مسلم لیگ اور اس کی تنظیم نو
روزنامہ
مسلم لیگ قائد اعظم کا ورثہ تو ہے ہی لیکن یہ ان لاکھوں مردوں، عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کا ورثہ بھی ہے۔ جنہوں نے بابائے قوم کی قیادت میں مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے مسلمانوں کے لئے آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا مسلم لیگ ان معصوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کا ورثہ بھی ہے جو آج تک ہندو اور سکھہ گھرانوں میں زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ بھارت کے ان کروڑوں مسلمانوں کا بھی ورثہ ہے جو آئے دن ہندو فرقہ پرستی کا نشانہ محض اس لئے بنائے جارہے ہیں کہ انہوں نے یا ان کے آباؤ اجداد نے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کے لئے جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا مسلم لیگ ان کروڑوں گمنام کارکنوں کا ورثہ بھی ہے جنہوں نے قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے برصغیر کے چپہ چپہ پر "لے کے رہیں گے پاکستان " اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ کے نعروں کی گونج پہنچائی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بزرگوں کے سامنے آج بھی جب مسلم لیگ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے لیکن وائے قسمت کہ ہم نے جس طرح پاکستان کی شکل بگاڑ کر اسے کیا سے کیا بنادیا ہے اسی طرح مسلم لیگ کی صورت بھی مسخ کرکے رکھہ دی گئی ہے۔ بلکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی توڑ پھوڑ سے پہلے مسلم لیگ ہی کا حلیہ بگاڑا گیا اس لئے کہ متحد اور منظم مسلم لیگ کی موجودگی میں پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی تھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کارشیطانی میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کی عیاری کے ساتھہ خود مسلم لیگ کے لیڈروں کی مفاد پرستی اور عوام اور کارکنوں کی سادگی کا بھی بڑا حصہ ہے جب عوام نے ملکی معاملات اور مسلم لیگ کے امور میں دلچسپی لینی کم کردی تو مفاد پرست ٹولہ نے اس سے پوا فائدہ اٹھایا اور اس نے مسلم لیگ کو بے اثر بانے اور ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے سلسلہ میں منصوبہ بندی پر تیزی کے ساتھہ عملدرآمد شروع کردیا۔ پاکستان اور مسلم لیگ ہر پہلا بھرپور وار قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کی صورت میں کیا گیا پھر الحاج خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمٰی سے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور گورنر جنرل کی طرف سے برطرفی کے بعد مسلم لیگ کی کونسل کی خاموشی اور بلاجواز نئے صدر کے انتخاب کا واقعہ ہے اور اسی کے بعد مسلم لیگ اپنا اثر تیزی سے کھونے لگی اور یہی سازش عناصر کا منصوبہ تھا۔ اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ سے تقریباً دو سال قبل ہی ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ مسلم لیگ اقتدار سے محروم کردی گئی اور اس کی جگہ مخالفین پاکستان کی قیادت میں قائم ری پبلکن پارٹی مسند اقتدار پر متمکن کردی گئی۔ اس پارٹی کا قیام اور اور اقتدار محلاتی سازش کا مرہوں منت تھا اس لئے یہ عوام کی تائید اور حمایت سے محروم ہی رہی۔ اسی قسم کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد 1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب قومی اسمبلی کے قائد ایوان محمد خان جونیجو نے ازسر نو مسلم لیگ کو منظم کیا لیکن یہ تنظیم بھی اسمبلی کے اراکین ہی پر مشتمل تھی اس لئے یہ بھی عوام میں کوئی اثر قائم کرنے میں ناکام رہی۔
جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کو جماعتوں کے خلاف تھے لیکن انہوں نے مسلم لیگ کے قیام کی اجازت دے کر اس کی نشاۃ ثانیہ کا تاریخی موقعہ فراہم کیا تھا لیکن افسوس کہ اس کی تنظیم کی طرف کچھہ بھی توجہ نہ دی گئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ پر اجاہ داری قائم کرکے اس کی تنظیم کی راہیں مسدود کرکے رکھہ دی گئیں تھیں تو بیجا نہ ہوگا۔ وزیر اعظم ، وزراء اعلٰی اور مرکزی اور صوبائی وزیروں نے مسلم لیگ کے عہدے حاصل کرکے مسلم لیگیوں کو مسلم لیگ سے دور رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرلیا تھا۔ محمد خان جونیجو تقریباً ڈھائی سال تک مسلم لیگ کی صدارت کے ساتھہ ساتھہ وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہے لیکن اس دور میں مخلص اور بے لوث کارکنوں اور پرانے لیڈروں کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی اور اس کا سب سے زیادہ بھونڈا مظاہرہ سندھ میں کیا گیا حالانکہ پاکستان مسلم لیگ کے صدر کا تعلق بھی اسی صوبہ سے تھا یہی نہیں بلکہ موصوف نے آج تک کراچی حیدرآباد یا سکھر میں مسلم لیگ کے کارکنوں سے ملنےیا ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اس سے قبل مسلم لیگ کے صدر پیر صاحب پگارا رہے لیکن انہوں نے بھی کئی برسوں تک اس طرف توجہ نہیں دی بلکہ انہوں نے اسی کو غنیمت جانا کہ حنوط شدہ بندر کے ہاتھہ میں مسلم لیگ کا جھنڈا تھما کر اسے اپنے ڈرائنگ روم میں سجادیا جائے۔ مسلم لیگ جیسی عظیم اور ملی جماعت کے ساتھہ یہ مذاق توہین کے مترادف تھا۔ بہرحال قائدین لیگ کا یہ رویہ مسلم لیگ کے ساتھہ ان کے خلوص اور وابستگی کا ایک پیمانہ ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ جونیجو صاحب کے دوراقتدار میں ملازمت ، ترقیوں اور دیگر مراعات کے سلسلہ میں اس طبقہ کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا جو اسلام پاکستان اور مسلم لیگ کے ساتھہ ہمیشہ سے مخلص رہا ہے لیکن اس کا اطلاق صرف صوبہ سندھ پر ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کی مسلم لیگی کابینہ کے اراکین نے بھی جن میں سے بیشتر کا تعلق شہری حلقوں سے تھانہ تو اپنے علاقوں کے لئے کوئی کام کئے نہ مسلم لیگ کی طرف ہی کوئی توجہ دی ، ہاں انہوں نے اپنے گروہ بنانے میں ضرور دلچسپی لی جس کا نتیجہ 1988ء کے عام انتخابات میں سامنے آگیا کہ سندھ سے بشمول محمد خان جونیجو اور پیر صاحب پگارا ایک بھی مسلم لیگی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔
پنجاب مسلم لیگ نے اپنے صوبہ میں تنظیم اور کارکنوں کے ساتھہ رابطہ پر شروع سے توجہ دی تھی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ وہاں آج مسلم لیگی ہی وزیر اعلٰی ہے لیکن دکھہ کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت شروع دن سے میاں نواز شریف کی اقتدار سے محروم کردینے کے لئے سرگرداں رہی ہے اور اب اس دوڑ میں پی پی کی حکومت بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت فعال سرگرم عمل بے لوث اور جرأتمند نواز شریف کو کیوں راستہ سے بنانا چاہتی ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے آئندہ قائد نواز شریف ہی ہوں گے۔ صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگی وزرائے اعلٰی کے امکانات کی راہ میں رکاوٹوں کی ذمہ داری بھی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت ہی پر عائد ہوتی ہے اس لئے کہ صوبہ سرحد میں جونیجو گروپ اور نواز شریف گروپ کے چکر میں اختلافات کو اس طرح سامنے لایا گیا کہ جونیجو گروپ کے زیادہ تر ارکان شیرپاؤ کے دست و پا بن گئے اور اس طرح وہاں آئی جے آئی اقتدار سے محروم کردی گئی بلوچستان میں جو کھیل کھیلا گیا وہ بھی مسلم لیگ کے شایان شان نہیں تھا اور اس کا سبب بھی مرکزی قیادت کی کمزوری ہی تھا۔
سندھ کے مسلئہ پر بھی مسلم لیگ کی قیادت کا رویہ شروع سے مایوس کن رہا ہے۔ حیدرآباد تو ہمیشہ سے مسلم لیگ کا شہر رہا ہے اور آج بھی یہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ اگر کسی جماعت کو قبول کرسکتا ہے تو وہ صرف مسلم لیگ ہی ہے لیکن اس شہر پر کئی بار قیامت کے پہاڑ ٹوٹے لیکن مرکزی اور صوبائی قیادت کو کبھی یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ ذاتی طور پر نہ سہی بیانات کے ذریعہ ہی ان کے زخموں پر مرہم رکھتے۔ قیادت کے اسی سلوک کی بنا پر مقامی مسلم لیگ بھی میدان میں نکل کر کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے اور لوگ تویہ تک کہتے ہیں کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی قائدین بالواسطہ پیپلز پارٹی کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ یہ خیال کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو لیکن مسلم لیگ نے سندھ کی حد تک تو پی پی کے لئے میدان پوری طرح خالی چھوڑا ہوا ہے۔
مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلہ یں تقریباً دو سال سے خبریں آرہی ہیں اس سلسلہ میں جن حضرات کے ذمہ کام سپرد کیا گیا تھا ان میں سے بیشتر کو پی پی میں مسلم لیگ نظر آنے لگی اور وہ وہاں چلے گئے مرکز صوبہ سندھ اور سرحد کی مسلم لیگی کابینہ کے کئی اراکین بھی اقتدار کی دیوی کے قدموں میں جا گرے اور مسلم لیگ کو چھوڑ گئے یہ سب حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد محمد خان جونیجو فرد شناس نہیں ہیں اور نہ وہ بروقت صحیح فیصلہ کرکے اس پر عملدر آمد کی صلاحیت رکھتے ہیں محمد خان جونیجو شریف النفس انسان ضرور ہیں لیکن قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ شرافت کے ساتھہ قوت فیصلہ اور فرد شناسی کی صلاحیتوں کا مالک بھی ہو اور فیصلوں کو پوری طرح اور بروقت عمل کروانے کی ہمت رکھتا ہو۔ کسی مصلحت کی بنا پر کسی خاص شخصیت کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اس لئے کہ پاکستان اور مسلم لیگ کا استحکام لازم و ملزم ہیں اور ہماری مختصر تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلم لیگ کی کمزوری اور اس کے انتشار کے نتیجہ یہ میں پاکستان دو ٹکڑوں میں منتشر ہاگیا افر اب بھی ہم نے اس کلیہ کی طرف توجہ نہیں دی اور مسلم لیگ کو خالصتاً قومی نقطہ نظر سے منظم اور متحد نہیں کیا تو خدا نہ کرے ہمیں اور بھی سانحات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ پاکستان کے استحکام اور اس کی سالمیت کے ساتھہ یہاں جمہوری اصولوں کے فروغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلم لیگ کو کم از کم اس قدر منظم اور فعال تو بنادیا جائے کہ وہ اگر حکومت تشکیل دینے کی حیثیت میں نہ ہو تب بھی کسی بھی برسراقتدار جماعت کو ملک میں من مانی کرنے اور اس کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی اجازت نہ دے لیکن یہ حیثیت حاصل کرنے کے لئے ہمیں قائد اعظم کے اصولوں کی پیروی کرنی ہوگی اور ان کے اصول مافوقی یا ناقابل عمل نہیں ہیں۔
ملک اور قوم کو درپیش پیچیدہ اور پریشان کن حالات سے جلد از جلد نجات پانے کے لئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ کو اس کا کھویا ہوا مقام بلا تاخیر حاصل ہو اور یہ کام محض بیانات جاری کرکے پورا نہیں کیا جاسکتا اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اعلٰی ترین سطح پر بھی اگر قربانی کی ضرورت محسوس کی جائے تو اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہر سطح کی قیادت کو اپنے گھروں سے باہر نکل کر سندھ کے ریگزاروں، بلوچستان کے چٹیل میدانوں ، صوبہ سرحد کے پہاڑوں اور پنجاب کے سرسبز شاداب کھیتوں میں جانا ہوگا لیکن آغاز کار سے پہلے مسلم لیگ کو مفاد پرست خوشامدی اور بے اصول سیاستدانوں سے نجات دلا کر ایسے بااصول مخلص اور بے لوث افراد کے ہاتھوں میں اس کی قیادت دینی ہوگی جو معاملہ فہم وسیع النظر اور فرد شناس بھی ہوں اور وہ ہر قسم کے ذہنی تحفظات سے آزاد ہوکر فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ صوبہ سرحد کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں مسلم لیگ گروہوں میں تقسیم ہے پنجاب کی قیادت کو زک پہنچانے کی کوشش میں بھی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت ملوث ہے۔ یہ سب کچھہ جانے یا انجانے میں مسلم لیگ کے خلاف سازش کا شکار ہونے سے بچانا مقصود ہے تو پھر مسلم لیگ کی طرف فوری توجہ دی جائے اور اس سلسلہ میں مسلم لیگ ان بزرگ رہنماؤں سے بھی ضرور مشورہ کرنا چاہئے جو حالات یا عمر کے تقاضوں کے تحت خاموش بیٹے ہیں لیکن الحمدللہ کہ وہ آج بھی ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم مولانا ظفر انصاری ہیں جنہوں نے علمائے کرام کو مسلم لیگ میں شامل کرنے کے علاوہ قوم کے اہم ترین وقت میں مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیئے اس طرح آپ کو قائد اعظم اور قائد ملت کے بہت قریب رہنے کا شرف حاصل رہا ہے قیام پاکستان کے بعد بھی علماء کے 22 نکات اور قرار داد مقاصد کی تدوین کے علاوہ دستور سازی کے ہر مرحلہ پر آپ نے جو نمایاں اور فعال کردار ادا کیا ہے سب ہی اس سے واقف ہیں۔ مولانا اسماعیل ذبیح بھی اس سلسلہ میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم لیگ کو صحیح معنوں میں مسلم لیگ کی حیثیت دینا مقصود ہو۔
No comments:
Post a Comment