احساس محرومی کا حل

روزنامہ جنگ

"محرومی" آج صوبہ سندھ کا دوسرا نام ہے لوگوں کو بجا طور پر یہ شکایت ہے کہ روزگار کے سب سے زیادہ مواقع موجود ہونے کے باوجود سندھ کے اصلی باشندوں میں بیروزگار افراد کا تناسب سب سے زیادہ ہے ہمارا صوبہ الحمدللہ کہ وسائل کے لحاظ سے سر فہرست ہے لیکن وائے بدقسمتی کہ ہم ہی سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہیں صوبہ کے لوگوں کی یہ شکایت بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ سندھ کے سرکاری اور نیم سرکاری حتی کہ نجی شعبہ میں بھی سندھیوں کو ظالمانہ حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے یہ صورتحال افسوسناک ہی نہیں بلکہ تشویش ناک بھی ہے کہ سندھ کے لوگ تو ملازمتوں کیلئے مارے مارے پھرتے رہیں اور دوسرے صوبوں کے لوگوں کو بلا کر یہاں ملازمتیں عنایت کردی جائیں یہ صورتحال ویسے تو آزادی کے فوراً بعد ہی پیدا ہوگئی تھی لیکن ابتداء میں لوگوں نے اس قسم کے اظہار کو نامناسب سمجھا جب ان حالات میں بہتری کے بجائے ابتری آتی گئی تو لوگ مجبور ہوگئے کہ اس قسم کی بات زبان پر لائیں لیکن اس کے جواب میں انہیں متعصب بلکہ بعض حالات میں تو وطن دشمن تک قرار دیا جانے لگا حالانکہ سندھ کے لوگ بڑے فراخدل اور وسیع النظر واقع ہوئے ہیں اور پاکستان سب سے پہلے سندھ ہی میں قائم ہوا ہے۔

ون یونٹ کے منصوبہ کی مخالفت بھی اسی لئے کی گئی تھی کہ سندھ کے لوگوں کو ڈر تھا کہ یہاں کے مسائل سے انہیں محروم کردیا جائے گا۔ ون یونٹ کے قیام کے بعد کے حالات نے ان خدشات کو صحیح ثابت کردیا۔ مقامی لوگوں کی مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہوتا رہا یہاں کا بے زمین ہاری تو زمین سے محروم ہی رہا لیکن یہاں کی زمین دوسرے صوبہ کے لوگوں کو انعام اور نیلام کے ذریعہ دیدی گئی یہی حال ملازمتوں کے سلسلہ میں ہوا اسی بناء پر ون یونٹ کے خلاف مہم چلانے والے حضرات سمجھتے تھے کہ صوبوں کو بحالی کے بعد ان کی مشکلات دور ہوجائیں گی یحیٰی خان نے عوامی مطالبہ کے پیش نظر ون یونٹ کو توڑ کر صوبوں کو بحال کردیا لیکن اس کے باوجود سندھ کی شکایات میں کوئی کمی نہیں ہوئی اس کے بعد بھٹو صاحب سات سال تک مرکز میں برسراقتدار رہے لیکن اس دوران بھی ایک محدود اور مخصوص طبقہ کے سوا سندھ کے عام لوگ پھر بھی سنگین مسائل کا شکار رہے 1977ء کے مارشل لاء کے بعد سندھ کے لوگوں کو معاشی اور اقتصادی محرومیوں کے ساتھہ سیاسی محرومی کا احساس بھی پیدا ہوا تو اس کے اظہار میں بھی شدت پیدا ہوگئی موقع پرستوں نے اس صورتحال سے پورا پورا فائدہ اٹھانے اور عوام کی تکالیف پر اپنی قیادت کے محل تعمیرکرنے کی کوشش کی ، کسی نے صوبائی خودمختاری کا نعرہ بلند کیا اور کسی نے کنفیڈرل نظام کا خاکہ پیش کردیا کچھہ حضرات اس سے بھی آگے بڑھ گئے اور بانیٔ پاکستان کے ہاتھوں اپنی شکست کا بدلہ لینے کی خاطر انہوں نے آزاد سندھ یا سندھو دیش کا نقشہ پیش کردیا۔ پنجاب کے چند لیڈروں نے بھی ہماری شکایات اور تکالیف پر مگرمچھہ کے آنسو بہائے اور چند غیر سرکاری تنظیموں نے ہمارے احساس محرومی کا جائزہ لینے کیلئے اس طرح کمیشن اور وفد بھیجے جیسے کسی کالونی کی شکایات کے جائزہ کیلئے نو آباد کار کمیشن بھیجتے رہے تھے۔ کسی کمیشن یا وفد نے پنجاب سے یہ نہیں کہا کہ سندھ میں ملازمتوں کیلئے سندھیوں کو اوّلیت دی جانی چاہئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود سندھ کی شکایات میں کمی نہیں آتی تھی سو وہ نہیں آئی۔ اب بھی جبکہ سندھ میں جونیجو صاحب کی حکومت قائم ہے اس صوبہ کے لوگوں کی تکالیف میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ روز بروز سندھ کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے اب تو امن و امان کی صورتحال بھی انتہائی مخدوش ہوچلی ہے روزگار کے مواقع تو ان کیلئے مفقود تھے ہی اب جان، مال اور عزت بھی قطعی غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔ قتل، اغواء اور ڈکیتی اب یہاں معمولات زندگی کا ایک حصہ ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود یہ تلخ حقیقت بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ ون یونٹ سے پہلے اور آزادی کے بعد سندھ میں محمد ایوب کھوڑو، پیر الٰہی بخش، یوسف ہارون اور قاضی فضل اللہ وغیرہ جیسے حضرات کی حکومتیں رہیں لیکن سندھ کے لوگوں کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ اس علاقہ کی ترقی کیلئے ہی کچھہ کیا گیا بلکہ سیاسی توڑ جوڑ میں اپنی تمام صلاحیتوں کو ضائع کیا۔ لوگوں کے مسائل میں آہستہ آہستہ اضافہ بھی ہوتا رہا اور ان میں پیچیدگیاں بھی بڑھتی رہیں اور اب وہ ایک طوفان کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ ہماری صوبائی انتظامیہ کے بیشتر محکموں میں غیر سندھیوں کی اکثریت کو کسی لحاظ سے جائز تو قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن محکموں میں سندھی بولنے والے یا اردو بالونے والے سندھیوں کی اکثریت ہے کیا ان محکموں سے سندھ کے لوگوں کو کوئی شکایت نہیں؟ کیا چھوٹا یا بڑا سندھی ملازم سندھیوں کو پریشان نہیں کرتا؟ کیا وہ رشوت لئے بغیر ان کا کام کردیتا ہے؟ کیا سندھ کے ڈاکو سندھیوں کو اپنا نشانہ نہیں بناتا؟ کیا بااثر سندھی ہمیشہ مستحق اور اہل نوجوانوں ہی کی سفارش کرتا ہے یا ملازمتوں کے سلسلہ میں وہ سندھیوں کے ساتھہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے؟ ایسا نہیں ہے تو پھر ثابت ہوا کہ رشوت خور، مفاد پرست، اقربا پرور اور بدعنوان سرکاری ملازم کا تعلق کسی بھی صوبہ یا ذات برادری سے ہو وہ اول و آخر بدعنوان اور بددیانیت ہی رہتا ہے وہ بلا امتیاز ضرورت مند لوگوں کو پریشان کرتا ہے وہ ناجائز حربے ہر ایک کے خلاف استعمال کرے گا۔

ان حقائق کے پیش نظر ہمارے مسائل کا حل ہماری پریشانیوں کا علاج ہماری محرومیوں کا خاتمہ نہ صوبائی خودمختاری میں ہے نہ کنفیڈریشن کے قیام میں نہ آزاد سندھ میں اس لئے کہ جب تک ہم بددیانت اور مفاد پرست افراد کے زیر تسلط رہیں گے ہمارا استحصال ہوتا ہی رہے گا ویسے بھی جو لوگ آج صوبائی خود مختاری، کنفیڈریشن اور سندھو دیش کے نعرے لگارہے ہیں کل وہ ہمارے صوبہ کا استحصال کرتے رہے ہیں وہ بڑے بااختیار حکمراں رہ چکے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے دور میں بھی سندھ کے عوام پستے رہے ہیں جب اس مخصوص طبقہ نے بااختیار ہونے کے باوجود ہمارے حقیقی مسائل کے حل کرنے پر توجہ نہیں دی تو مستقبل میں ان سے بہتری اور عوام کی خدمت کی امید لگانا سادگی ہی قرار دی جاسکتی ہے اس سلسلہ میں بنگلہ دیش کی عبرت ناک مثال ہمارے سامنے موجود ہے وہاں کے عام لوگوں کا استحصال 1971ء سے پہلے بھی ہورہا تھا اور آزادی یا پاکستان سے علیحدگی کے بعد بھی ہوتا رہا ہے وہاں فوجی حکومت کی مدت ہمارے یہاں کی فوجی حکومت سے زیادہ ہے بےاثر وار غیرب نوجوان کل بھی بیروزگاری کی لعنت کا شکار تھے اور آج بھی وہ کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کے مسائل و مشکلات کا حل کسی اور نظام میں مضمر ہے اور وہ نظام ایسا ہونا چاہئے جس میں تمام لوگ مطمئن ہوں انہیں ترقی کے یکساں مواقع نصیب ہوں جس نظام میں نااہل کو اہل پراور غیر مستحق کو مستحق پر کوئی فوقیت حاصل نہ ہو جس نظام میں تمیز بندہ و آقا کا کوئی تصور نہ ہو جہاں غریب اور امیر میں فرق نہ ہو جہاں ہاری اور مزدور زمین پر اور رئیس اور وڈیرے کا کتا صوفہ پر نہ بیٹھتا ہو۔ صرف ایسے ہی نظام میں کمزوروں اور مظلوموں کو انصاف کی ضمانت دی جاسکتی ہے ورنہ آپ کتنے ہی آزاد اور خودمختار صوبے اور ملک قائم کرلیجئے کسی بھی طبقہ کو حکمرانی عطا کردیجئے کمزور اور مظلوم کی داد رسی ممکن نہیں ہوگی لیکن اس قسم کا نظام جو "نظام عدل" کے سوا اور کوئی نہیں ہے صرف باتیں بنانے سے قائم نہیں ہوگا آج پوری قوم اپنے اور اپنی آئندہ نسل کے مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند ہے روزگار کے بے شمار وسائل پر ایک محدود طبقہ کی اجارہ داری ہے رشور اور سفارش کے بغیر نہ آپ کا کوئی جائز کام ہی ہوسکتا ہے اور نہ چپراسی تک کی ملازمت ہی حاصل کی جاسکتی ہے ملک اور صوبہ کے وسائل پر چند لوگوں کا قبضہ ہے ایسی صورت میں ہمیں نظام عدل کے قیام کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی اور اس جدوجہد میں تمام طبقوں کو ایک دوسرے کا ساتھہ دینا ہوگا اس لئے کہ یہی نظام ہمارے تمام امراض کا واحد علاج ہے جس نظام میں لوگوں کو یہ یقین ہو کہ اس کے ساتھہ انصاف ہوگا، کوئی بھی شخص اس کے حقوق غصب نہیں کرسکے گا اس کی داد رسی ہوگی تو لوگ ایسے نظام میں تمام مشکلات و مسائل کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن استحصالی اور ظالمانہ نظام میں امیر ترین افراد اور اعلٰی ترین عہدے پر فائز شخص بھی ایک انجانے خوف کا شکار رہے گا کہ کل اس کے ساتھہ کیا زیادتی ہوسکتی ہے ایسی صورت میں نظام عدل کے قیام میں صرف مزدوروں، ہاریوں اور غریبوں ہی کا نہیں بلکہ صنعت کاروں، وڈیروں، زمینداروں اور امیروں سب کا مفاد ہے اس نظام کے علاوہ جتنے بھی نظام ہائے زندگی ہیں ان میں لازمی طور پر دو طبقے موجود ہیں ایک غریب دوسرا امیر، ایک مظلوم دوسرا ظالم، ایک کمزور دوسرا طاقتور۔ ایسے کسی بھی نظام میں اکثریت پریشان حال ہی رہتی ہے۔

سندھ کے نوجوانوں کو بالخصوص یہ بات اچھی طرح اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہاں چند خاندان ایسے ہیں جن کی دولت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے صوبہ کی سیاسی قیادت تو ہمیشہ سے انہی چند خاندانوں کے درمیان گھومتی رہی ہے لیکن روحانی قیادت کے ٹھیکیدار بھی اسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اس طبقہ نے ہمیشہ سندھ کے عام لوگوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے جس پارٹی یا افراد سے انہیں اپنے مفادات کی تکمیل نظر آتی ہے یہ وہیں موجود ہوتے ہیں، پارٹی کی وفاداریاں یہ اتنی جلدی بدلتے ہیں کہ شاید اپنے جوتے بھی یہ اتنی جلدی نہیں بدلتے ہوں گے۔

بہرحال نظام عدل کے قیام کیلئے سب سے پہلے یہ ضروری ہوگا کہ صوبہ کی دولت، اس کے وسائل اور سیاسی قیادت سے اس مخصوص طبقہ کی اجارہ داری ختم کی جائے اس کیلئے ہمیں بھارے کی تقلید کرتے ہوئے زمینداری اور جاگیرداری نظام کو بلاتاخیر ختم کرنا ہوگا اس کے بغیر کتنے ہی حیدر بخش جتوئی اور صوبہ میں پیدا ہوں ہاری اور غریب کا بیٹا یونہی محرومیوں کا شکار رہے گا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آزادی سے قبل بھی سندھ پر انہی خاندانوں کی حکومت رہی ہے جو آج ہمارے دکھہ درد کا رونا رورہے ہیں کیا یہ حضرات اس وقت مسلمانوں کیلئے تعلیم ، روزگار وار صحت کے لئے کوئی کام نہیں کرسکتے تھے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس طبقہ کو صرف اپنے اقتدار سے دلچسپی ہے ۔ وہ اقتدار انہیں جنرل ضیاء الحق سے ملے یا بھٹو صاحب سے ، یحیٰی سے ملے یا ایوب خان سے یہی نہیںوہ تو راجیو اور کارمل سے بھی اقتدار کی بھیک مانگنے میں شرم محسوس نہیں کریں گے۔ اس لئے ہمارے نوجوانوں کو اس طبقہ کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کرنے کیلئے میدان میں آنا ہوگا نہ کہ ان کے آلہ کار کی حیثیت سے۔

نظام عدل کے قیام کیلئے پہلے ہمیں خود اپنے انداز فکر عمل میں تبدیلی لانی ہوگی اور اس کے بعد ہیّت سیاسی کو ایسے مفاد پرست اور بددیانت افراد سے پاک کرکے قیادت شیخ عبدالمجید سندھی مرحوم جیسی ہستیوں کے حوالہ کرنی ہوگی وگر نہ ہم یونہی چیختے چلاتے رہیں گے اور ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں ہوگا ہمیں خود میں یہ قوت اور حوصلہ پیدا کرنا ہوگا کہ ہماری آواز صدا بصحرا ثابت نہ ہو سو اس مقصد کیلئے ہمیں منظم و متحد ہوکر کام کرنا ہوگا سندھی اور مہاجر کا امتیاز ختم کرنا ہوگا، سپاف اور جساف کے جگھڑے ختم کرنے ہوں گے مہاجر اتحاد تحریک اور مہاجر قومی موومنٹ کے تنازع نمٹانے ہوں گے ورنہ اقتدار کے بھوکے عیار لوگ ہمیں یونہی آپس میں لڑاتے رہیں گے اور اپنے مذموم مقاصد کیلئے ہمیں استعمال کریں گے ہماری بربادی کا ساماں کرتے رہیں گے اور ماضی کی طرح مستقبل میں بھی یہ ہماری بھوک و افلاس، ہماری بیروزگاری، تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے ہماری محرومی کے نام پر ہمیں دباتے رہیں گے ہمیں پیستے رہیں گے ان کا مفاد اسی میں ہے کہ ہم محروم رہیں ہم مایوسی کا شکار رہیں لیکن تا بکے؟

No comments:

Post a Comment