مصافحہ امن دوستی یا کمزوری کا مظہر؟
روزنامہ
" اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی طرف حقیقی اور مخلصانہ دوستی کا ہاتھہ بڑھاتا ہوں۔ آئیے جنوبی ایشیا میں امن و ہم آہنگی اور ترقی کی خاطر مل جل کر اپنے سفر کا اغاز کریں۔" 5 جنوری کو نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں سارک سربراہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں ان الفاظ کے ساتھہ اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کے نشست پر گئے اور گرمجوشی کے ساتھہ ان سے مصافحہ کیا۔ پورے ایوان نے تالیاں بجا کر اس اقدام کی پرزور تائید و تحسین کی۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں صدر پرویز مشرف کے اس جذبۂ خیرسگالی کو نمایاں جگہ دی گئی اور مصافحہ کرنے کے اس منظر کو عالمی میڈیا پر بار بار دکھایا جاتا رہا۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے اس رویے کے جواب میں کسی خاص جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا البتہ اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے یہ کہہ کر پاکستان کے صدر کو مشورہ دیا۔" مجھے خوشی ہے کہ صدر مشرف نے میری طرف دوستی کا ہاتھہ بڑھایا ہے۔ آپ حضرات کے سامنے میں ان سے مصافحہ کیا ہے۔ اب صدر مشرف کو چاہئے کہ وہ پاکستان یا اپنے زیر قبضہ علاقے میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دیں جن سے دہشت گردوں کو بھارت میں تشدد میں مدد ملتی ہے۔"
پاکستان کے سرکاری حلقے واجپائی کی سرد مہری پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویا پرویز مشرف صاحب کے مصافحے سے ہماری امن پسندی کا سند حاصل ہوگئی ہے جب کہ 4 جنوری کو کھٹمنڈو پہنچنے پر صدر پاکستان نے کہا تھا۔ " ہم مذاکرات چاہتے ہیں مگر یک طرفہ خواہش پر مذاکرات نہیں ہوسکتے" نیز یہ بھی کہ " بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کی درخواست کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ملاقات کے لئے درخواست نہیں کی جاتی۔"
بھارت کی طرف سے دھمکیوں سے پر توہین آمیز بیانات مسلسل آتے رہے ہیں۔ بھارت نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم " پاکستان کا حال بھی افغانستان جیسا کردیں گے۔" یہ بھی کہ " ہم پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کو دوبادہ متحد کرنے کے لئے تیار ہیں۔" گویا وہ اکھنڈ بھارت کا خواب بھی دیکھہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم واجپائی کے دورہ حکومت میں ہزاروں بےگناہ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ آج بھی بھارتی فوجی آزاد کشمیر اور پاکستان کے علاقوں میں فائرنگ کرکے شہریوں اور فوجیوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اس طرح بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھہ معصوم اوربے گناہ کشمیری بچوں، عورتوں اور مردوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ ان سے موجودہ حالات میں ہاتھہ ملانا قابل فخر نہیں۔ روس ، امریکہ اور اسرائیل کی شہ پر واجپائی کی گردن اکڑی ہوئی ہے۔ ایسے شخص کے سامنے امن اور دوستی کی بھیک مانگنا حکمرانوں کو کیوں کر گوارا ہوا یہ بات ناقابل فہم ہے۔
کوئی پچاس برس قبل جب بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر فوجیں لگادی تھیں۔ کراچی کے شہری بڑے جلوس کی صورت میں وزیر اعظم ہاؤس پہنچے تو وزیر اعظم خان لیاقت علی خاں نے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے کہ ہم حملے کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں اور اطمینان کے ساتھہ اپنا کام کرتے رہیں اور پھر اپنا مکا ہوا لہراتے ہوئے کہا " بھارت کو ہمارا جواب یہ ہے" چند دن بعد ہی بھارتی فوج سرحدوں سےواپس گئی۔" آج ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے، نصف صدی بعد ہم " مکے سے مصافحے" پر آگئے۔
ان باتوں کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اپنے پڑوسی بھارت کے ساتھہ امن اور دوستی سے رہنا نہیں چاہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ 15 اگست 1947ء کو اپنے ظہور سے بھی بہت پہلے سے اس کے ساتھہ دوستی اور محبت کو پروان چڑھانے کی خاطر ہم قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں لیکن اس کے جواب میں بھارتی قیادت نے ہمیں کبھی اپنے نزدیک نہیں آنے دیا۔ ہر مرحلے پر دھونس، دھمکیاں اور ضد کا مظاہرہ جاری رہا۔ اس کے باوجود ہم نے امن و آشتی اور دوستی و محبت کے راستے کو ترک نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی یہ سمجھہ لینا چاہئے کہ ان کے مصافحے کا واجپائی نے جس سرد مہری سے جواب دیا ، وہ بھارت کا وتیرہ ہے۔
گاندھی جی کا قتل ہو یا اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کی ہلاکتیں، ان کا سب سے پہلے الزام پاکستان ہی پر لگایا گیا۔ آسام، ناگالینڈ اور جھاڑکھنڈ میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہوں یا سکھوں اورتاملوں کی آزادی کی تحریکیں، بابری مسجد کی شہادت کے ردعمل میں بمبئی اور دوسرے شہروں میں ہندو مسلم فسادات ہوں یا نیپال میں بھارت مخالف مظاہرے، ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جن کا الزام بھارت نے پاکستان کے سرتھونپنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ہمارے حکمراں اس افسوس ناک حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ افغانستان پرروسی حملے کے بعد ہی سے پاکستان میں بھارت نے تخریب کاری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اب تک جاری ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بھارت کے کیمپوں میں سینکڑوں پاکستانیوں کو تخریب کاری اور دہشت گردی کی تربیت دے کار پاکستان بھیجا جاتا رہا ہے۔ یہاں کتنی تنظیمیں اور افراد ہوں گے جن کو تخریب کاری اور منافرت کو فروغ دینے کی غرض سے مالی امداد دی جارہی ہوگی لیکن ہمارے حکومتی ادارے بھارت کے تربیت یافتی تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے بجائے مجاہدین القاعدہ اور طالبان کے اراکین اور دینی تعلیم کے فروغ کے لئے کوشاں مدرسوں کی چھان بین میں مصروف ہے اس لئے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے۔
حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے سرپرستوں کو بھارت سے طلب کرے جن میں ایڈوانی جیسے وزراء شامل ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہم امریکہ کے اشارے پر بھارت کی فرمائش پر اس کو خوش کرنے شوق میں اپنے یہاں سیاسی اور دینی رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کرنے والے نوجوانوں کے خلاف بالواسطہ طور پر ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی تنظیمیں موجود ہیں جن کی سرپرستی 13 دسمبر 2001ء تک موجودہ حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی چال کو سمجھنے کے بجائے ہم اپنے مایہ ناز سائنس دانوں، فلاح عامہ کے کاموں میں مصروف مخیر افراد کا دائرہ تنگ کرکے اپنا قومی تشخص بری طرح سے مجروح کررہے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم اور پاکستان صدر کے اختیارات میں سات دن کا فرق ہے۔ اٹل بہاری واجپائی منتخب وزیر اعظم ہیں لیکن اس حد سے آگے نہیں جاسکتے جو ان کی پارٹی، حکومت میں ان کے حلیف اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ان کے مقرر کردی ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ اس پیمانے پر سودے بازی کے لئے کیا کچھہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ تمام پتے سامنے لاکر اپنی اس حیثیت کو کمزور نہیں کرنا چاہتے جو انہیں اس وقت حاصل ہورہی ہے۔ ادھر جنرل پرویز مشرف غیر منتخب ہیں اور تمام اختیارات کے واحد مالک ہیں۔ انہیں نہ پارلیمنٹ کو جواب دینا ہے نہ اپنے رائے دہندگان کے پاس جانا ہے۔ وہ 4 جنوری کو کچھہ اور 5 جنوری کو اس کے برعکس کچھہ کہہ یا کرسکتے ہیں لیکن ہمیں حیرت اس امر پر ہے کہ انہوں نے امن اور دوستی کے لئے اتنا آگے بڑھنا کیسے منظور کرلیا کہ بھارے اور شیر بن گیا۔
جنرل پرویز مشرف سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہوگا کہ جب ایک فریق جنگ کی باتیں اور اس کی تیاری بھی کررہا ہو تو دوسرے فریق کی طرف سے اس کی اپیل اور دوستی کا ہاتھہ بڑھانا کمزوری پر دلالت کرتا ہے جو جنگی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ پھر آپ لاکھہ کہتے رہیں کہ جہادی اور دینی تنظیموں کے خلاف کاروائی کا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور بھارت کے مطالبے سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس بےوقت عمل سے ہماری کمزوری کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ بھارت جیسے ظالم کے پڑوس میں رہتے ہوئے باعزت زندگی گزارنے کے لئے چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس بنیادی شرط ہے۔
No comments:
Post a Comment