مغربی ذرائع ابلاغ اور ہمارا احساس کمتری

روزنامہ

یہ مغربی ذرائع ابلاغ کی کرشمہ سازی اور ہمارے احساس کمتری اور کم فہمی کا شاہکار ہے کہ جن اصطلاحات اور استعارات کو ہمیں بدنام کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے انہی اصطلاحات او استعارات کو ہم اپنے لئے اعزاز و افتخار سمجھہ کر قبول کرلیتے ہیں۔ ہمارے حکمراں اور ہمارے کئی دانشور "مذہبی دہشت گردی" مسلم شدت پسندی اور "مسلم عسکریت پسندی" جیسی اصطلاحات کو بھی بلا سوچے سمجھے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے بے دریغ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ہر اس تنظیم پر پابندی لگادیتے ہیں جن پر دوسرے پابندی لگاتے ہے اور اس سلسلے میں ثبوت کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتے جبکہ پاکستان میں کام کرنے والی تنظیمیں نہ دہشت گرد ہیں نہ ان کے لیڈروں نے اس ملک میں چھوٹے بڑے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے کوئی مانے یا نہ مانے ایسا کرکے ہم بلاواسطہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ پاکستان میں ایسی تنظیمیں ہیں جو بھارت میں ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر امریکیوں، فرانسیسیوں اور مختلف مذہبی فرقوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کا ارتکاب کرتی ہیں اور ایسا کرنے کے لئے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہاں دہشت گردی کی تربیت کے مرکز بھی ہیں۔ مدرسوں میں چھاپے بلاجواز تونہیں مارے جارہے غیر ملکی طلباء کو مدرسوں سے یونہی تو نہیں واپس بھیجا جارہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی قیادت اس قدر سحر زدہ ہوچکی ہے کہ وہ امریکہ کے ہر حکم پر "معمول" کی طرح عمل کرنے ہی میں عافیت سمجھتی ہے۔ امریکی صدر بش نے "عالمی اتحاد" کے دلفریب نام سے جو جنگ شروع کی ہے اس میں ہر اول دستے کے طور پر شریک ہونے والوں کے پیش نظر بھی یہی مقصد ہے ۔ اسی عالمی اتحاد کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان نہ گھروں میں محفوظ ہیں نہ غاروں میں، نہ مسجدوں میں نہ مدرسوں میں۔

پاکستان میں جو کچھہ آج ہورہا ہے وہ ہر لحاظ سے تشویشناک ہے۔ یہاں اب جہاد کی تیاری تو دور کی بات ہے اس کی تبلیغ بھی جرم بن چکا ہے ایسی تنظیموں اور افراد کو نشانہ ستم بنایا جارہا ہے ، اسلام سے نسبت رکھنے والی فلاحی تنظیموں کے اثاثے ضبط کرکے زکٰوۃ صدقات پر بھی بندش لگائی جارہی ہے اور اس طرح غیر ملکی اور لادینی این جی اوز کے لئے کام کرنے کے لئے میدان کھلا چھوڑا جارہا ہے تاکہ وہ یہاں دوسرے مذاہب اور خلاف اسلام تظریات کو فروغ دے سکیں اور کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے کہ اسلامی تنظیموں کی طرف سے خدمت خلق نہیں کی جارہی۔ سای طرح جو جماعتیں علامہ اقبال کے اس نظریہ پر جو دراصل اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے یعنی

جدا ہو ویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

پر عمل پیرا ہیں وہ بھی ہدف تنقید و تضحیک بنائی جارہی ہیں اور ان کے مقابلے میں ان جماعتوں اور لیڈروں کو آگے بڑھایا جارہا ہے جن کو یہ معلوم نہیں ہے کہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء سے پہلے یا اس کے بعد اپنی زندگی کوئی اورتقریر بھی کی تھی، ہم مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں کس قدر دیوانے ہوگئے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم رواداری کے حامل روشن خیال اور دہشت گردی کے مخالف جدید اسلام کی تلاش میں سرگرداں ہیں انہیں 14 سو سال پہلے کا اسلام جس میں قائد اعظم کے بقول انصاف اور رواداری کا درس دیا گیا تھا پسند نہیں ، اس لئے کہ مغرب بھی اس "اسلام کو پسند نہیں کرتا"۔ یہ عناصر مخلوط محفلوں کو رواج دینے کے لئے بھی بہت بے چین نظر آتے ہیں کہ معاشرہ کو اسی طرح بآسانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا کر مادر پدر آزادی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت پر حلف اٹھانا ہر مسلمان شہری کیلئے ضروری ہے لیکن اب قوم کے سر سے یہ بوجھ بھی اتارا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں جیسا نام رکھنے والا کوئی بھی شخص مسلم معاشرہ پر شب خون مارنے میں آزاد ہوجائے۔

مخلوط طریقہ انتخاب بھی اب ملک میں رائج کیا جارہا ہے اور خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ اگلے قدم آئین کی وہ شق ہی کہیں ختم نہی کردی جائے جس کے مطابق صدر اور وزیر اعظم کیلئے مسلمان ہونا لازمی شرط ہے۔ ویسے بھی امریکہ کو توہین رسالت کا قانون پسند ہے نہ حدود آرڈیننس اسلئے اس سے نجات پانا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ عملاً قوانین سرد خانہ میں ڈال دیئے گئے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ حدود آرڈیننس کی " خامیاں" دور کرنے کی غرض سے یہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جارہا ہے۔

پاکستان ٹیلیویژن سے پیش کئے جانے والے پروگراموں کو دیکھہ کر کوئی تمیز ہین نہیں کرسکتا کہ یہ پاکستان کا کوئی چینل ہے یا بھارت کا۔ پھر تہواروں اور ثقافت کے نام فحاشی وار عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے شاید ان سب کا مقصد مغرب پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم تم سے الگ نہیں ہیں۔ لیکن یہ سب کچھہ ایسا ہی ہے جیسے ہنس اپنی چال سے شرمندہ ہوکر کوے کی چال چلنا چاہتا ہو۔ ہمارے یہاں دینی مدرسے برطانوی دور غلامی میں بھی بلا روک ٹوک چل رہے تھے اور آزادی کے بعد بھی نصف صدی تک ان کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے لیکن اب امریکہ کی نظر سے جب ہم نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو دینی تعلیم کی بجائے مسلمانوں کو دہشت گردی اور فرقہ پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور یہاں سے فارغ التحصیل نوجوان پاکستان ہی میں نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر ، چیچنیا، افغانستان ، فلپائن بلکہ امریکہ اور برطانیہ تک میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے ذمہ دار ہیں۔ پھر مدرسوں میں غیر ملکی طلباء جہاد کی تعلیم و تربیت بھی حاصل کرتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ اسلئے پاکستان سے تمام غیر ملکی طلباء کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ غیر محسوس طریقہ پر پاکستان میں ہر ایک پھر رومن رسم الخط کو فروغ دینے کی سازش بھی کی جارہی ہے ۔ اخبارات و رسائل اور ٹیلیویژن پر شائع ہونے اور نظر آنے والے اشتہارات اور پروگرام اس کا ہر روز ثبوت پیش کررہے ہیں پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں بھی ایسی کوشش کی گئی تھی جو رائے عامہ کے دباؤ کے تحت اپنی موت آپ مرگئی لیکن اس بار بغیر کسی اعلان کے ہر کام کیا جارہا ہے قوم کے دانشور حضرات کو اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جن حقائق کو ذکر کیا گیا ہے ان کے پس پردہ مقاصد پر غور کرتے ہیں تو نہ چاہنے کے باوجود اس کا منطقی نتیجہ سیکولر ازم ہی کی صورت میں نکلے گا اور یہ دعوی کہ "پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ ہی رہے گا" بہرحال یہ بات تو سب ہی کو سمجھہ لینی چاہئے کہ پاکستان نہ ترکی ہے نہ بھارت جہاں کوئی "اتا" بن سکتا ہے نہ "مہاتما" پاکستان کو اسلام سے "آزاد" کروانے کی کوشش کرنے والے پہلے بھی ناکام و نامراد رہے تھے اور اب بھی اس مملکت خدا داد کو امریکہ کی جھولی میں ڈالنے کا انجام بھی ناکامی کے سوا کچھہ نہیں ہوگا۔ اسلام سے الگ پاکستان کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اسلئے کہ پہلے مسلمان متحد ہوئے اور انہوں نے اسلام کی خاطر اس کا مطالبہ کیا پھر یہ ملک بنا اور اسی اسلام کی بنیاد پر انشاء اللہ تا ابد قائم بھی رہے گا۔

No comments:

Post a Comment