سندھ کا مسئلہ (جواب الجواب)

روزنامہ

" سندھ کا مسئلہ تصویر کا دوسرا رخ" کے جواب میں جناب محمد نسیم نے جو قانون داں بھی ہیں 12 فروری 1987ء کے روزنامہ جنگ میں بغیر کسی دلیل کے جس طرح اپنا جواب دعویٰ پیش کیا ہے۔ راقم الحروف بھی ان کی تلقید کرتے ہوئے یہ کہہ کر اپنا جواب دے سکتا ہے کہ " تصویر کا دوسرا رخ" ہی صحیح ہے اورباقی سب " نقلی رخ" ہیں لیکن " غلط سلط توجیح" اور " بھونڈے انداز" کی نوازشات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے بھائی سے یہ درخواست ضروری ہے کہ " تصویر کا دوسرا رخ" کو دوبارہ پڑھنے کی زحمت کریں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ اس کے مندرجات پر غور کرکے فیصلہ کرنے کی کوشش کریں کہ " سچ" اور " تلخ" فی الحقیقت کیا ہے؟ پھر خود ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے مضمون کو بھی بغور پڑھا جائے گا تو نسیم صاحب کو اسی میں "اصل رخ" مل جائے گا اور " اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے" اور خواہ مخواہ دوسروں کو مورود الزام نہ ٹھہرانے کے مشورے کا روئے سخن خود جناب ہی کی طرف ہوجائے گا۔

ڈاکٹر صاحب کے مضمون " سندھ کا مسئلہ" میں درج ہے " اس وقت واقعہ یہ ہے کہ ایک عام سندھی نواجوان ان کے صوبے کے افراد کو " دیسی سامراج" کی علامت اور اس " نئے نو آبادیاتی نظام" کے ذریعہ ظلم و استحصال کا " مجرم" گردانتا ہے۔" پھر یہ فیصلہ بھی موصوف ہی کا ہے کہ " اصولی اور مجموعی اعتبار سے سندھ کی شکایات بے بنیاد نہیں ہیں۔" یہی نہیں بلکہ 1983ء میں " تحریک بحالی جمہوریت" کے نام سے سندھ میں جس پرتشدد طریقے پر بالخصوص سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگوں نے اپنی بے چینی کا اظہار کیا تھا اس کے بعد میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور صوبہ پنجاب سےتعلق رکھنے والے سیاسی قائدین، علمائے دین، مقتدر صحافیوں اور دیگر ذمہ دار حضرات نے سندھ کے ساتھہ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے سدباب کے سلسلے میں اپنے صوبے ہی سے دردمندانہ اپیلیں کی تھیں ان اصحاب نے سندھ کی ملازمتیں مقامی افراد کو دیئے جانے کے مطالبے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ راقم الحروف پہلے پاکستانی اور پھر سندھی ہے اس نے محض الزام تراشی کی خاطر اپنے بھائیوں کو سندھ کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ " تصویر کا دوسرا رخ" اس جذبے کے تحت پیش کیا گیا تھاکہ یہ بات کھل کر ہوجائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی اور جنم لینے والی بدگمانیاں کوئی خطرناک رخ اختیارنہ کر پائیں۔ ہر محب وطن پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ اگر ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کے حل کے سلسلے میں اگر وہ کچھہ مدد کرسکے تو ضرور کرے۔ اس لئے کہ جس طرح انسانی زندگی کے لئے صحت ایک بنیادی شرط ہے اسی طرح کسی ملک کی ترقی و یکجہتی اور اس کے استحکام کے لئے مختلف طبقوں کے درمیان عدل اور اعتماد کی فضا انتہائی ضروری ہے۔ اس لئے قوم کے حساس اور صاحب فکر افراد کو چاہئے کہ وہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہوکر مسائل کا حل پیش کریں بصورت دیگر قوم کے مختلف طبقوں کے درمیان بعد میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا اور اس کا نتیجہ ہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دیکھہ چکے ہیں۔

راقم الحروف کو اتفاق ہے کہ " صوبہ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کے وسائل تجارت، صنعت، انتظامیہ، بلدیات وغیرہ غرض یہ کہ ہر شعبہ پر غیر سندھیوں یعنی سندھی نہ بولنے والے طبقے کا قبضہ ہے۔" لیکن ان قابضین میں اردو بولنے والوں کا حصہ بہت ہی کم ہے۔ " اصلی رخ" کے " نقلی رخ" ہونے کا ثبوت تو اس ایک مثال ہی سے مل جاتا ہے کہ جناب نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی بلدیات کے اراکین کا توڑ کردیا لیکن پولیس، واپڈا، اسٹیل ملز، پی آئی اے، شپ یارڈ اور دوسرے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کا ذکر مناسب نہیں سمجھا گیا۔ مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے کا مطالبہ اسی لئے کیا جاتا رہا ہے کہ " تعلیم یافتہ سندھیوں کا جم غفیر ہے جو نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہے" اور ان سرگرداں سندھیوں میں سندھی اور اردو بولنے والے تمام ہی سندھی شامل ہیں۔ " سندھیوں یعنی سندھی بولنے والوں کا اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں " ہوجانے کے خطرے کا سبب تو راقم الحروف " دوسرا رخ" میں بیان کرہی چکا ہے لیکن اسی سیاق و سباق میں 14 فروری 1987ء کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے اس بیان کو بھی پڑھ لینا ضروری ہے جس میں موضوف نے کہا ہے کہ " سندھ میں انتقال آبادی کے رجحان کی روک تھام کے لئے اگر کوئی قانون بنایا گیا تو وہ غیر اسلامی نہیں ہوسکتا۔"

جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے تو یہاں 85-1984ء کے دوران صرف پولیس افسران کی تعداد کا جائزہ ہی کافی ہے جس کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ عوام کے اس مطالبے کے باوجود کہ پولیس میں مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے حالیہ برسوں میں غیر سندھیوں کی بھرتی کے رجحان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

"اصلی رخ" میں دکھایا گیا ہے کہ " کراچی 2 لاکھہ کی آبادی والے شہر سے پھیل کر اسی پچاسی لاکھہ باشندوں کا شہر ہوگیا ہے۔" اس سلسلے میں کراچی کی آبادی میں اضافے کی رفتار کا جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ اسی اضافے میں تشویشناک صورت حال کے ذمہ دار اردو بولنے والے سندھی ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل کار فرما ہیں۔ سرکاری مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی میں 1931ء میں 3 لاکھہ، 1941ء میں 4 لاکھہ 36ہزار، 1951ء میں 10لاکھہ 70 ہزار، 1961ء میں 9لاکھہ 13ہزار، 1972ء میں 35لاکھہ 15ہزار اور 1981ء میں 51لاکھہ افراد پر مشتمل تھی۔ 1941ء اور 1951ء کے دوران آبادی میں ڈھائی گنا اضافے کا قدرتی عمل کے علاوہ سب سے بڑا سبب بلاشبہ بھارت سے آنے والے مہاجرین ہی تھے لیکن 1951ء تک مہاجرین کی آمدنی رفتار بہت کم ہوگئی تھی اور پھر تو پاکستان میں داخلہ بھی بند کردیا گیا تھا اس لئے 1961ء میں کراچی کی آبادی میں دگنا اضافہ قابل غور ہے اس لئے کہ اسی مدت کے دوران ون یونٹ تشکیل دیا گیا اور پھر اکتوبر1985ء میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا پھر 1961ء کے مقابلے میں 1972ء میں بھی آبادی تقریباً دگنی ہوگئی، اب یا تو یہ کہا جائے کہ کراچی میں آباد سندھی اور اردو بولنے والے سندھیوں کے ہاتھ " فروغ خاندان" کا کوئی نایاب نسخہ آگیا تھا کہ ان کی آبادی دس سال کے اندر اندر دگنی ہوگئی یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اضافہ دوسرے صوبوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب ممکن ہوا۔ الزام برائے الزام کی خاطر تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد مشرقی پاکستان سے "بہاری" آئے تھے لیکن یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہاں سے بنگالی بھائی بھی بڑی تعداد میں گئے تھے پھر اس سے قبل ٹرینیں بھر بھر کر نئے دارالحکومت اسلام آباد کی رونق بڑھانے کے لئے بھی ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کراچی سے منتقل ہوگئے تھے پھر 1981ء میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 4 سال کے دوران یہ آبادی ڈیڑھ گنا پھر بڑھ گئی اس میں خود اندروں سندھ سے نقل مکانی کرنے والوں کا بھی کچھہ حصہ ہوکستا ہے لیکن دوسری طرف ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا یہ دعویٰ بھی قابل غور ہے کہ مہاجر نے " خوفزدہ" ہو کر ملک سے "راہ فرار" اختیار کی اور " کراچی میں ایک بڑی تعداد ایسے مہاجر خاندانوں کی ہے جن کی پوری نوجوان نسل ملک سے باہر جاچکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ کراچی میں بہت سے بڑے بڑے مکانوں اور عالیشان کوٹھیوں میں اب صرف بوڑھے والدین رہتے ہیں یا جب وہ بھی کسی بیٹے یا بیٹی کے پاس گئے ہوتے ہیں تو صرف مالی اور چوکیدار" اگر حقیقت یہی ہے ہے تو پھر اردو بولنے والوں تعداد میں تو بہت کمی ہوجانی چاہئے اور اگر بات یہی ہے تو پھر انہی کو اس اضافے کا ذمہ دار کیوں قرار دیا جارہا ہے؟

کراچی کے قدیم باشندوں کی زبوں حالی انتہائی قابل افسوس ہے لیکن اس کا ذکر کرنے کا مقصد کیا یہ ہےکہ اس کی ذمہ داری بھی اردو بولنے والوں ہی کے سرمنڈھ دی جائے۔ کراچی ہی پر کیا منحصر ہے سندھ کے دیہات کی حالت بھی بہت خراب ہے لیکن یہ سوال تو طویل عرصے تک یہاں متعین مارشل لاء ایڈمنسٹریڑوں اور ان سیکریٹریوں سے پوچھا جائے جو صوبہ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں یا پھر اس کا جواب جناب ممتاز بھٹو، جناب غلام مصطفٰی جتوئی یا ان کے جانشین دیں جنہیں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سندھ کے بااختیار وزیر اعلٰی رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ ہمیں ان تمام باتوں پر ٹھنڈے دماغ کے ساتھہ غور کرنا چاہئے۔ مشتعل ہونے سے بات بگڑ جاتی ہے۔ ویسے راقم الحروف نے 1966ء میں اس صورت حال کی نشاندہی ان الفاظ میں کی تھی "سندھ کے دیہی علاقوں میں کہی ہزاروں خاندان بے گھر ہیں جن کے لئے کم لاگت کے مکانات تعمیر کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیر ضروری اور غیر منافع بخش منصوبوں پر کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے بجائے بے گھر افراد کی جلد از جلد اور مستقل آباد کاری کا فوری انتظام کیا جائے" (روزنامہ جنگ 10 جون 1966ء)

" ہمارے پارسی بھائی جن کا کراچی شہر کے بنانے میں نمایاں حصہ تھا 1947ء سے پہلے یہ سب سے فعال طبقہ تھا۔ اب عنقا ہوگئے ہیں۔ " تو یہ بھی بتا دیا جائے کہ اس میں 1947ء کے بعد پاکستان آنے والے افراد کس طرح ذمہ دار ہیں اور پھر کراچی سے تو ہمارے" ہندو اور سکھہ بھائی" بھی عنقا ہوچکے ہیں جبکہ "ہندو بھائیوں" نے تو کراچی میں عامل کالونی جیسی صاف ستھری بستی اور حیدرآباد میں ہیرآباد جیسا مسلمانوں کے لئے "ممنوعہ" علاقہ بھی آباد کیا ہوا تھا پھر یہی "ہندو بھائی" ہمارے قدیم سندھی بھائیوں کا خون چوسنے اور انہیں دبانے کا فریضہ "بطریق احسن" ادا کرنے میں بھی بڑے فعال تھے۔

"جھگڑے کی بنیادی وجہ" یہ نہیں ہےکہ " وہ بھائی جو 1947ء کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سندھ میں آئے انہوں نے تاریخی رواج کے مطابق اپنے آپ کو ابھی تک اس علاقے کی تہذیب میں مدغم نہیں کیا۔" بلکہ اصل جھگڑا اور بنیادی مسئلہ سندھی نوجوانوں میں تکلیف دہ حد تک بے روزگاری اور اقتدار میں سندھی عوام کی طویل عرصے تک عدم شرکت ہے اور اس آگ میں سندھی اور اردو بولنے والے یکساں جل رہے ہیں۔ اردو بولنے والے سندھیوں پر یہ الزام کہ وہ مقامی تہذیب اور طرز معاشرت کو اپنانے سے گریزاں ہیں محض سندھ کے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑانے کی مذموم کوشش ہی قرار دی جاسکتی ہے ورنہ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ کوئی صوبہ بھی یکساں طرز معاشرت کا دعویٰ نہیں کرسکتا اس لئے کہ قبیلوں، خاندانوں اور علاقوں کے افراد کے درمیان لباس ، زبان، لب و لہجہ، رسم و رواج حتیٰ کہ غذا تک میں بڑا نمایاں فرق موجود ہے پھر تعلیم یافتہ ، غیر تعلیم یافتہ ، امیر غریب سے اور شہر میں رہنے والا دیہات میں رہنے والے سے مختلف طرز معاشرت کا حامل ملے گا اور یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے جو سندھ پر بھی یکساں صادق آتی ہے۔ پھر تہذیب و تمدن لباس کی تبدیلی کے عمل کے طرز پر فوری طور پر تبدیلی نہیں کی جاسکتی یہ تو غیر مرئی طور پر آہستہ آہستہ پیدا اور ظاہر ہوتی ہے۔ تہذیب کا عمل جامد و ساکت نہیں بلکہ ہمیشہ متحرک رہنے والا ہوتا ہے۔ یہ کبھی یکساں نہیں رہتی۔ 1947ء اور آج کے دیہاتوں کی تہذیب تک میں نمایاں فرق ملے گا خود قدیم سندھی تہذہب و تمدن کے علمبرداروں کی بود و باش اور رہن سہن کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا وہ سندھ کے نہیں بلکہ یورپ کے کسی شہر کے باسی ہوں۔

سندھی زبان نہ سیکھنے کی شکایت کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہئے کہ اردو بولنے والے اتنی تعداد میں آگئے کہ ان کا کام سندھی بولنے بغیر بھی چل جاتا ہے۔ شہروں میں ہر شخص اردو بولتا ہے لیکن جہاں اردو بولنے کی تعداد سندھی بولنے والوں سے کم ہے وہاں سب سندھی بولتے ہیں اور یہ بات صرف سندھ ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ خلیج عرب کے شہر دبئی تک میں مقامی ٹیکسی ڈرائیور اور ایرانی دکاندار تک اردو میں بات کرنے ہیں اور وہ اس پر سبکی محسوس نہیں کرتے وہ جانتے ہیں کہ اردو ان کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے علاوہ بھارت کے علاقوں مدراس، کیرالہ، اور گواتک کے باشندے اردو ہی بولتے ہیں بلکہ دبئی اور قرب و جوار میں کام کرنے والے صومالی باشندے تک اردو کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں بلکہ راقم الحروف ایک ایسے صامالی باشندے کو بھی جانتا ہے جو اپنے ہم وطنوں میں پاکستانی کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اردو بولنے والے سندھیوں کو چاہئے کہ وہ سندھی پڑھنے، سندھی سمجھنے اور سندھی بولنے کی استطاعت پیدا کریں اس لئے کہ جس علاقے میں وہ رہتے ہیں اس علاقہ کی زبان سے اجنبیت کو بہرحال مناسب ہی قرار دیا جائے گا اور جب تک ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے جو آج کل ملک کی ایک بڑی پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں سندھی بولنے والوں پر پڑھنے اور اردو بولنے والوں پر سندھی سیکھنے کی پابندی ختم نہیں کی تھی ان مختلف الزبان افراد میں یگانگت کا جذبہ برابر پرورش پا رہا تھا۔

ملک کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کی شکایات پر ناک بھوں چڑھانے یا جوابی شکایات پیش کرنے کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے اور جائز شکایات کو دور کرنے کے لئے مناسب کاروائی کی جائے۔ اس ضمن میں بڑے بھائی کی حیثیت سے حالات کو سنبھالنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بڑے بھائی ہی پر عائد رہے گی اور سندھ، بلوچستان اور سرحد کی شکایت کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ وہ اپنی بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے چھوٹے بھائیوں کے ساتھہ ہونے والے موجودہ سلوک کے خلاف نہ تو کوئی قدم اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔

"اصلی رخ" میں اس بات سے کہ "شہروں اور گاؤں میں جو اچھا علاقہ اور مکان تھا وہ سب کا سب انہیں (مہاجرین) کو لینے دیا، مہاجر ہی کلیم کنندہ تھا۔ اس صورت حال پر جب سندھیوں نے آواز احتجاج بلند کرنے کی کوشش کی تو سنی ان سنی کردی گئی۔ حقائق و واقعات سے صاحب مضمون کی نہ صرف عدم واقفیت کا ثبوت فراہم ہوتا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ صوبہ کے تمام مسائل کا واحد ذمہ دار مہاجرہی ہے، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مہاجرین کو جو بھی اچھے برے مکان شہروں اور دیہات میں ملے وہ متروکہ املاک تھی جو بھارت میں چھوڑی گئی ان کی جائیداد کے بدلے میں انہیں دی گئی۔ مہاجرین بھارت میں بہت کچھہ چھوڑ کر آئے تھے لیکن بہتوں کے دعوے کے مقابلے میں بھی بہت کم معاوضے ادا کئے گئے پھر جس انداز سے خصوصاً مکانات کا قبضہ دیا گیا اس کے نتیجے میں آپس کی مقدمہ بازی اور تنازعات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اس کے مقابلے میں بھارت نے شرنارتھیوں کے مبالغہ آمیز دعوؤں کو بھی منظور کرلیا اور دوسری طرف مسلمانوں کی متروکہ املاک کی قیمت کم مقرر کی ادھر پاکستان کی حکومت نے مہاجرین کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی کم قیمت منظور کی اور پھر دعوؤں کی مالیت بھی کم کردی اس طرح مہاجرین کو دہرا نقصان پہنچایا گیا حکومت کی پالیسی سے لاکھوں خاندانوں کے دعوے منظور ہی نہیں ہوسکے اور انہیں اپنی چھوڑی ہوئی جائیداد کے بدلے میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی نتیجتہً ان میں بے چینی پیدا ہوئی اور ان تمام باتوں کے باوجود خود سندھ کے ایک قائم مقام وزیر اعلٰی سیّد قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں یہ بتایا کہ مہاجرین کو سندھ کی متروکہ اراضی کا صرف 25 فیصد اور متروکہ مکانات اور دکانوں کا صرف 27 فیصد ملا اور اس بات کی سرکاری ریکارڈ سے ڈاکٹر اسرار احمد اور جناب نسیم خود ہی تصدیق کرسکتے ہیں۔

جہاں تک آواز احتجاج کی سنی ان سنی کرنے کا تعلق ہے تو اس بات کا تعلق تو حکومت سے تھا۔ دعوؤں کے سلسلے میں تمامتر پالیسی حکومت نے بنائی تھی اس ضمن میں مہاجر، پنجابی، پٹھان متحدہ محاذ کی تشکیل کا حوالہ اس لئے بے محل ہے کہ اس محاذ میں پنجابی اور پٹھان بھی شامل تھے۔ صرف مہاجر ہی نہیں۔

ہاں سندھ کی زرعی اراضی کو مقامی ہاریوں کو نہ دینے کے خلاف البتہ آواز کو دبایا گیا اور مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے کے مطالبے کو بھی درخود اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ راقم الحروف نے نیلام کے ذریعہ زمینوں کو ٹھکانے لگانے کے خلاف ایک بیان میں کہا تھا " زمینوں کو نیلام کرنا اس علاقے کے غریب اور مستحق کسانوں کو زمین سے محروم کرنے کے برابر ہے۔ مہاجرین کو بھی زمین دی جائے جن کا پیشہ کھیتی باڑی ہے۔

اس تمام تلخ اور شیریں بیانی کا مقصد کسی صوبے کے لوگوں پر الزام لگانا نہیں بلکہ اس کے پیچھے یہ خواہش کارفرما ہے کہ ملک میں موجود بے اعتمادی کی فضا ختم ہو اور لوگ باہم شیر و شکر ہوکررہنا شروع کریں لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک وسیع النظری کا مظاہرہ کرے اور کھلے دل کے ساتھہ ایک دوسرے کی شکایات کو دور کرنے کے سلسلے میں خلوص نیت اور عدل کے ساتھہ کوشش کرے اسی طرح ملک میں اٹھنے والے فتنوں کا خاتمہ ممکن ہے اور اس کے لئے ہمارے قائدین اور اصحاب فکر و دانش کے قول و فعل میں تضاد کو ختم کرنا ہوگا جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہم یونہی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوتے " اور بعید از حقیقت" الزامات سے ایک دوسرے کو نوازتے رہیں گے۔

No comments:

Post a Comment