مثبت اور منفی بیانات

روزنامہ جنگ اتوار 18 فروری 2007ء

12 فروری کے اخبارات میں دو ایسے بیانات ہیں جن کا ہماری آزادی ، خودمختاری ، قومی سلامتی اور عزت و وقار سے گہرا اور براہ راست تعلق ہے۔ ایک بیان افغانستان میں متعین امریکی کمانڈر سے اور دوسرا صدر جنرل پرویز مشرف سے منسوب ہت ۔ اول الذکر پاکستانی علاقے پر گولہ باری کے حوالے سے کہا ہے کہ ہم پر حملہ ہو تو دشمن کو اس کی سزا دینا ضروری ہے اور کسی حملے کا جواب دینے سے پہلے ہماری فورسز کو پاکستان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں اس سے پہلے بھی اتحادی فوج کے ہاتھوں جو عملاً امریکی فوج ہی کا دوسرا نام ہے ہماری سرحدوں کا تقدس پامال ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے بیسیوں بے گناہ اور امن پسند شہری شہید ہوچکے ہیں اسی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر فائر سرحد پر پاکستان سے ہو تو جوابی کاروائی کی جاتی ہے ان کے بقول وہ تو اپنا حق استعمال کرتے ہیں سرحد پار بھی فائر کرتے ہیں اس لئے کہ اپنی حفاظت کرنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ ادھر صدر جنرل پرویز مشرف کا کہنا یہ ہے کہ اتحادی فوج کا ساتھہ دینے کا فیصلہ انہوں نے قومی مفاد میں کیا اور اس فیصلے کے نتائج ہمیشہ پاکستان کے مفاد میں رہیں گے۔ جس دن یہ بیانات شائع ہوئے اسی دن امریکہ کے موجودہ وزیر دفاع اپنے پہلے دورہ پر پاکستان آئے انہوں نے صرف صدر پاکستان ہی سے ملاقات ضروری سمجھی ملاقات کے بعد انہوں نے سب سے اہم لیکن ہمارے نقطہ نظر سےتشویشناک بات یہ کہی کہ امریکہ طویل عرصے تک ہمارے پڑوس افغانستان میں قیام کرے گا۔ دہشت گردی کے حوالے سے انہوں نے پاکستان کے خلاف ہر قسم کے منفی پروپیگینڈے کو بظاہر تو یکسر مسترد کردیا لیکن اس سلسلے میں مختلف کمانڈروں اور افغان صدر کی طرف سے منفی بیانات کے متعلق سوال پر ان کا جواب بڑی معنی خیز بلکہ پرفریب تھا۔ انہوں نے کہا کہ "منفی تبصرے کبھی نتجہ خیز نہیں ہوتے جب آپ خود میدان جنگ سے باہر ہوں تو دوسروں پر تبصرہ کرنا آسان ہوتا ہے ' اس کا مطلب اس کے سوا کچھہ نہیں کہ بات تو وہی صحیح ہے جو کمانڈر کہتے ہیں اس لئے کہ میدان جنگ میں تو وہی ہیں صدر پاکستان یا کوئی اور نہیں ایسے میں ان کے تبصرے یا تردیدی بیانات کی کوئی اہمیت نہیں۔ امریکی وزیر دفاع پاکستان کے خلاف آئے دن تبصروں اور سرحدوں کی خلاف ورزیوں سے اگر واقعی اتفاق نہیں کرتے تو ان ماتحتوں کی خلاف قریبی اتحادی پاکستان پر الزام تراشی کی پاداش میں کسی قسم کی کاروائی کیوں نہیں کی جاتی اور ان کو آئندہ ایسا کرنے سے باز کیوں نہیں رکھا جاتا ہمیں نہیں معلوم کہ آج تک اس ضمن میں کچھہ کیا گیا ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں منفی اور مثبت بیانات سے صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے ہر سطح پر ہمارے خلاف چارج شیٹ تیار کی جارہی ہے ہر منفی بیان کے بعد نیم مثبت بیان محض ہمیں دھوکا دینے یا عقل کے اندھوں کو خوش فہمی کا شکار بنانا ہے۔

جس تسلسل اورڈھٹائی کے ساتھہ ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے اس کا سبب لازمی طور پر امریکہ کا اپنے لئے حاصل کردہ "حملہ کرنے میں پہل" یعنی PREEMPTION کا یکطرفہ ، ظالمانہ وار غیر اخلاقی "حق" ہے لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایسا کرنے میں اسے ہماری غیر مشروط اور بھرپور تائید و حمایت حاصل رہی ہے ۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج امریکہ کے چھوٹے بڑے اہلکار جو ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں وہ ہمارے ہی بل بوتے پر ایسا کررہے ہیں حالانکہ خود امریکی صدر کئی بار اعتراف کرچکے ہیں کہ پاکستان کی مکمل تائید و حمایت کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ ہر گز کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ کاذب اور الزام تراش کسی اصول اور کسی حد کے پابند نہیں ہوتے اس کی مثال یہ الزام ہے کہ ملا عمر کوئٹہ میں بیٹھے افغانستان میں دہشت گرد کاروائیوں کی قیادت کررہے ہیں لیکن جب ان کے ٹھکانے تک رہنمائی کرنے کے لئے انہیں دعوت دی جاتی ہے تو کوئی بھی "باخبر" آگے نہیں آتا۔ یہ بات دنیا خاص طور پر امریکہ کو سمجھہ لینی چاہئے کہ انتہائی کمزور ایمان مسلمان بھی اس امر سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ دہشت گردی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو اس کا خاتمہ کیا جانا پوری انسانیت کے مفاد میں ہے۔ احترام انسانیت کی جو اہمیت اسلام میں ہے دنیا کے کسی بھی مذہب میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اسلام اپنے پیروکاروں کو سکھاتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ناحق پوری انسانیت کا قتل اور کسی ایک انسان کو بچانے کا مطلب پوری انسانیت کو بچانا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے ہر دور میں اس قول کو اپنا اصول حیات بنائے رکھا ہے۔ یہ کہنا تو بالکل درست ہے کہ طالبان اور ان کی قیادت افغانستان ہی میں موجود ہے لیکن طالبان کو اپنے لئے خطرہ قرار دینا صحیح معلوم نہیں ہوتا ہمیں امریکہ اور عالمی اداروں کی اس عیاری کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ دہشت گردی کی متفقہ تعریف آج تک سامنے نہیں آئی۔ امریکہ کو مسلمانوں کو اس بہانہ اور اسی بہانہ مارنا مقصود ہے اس لئے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو بھی وہ دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ اسرائیل فلسطین میں ، بھارت مقبوضہ کشمیر میں اور امریکہ افغانستان میں عراق میں اسی اصول پر عمل پیرا ہے۔ ویسے بھی جب ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں طالبان اور ان کی حکومت کو دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا تھا بلکہ وہاں کاروائی کا جواز یہ تھا کہ اقوام متحدہ کے مطالبہ کے باوجود طالبان حکومت نے القاعدہ کی قیادت کو ملک بدر کیا امریکہ کے حوالہ کرنے سے اس لئے انکار کردیا تھا کہ دہشت گردی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا تھا۔ افغان حکومت نے پاکستان کے ذریعے ہی یہ پیغام دیا تھا کہ اگر القاعدہ کی دہشت گردی کے ثابت کردی جائے تو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے گا اگر وسیع تناظر میں غور کیا جائے تو افغان حکومت کا فیصلہ اقوام متحدہ کے منشور کے عین مطابق تھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکی جرنیلوں اور کرزئی حکومت کی طرف سے دہشت گرد کاروائیوں کو روکنے میں ناکامی کا الزام ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق ان کی کمزوری اور ناکامی ہے لیکن اس کا الزام وہ پاکستان پر لگا کر اپنی خفت کو مٹانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ کرزئی خود امریکی محافظوں کے نرحے میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ پورے ایوان صدر میں بھی ان کی عملداری قائم نہیں اس طرح اتحادی فوجیں بھی وہاں نہ امن و امان قائم کرسکی ہیں نہ قتل و غارت گری پر قابو پایا جاسکا ہے نہ صوبوں کے گورنز کے قابو میں ہیں نہ پوست کی کاشت کے کئے گنا اضافے کو روکا جاسکا ہے ایسے میں جھنجھلاہٹ فطری عمل ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے پاکستان کو بے بنیاد الزامات سے نوازتے ہیں۔ یہی کھیل عراق میں بھی کھیلا جارہا ہے وہاں بھی یہ کہا جارہا کہ ایران مزاحمت کاروں کا ہتھیار فراہم کررہا ہے لیکن آج کی دنیا خوب جانتی ہے کہ عراق ہو یا افغانستان وہاں غیر ملکی فوج جن ہتھیاروں سے لیس ہے ان کے مقابلے میں ایران اور پاکستان کے پاس جو کچھہ ہے وہ بندوق کے مقابلہ میں غلیل سے زیادہ کچھہ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دی بھی جارہی ہو تو اسے تو توڑنے کیلئے غیر ملکی فوج سو گنا زیادہ حربوں سے واقف ہے۔۔ معلوم صرف یہ ہوتا ہے کہ حریت پسندوں کو موت سے اور امریکی اور اتحادی فوج کی زندگی سے محبت ہے۔ قرآن حکیم میں تو یہودیوں سے صرف موت کی خواہش کرنے کے لئے ہی کہا گیا تھا کہ وہ یہ بھی نہیں کرسکے، حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں مغربی پر بھی صادق آتی ہیں۔

No comments:

Post a Comment