موجودہ ایجوکیشن کوڈ

روزنامہ جنگ

پچھلے دنوں خبر آئی تھی کی صوبہ سندھ میں نجی تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ایک نیا ایجوکیشن کوڈ تیار کیا جارہا ہے جسے قانونی شکل دینے کے لئے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ خبر کے مطابق اس کوڈ کے ذریعہ نجی تعلیمی اداروں کو (1) رجسٹریشن کرانے (2) فیسوں کے تعین (3) تربیت یافتہ اساتذہ کی تقرری (4) تعلیمی سہولتوں کی فراہمی اور (5) اساتذہ کو سرکاری شرح کے مطابق تنخواہوں کی ادائیگی اور دیگر مروجہ مراعات دینے کا پابند کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے اداروں کے خلاف ضروری کاروائی کی جاسکے گی۔

معاشرہ سے بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لئے ضراری ہے کہ ملک کے ہر ادارہ اور ہر فرد کو قانونی ضابطوں کا پابند بنایا جائے اور چونکہ قانون چاہے زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق ہو اس کا اولین مقصد بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کی بھلائی ہوتا ہے اس لئے ایسے افراد اور اداروں کے خلاف ضروری کاروائی کی جانی چاہئے جو قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ خصوصاً تعلیم کے شعبہ کو تو ہر قسم کی کالی بھیڑوں سے پاک رکھنے کی اشد ضرورت ہے اس لئے کہ یہ دفاعی شعبہ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیم کے میدان ہی سے ایسے محب وطن ، بے لوث ار بہادر نوجوان تیار کرکے عملی دنیا میں بھیجے جاتے ہیں جو آگے چل کر ملک کی عظمت و شوکت اور ترقی و استحکام کی ضمانت ثابت ہوتے ہیں۔ اس شعبہ کی اہمیت کی نسبت سے اس سے متعلق قوانین و ضوابط کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے اس لئے ضروری ہے کہ نئے ایجوکیشن کوڈ کو آخری شکل دینے سے پہلے محکمہ تعلیم وزارت تعلیم اور وزارت قانون ا کے تمام پہلوؤں پر خوب غور کرلے تاکہ ہر قسم کی خامی سے پاک ایسا ضابطہ مرتب کیا جاسکے جس سے عام لوگوں کو بھی فائدہ پہنچے نجی تعلیمی اداروں کے مفادات کا بھی تحفظ کیا جاسکے اور محکمہ کو اس پر عملدرآمد کرانے میں بھی کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ایسا ضابطہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اور ایجوکیشنل سوسائٹیوں سے بھی اس سلسلہ میں مشورہ کیا جائے تاکہ جس فریق کے لئے یہ ضابطہ بنایا جارہا ہے اس کی مشکلات و مسائل اور اس کا نقطۂ نگاہ بھی حکومت کے پیش نظر رہے۔ ایسا قانون یا ضابطہ بنادینا، جس پر عمل ہی نہ کیاجاسکے یا اس کے نفاذ سے بدعنوانیوں کو کوئی نیا باب کھل جائے تو پھر ایسا ضابطہ بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس قسم کے ضابطے اور قوانین افادیت کے بجائے لوگوں میں بے چینی بڑھانے اور قانون کے احترام کو ختم کرنے کے مترادف ہوتے ہیں۔

نئے ایجوکیشن کوڈ کے ضمن میں اخبارات سے چند درج بالا نکات کا پتہ چلا ہے اگر مذکورہ ضابطہ اسی کے مطابق بنادیا گیا تو خدشہ ہے کہ اس پر عملدرآمد مشکل ہو جائے گا اور متوقع مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکیں گے۔ اس سلسلہ میں جو مشکلات پیش آسکتی ہیں ان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ مجوزہ ضابطہ کو آخری شکل دینے سے پہلے ان پر بھی غور کیا جاسکے۔

نجی تعلیمی اداروں کو رجسٹر کرانے کی شرط کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ شرط تو آج بھی موجود ہے اور کراچی میں تو خصوصاً وقفہ وقفہ سے محکمہ تعلیم کی طرف سے غیر رجسٹرڈ تعلیمی اداروں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ رجسٹریشن حاصل کرلیں بصورت دیگر ان کے خلاف ضروری کاروائی کی دھمکی دی جاتی ہے لیکن محکمہ کو اپنی کوششوں میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ رجسٹریشن کرانے کے بعد ادارہ کو سوائے چند پابندیوں کے اور کچھہ بھی حاصل نہیں ہوتا اور آئے دن مختلف قسم کے گوشوارے بھر کر بھیجنے کی پابندی بھی لگ جاتی ہے۔ رجسٹریشن کے نتیجہ میں ذمہ داریوں اور فرائض کے ساتھہ کچھہ مراعات اور چند حقوق بھی ان اداروں کو مل جائیں تو پھر دیکھئے کہ ہر اسکول بلاتاخیر رجسٹریشن حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ پھر سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ رجسٹریشن کے لئے اساتذہ کو دی جانے والی چار یا چھہ ماہ کی تنخواہ کے مساوی رقم بھی فکسڈ ڈپازٹ کے طور پر جمع کروانی ہوگی اگر ایسا ہوا تو 98 فیصد نجی تعلیمی ادارے رجسٹریشن نہیں کروا پائیں گے اس لئے کہ اداروں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ کوئی رقم یکمشت جمع کروا سکیں۔ ہماری ایک غلطی یہ ہے کہ ہم چند بڑے نجی تعلیمی اداروں ہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام اداروں کو ان کی سطح پر سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ ایسے ادارے بھاری اکثریت میں ہیں جن کی انتظامیہ محدود وسائل کی مالک ہے۔

روسرا نکتہ فیسوں کے تعین سے متعلق ہے۔ فیسوں کا تعین تو اب بھی رجسٹریشن کی ایک شرط ہے اور لازمی طور پر اس کا تعین ہونا چاہئے تاکہ کوئی بھی ادارہ من مانی فیس وصول نہ کرسکے۔ فیس کا تعین کرتے وقت معقولیت پسندی اور انصاف کے تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا یہ نہ ہو کہ محکمہ تعلیم لوگوں سے واہ واہ اور داد وصول کرنے کی غرض سے اتنی کم فیس مقرر کردے کہ کسی ادارہ کا چلانا ممکن نہ رہے یا پھر دوسرے ہتھکنڈے اختیار کئے جانے لگیں کہ فیس کے تعین کا مقصد ہی فوت ہوکر رہ جائے۔ اس سلسلہ میں ضابطہ کی خلاف ورزی کے مرتکب اداروں کے خلاف قانونی کاروائی کی دھمکی کا اثر صرف بااصول انتظامیہ یا کم وسائل رکھنے والے اداروں ہر پر پڑے گا اور بااثر افراد یا بڑے ادارے آج کی طرح کل بھی بھاری فیسوں کے علاوہ کہیں عطیات کے نام پر کہیں بلڈنگ فیڈ کے نام پر اور کہیں سیکورٹی ڈپازٹ کے بہانے بھاری رقمیں بٹورتے رہیں گے۔ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار حضرات کو چاہئے کہ کسی اسکول کی فیس مقرر کرنے سے پہلے عمارت کا کرایہ، اساتذہ کی تعلیمی استعداد اور تنخواہوں، غیر نصابی سرگرمیاں اور دیگر سہولتوں پر کئے جانے والے اخراجات کا جائزہ لیں تاکہ منصفانہ طور پر فیس کا تعین کیا جاسکے۔

تیسرا نکتہ نجی تعلیمی اداروں میں تربیت یافتہ اساتذہ کے تقرر سے متعلق ہے اس سلسلہ میں تجربہ شاہد ہے کہ مجموعی طور پر غیر تربیت یافتہ اساتذہ زیادہ محنتی اور زیادہ فرض شناس ہوتے ہیں اور اس کا ثبوت سرکاری تعلیمی اداروں اورغیر سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ تربیت یافتہ اساتذہ میں سے بیشتر اساتذہ اپنی تربیت کے دوران حاصل کئے گئے درس و تدریس کے اصولوں پر عمل ہی نہیں کرتے یہ شرط عائد کرنے کا مقصد محض تربیت یافتہ اساتذہ کو ملازمت دلوانا ہی ہے تو پھر سندھ کے بیشتر مقامات پر جہاں اساتذہ کی خالی اسامیاں پڑی ہیں وہاں ان کو کھپایا جاسکتا ہے اراکین اسمبلی کی سفارش کے مقابلہ میں ایسے اساتذہ کا تقرر بہرحال مستحسن اقدام ہوگا۔

چوتھی بات یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں میں تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ان سہولتوں میں سمعی و بصری امداد، مناسب فرنیچر، روشن اور ہوادار کمرے، ٹھنڈا پانیاور صحت مند غیر نصابی سرگرمیاں ہی نہیں بلکہ وقت کے پابند اور مستعد وفرض شناس اساتذہ بھی شامل ہیں۔ ان سہولتوں کے بغیر نہ تو بہتر تعلیم کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بچوں کی جسمانی، ذہنی اور روحانی تشوونما اور ترقی ممکن ہے۔ ان سہولتوں کی فراہمی صرف نجی تعلیمی اداروں ہی کے لئے لازمی قرار نہ دی جائے سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی یہ یقینی بنائی جائیں۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں کھیل کود کےمیدانوں کی کمی ہے علاقہ کے جس اسکول میں بھی یہ سہولت موجود ہو قرب و جوار کے سرکاری یا نجی تعلیمی اداروں کو بھی وقتاً فوقتاً ان سے استفادہ کے مواقع دئیے جانے چاہئیں۔ اس سلسلہ میں اوقات اور دن مقرر کئے جاسکتے ہیں۔

مجوزہ کوڈ کا آخری لیکن سب سے اہم نکتہ مبینہ طور پر یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو بھی سرکاری شرح کے مطابق تنخواہ ادا کی جائے اور انہیں وہی دیگر مراعات حاصل ہوں جو سرکاری اساتذہ کو حاصل ہیں۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان اساتذہ کو سرکاری اداروں کے اساتذہ کے مقابلہ میں زیادہ تنخواہ ملے اس لئے ان اساتذہ کو وقت کی پابندی کے ساتھہ باقاعدگی سے اسکول پہنچنا ہوتا ہے پھر پورے وقت انہیں محنت سے پڑھانا پڑتا ہے ان کے نتائج بھی مقابلتاً بہتر ہوتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر نجی تعلیمی اداروں میں ان کو مناسب معاوضہ نہیں مل پاتا اس لحاظ سے ان کو سرکاری شرح کے مطابق تنخواہ دلوانے کا جذبہ بہت ہی مستحسن ہے۔ ہر انصاف پسند انتظامیہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے یہاں کام کرنے والے اساتذہ اور دیگر ملازمین کو معقول تنخواہ دی جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ چند دولت مند برادریوں اور اداروں کے زیر انتظام چلائے جانے والے اسکولوں کے سوا دوسرے تعلیمی اداروں کے لئے ایسا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے اگر اس سلسلہ میں کوئی قانون نافذ کردیا گیا تویا تو بہت سے اسکول بند کردئیے جائیں گے یا پھر وہی پرانا حربہ اختیار کیا جائے گا کہ تنخواہ دے کچھہ رہے ہیں اور دستخط کچھہ اور رقم پر لے رہے ہیں۔ ملک میں بے روزگاری عام ہے اس لئے کم تنخواہ لے کے زیادہ پر دستخط کرنا اب یہاں معیوب بھی نہیں رہا ہے لیکن اگر کئی اسکول بند کردیئے جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ ہزاروں افراد کی بے روزگاری اور اسکول سے محروم بچوں اور ان کے والدین کی پریشانی میں نکلے گا۔ اگر حکومت کے پاس ان کے متبادل انتظام ہو تو ضرور اس قسم کی پابندی لگائی جائے ورنہ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کی کسی شرط کو ضابطہ میں شامل نہ کیا جائے۔

محولہ ایجوکیشن کوڈ کا آخری شکل دینے سے پہلے اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ نجی تعلیمی ادارے کوئی خیراتی ادارے نہیں ہیں جو بھی شخص یا ادارہ اسکول قائم کرتا ہے اسے معقول رقم اس پر صرف کرنی پڑتی ہے پھر وہ خود بھی محنت کرتا ہے فطری طور پر وہ چاہے گا کہ اسے حلال روزی ملے اور وہ بجا طور پر اس کا حقدار بھی ہے کسی بھی قانون کے ذریعہ اسے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش زیادتی اور فروغ تعلیم کی راہ میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہوگی۔

اس حقیقت سے بھی کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ نجی تعلیمی ادارے ملک میں جہالت کے خلاف جہاد میں ہر اول دستہ کی حیثیت رکھتے ہیں حکومت کی طرف سے ایک پیسہ کی امداد دیئے بغیر یہ ادارے ملک سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرکے اس میں علم کی روشنی پھیلانے میں پیش پیش ہیں جس کا بدلہ دھونس، دھمکی اور ناجائز پابندیاں نہیں ہیں انصاف اس بات کا متقاضی ہے کہ ان اداروں کو وقت بے وقت ہراساں کرنے کی پالیسی کو ترک کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کو بیجا پابندیوں میں جکڑنے کے بجائے ان اداروں کو آزادی کے ساتھہ لیکن منصفانہ ضابطوں میں رہتے ہوئے کام کرنے کی پوری اجازت ہو تاکہ یہ ادارے زیادہ سے زیادہ بچوں کے لئے بہتر تعلیم اور مزید سہولتیں فراہم کرنے کا قابل ہوسکیں۔

فرائض اور حقوق کا چولی دامن کا ساتھہ ہے۔ نیا ایجوکیشن کوڈ بناتے وقت جہاں نجی تعلیمی اداروں پر چند پابندیاں عائد کرنا مقصود ہے وہاں ان اداروں کی جائز مشکلات کو دور کرنے کے بارے میں بھی حکومت کو عملی قدم اٹھانا چاہئے۔ اس سلسلہ میں بجلی کی شرح اور جائیداد ٹیکس کا تجارتی بنیادوں پر تعین ہے جس عمارت میں اسکول قائم ہوتا ہے اس پر جائیداد ٹیکس کمرشل بنیادوں پر مقرر کیا جاتا ہے اس لئے مالکان مکان اسکولوں سے نسبتاً زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں اسی طرح بجلی کے چارجز بھی کمرشل بنیاد پر وصول کئے جاتے ہیں لیکن اسکول قومی فلاح و بہبود کے کام کررہے ہیں اور علم کو پھیلانے میں مصروف ہیں جو وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے پانچ نکات میں سے ایک اہم نکتہ ہے حکومت کو چاہئے کہ اسکولوں کی عمارتوں کو جائیداد ٹیکس سےیکسر مستشنٰی قرار دے تاکہ اسکولوں کے قیام کے رجحان کی ہمت افزائی ہو اسی طرح بجلی بھی ایک حد تک اسکولوں کو مفت فراہم کی جائے تاکہ انتظامیہ بچوں کے لئے پنکھوں اور روشنی کا معقول انتظام کرسکے اس سلسلہ میں بجلی کے بیجا اسراف کو روکنے کے لئے یونٹس کی ایک حد مقرر کردی جائے اگر مقررہ حد سے زیادہ بجلی استعمال ہو تو اس کا بل متعلقہ ادارہ سے وصول کر لیا جائے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اان تعلیمی اداروں کو انکم ٹیکس کے محکمہ کی طرف سے بھی ہمیشہ مداخلت کا کھٹکا لگا رہتا ہے بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کے آدمی اسکولوں کا ریکارڈ تک لے گئے انکم ٹیکس اسکولوں پر نہیں افراد پر لگایا جانا چاہئے اگر کسی اسکول کے ملازم پر انکم ٹیکس واجب الادا ہوتو اس کی ادائیگی اسکولوں کی ذمہ داری قرار دی جائے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسکول کی آمدنی ہی کے حسابات انکم ٹیکس کا محکمہ لے جائے بیشتر اسکولوں میں باقاعدہ اکاؤٹنٹ وغیرہ کاتقرر ممکن نہیں ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں واضح احکامت جاری کردے تاکہ ایسے واقعات کا سدباب ہوسکے۔

آخر میں تجویز ہے کہ ضابطہ تعلیم کو قانونی شکل دینے سے پہلے عام لوگوں کی رائے کے لئے مشتہر کیا جائے یا کم از کم نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ سے انفرادی اور اجتماعی طور پر رائے لی جائے تاکہ خامیوں سے پاک ایسا ضابطہ مرتب کیا جاسکے جس سے والدین بھی خوش ہوں نجی تعلیمی اداروں کی انتظامیہ بھی مطمئن ہو اور قانون کے تقاضے بھی پورے کئے جاسکیں۔

No comments:

Post a Comment