ہم مجبور ہیں

روزنامہ جنگ منگل 25 اپریل 2007ء

ماہ رواں کی 9 تاریخ کو برطانوی اخبار ڈیلی میل کی ایک خبر پڑھی تو یہ سوچ کر راقم الحروف کا سر اپنے قد سے بھی کئی گناہ بلند ہو گیا کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو جتنی بے پایاں آزادی اور خودمختاری حاصل ہے مغرب میں تو لوگ اس کے عشر عشیر کے لئے بھی ترستے ہوں گے۔ ہاپو ٹاپو بچوں کا عالمگیر سطح کا ایک کھیل ہے جسے بعض اوقات نوعمر لڑکے بھی کھیلتے ہیں اس لئے بالعموم گھروں کے صحن، سڑکوں، گلیوں یا سخت لیکن ہموار زمین پر چاک سے چوکور خانے بنائے جاتے ہیں پھر ایک ٹانگ پر چلنے والا کھلاڑی ٹھیکری وغیرہ کو پاؤں سے دوسرے خانہ میں پھینکتا ہے۔ برن بام نامی ایک قصبے میں پولیس نے ایک پانچ سالہ بچے کو چاک سے سڑک پر خانے بنا کر کھیلتے ہوئے پکڑ ا اور اسے کہا کہ وہ فوراً کھیلنا بند کردے ورنہ ہتھکڑی لگا کر اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔ اس بچے کے ساتھہ کھیلنے والے دوسرے بچوں کو بھی پولیس نے پکڑ کر ان کے گھر لے گئے اور گھر والوں کو بتایا کہ ان بچوں نے سڑک خراب کرنے کی کوشش کی ہے شاید یہ پولیس ان سے اس سڑک کی صفائی پر بھی مجبور کرتی لیکن بارش کے سبب سڑک صاف ہوگئی۔ ان بچوں کے ماں باپ کو یہ شکایت تھی کہ پولیس کے لئے اس سے بھی بہتر کام کرنے کے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتی مثلاً پابندی کے باوجود بارہ تیرہ سال کے بچے شراب نوشی کرتے ہیں اور وہ نہیں روکے جاتے۔ ویسے مغرب بچوں، بزرگوں، والدین، اساتذہ ور مرد و خواتین سب کی آزادی، ان کے حقوق اور ان کی عزت و احترام کا علمبردار تو ہے لیکن دیکھئے عملاً وہاں کیا ہورہا ہے کہ پانچ سالہ بچوں تک کو سڑک پر چاک سے خانے بنا کر کھیلنے تک کی اجازت نہیں بلکہ ایسا کرنے والوں اور ان کے والدین کو پولیس ڈراتی دھمکاتی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دیگر طبقات کے حقوق اور ان کی آزادی کی ضمانت کی حقیقت کیا ہوگی۔ ہماری پولیس پانچ، چھہ سال کے معصوم بچوں کو خوفزدہ کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی بلکہ وہ تو رات میں اہم سڑکوں پر وکٹ گاڑھ کر کرکٹ کھیلنے والوں تک کو منع نہیں کرتی ویسے یہاں اتنی گنجائش تو نہیں کہ جو جو آزادی ہمیں حاصل ہے اور جن جن سے برطانیہ، یورپ اور امریکہ کے لوگ محروم ہیں ان کی تفصیل بیان کردی جائے اس لئے انتہائی اختصار سے کام لیتے ہوئے چند کا ذکر کردینا ان کے اور ہمارے درمیان خط امتیاز کے لئے کافی ہے مثلاً ہم کسی محکمہ کی اجازت یا کسی قسم کی فیس ادا کئے بغیر پانی یا گیس کی لائن بچھانے کے لئے بھی سڑک کو کسی بھی جگہ سے کھودسکتے ہیں، فٹ پاتھہ یا لوہے کی گرل کو توڑ کر گاڑیاں نکالنے کے لئے راستہ بنایا جاسکتا ہے۔ گھر، دکان یا ٹھیلوں ہی کا نہیں فیکٹریوں تک کا کچرا یا فضلہ سڑکوں یا گندے پانی کے نالوں میں ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں۔ گلے سڑے پھل اور چھلکے تو ہوتے ہی سڑک کی رونق کو دوبالا کرنے کے لئے ہیں۔ جس سرکاری یا نجی عمارت پر چاہیں چاکنگ کردیں، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز نعرے لکھہ دیں یا مہلک دواؤں، نیم حکیموں یا جعلی عاملوں کے اشتہارات سجادیں۔ بجلی اور ٹیلیفون کے کھبموں پر پارٹی پرچم لگادیں یا ویسا رنگ کردیں۔ سڑکوں کے نام یا ٹریفک کے بارے میں ہدایت والے بورڈوں پر پوسٹر چپکادیں۔ جب، جہاں اور جس سڑک پر چاہیں اوٹ پٹانگ رفتار توڑ(اسپیڈ بریکر) بنادیں۔ فلیٹوں اور دکانوں سے ٹپکنے والے پاک یا ناپاک پانی سے راہیگروں کے غسل کا اہتمام کریں۔ سڑکوں پر پنکچر بنانے حتٰی کہ گاڑیوں کی مرمت کا کاروبار بھی شروع کردیں۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ پگ ڈنڈیوں (فٹ پاتھوں) پر تندور لگادیں، کاؤنٹر بنالیں یا شوکیس رکھہ لیں۔ گاڑیاں بیچ چوراہے میں روکیں یا بیچ سڑک، یہ ہمارا اختیار ہے۔ شہر میں پریشر ہارن بجائیں۔ جلسے جلوس کی خاطر سڑکوں پر قبضہ کرلوں، مریضوں کے اسپتال جانے کے راستے بند کردوں، کوئی مجھے نہیں روک سکتا۔ یک طرفہ راستوں کی خلاف ورزی ہو یا بغیر بتی ٹرک، بسیں، کاریں یا موٹر سائیکلیں چلائیں ہمیں پولیس کا پورا پورا تعاون حاصل رہتا ہے۔ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر بھی کوئی خاص روک ٹوک نہیں۔ گنجائش سے زیادہ مسافر گاڑیوں کے اندر بٹھائیں یا چھتوں پر ہم آزاد ہیں۔ شور مچاتی اور دھواں چھوڑتی گاڑیاں چلانے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔ میرے اس شوق پر بھی کوئی قدغن نہیں کہ جہاں چاہوں تمباکو نوشی کروں یا اسپتالوں، تعلیمی اداروں، نجی اور سرکاری عمارتوں کی دیواروں پر پان کی پچکاری سے دیدہ زیب نقش و نگار بنادوں۔ کھلے عام جعلی ڈیزل بیچوں یا ملاوٹ شدہ پیڑول، اسمگل شدہ اشیاء بیچوں یا دو نمبر مال۔ ذخیرہ اندوزی کروں، جعلی ادویات یا ملاوٹ شدہ اشیائے خورد و نوش من مانی قیمت پر فروخت کروں، کم تولوں یا کم ناپوں مجھے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ان سب کی روک تھام کے لئے حکومت نے محکمے تو بنارکھے ہیں لیکن اہلکاروں کو پوری آزادی اور ان کی اپنی احتیاج کا پورا پورا احساس ہے۔ جائز اور ناجائز کسی بھی کام کے لئے رشوت لینا اور رشوت دینا میرا حق ہے۔ اپنے سیکریڑی یا ٹیلیفون آپریٹر کو "میں میٹنگ میں ہوں" کہہ کر فاضل آمدنی کی تلاش میں دفتر سے باہر چلا جاؤں یا شہر سے باہر اپنے گھر۔ ملازمتوں پلاٹ پرمٹ اور مراعات کی ریوڑیاں اپنے اپنوں میں تقسیم کروں یا مالی تعاون کرنے والوں کو نوازدوں کوئی مجھے روکنے والا نہیں اور تو اور میں آئین کو معطل کروں یا قانون کو پامال ، حلف کو توڑوں، ذاتی یا دوستوں کے مفادات کوقومی مفادار قرار دوں۔ جھوٹے وعدے کروں، سبز باغ دکھاؤں یا قومی خزانہ لوٹنے والوں کو سر پر بٹھاؤں کسی کو میری راہ میں رکاوٹ کا حق نہیں کہ میں آزاد ہوں۔ انتخابی فہرستوں میں انسانوں کی جگہ بھوتوں کے نام لکھوادوں، بھوت اسکول قائم کردوں، بھوت ملازم رکھہ لوں، سرکاری ذرائع وسائل کو اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لئے بے دریغ استعمال کی اجازت دوں۔ قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام ٹھکانے لگادوں یا مہنگے داموں، ناقص مال سرکار کے لئے خریدلوں کیا مجال کہ کوئی مجھے ٹوکے کہ میں آزاد ہوں۔ برطانیہ کے لوگ تو احمق ہیں کہ ان کی آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے لیکن میری آزادی تو شروع ہی دوسرے کی ناک سے ہوتی ہے۔ ہم جس کی چاہیں پگڑی اچھال دیں اور جس کے سر پر چاہیں کلاء احترام سجادیں، جسے چاہیں گرفتار کرلیں ، بغیر مقدمہ چلائے تھانوں میں بند کردیں، جسے چاہیں ملک بدر کریں، جسے چاہیں باہر سے بلا کر سرداری عطا کردیں، جسے چاہیں ڈالر لے کر کسی ملک کے حوالہ کردیں کوئی نہیں پوچھہ سکتا ک میں ایسا کیوں کررہا ہوں اس لئے کہ میں آزاد جو ہوں۔ میں تو یہ بھی کرسکتا ہوں کہ خطرناک اور معروف مطلوب کسی اور کو قرار دے کر اسے قتل کردوں اور اس کے بدلے انعام و اکرام ، ترقی اور حسن کارکردگی کے بڑے بڑے تمغے اپنے سینہ پر سجالوں، میں آزاد ہوں کہ جسے چاہوں لوٹوں، لوگوں کو جہیز سے محروم کردوں، موبائل فون، موٹر سائیکلیں موٹر کاریں چھیننے پرجو بھی مزاحمت کرتا ہے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے راستے سے ہٹاکر دوسروں کے لئے نشان عبرت بنادیتا ہوں۔ میری اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔

لیکن ذرا ٹھہریئے اس میں حاصل بے شمار آزادیوں کے ذکر کو یہاں روک کر اس دنیا پر بھی نگاہ ڈال کر دیکھہ لیجئے معلوم ہوتا ہے دیہ دنیا تو پاگل ہوگئی ہے جن ملکوں کے عوام کو ہمارے مقابلے میں پانچ فیصد آزادی بھی حاصل نہیں یہ دنیا انہی کی عزت کرتی ہے، انہی پر اعتماد کرنی ہے۔ مذہب اور متمدن سمجھہ کر رہنمائی کے لئے انہی کی طرف دیکھتی ہے۔ آزادی سے محروم یہی اقوام آج سائنس ، ٹیکنالوجی، صنعتی اور اقتصادی ترقی کے اوج ثریا پر پہنچی ہوئی ہیں جبکہ میں طعن و تشنیع اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہوں۔ برطانوی دولت مشترکہ ، یورپ یونین، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف سے کبھی پابندیوں کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور کبھی اوٹ پٹانگ مشورے دیئے جاتے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی قائم اور مقنّنہ اور عدلیہ کی خودمختاری بحال کرو اور اس سب کے لئے ضروری ہے کہ اپنی موجودہ آذاد بلکہ مادر پدر آزاد روش کا لگام دوں۔ یہ بھی المیہ سے کم نہیں کہ خود ہمارے ملک کے بیشتر شہری دل سے خواہاں ہیں کہ وہ یہاں سے امریکہ یا یورپ چلے جائیں۔ کئی تو اس مقصد کے حصول کی خاطر جان جوکھوں میں ڈالنے تک سے گریز نہیں کرتے خود ہمارے ملک کے اکثر دانشور، محققین، ماہرین علم و عدل علمائے کرام اور سیاسی قائدین وکارکنا ملک کی موجودہ صورتحال کے سبب تشویش و اضطراب کا شکار ہیں۔ وہ ایسے ناشکرے ہیں کہ انہیں مذکورہ بالا آزادیوں میں سے ایک بھی آزادی قبول نہیں بلکہ ان کے خواہش بلکہ کوشش ہے کہ انہیں ان سے بھی کچھہ زیادہ ہی پابندیوں میں جکڑ دیا جائے جن پابندیوں میں مغرب جکڑا ہوا ہے بالفاظ دیگر انہیں تو اس سے بھی کم آزادیاں چاہئیں جو یورپی ممالک اور امریکہ کو حاصل ہیں اس لئے کہ ہم ان آزادیوں کے بوجھہ کو اٹھانے کا حوصلہ نہیں پاتے۔ اپنے لوگوں کی اسی کمزوری اور کم ہمتی پر سر ہی پیٹا جا سکتا ہے اور یہ ہم سب کرنے پر مجبور ہیں۔

No comments:

Post a Comment