اپنے فیصلے خود کرنے چاہیئیں ۔ ۔ ۔ ۔

روزنامہ جنگ 13 اپریل 2007 ء

ہمیں تسلیم ہے کہ آج کی دنیا سکڑ کر اتنی چھوٹی ہوگئی ہے کہ امریکہ کے ٹریڈ ٹاور کے انہدام سے اٹھنے والا گردوغبار ہمیں بھی ایسے ہی متاثر کرتا ہے جس طرح خود نیویارک کے باشندوں کو، اس طرح اگر دنیا سے ہمارے یہاں جمہوریت کے لئے آواز اٹھائی جاتی ہے تو اس پر دل چھوٹا کرنے کے بجائے ہمیں تو خوش ہونا چاہئے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ سب کچھہ توہین آمیز ہے لیکن بس قسمتی سے اس صورتحال کا الزام کسی اور پر ڈالا نہیں جاسکتا کہ یہ سب کچھہ ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے پاکستان کے سولہ کروڑ عوام کے لئے یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ تقریباً دو سو آزاد ملکوں میں برما (میانمار) کے علاوہ ان کا اپنا ملک دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں آئینی لحاظ سے پارلیمانی طرز حکومت کے باوجود ایک شخصیت نے تمام اختیار مرتکز ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے جو وقفہ وقفہ سے یہاں کیا جاتا رہتا ہے، دنیا کے کسی بھی ملک خاص طور پر امریکہ کی طرف سے پاکستان میں مکمل بحالی جمہوریت اور منصفانہ انتخابات کی آواز اٹھانا خوش آئند ہونے کے باوجود ہماری نظر میں توہین آمیز اور ندامت کا باعث ہےکہ پاکستانی قوم کو ایسے مقام پر لاکھڑا کیا گیا ہے کہ ہر شخص آکر ہمیں جمہوریت کا درس دے رہا ہے جب کہ ہم جس دین اسلام کے پیروکار ہیں جو خود جمہوریت عدل و انصاف اور احترام آدمیت کا سب سے بڑا علم بردار ہے لیکن افسوس کہ بحیثیت مجموعی ہمارے عمل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ گویا اسلام کا جمہوریت سے قطعی کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کے 57اسلامی ملکوں میں سے صرف ساڑھے تین ملکوں یعنی ملائیشیاء ، ایران اورلبنان میں بڑی حد تک لیکن ترقی میں آدھی جمہوریت ہے۔ ترقی میں کمال جمہوریت یہ ہے کہ عوام کی منتخب کوئی خاتون رکن پارلیمینٹ شعائر اسلام پر کاربند رہتے ہوئے سر ڈھانپ کر پارلیمینٹ میں جاتی ہو تو اس کو پارلیمینٹ کی رکنیت سے محروم کردیا جاتا ہے جب کہ وہاں بے لباسی کو اگر کوئی لباس کا درجہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے ، ہمارے ملک کے بارے میں ہم ناسمجھہ اور کوتاہ بینوں ہی پر کیا منحصر ہے امریکہ کے زیرک اور فتین حکمراں تک کا فیصلہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے ویسے امریکی حدود سے باہر امریکہ کا تصور جمہورت بھی عجیب و غریب اور مضحکہ خیزاور اس کی تازہ ترین مثال یہ ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت سے کامیاب حماس کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جاتا یہی نہیں بلکہ فلسطین کی امدادی رقم بھی روک لی جاتی ہے اور اسرائیل محصولات کی مد میں وصول کردہ رقم میں سے فلسطین کا حصہ دینے سے انکار کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں حکومت اپنے ملازمین کو ہر وقت تنخواہ بھی دینے سے معزور ہے۔ دور کیوں جایئے خود ہمارے بارے میں ان کا یہ کہنا صدر جنرل پرویز مشرف کے بغیر پاکستان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ویسے دیکھا جائے تو جس طرح ایک فرد کے بغیر اس کے خاندان کا تصور نہیں کیا جاسکتا بالکل اسی طرح جنرل پرویز مشرف ہی نہیں میاں نواز شریف، شہباز شریف، بے نظیر بھٹو اور مسقط یا دنیا کی کسی جیل میں قید ایک عام پاکستانی کے بغیر بھی پاکستان کا تصور ادھورا ہے لیکن ہمارے یہاں کون اقتدار میں آتا ہے اس کا فیصلہ امریکہ کا دائرہ نے اپنے لئے یہ اختیار محفوظ اختیار میں نہیں خود یہاں کے عوام کے ہاتھہ میں ہے ہمارے یہاں تو خود بابائے قوم حضرت قائد اعظم رکھنا مناسب نہیں سمجھا تو پھر کسی اور کو ایسا کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دنیا کی کسی بھی آزاد قوم کو یہ ہر گز زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی آزادی ، خود مختاری اور عزت نفس کا سودا بڑی سے بڑی امداد یا اقتدار کی جھوٹی ضمانت کے دیگر قائدین کرام اور برصغیر علامہ اقبال، بدلے کرلے۔ کسی پاکستانی کی طرف سے ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ وہ قائد اعظم کے لاکھوں ، کروڑوں مسلمانوں کی جانی و مالی ہی نہیں بلکہ عزت اور آبرو کی قربانیوں کی توہین کا مرتکب ہورہا ہے ۔ جب ہم اپنے ملک کے سیاسی افق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو افسوس کے ساتھہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہم اس وقت فکر و عمل ہر لحاظ سے امریکہ کے انتہائی قریبی اور بے لوث اتحادی ہیں اور وہ اس کا کھلا اعتراف بھی کرتے ہیں، یک طرفہ دوستی کے نام پر ہم کئی عشروں سے امریکہ کے دبائو میں اپنی سیاسی زندگی گزارتے آرہے ہیں لیکن اب اس کیفیت سے ہمارا دم گھٹنے لگا ہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت برابری کی بنیاد پر دوستی برقرار رکھتے ہوئے پاکستان کے حقیقی تشخص کو بھی اجاگر کرے اور داخلی اور خارجی امور سے متعلق فیصلوں میں آزاد بھی ہو جب تک ایسا نہیں ہوتا اس وقت تک دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہیں اس سلسلے میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ کے رہنما میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا ہے کہ وہ امریکہ کے کندھوں پر بیٹھہ کر اقتدار حاصل نہیں کریں گے ، خوش آئند بھی ہے اور یہ ملک کے سولہ کروڑ عوام کے دلی جذبات و احساسات کا حقیقی ترجمانی بھی۔ ایسی حالت میں جب کہ انہیں زبردستی بے دخل کرکے جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور بھی کردیا ہو تو وہ امریکہ یا کسی اور ملک سے اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں مدد کے لئے درخواست کرتے تو بھی وہ بڑی حد تک حق بجانب سمجھے جاتے لیکن انہوں نے ایسا کرنا ضروری نہیں سمجھا جبکہ اس دوڑ میں بڑے بڑے شامل ہیں اور وہ اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن میاں نواز شریف نے کسی کی طرف سے اقتدار کی بخشش کو قبول نہ کرنے کا واضح اعلان کرکے ایک جرات مندانہ موقف اختیار کیا ہے۔ 1998ء میں بھی انہوں نے امریکہ کے مسلسل دبائو کے باوجود بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکہ کرکے جرات مندانہ فیصلہ کیا جو شاید ان کے اپنے اقتدار کے لئے تو خطرہ ثابت ہو لیکن یہ قوم کے بہترین مفاد میں تھا ہم سوچ سکتے ہیں کہ اگر امریکہ کا ایک نچلے درجے کا اہلکار پاکستان کے پتھر کے دور میں بھیجے جانے کا پیغام دے سکتا ہے تو امریکہ کے صدر نے ایک سولین وزیر اعظم کو کیا کچھہ دھمکی نہیں دی ہوگی ویسے الحمدللہ ملک کے اندر کئی رہنما موجود ہیں جو ملک کے اپنے معاملات میں کسی بھی بیرونی دبائو اور مداخلت کے خلاف ہیں ہر آزاد اور خود مختار ملک کی قیادت ایسی ہی ہونی چاہئے۔

No comments:

Post a Comment