انتہا پسندی اور دہشتگردی؟
روزنامہ جنگ پیر 27 مئی 2007 ء
کچھ عرصے سے ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ملک بیرونی خطرات سے تو پوری طرح محفوظ ہوچکا ہے البتہ ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ اندرونی انتہا پسندی اور دہشتگردی ہے لیکن خوش آئند ہونے کے باوجود اس دعوے پر یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری سرحدوں کو بیرونی خطرات لاحق نہیں رہے۔ اگر ذہنی تحفظات سے بالاتر ہوکر غور کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ پاکستان کے لئے بیرونی خطرات نہ کم ہوئے ہیں نہ معدوم بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لئے خطرات میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ دفاعی امور کی ابجد سے ناواقف عام پاکستانی بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ 11ستمبر2001ء سے پہلے تو ہماری مشرقی سرحدوں ہی کو خطرہ لاحق تھا لیکن ہم ان کا منہ توڑ جواب دینے کی پوری قوت بھی رکھتے تھے اور حوصلہ بھی تاریخ اس کی گواہ بھی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری مغربی سرحدیں مشرقی سرحدوں سے بھی زیادہ غیر محفوظ بن چکی ہیں وہاں تعینات امریکی اور نیٹو افواج کے کمانڈر ہی نہیں ہمارے پیر بھائی حامد کرزئی تک ہمیں نہ صرف آنکھیں دکھاتے ہیں بلکہ ان کی طرف سے کئی مرتبہ ہماری سرحدوں کے تقدس کو پامال اور بیسیوں محبّ وطن پاکستانی مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے معزز اندازوں کے کردہ گنادہ ہم اپنے سر پر لے کر خود بہت سی پیچیدگیوں اور اپنے دوستوں کو قوم کی لعن طعن سے بچالیتے ہیں۔ ویسے یہ بھی بڑی مضحکہ خیز بات ہے کہ ہم نے اپنے اسّی ہزار فوجیوں کو افغانستان کی حفاظت کے لئے تعینات کر رکھا ہے۔ یہ کیفیت تو ایسے وقت ہے جب وہاں ہمارے اتحادیوں یعنی امریکہ اور نیٹو افواج موجود ہیں ان کی واپسی کا بہرحال ہونا لازمی ہے جلد ہو یا بدیر۔ اس کے بعد افغانستان کے سیاسی نقشہ پر بظاہر شمالی اتحاد والے ہی برسراقتدار نظر آتے ہیں جس کا منتقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ مشرق میں بھی بھارت اور مغرب میں بھی بھارت ہی ہمارے لئے خطرہ ن کر آکھڑا ہوگا۔ جو لوگ پاکستان کی مشرقی سرحدوں کو محفوظ سمجھتے ہیں ان کی نیتوں پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن دفاعی امود کے بارے میں ان کی سمجھہ بوجھہ پر تو قطعی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ خطے کی تاریخ سے بے خبر اور بھارتی قیادت کی نفسیات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم خود اپنی تخلیق کردہ تصوراتی دنیا میں رہتے ہیں۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ بھارت کے ساتھہ ہمارے چھوٹے بڑے تمام تنازعات پرُامن طور پر طے ہوں اوردونوں ملک اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں لیکن لاکھہ کوششوں کے باوجود ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکے جو دونوں ملکوں کے لئے بدقسمتی کی بات ہے۔ ہمیں یہ سمجھہ لینا چاہیے کہ بھارتی قیادت پر اندھا اعتماد خودکشی کے مترادف ہے۔ آگرہ میں بھارت کی رعونت اور کھٹمنڈو میں دست بوسی کا نتیجہ تو خود ہمارے آج کے حکمراں دیکھہ چکے ہیں اس کے باوجود مشرقی سرحدوں کو محفوظ سمجھنا قابل فہم ہے۔ نو ماہ تک ہماری سرحدوں پر لگائی جانے والی بھارتی فوج کی ڈرامائی واپسی پر بھی ہمیں کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ امریکہ کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول سمیت کئی امریکی اہلکار یہ کہہ چکے ہیں کہ پاک سرحدوں پر بھارتی فوج کی تعیناتی اور دونوں ملکوں میں تنائو سے امریکہ کی "دہشت گردی" کے خلاف جنگ کے متاثرہ ہونے کا شدید خطرہ تھا اس لئے بھارتی فوج کی واپسی کا اہتمام کیا گیا۔ امریکہ کا یہ دعویٰ سچا بھی معلوم ہوتا ہے۔
جہاں تک دہشت گردی اور انتہا پسندی کا تعلق ہے تو کوئی بھی ذی شعور انسان اس کی حمایت کرسکتا ہے نہ اس میں ملوث ہونے کی غلطی۔ البتہ یہ ضرور دیکھنا ہوگا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مراد کیا ہے کہ آج ہر شخص اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اس کی من مانی تشریح کرنے میں آزاد ہے اقوام متحدہ اور اس کے کسی اور ادارہ نے بھی اس کی متفقہ تعریف سے اب تک اجتناب برتا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہر ظالم و جابر کو اپنے مذموم مقاصد کے تحت حسب ضرورت اس کو معنی پہناسکے۔ نہ چاہنے کے باوجود ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اصلاحات امریکہ کی اختراع ہیں جن کا واحد مقصد مسلمانوں کو ختم اور ان کے ملکوں کو لوٹ کر تباہ و برباد کرنے کےلئے ایسا پرفریب جواز پیدا کرنا ہے کہ مسلمان بھی اس سے دھوکا کھا جائیں جو فکر و تدبر اور فہم و ادراک سے محروم ہیں ۔ ہمارے درمیان عقل کل کا دعویٰ کرنے والے چند حضرات غربت اور بیروزگاری کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سبب قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج افریقہ کے کئی ممالک انتہا پسندی اور دہشتگردی کی برآمد کا سب سے بڑا مرکز ہوتے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی ہی نہیں بلکہ خود پسندی اور جاہ پسندی تک رویوں کے نام ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف روپ دھارے سامنے آتے ہیں۔ بہرحال دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سلسلے میں یہ کہنے کی گستاخی کی جاسکتی ہے کہ ہمارے خطے میں امریکہ اور مشرقی وسطیٰ میں امریکہ اور اسرائیل ان کا سبب بھی ہیں اور ان کے ذمہ دار بھی۔ بدقسمتی سے ہمیں یہ اعتراف بھی کرنا پڑے گا کہ دنیائے اسلام کے کچھہ حکمراں مخالفین کو کچلنے اور اپنے اقتدار کو مستحکم اور طویل کرنے کی غرض سے بھی ان اصطلاحات کو آزادانہ بلکہ ظالمانہ حد تک استعمال کررہے ہیں۔ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو اپنی جماعت کے کارکنوں یا اپنے حمایتیوں کو یہ کہنا کہ وہ انتہا پسندوں کے خلاف اٹھہ کھڑے ہوں بذاتِ خود انتہاپسندی کے سوا اور کچھہ نہیں بلکہ ایسا کہنا ملک کو فتنہ و فساد کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کے مترادف ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ مخالفین کو انتہا پسند قراد دے کر للکارنا اور ہماری مرضی اور روش کے خلاف سوچ رکھنے والوں کو کچل دینے کی دھمکیاں دینا ہی دہشتگردی کا دوسرا نام ہے۔ انفرادی سوچ اکثرغلط ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ خود ربِ جلیل نے باہمی مشورے کا حکم دے کر اجتماعی سوچ کو مقدم قرار دیا ہے لیکن ایسا صرف وہی کرتے ہیں جو بحیثیت بندہ اپنے آپ کو کمزور اور خطائوں کا پتلا سمجھتے ہیں اور اس سے ماورا سمجھنے والے کبھی افغانستان پر آگ برساتے ہیں کبھی عراق میں خون کی ندیاں بہاتے ہیں ، کبھی فلسطین کی مقدس سر زمین پر دہشت و بریت کا رقص دکھاتے ہیں، کبھی مقبوضہ کشمیر،بوسنیا اور وانا میں معصوم کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں جبکہ اسلام تو ہر شخص کو عدل و اعتدال کا درس دیتا ہے اور من مانی سے روکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment