مادر ملت کی معاملہ فہمی اور پیش بینی

روزنامہ

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے اس عظیم بھائی کی صحبت میں گزارا جس نے محض اپنی فہم و فراست اور عزم و حوصلہ کی بناء پر ہندو اور انگریز کے گٹھہ جوڑ کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن پاکستان کا قیام ممکن کردکھایا۔ اس بطل جلیل کی بہن کو بھی اللہ تعالٰی نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ معاملہ فہم ، بے باک، فرض شناس اور زبردست قوت فیصلہ رکھتی تھیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد سے مختلف مواقع پر انہوں نے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے سیاسی بددیانتی، اقرباپروری اور ہر قسم کی عصبیت پر بروقت اور کھل کر تنقید کی اور قوم کو ان سے بچنے کی تلقین کی ۔ مادرملت کی معاملہ کی نوعیت کو سمجھنے اور اس سے متعلق فوری فیصلہ کرنے کے علاوہ آنے والے واقعات کی پیشن بینی کی کس قدر صلاحیت رکھتی تھیں اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جس کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔

یہ 17 اکتوبر1967ء کی بات ہے غالباً اسی دن آئی آئی چندریگر صاحب وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے تھے۔ میں صبح کے وقت مادر ملت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حاضری کا مقصد ان کو حیدرآباد میں طلباء کی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دینا تھا۔ یہ دعوت دو وجوہ کی بناء پر قبول نہیں کی جاسکی ۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ انہی تاریخوں میں ملک کے شمالی علاقوں کے دورے پر تشریف لے جارہی تھیں اور دوسری وجہ حیدرآباد میں قیام کے لئے مناسب جگہ کی عدم دستیابی تھی۔ میں نے حیدرآباد کی دو سیاسی شخصیتوں کی رہائش گاہوں میں سے کسی ایک پر قیام کی تجویز پیش کی لیکن محترمہ نے کسی سیاسی شخصیت کی رہائش گاہ پر رکنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس سے قبل وہ ایک سیاسی رہنما کے مکان پر قیام کرچکی تھیں لیکن بعد میں میزبان کافی عرصہ تک اس مہمان نوازی کے طفیل سیاسی اور مالی فائدے اٹھاتے رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مادر ملت تک پہنچ گئی تھی اس لئے آپ نے کسی بھی سیاستدان کے یہاں ٹھہرنے سے انکار کردیا اور اس طرح حیدرآباد تشریف لانے کی دعوت کا معاملہ ختم ہوگیا۔

اس کے بعد مادر ملت نے چند دن پہلے حیدرآباد کے جلسۂ عام میں وزیر اعظم حیسن شہید سہروردی کے جلسۂ عام میں گڑ بڑ کی وجہ دریافت کی اور پھر سوال کیا کہ چندریگر وزارت بنارہے ہیں۔ اس کے بارے میں لوگوں کو کیا خیال ہے ۔ عام لوگوں کی طرح میں بھی یہ سمجھہ رہا تھا کہ کابینہ کی اس تشکیل میں مادر ملت کا مشورہ ضرور شامل ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ نفسیاتی اور تاریخی طور پر مسلم لیگ کو چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ تو اس بات پر خوش ہیں کہ مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے چندریگر صاحب وزیر اعظم بن رہے ہیں ۔ پھر میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس وزارت سازی کے خلاف ہوں۔ انہوں نے پوچھا کیوں! میں نے جواب میں عرض کیا کہ چندریگر صاحب قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد ہیں اس لئے قانونی اور جمہوری روایات کے مطابق انہیں اپنی کابینہ بنانے کے دعوت دی جانی چاہئے تھی نہ یہ کہ وہ ری پبلکن پارٹی کے ساتھہ مخلوط کابینہ بناتے جبکہ اب تک مسلم لیگ ، ری پبلکن پارٹی کو تسلیم ہی نہیں کرتی اور آج اس کے ساتھہ مل کر کابینہ کی تشکیل کے لئے رضامندی اصولوں پر سودے بازی کے مترادف ہے۔ مادر ملت نے صوفہ کے ہتھے پر زور دار مکّہ مارا اور کہا " یہی میں بھی کہتی ہوں کہ مخلوط حکومت بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔" آپ نے مزید کہا کہ چندریگر کہتے ہیں کہ انہوں نے ری پبلکن پارٹی سے ون یونٹ اور جداگانہ انتخابات کی بات منوالی ہے لیکن ڈاکٹر خان کل کہے گا کہ جداگانہ انتخابات مشرقی پاکستان کا مسئلہ ہے اور ون یونٹ مغربی پاکستان کا اس لئے اس لئے چلو جداگانہ انتخابات کے بارے میں مشرقی پاکستان والوں سے رائے لیتے ہیں اور ون یونٹ کے سلسلہ میں مغربی پاکستان والوں سے اور اس طرح مسلم لیگ کی ایک بات بھی نہیں چل پائے گی اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سکندر مرزا چندریگر کو لات مار کر پرائم منسٹر ہاؤس سے نکال باہر کرے گا اور پھر یہ لوگوں میں آکر واویلا مچائے گا کہ ہمیں نکال دیا۔

مادر ملت کہ یہ باتیں سنیں تو بڑی حیرت ہوئی میں نے عرض کیا کہ عام تاثر رو یہی دیا جارہا ہے کہ چندریگر صاحب کی مخلوط حکومت کی تشکیل میں آپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مادر ملت نے جواب دیا" ہر گز نہیں۔ کل چند ریگر ڈھاکہ سے آیا ،رات نشتر بھی آگئے لیکن مجھہ سے نہ تو چندریگر نے ملاقات کی نہ سردار نشتر نے، اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ میں انہیں اس سلسلہ میں کیا کہوں گی اور یہ لوگ وزارت بنانے کا موقعہ ہاتھہ سے جانے نہیں دینا چاہتے ۔"

چندریگر صاحب کی کابینہ کے حلف اٹھانے کے غالباً دو روز بعد دو جملوں پر مشتمل مادر ملت کا ایک مختصر بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ چندریگر کابینہ کی تشکیل میں ان کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ 57 دن کے اندر اندر ملک میں وہی صورتحال سامنے آگئی جس کو محترمہ نے پہلے ہی دن بھانپ لیا تھا۔ جداگانہ انتخابات اور ون یونٹ کے مسئلوں کو جوں کا توں چھوڑ کر چندریگر صاحب ملک کے مختصر ترین مدت کے وزیر اعظم کی حیثیت حاصل کرکے پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر آنے پر مجبور کردیئے گئے اور ڈاکٹر خان صاحب نے سکندر مرزا سے مل کر وہی چال چلی جس کا اندازہ مادر ملت نے پہلے ہی لگا لیا تھا۔ معاملہ فہمی اور دور بینی کی ایسی ہی صلاحتیں کامیاب سیاسی زندگی کا ملازمہ ہیں افسوس ہے کہ ہم آج ایسے صاحب صلاحیت سیاستدانوں سے محروم ہیں۔

No comments:

Post a Comment