کاش ہماری آنکھیں کھل جائیں
روزنامہ جنگ اتوار11 مارچ 2007ء
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف کی طرف سے کثیر الجماعتی کانفرنس کے بلائے جانے کے اعلان کے فوراً بعد عمران خان، قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمٰن اور دیگر قائدین کی طرف سے کھلے دل سے اس کی غیر مشروط حمایت سے ملک میں جمہوری قوتوں کے حوصلے بلند ہوئے لیکن اے آر ڈی میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بڑی حد تک منفی رویہ سے پاکستان کے عوام کو اچھا پیغام نہیں ملا۔ پی پی کی طرف سے پہلے تو ایسی کانفرنس کو قبل از وقت قرار دے کر اس کی افادیت ہی سے انکار کیا گیا وار بعد میں شرکت کرنے یا نہیں کرنے کے بارے میں منفی بیانات سامنے آئے جن پر حکمراں اتحاد کو موقع ملا کہ وہ حزب اختلاف کو بحیثیت مجموعی طعن و تشنیع کا ہدف بنائے۔ چند وزیروں کی طرف سے کیا گیا یہ دعویٰ البتہ سو فیصد صحیح ثابت ہوگیا کہ پی پی کی قائد بے نظیر بھٹو اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گی ، اس سے کس بات کا اشارہ ملتا ہے عوام بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس پوری صورتحال سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پی پی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد غیر فطری ہے ویسے بغور دیکھا جائے تو حکمراں اتحاد بھی فطری نہیں ہے ۔ اس پر ذرا بعد میں لیکن پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے اتحاد کے سلسلے میں یہ ہے کہ دونوں کی منزل تو جمہوریت ہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے راستے بالکل جدا جدا ہیں۔ پی پی کو مغرب بالخصوص امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں وہ زیادہ روشن خیال، جدت پسند اور اسلامی انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں زیادہ افادیت کی حامل ہیں۔ پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کے ٹھکانوں اور ان کے بڑھتے ہوئے مفروضہ اثرات کے سلسلے میں ان کے اکثر بیانات امریکی انتظامیہ اور افغان حکومت کے الزامات کی تائید ہی میں نظر آتے ہین بلکہ بعض اوقات تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سلطانی گواہ کا کردار کررہی ہیں بہرحال ان سطور کا مقصد حزب اختلاف کے کسی بھی اتحاد کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا ہر گز نہیں لیکن قومی امور سے متعلق بالخصوص تلخ حقائق سے چشم پوشی بھی قومی جرم سے کم نہیں ہوتی۔
کثیر الجماعتی کانفرنس کے سلسلے میں یہ خبر البتہ خوش آئند ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا 7 نکاتی اعلامیہ پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن اگر یہ بات بھی طے کرلی گئی ہے کہ کانفرنس میں ایم ایم اے کو اس اعلامیہ میں کسی قسم کی ترمیم کی اجازت نہیں ہوگی تو اس کا مطلب ہوا کہ اے آر ڈی کے سوا دوسری جماعتوں کے قائدین کی اس میں شرکت کو کوئی جواز ہی باقی نہیں رہتا صاف ظاہر ہے کہ کوئی بھی رہنما وہاں تالیاں بجانے کے لئے تو نہیں جائے گا ویسے بھی ایسی کانفرنسوں کا مقصد معاملات پر غور کرنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچتا ہے اور اس کے لئے کانفرنس کے شرکاء ہی میں سے چند حضرات پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے جو قائدین کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کی روشنی میں تیار کردہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے بصورت دیگر مشاورت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے نہ دوسری جماعتوں کی شرکت ہی مفید اور بامقصد ثابت ہوتی ہے۔ اس پوری کیفیت پر غور کیا جائے تو ایسا شبہ ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی غالباً تنہا پرواز کے لئے پرتول رہی ہے اور اس شبہ کو تقویت گزشتہ دنوں اس کی طرف سے قومی اسمبلی میں حقوق نسواں نام کے بل کی بھرپور حمایت سے بھی ملتی ہے۔ کثیر الجماعتی کانفرنس کے سلسلے میں تو پی پی کی طرف سے اس پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ یہ اے آڑ ڈی کی طرف سے بلائی جانی چاہئے تھی لیکن اس بل کی حمایت مسلم لیگ (ن) کی مخالفت کی باوجود کی گئی یعنی دونوں بڑے حلیف اس سلسلے میں تقریباً ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوئے ، ایم ایم اے کا موقف تو اس سلسلے میں بالکل واضح تھا۔
پی پی کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ کانفرنس میں بے نظیر بھٹو کا نامزد کردہ اعلیٰ سطح کا وفد شرکت کرے گا جسے فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہوگا لیکن محترمہ کی نفسیات کے مطالعے کے بعد یہ سوچنا کہ وفد بااختیار ہوگا یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ موجودہ حکومت کے قیام کے موقع پر یہ خبریں آئیں اور بعد میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے پی پی کے رہنما مخدوم امین فہیم کو وزارت عظمٰی کی پیش کش کی تھی لیکن ان کی قائد نے اپنے سوا کسی اور کو اس منصب کے لئے مسترد کردیا اور نتیجتاً پی پی حرب اختلاف کا حصہ بننے پر مجبور کردی گئی۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ محترمہ کل کے پاکستان کو اپنی وزارت عظمٰی سے علیحدہ دیکھنے کا خود میں حوصلہ نہیں پاتی پھر وہ 95 فیصد مسلمانوں کی آبادی والے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کے بجائے غالباً سوشلسٹ ری پبلک دیکھنا چاہتی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اسے صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنانے پر یقین رکھتی ہے ایسے میں ڈر یہ ہے کہ عین انتخابات کے موقع پر نشستوں کی تقسیم پر ایسا طوفان کھڑا ہوگا کہ نفسیاتی طور پر رائے دہندگان کے دل صدر جنرل پرویز مشرف کی طرف سے بھر جائے اور یہ اچھا شگون نہیں ہوگا اس لئے زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ پی پی اور صدر جنرل پرویز مشرف ایک اتحاد میں منسلک ہوجائیں اس لئے کہ موجودہ حکمراں اتحاد حقیقت میں فطری نہیں ہے اس لئے کہ مسلم لیگ چاہے وہ ف، ق، یا ن سے کوئی سی بھی ہو خود کو اسلام سےعلیحدہ نہیں کرسکتیں کہ وہ "مسلم لیگی" ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے صدر کے بیانات بھی اس کے گواہ ہیں گو صدر جنرل پرویز مشرف مسلم لیگ کے جلسوں سے اپنے خطاب میں لیگ کو کامیاب کرنے کی اپیل کرتے ہیں اسی طرح ایم کیو ایم اور پیڑیاٹ بھی مسلم لیگ کے فطری اتحادی نہیں ہوسکتے اگر غور کیا جائے تو آخر الذکر دونوں تنظیمیں صرف جنرل پرویز مشرف کی حمایت کے نکتہ پر مسلم لیگ کے اتحادی ہیں کہنے کو تو پیڑیاٹ تقریباً ختم ہوچکے ہیں لیکن اگر کبھی حالات میں کوئی تبدیلی آگئی تو وہ پھر ایک نیا دھڑا بنا کر علیحدہ کھڑے ہوجائیں گے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) کی اصل جگہ متحدہ مجلس عمل میں ہے شاید ایسا ہی ہو بھی جاتا لیکن قیاس یہ ہے کہ قاضی حسین احمد اس راہ میں رکاوٹ بنے ہوں اس لئے کہ نواز شریف کی وزارت کو ختم کرنے کا بیڑا انہوں نے ہی اٹھا رکھا تھا۔ عمران خان کے لئے بھی مناسب اتحاد ایم ایم اے ہی ہے لیکن ان کے ان اتحادوں سے علیحدہ رہ کر کام کرنا ہی زیادہ بہتر ہے اس لئے کہ کسی اتحاد میں شامل ہوکر ان کی شخصیت کی انفرادیت ختم ہوجائے گی آج اپنے طور پر وہ تمام جماعتوں کے اتحاد اور متحدہ تحریک کی بات بڑے اعتماد کے ساتھہ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو آج علامہ اقبال کے الفاظ میں ایسے صادق، عادل اور شجاع رہنما کی ضرورت ہے جو مکر و فریب اور منافقت کے مہلکے امراض سے پاک ہو۔
مجوزہ کانفرنس کے ایجنڈے میں جلا وطن قیادت کی واپسی کا نکتہ بھی رکھا گیا ہے لیکن اس میں بے نظیر بھٹو اس لئے شامل نہیں کی جاسکتی کہ وہ تو مقدمات سے بچنے کے لئےرضاکارانہ طور پر پاکستان سے باہر گئی ہوئی ہیں انہیں چاہیئے کہ وطن آکر عدالت سے رجوع کریں لیکن اگر کوئی شخص حکومت سے یہ ضمانت چاہتا ہے کہ اسے وطن واپسی پر مقدمات سے استشنٰی مل جائے تو یہ بیجا ہے۔ ہمارے لیڈروں کو چاہئے کہ وہ اپنے خلاف دائر مقدمات سے بچنے کیلئے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے جرأت کے ساتھہ ان کا مقابلہ کرنے کی روایت قائم کریں۔ البتہ میاں نواز شریف کا معاملہ دوسرا ہے اس سلسلہ میں حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر اس فرد کو جس سے خطرہ محسوس کیا جائے ملک بدر کرنے کی غیرآئینی روایت قائم نہ کی جائے۔ آئین اپنے شہریوں کو وطن آنے کی ضمانت دیتا ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں کہ کسی کی شہریت کسی خاص مدت تک سلب کرلی جائے۔ اس قسم کے اقدامات سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور قوم آپس میں تقسیم ہو کر کمزور۔ حکمراں وسیع القلب اور وسیع النظر ہوتا ہے وہ اپنے وطن اور اپنے شہریوں کے جان ، مال ، عزت و آبرو کا تحفظ جرأت و بیباکی کے ساتھہ کرتا ہے وہ ذاتی اور گروہی مفادات سے بہت بلند اور ہر قسم کی عصبیت سے پاک ہوتا ہے وہ آئین کا محافظ ہوتا ہے یعنی اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آئین کی ہر دفعہ اور ہر شق پر پوری طرح عمل کیا جائے وہ قوم کو سبز باغ دکھاتا ہےنہ اندھریے میں رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ان معیارات پر پورے نہیں اترتے۔ یہی سبب ہے کہ ہم نے جس کے لئے جان و مال حتٰی کہ قومی سالمیت تک کو داؤ پر لگادیا وہی امریکہ ہمیں سب سے زیادہ بیجا دباؤ میں رکھنے کی کوشش کررہا ہے اگر اس صورتحال سے ہی ہماری آنکھیں کھل جائیں تو اسے غنیمت جاننا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment