیا سمجھتی ہے جو اس کے اپنے عدم جوار، عدم استحکام اور غیر یقینی کا ڈھنڈورہ پیٹ پیٹ کر پوری قوم کی آزادی ، عزت و ناموس سے کھیل رہے ہیں ان سوالوں کے جواب میں ہمارے شاندار اور عظیم مستقبل، ناقابل تسخیر مملکت، قابل رشک ترقی و سلامتی اور عزت و وقار کا راز مضمر ہے ۔ انکے جواب میں ہمارے بے شمار داخلی اور خارجی مسائل کا حل پوشیدہ ہے۔
No comments:
Post a Comment