ہم خیال مسلم ملکوں کا گروپ بنانے کی کوشش
روزنامہ جنگ اتوار 11 فروری 2007ء
امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا رچرڈ باؤچر کی پاکستان آمد کے ایک ہفتے بعد صدر جنرل پرویز مشرف مسئلہ فلسطین کے نئے اور مؤثر حل کی تلاش میں سعودی عرب، مصر، اردن، شام اور متحدہ عرب امارات کے مختصر دورے پر گئے جہاں انہوں نے زور دیا کہ مسلم امہ کو ہم آہنگ ہوکر خطے میں پائیدار امن کے قیام کیلئے حکمت عملی کے ساتھہ سامنے آنا ہوگا۔ موصوف اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ سعودی عرب جاچکے ہیں لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ پروٹوکول کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک عبداللہ بن عبدالعزیز اپنے مہمان کے استقبال کے لئے بنفس نفیس ہوائی اڈے پر موجود تھے اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب بھی اس دورے کی اہمیت سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہ اس دورے کا اہم پہلو تھا لیکن اسی کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اسرائیل کے سر سے مسئلہ فلسطین کے حل کی آدھی ذمہ داری فلسطینیوں اور مسلم امہ کو دی ہے۔ یہ کام انہوں نے یہ کہہ کر کیا کہ "اسرائیل اس تنازع کو طے کرنے میں پچاس فیصد کردار ادا کرسکتا ہے" صاف ظاہر ہے کہ بقیہ پچاس فیصد کردار مسئلہ فلسطین اور مسلم امہ کو ہی ادا کرنا ہے جبکہ ہم غلط فہمی کا شکار تھے کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے سو فیصد ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس تنازع کا واحد سبب صرف اسرائیل کا وجود ہے اسرائیل جسے امریکہ کی مکمل سرپرستی اور اندھی تائید و حمایت حاصل ہے اس کا اس سے بڑا اور واضح ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ 10ستمبر1972ء سے اب تک امریکہ کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اسرائیل مخلاف کم از کم چالیس قراردادیں کو اپنے حق استبداد کے ذریعہ منظور نہ ہونے دیا ان قراردادوں میں بیت المقدس کی حیثیت کو بدلنے ، شام اور لبنا اور فلسطین کے علاقوں پر ناجائز قبضہ اور شہریوں کو ہلاک کرنے کے سلسلہ میں اسرائیل کا محاسبہ کیا گیا تھا۔ پاکستان ہی میں دنیا کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت اسرائیل کو دہشت گرد اور مسلمان دشمنی سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ویسے بھی یہ توقع کرنا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد فلسطینی عوام اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھہ رویہ میں فرق آجائے گا صرف خوش فہمی ہے۔ یاسر عرفات نے الفتح اور دوسری تنظیموں سے اپنی جان پر کھیل کر اسرائیل کو تسلیم کروایا لیکن اس کے بدلے میں یاسر عرفات کو ان کے صدر دفاتر میں محدود ہی نہیں کیا بلکہ ان کو بمباری کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔ اسرائیل کی طرف سے بار بار اور کھلے الفاظ میں یہ دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ یاسر عرفات کو ہلاک کردیا جائے گا یا اغوا کرلیا جائے گا اس سے بڑی اور بدترین دہشت گردی کا مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے لیکن دوسری طرف جب ہم عالم اسلام کے رویہ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو مایوسی اور ندامت کے سوا ہمیں کچھہ نہیں ملتا۔ فلسطین میں کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب فلسطینیوں کو اسرائیل کی دہشت گردی کے نتیجہ میں جام شہادت نوش کرنے والے اپنے معصوم بچوں ، جوان بیٹیوں،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صدر جنرل پرویز مشرف کا یہ کہنا درست ہے کہ مسلم امہ اپنی صفوں میں ہم آہنگی لائے تاکہ مسئلہ فلسطین کو حل کیا جاسکے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم امہ تو فلسطین ، کشمیر ، افغانستان ، عراق ، لبنا اور ایران وغیرہ کے مسائل کے بارے میں یکسو اور سو فیصد ہم آہنگ لیکن بدقسمتی سے ہمارے مسلمان حکمران ہی میں انتشار فکر و عمل بھی موجود ہے اور ہم آہنگی بھی معدوم ۔ ہمارے حکمرانوں میں سے ہر ایک خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ غور کیا جائے تو آج مسلم امہ کو جس مسائل اور مصائب کا سامنا ہے ان کا بڑا ہمارے ارباب اختیار کی یہی سوچ ہے۔ جب پاکستان کمزور اور مختلف مشکلات میں پھنسا ہوا تھا تب تو ہم نے کشمیر کے بارے میں کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے لیکن جیسے ہی ایٹمی قوت بنے ہم نے کشمیر کے مسئلہ پر تیزی کے ساتھہ پسپائی اختیار کرلی اور یہ سلسلے تاحال جاری ہے یہی اسرائیل کے سلسلے میں مسلمان ملکوں کے کردار کا رہا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے یہ اشارہ کیا تھا کہ ہم خیال مسلمان ملکوں کا ایک گروپ تشکیل دیا جائے گا اور اب صدر جنرل پرویز مشرف نے انڈونیشیا اور ملیشیا کا دورہ کرکے آٹھہ کی تعداد کو پورا کرلیا ہے۔
ہم خیال گروپ مشرقی وسطٰی کے پانچ جنوبی ایشیا کے پاکستان اور مشرقی ایشیا کے دو ممالک گروپ قائم کیا جارہا ہے گویا جنوب مشرقی ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (SEATO) کی طرز پر مشرق وسطٰی و جنوب مشرقی ایشیا ٹرینٹی آرگنائزیشن ٹرینی (MESATO) قسم کا کوئی ادارہ قائم کیا جارہا ہے۔ ایران خطہ کا انتہائی اہم ملک ہے لیکن امریکہ اور اسرائیل کے اس پر خصوصی التفات کے سبب اس کا اس تنظیم میں شامل کیا جانا ممکن نظر نہیں آتا شام کی شرکت بھی اسلئے مشکل نظر آتی ہے کہ اسرائیل اور اس کے ایما پر امریکہ بھی اسے دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دے ریا ہے۔ مصر دنیا کا اہم اور بڑا ملک ہے وہ بھی شاید پاکستان کی قیادت کو تسلیم نہ کرے غالبا آٹھہ کی تعداد کا ذکر ضمنی حیثیت رکھتا ہے اور یہ بار جارتہ میں پاکستان اور انڈونیشیا کے صدور کی مشترکہ کانفرنس میں زیادہ واضح ہوئی ہے جس میں صدر مشرف کی طرف سے کہا گیا ہے "مسلم دنیا میں امن و سکون کے لئے باررسوخ اور مشترکہ سوچ رکھنے والے ملکوں کو یکجا ہو کر ان تنازعات کا حل ڈھونڈنا ہوگا "ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "مسلم دنیا کو اس وقت بہت بحرانوں کا سامنا ہے جس میں فلسطین ، عراق، افغانستان اور لبنان جیسے تنازعات سرفہرست ہیں" یہاں صومالیہ کا ذکر غالبا سہوا رہ گیا ہے ورنہ وہاں بھی امریکہ حالات کو خراب کرکے خانہ جنگی کی راہ پر ڈالنے کی سازش کررہا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو امریکہ ہر گز اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ حبشہ کی فوجیں اس کی شہ پر صومالیہ میں داخل ہوئی ہیں۔ غالبا مجوزہ گروپ یا معاہدہ میں شرکت کا معیار " بارسوخ" اور "مشترکہ سوچ" کا حامل ہونا ہوگا۔ راقم الحروف کی ناقص سوچ کے مطابق "بارسوخ" سے مراد امریکہ کی یاری اور "مشترکہ سوچ" کا مطلب روشن خیالی اور جدت پسندی ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو ہم آغاز ہی میں امہ میں ہم آہنگی کی بجائے اختلاف اور نفاق کا بیج بورہے ہیں علاوہ ازیں ہمیں بھی سمجھہ لینا چاہئے کہ امریکہ کی چھتر چھایا میں بیٹھہ کر مسلم امہ کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش ظالم سے رحم اور انصاف کی توقع رکھنے کے مترادف ہے عالم اسلام کے تمام مسائل کا ذمہ دار صرف امریکہ ہے اور پھر امریکہ کے خلاف ایف آئی آر میں چند مسلمانوں کے نام بھی شامل ہیں۔ بہرحال اگر ہم امہ کو درپیش مسائل کے پائیدار حل کے سلسلے میں مخلص ہیں تو پھر ہمیں قرآن کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ "اے لوگو جو ایمان لائے ہو یہود و نصاریٰ کو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کا اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے (المائدہ 51) آج ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو امریکہ کی دوستی اور اس کی طرف سے تعریف و توصیف پر پھولے نہیں سماتے لیکن دیکھئے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کیفیت کے بارے میں فرماتا ہے "یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہونگے۔ جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو (البقرہ 120 )۔
No comments:
Post a Comment