سندھ کا مسئلہ (تصویر کا دوسرا رخ)

روزنامہ

14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشہ پر آزاد اور خود مختار ملک پاکستان کا ابھرنا جہاں قائد اعظم کی بے لوث اور غیر متزلزل قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی تاریخی اور بے مثال کامیابی کا مظہر تھا وہاں وہ علاقہ کی چھوٹی اور بڑی سامراجی اور استحصالی قوتوں کی عبرتناک شکست کا واقعہ بھی ثابت ہو اور یہ قوتیں محتلف حربے اور مختلفرنگ اختیار کرکے دوقومی نظریے کو غلط قرار دینے اور پاکستان کو اس کے بنیادی مقصد " پاکستانیت" سے ہٹانے کے لئے میدان میں نکل آئیں اور وہ شیطان کی سی مستقل مزاجی سے اپنے مشن میں مصروف کار ہیں۔ ان سامراجی اور استحصالی قوتوں میں انگیریزوں، ہندوؤں اور سکھوں کے علاوہ خود مسلمانوں کا ایک ایسا قلیل طبقہ بھی شامل رہا ہے جو عقل کی عیاری کا شکار ہوگیا یا پھر اسے وزیر اعظم کی ذات سے کسی بناء پر ذاتی عناد تھا۔ شریف دشمن تو اپنی روش سے باز آگئے لیکن جن لوگوں کی سرشت میں کمینگی اور تاریخی یا خاندانی پس منظر کی بناء پر پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ قیام پاکستان کے بعد بھی اپنی شیطانی حرکتوں میں لگے ہوئے ہیں بنگلہ دیش کا قیام اور چوتھی مرتبہ پاکستان کو جارحیت کا نشانہ بنانے کی تیاریاں اسی کھیل کا ایک حصہ ہیں۔

خود ملک کے اندر بھی ان مخالف قوتوں نے کبھی قوم پرستی کا ڈھونگ رچاکر کبھی جمہوریت کے شیدائی بن کر اور کبھی اسلام کے مقدس نام پر قوم کو مختلف فتنوں سے دوچار کیا ہے اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مشرقی پاکستان میں اردو بنگلہ تنازع ، دستور سازی میں تاخیر، الحاج خواجہ ناظم کی وزارت عظمٰی سے برطرفی، دستور ساز اسمبلی کا خاتمہ مشرقی پاکستان اسمبلی کے اسپیکر کی ہلاکت، بنیادی جمہوریتوں کا نظام، مختلف انتخابات میں وسیع پیمانہ پر دھاندلیاں، بلوچستان میں فوج کشی، ملک میں بار بار مارشل لا کا نفاذ اور ملکی رساتیر کی منسوخی جیسے واقعات سے پاکستان مخالف قوتوں کے ہاتھہ مضبوط ہونے میں مدد ملی ہے قائد ملت کی شہادت اور اس کے پیچھے چھپے ہوئے خفیہ ہاتھوں کی سرپرستی تو کھلی دشمنی ہی قرار دی جائے گی اور یہ سب کچھہ اپنوں کی مفاد پرستی یا عاقبت نا اندیشی اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں ہی کے سبب ممکن ہوا لیکن اس صورتحال کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ بار بار کی ہڑیمتوں اور مذامتوں کے باوجود بھی قوم اور اس کے لیڈروں کی روش میں سرمو فوق نہیں آیا ہے اور یہی حقیقت دشمنوں کے لئے سب سے بڑی کامیابی کی دلیل ہے اور اسی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ دشمنوں نے سندھ کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے منتخب کیا ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک گھر کے اندر کوئی شخص دشمن کے ایجنٹ کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا اس وقت تک کسی کے لئے اپنے منصوبوں پرعملدآمد ممکن نہیں۔

یوں تو ملک کے چاروں ہی صوبوں کو مختلف مسائل کا سامنا ہے لیکن سندھ کے اس سلسلے میں اس لئے خصوصیت حاصل ہےکہ یہاں حقیقی کے ساتھہ مصنوعی مسائل نے بھی سراٹھا رکھا ہے اور حقیقی مسائل کی نوعیت بھی کچھی ایسی ہے کہ یہاں ہونے والے دھماکوں نے ملک کے تمام ہی حساس اور اہل فکر حضرات ہو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ روزنامہ جنگ کی حالیہ اشاعتوں میں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا طویل سلسلۂ مضامین بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ملک میں اس لحاظ سے امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کی تعریف و تشریح کے سلسلہ میں وہ کسی مصلحت یا بالفاظ دیگر کسی منافقت سے کام نہیں لیتے اور اسی رویہ نے ان کی شخصیت کو متنازع بنادیا ہے پھر موصوف ملک کی واحد شخصیت ہیں جو انتخاب کے بجائے انقلاب کے ذریعے ملک میں اسلامی نظام کے داعی ہیں لیکن سندھ کے مسائل کے سلسلے میں مضامین کو پڑھنے کے بعد ایک غیر جانبدار اور حق کے متلاشی قاری کو افسوس کے ساتھہ کہنا پڑتا ہے کہ موصوف اپنے مقام سے کچھہ نیچے اتر آئے ہیں۔

سچ کہدوں اے " بر ہمن " گر تو برا نہ مانے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سندھ کے ہمہ گیر مسائل کی نشاندہی کے بجائے تاریخ کی عدالت میں سلطانی گواہ پنجاب کا باعزت بری کرانے کی کوشش میں مظلوم تر فریق یعنی "مہاجر" ہی کو قابل گردن زنی قرار دلوانا چاہتے ہیں ۔ چاہئے تو یہ تھاکہ جہاں " قدیم سندھی مسلمانوں کی عمومی بے چینی" پر بالتفصیل اظہار خیال فرمایا ہے وہاں سندھیوں کے ایک جزو لانیفک جسے عرف عام میں "مہاجر" کہا جاتا ہے اس کے مسائل اور ان میں پائی جانے والی عام بے چینی کا بھی ذکر کرتے اس لئے کہ سندھ کے مسائل اور یہاں کے لوگوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کے ضمن میں گفتگو اس وقت تک مکمل ہوہی نہیں سکتی جب تک "مہاجر" کے احساس محرومی کو بھی بحیثیت مجموعی نہیں سمجھا جائے گا۔ یہ تو بجا ہے کہ "سندھ کا کوئی ایک سادہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ بے شمار مسائل کا ایک طویل اور پیچیدہ سلسلہ ہے۔" لیکن مہاجرین کے مسائل کا سلسللہ اگر طویل تر نہیں تو پیچیدہ تر ضرور ہے۔

یہ بات واضح کردینی ضروری ہے کہ راقم الحروف دیانتداری کے ساتھہ یہ سمجھتا ہے کہ سندھ میں بسنے والے مہاجر بھی سندھیوں ہی کا ایک لازمی حصہ ہیں لیکن ان مسائل کی نشاندہی کی غرض سے جن کا انہیں علیحدہ علیحدہ سامنا ہے ڈاکٹر صاحب کی تقلید کرتے ہوئے سندھی اور مہاجر کی اصطلاح کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ ایک شکایات کے سوا باقی تمام مسائل بحیثیت مجموعی سندھ کے ہی مسائل ہیں اور ان کا شکار سندھی اور مہاجر دونوں یکساں ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ غلط فہمیوں اور شکوے شکایات کے ازالہ میں تاخیر کا نتیجہ ہمیشہ ہی خوفناک صورت میں نکلتا ہے اس لئے سندھ کی اصلی آبادی یعنی سندھی اور مہاجرین کو باہمی شکایات کو جلد سے جلد دور کرلینا چاہئے تاکہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی پالیسیوں سے سنھ کے ساتھہ جو ناانصافیاں کی جارہی ہیں یا ہمیں دوسرے صوبوں سے جو شکایات ہیں ان کو دور کرنے کے لئے متحدہ جدوجہد کی جاسکے اسی میں سندھ کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے جو پاکستان کی خوشحالی پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوگی۔

تاریخی پس منظر:

تاریخی پس منظر میں جن اسباب کی بناء پر سندھ کے قدیم مسلمانوں کو ملک گیر غیر عادلانہ نظام کے پیدا شدہ نتائج کا احساس دوسرے صوبوں کے باشندوں سے زیادہ ہے وہ اسباب مہاجرین پر زیادہ صادق آتے ہیں۔ یہ تو صحیح ہے کہ انگریزوں نے انیسویں صدی کے وسط میں مسلمانوں سے جنگ کرکے سندھ کو فتح کیا تھا اس لئے برطانوی حکومت نے مسلم اکثریت کو دبایا اور ہندو اقلیت کو آگے بڑھانے کے لئے ہر طرح کی سہولتوں سے نوازا۔ سندھ کا بمبئی سے الحاق بھی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا لیکن اس حقیقت سے انکار کیوں کر ممکن ہے کہ سندھ کے وڈیروں نے جن کی اکثریت مسلمانوں ہی پر مشتمل تھی صوبے کی غیرب اور بے سہارا مسلم آبادی کے لئے کچھہ نہیں کیا ان وڈیروں کے بچے تو حصول علم کے لئے علیگڑھ اور لندن جاتے رہے لیکن ان کے کھیتوں میں غلاموں کی طرح رات دن اپنے افراد خانہ کے ساتھہ کام کرنے والے ہاری کو اپنے بچے کیلئے پرائمری اسکول کی شکل دیکھنے کا تصور تو بڑی بات ہے اسے تو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا تھا۔ سندھ کی بیشتر اراضی پر چند مسلمان خاندان قابض تھے ان کی دولت کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا تجارت پر ہندو بینوں کا تسلط تھا چھوٹی بڑی تجارت انہی کے رحم و کرم پر تھی ہندوؤں میں عاملوں کا طبقہ تعلیم کے میدان میں آگے ہونے کی بناء پر سرکاری دفتروں میں چھایا ہوا تھا صوبے میں جابجا ہندو لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں تھے جو ہندو تنظیموں اور مخیّر ہندوؤں نے قائم کئے تھے اس کے برعکس صوبے کی ستر فیصد مسلم آبادی کیلئے صرف ایک تعلیمی ادارہ سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی میں تھا بہت بعد میں حیدرآباد میں نور محمد ہائی اسکول قائم کیا گیا انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت 1937ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلی کیلئے ہونے والے انتخابات کے بعد مسلمان نمائندے اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہوگئے اسی کشمکش کا نتیجہ تھا کہ وہ چار مختلف دھڑوں میں تقسیم تھے اس سے پہلے بھی یہاں سے لیجسلیٹو اور وائسرائے کی کونسل میں جانے والے مسلمان ، مسلمان مفادات کے بجائے سراور خان بہادر کے خطابات کے چکروں میں پڑے رہے اور دوسری طرف غیرب ہاری مسلمان وڈیروں اور ہندو ساہوکار کے ہاتھوں پستا رہا ہاری کو اول تو زمین کا مالک بننے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا لیکن باالفرض محال کسی کو اللہ نے نواز بھی دیا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

رہتی تھی اور اگر کچھہ اناج اس کی ضرورت سے زیادہ پیدا ہو بھی جاتا تھا تو یا تو وہ قرض اتارنے کے کام آتا یا پھر ہندو بنیا سستے داموں اس سے اناج خریدتا اور یہ کہہ کر رقم ادا نہیں کرتا تھا کہ روپیہ لیکر ابھی تم کیا کرو گے میرے پاس تمہاری رقم رکھی ہے جب ضرورت ہو لیتے رہنا اس طرح مسلمانوں ہی کی رقم وہ دوسرے مسلمانوں کو سود پر چلاتا رہتا اور سود بھی ایسا ہوتا تھا کہ ایک بار اس کے چنگل میں پھنس گیا تو پھر اس کی اولاد تک یہ سلسلہ جاری رہتا تھا اس طرح بلا خوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ آزادی سے قبل سندھ میں عام مسلمان کے استحصال کیلئے تین طاقتیں سرگرم عمل تھیں اور وہ تھیں انگریز، ہندو اور مسلمان وڈیرے جن میں میر، پیر اور سیّد سب ہی برابر کے شریک تھے۔ بدقسمتی سے ہاری کو اس کے مقام سے آگے بڑھنے دینے میں وڈیروں اور زمینداروں کے مفادات سب سے بڑی رکاوٹ تھے انہیں ڈھور ڈنگروں کی طرح ہی کے زبان ہاریوں کی ضرورت تھی ہاری کا بچہ پڑھ لیتا تو اس کی آنکھیں بھی کھل جاتیں اور اس کو قوت گویائی بھی مل جاتی ہوسکتا تھا کہ وہ اس طرح کلکٹر ( آج کے ڈپٹی کمشنر) بن جاتے اور پھر وڈیروں کو ان کی خوشامد کرنی پڑتی اور اس کا تصور بھی ان کے لئے روح فرسا تھا۔

مضبوط مڈل کلاس:

سندھ میں ایک مضبوط مڈل کلاس اور تعلیم یافتہ طبقے کے وجود کا خیال صحیح نہیں ہے یہاں مضبوط متوسط طبقہ ضرور تھا لیکن وہ ہندوؤں پر مشتمل تھا مسلمانوں میں صرف دو طبقے تھے ایک طبقہ تو وڈیروں اور زمینداروں پر مشتمل تھا جس کی نہ تو آمدنی کا کوئی حد و حساب تھا اور نہ ہی ان کی زمینوں کی کوئی حد دوسری طرف ہاریوں اور دوسرے غریب لوگوں کا طبقہ تھا جن کی زندگی غلاموں سے زیادہ بہتر نہیں تھی اگر مسلمانوں میں مضبوط مڈل کلاس ہوتی تو لازمی طور پر وہ سرکاری ملازمتوں اور درمیانی تجارت پر قابض ہوتے لیکن سندھ میں ایسی صورت نظر نہیں آتی چند کلرک اور چپراسی تو سرکاری دفتروں میں دیکھے جاسکتے تھے لیکن ان کے اوپر تو ہندو ہی براجمان تھے۔ مؤثر اور مضبوط طبقہ لازمی طور پر اپنا اثر دکھاتا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ جس علاقہ یا قوم میں مضبوط مڈل کلاس موجود ہوتی ہے وہ قوم خوشحال اور ترقی یافتہ ہوتی ہے وہ نچلے طبقہ کو اوپر اٹھاتی اور اعلٰی طبقہ کو خرمستیوں سے باز رکھتی ہے لیکن بدقسمتی سے سندھ میں یہ کیفیت ہمیں کہیں بھی نظر نہیں آتی ہاں سندھی ہندوؤں میں مضبوط اور مؤثر مڈل کلاس کا ثبوت صوبے کے تمام ہی علاقوں میں اب تک پایا جاتا ہے۔

مسلم اقلیتی صوبے:

پنجاب کے سوا برصغیر پر قبضہ کرنے کے لئے انگریزوں کے مختلف مقامات پر مقابلہ صرف مسلمانوں سے کرنا پڑا۔ بنگال اور سندھ میں بھی مسلمان ہی لڑے اور دہلی ، دکن اور میسور میں بھی وہی خم ٹھونک کر انگیزوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کے سامنے آئے حملہ آور فوج کا مقابلہ کرنا تو عام بات ہے لیکن فاتح کے خلاف آزادی کے لئے علم بلند کرنا غیر معمولی بات ہے اور یہ غیر معمولی واقعہ نہ تو بنگال میں پیش آیا ، نہ سندھ میں ، نہ پنجاب میں اور نہ دکن میں۔ اگر جنگ آزادی شروع کی گئی تو وہ دہلی اور اس سے ملحقہ علاقے ہی تھے آزادی برقرار رکھنے کے لئے لڑنے والوں کو تو دشمن معاف کردیا کرتا ہے لیکن " باغیوں" کو کوئی بھی معاف نہیں کرتا اور "حاکم وقت" نے اس جنگ آزادی کو "بغاوت" اور "غدار" قرار دیا تھا اور اس "بغاوت" کے سرخیل ان صوبوں کے مسلمان ہی تھے اور وہ اقلیت میں تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قتل عام اور لوٹ مار تو ہوئی ہی ، دارو رسن کی رسم بھی ادا کی گئی لیکن "غدار" مسلمانوں کی نسلوں تک کو سزا دینے کا اہتمام بھی کیا گیا تاکہ وہ کبھی بھی انگریز حکومت کو چیلنج کرنے کی حیثیت حاصل نہ کرسکیں۔ اس کا اہتمام بھی اس طرح کیا گیا کہ ان کی جاگیریں چھینی گئیں ان کو پابند سلاسل کیا گیا باعزت لوگوں کو سرعام بے عزت کیا گیا سندھ اور بنگال کی طرح اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے لئے بھی فوج اور پولیس میں ملازمت کے دروازے بند کردیئے گئے سندھ اور بنگال کے مسلمانوں کے مقابلہ میں ان علاقوں کے مسلمان باشندوں کا ظالم اور عیار ہندو اکثریت کا بھی سامنا تھا لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم اقلیت نے کسی بھی میدان میں ہندو اکثریت کی بالادستی قبول نہیں کی اور نہ ہندو کی دولت اور نہ انگریزوں کی عنایات سے ملے ہوئے اعلٰی مرتبہ سے مسلمان کبھی مرعوب ہوا تعلیم کے میدان میں انگریزوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کو پیچھے رکھنے کی کوشش ضرور کی لیکن اس میدان میں بھی مسلمان شکست نہیں کھائی اور سندھ کے مقابلہ میں وہاں مسلمانوں کے اپنے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔

تعلیمی ادارہ تو پورے برصغیر کے مسلمانوں کا مرکز بن گیا اور اس علاقہ کے عام مسلمان وہاں آئے ہوئے نادار اور غریب طلبہ کے لئے وظیفوں کا اہتمام تک کرتے تھے۔ پیر ععلی محمد راشدی نے 31 اگست 1969ء لو اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا " سندھ میں آنے والے مہاجرین ، انصار سے زیادہ قابل اور تعلیم یافتہ ہیں انہوں نے اعلٰی مقاصد کے حصول کی خاطر پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں۔"

اعلٰی سرکاری ملازمتوں کے لئے مقابلوں میں بھی اقلیتی صوبوں کے مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور وہ محض اپنی اہلیت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرکے ترقی کی راہیں طے کرتے تھے اس سلسلے میں یوپی، سی پی اور بہار کے مسلمان نسبتاً آگے تھے۔ اس علاقہ کے زراعت پیشہ مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ وہ وڈیرہ شاہی کے چنگل سے آزاد تھے ان علاقوں کے مسلمان چھوٹے پیمانہ ہی پر سہی تجارت کے پیشہ سے بھی منسلک تھے۔ بمبئی، گجرات، کاٹھیاواڑ اور دہلی کے مسلمان اس میدان میں کافی آگے تھے وہ فوج اور پولیس کی ملازمت کے حصول کے لئے بھی کوشاں رہتے تھے بحیثیت اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کی حالت ہر لحاظ سے بہتر ہی قرار دی جاسکتی ہے لیکن اپنے زور بازو پر۔

ان حقائق کے باوجود اقلیتی صوبوں کے مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار مسلم مملکت کا قیام انتہائی ضروری ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ مسلم کاز کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت کے تقسیم اور پاکستان کے قیام کی حمایت ہندوؤں کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کر انہوں نے اکثریتی صوبوں کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے جدوجہد میں تن من اور دھن کے ساتھہ حصہ لیا۔ 1946ء کے انتخابات ہوں یا صوبہ سرحد کا ریفرنڈم ہندوستان کے اقلیتی مسلمان برصغیر کے کونے کونے میں پہنچے اور حالات کو اس سطح پر پہنچادیا کہ برطانوی حکومت اور انڈین کانگریس کے لئے مطالبۂ پاکستان کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا ۔ 1946ء کے انتخابات کے سلسلے میں یہ بتانا بے محل نہیں ہوگا کہ یوپی میں مسلم لیگ کی پوزیشن سب سے بہتر رہی وہاں لیگ کو اسّی فیصد نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور مسلمان نشستوں پر ایک بھی کانگریسی مسلمان منتخب نہیں ہوسکا جبکہ مسلم اکثریتی صوبوں میں سے صوبہ سرحد میں تو کانگریس کی حکومت بھی قائم ہوگئی۔

ہندو قیادت کی سازش:

جب پاکستان کا قیام ناگزیر ہو ہی گیا اور ہندو کارنگریس کے لئے ہندوستان کی تقسیم کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں رہا تو اس نے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا تاکہ بقول وزیر اعظم " پاکستان قائم ہوتے ہی فنا ہوجائے" اور اسی منصوبہ کی بناء پر ہندو قیادت برملا یہ کہنے لگی تھی کہ خاکم بدہن پاکستان چند مہینوں میں ختم ہوجائے گا اس منصوبہ کے تحت پنجاب اور بنگال کو تقسیم کیا گیا اور بھارت کے بیشتر علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف فسادات برپا کردیئے گئے تاکہ انہیں بھارت ماتا کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں فریق بننے کی کڑی سزا بھی دی جائے اور انہیں پاکستان دھکیل دیا جائے تاکہ تباہ حال لاکھوں افراد کی دیکھہ بھال اور ان کی آبادکاری کے ناقابل برداشت بار سے پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کردی جائیں پھر سندھ اور بنگال کے ہندوؤں کو اکسایا گیا کہ وہ بھارت چلے آئیں تاکہ پاکستان کی اقتصادی حالت ، دفتری نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے پھر پاکستان کو نہ تو سرکاری خزانہ میں اسکا پورا حصہ دیا گیا اور نہ ہی جنگی سازوسامان سے ہی اسے کچھہ حصہ ملا ان سب کا مقصد وہی تھا جو اوپر بیان ہوچکا یعنی نوزائیدہ مملکت کے لئے اس قدر مسائل پیدا کردیئے جائیں کہ وہ بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے لیکن الحمداللہ کہ ایسی کوئی بھی صورت پیدا نہیں ہوئی اور پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوگیا۔

اختیاری نہیں اضطراری ہجرت:

3 جون 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے کے اعلان کے ساتھہ بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانہ پر فسادات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوگیا جن کے نتیجہ میں ہزاروں بے گناہ مسلمان شہید کردیئے گئے اور لاکھوں کو پاکستان ہجرت پر مجبور کردیا گیا مشرقی پنجاب کی طرح الور، بھرتپور اور اجمیر میں تو ٹرینوں تک پر حملے کئے گئے اور مسلمان مسافروں کو بے دردی کے ساتھہ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان حالات میں یہ کہنا کہ جنوبی کے علاوہ یوپی، سی پی اور راجپوتانہ سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment