جمہوری رویوں کا فروغ اور جمہوریت کا استحکام
روزنامہ جنگ منگل 30 جنوری 2007ء
حکمرانوں کی طرف سے آئے دن یہ دعویٰ کیا جاتا رہتا ہے کہ اسمبلیاں پہلی بار اپنی آئینی مدت پوری کریں گی اور ایسا ہونا ان کے خیال میں اس کا بین ثبوت ہے کہ ملک میں جمہوریت نہ صرف فروغ پارہی ہے بلکہ اس کی جڑیں ایسی مضبوط اور مستحکم ہوچکی ہیں کہ اب کوئی اسے پٹری سے نہیں اتار سکے گا جمہوریت کی ٹرین پٹری پر ہے بھی کہ نہیں یہ ایک علیحدہ سوال ہے البتہ آئین کے تحت کسی ادارہ کو کسی قدغن اور رکاوٹ کے بغیر اپنی مدت کو پورا کرنے کی بذات خود اجازت ہی بڑی خوش آئند بلکہ پاکستان جیسے ملک کے لئے تو ایسا ہونا فخر و مسرت ہی کی نہیں بڑی خوش قسمتی کی بات ہے گو ہر جمہوری ملک میں یہ معمول کی بات ہے لیکن بدقسمتی رہی ہے کہ ہمارے یہاں آئین اور پارلیمنٹ کو جو جمہوریت ہی کی نہیں آزادی اور خودمختاری کی علامت بھی ہیں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد کبھی کسی طالع آزما کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھادیا گیا اور کبھی کسی فرد نے اپنی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر فوج کی طاقت کے بل بوتے پر اسے معطل اور معدوم کرکے دکھا دیا جس کے نتیجہ میں یہاں جمہوریت قدم جماسکی نہ آئین و قانون کو بالادستی حاصل ہوسکی۔ اب معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے صرف مدت ہی کو سب کچھہ سمجھہ لیا ہے۔ مدت کی اہمیت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا لیکن اس سے زیادہ اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ ہم نے آئین اور پارلیمنٹ کو عزت و وقار کے ساتھہ کام کرنے کی اجازت بھی دی یا نہیں ، محض بازیچہ اطفالت بنا کر رکھہ دیا ۔ اگر کسی ادارہ کو حاصل اختیارات کے تحفظ کی ضمانت اور ان اختیارات کو استعمال کرنے کی آزادی نہ دی جائے تو پھر اس ادارہ کا وجود اور عدم وجود یکساں ہے۔ اسی کلیہ کے پیش نظر جب ہم آئین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو بلا خوف تردید بلکہ انتہائی ندامت کے ساتھہ یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ان کا وجود نمائش سے زیادہ کچھہ اور نظر نہیں آتا۔ 12 اکتوبر 1999ء کو جو کچھہ پیش آیا ہم تھوڑی دیر کے لئے اس سے صرف نظر بھی کرلیں اور رواں سوا چار سالہ دور ہی تک خود کو محدود کرلیں تب بھی ہم اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آئین پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا وجود نمائش سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اسمبلی کی تکمیل مدت پر ابھی سے اترانا ویسے بھی قبل از وقت ہے اس لئے اس مدت کو پورا ہونے میں اب بھی تقریباً دس ماہ باقی ہیں اور اس دوران ہمارے یہاں تو بہت کچھہ کیا جاسکتا ہے۔
احترام و اختیارات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارا آئین سب سے زیادہ ہے توقیر دستاویز بلکہ ردی کاغذ کا پلندہ اور پارلیمنٹ کٹھہ پتلی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی تفصیل کی قطعی ضرورت نہیں ، اس تلخ حقیقت سے ریڑھی والے سے لیکر سینیٹر ایس ایم ظفر کی دیانت و صداقت اور شریف الدین پیرزادہ کا ضمیر سب ہی بخوبی واقف ہیں کہ آئین و پارلیمنٹ سے بالاتر ایک ہستی ایسی ہے جس کی زبان سے ادا ہونے والا لفظ ہی اس ملک کا آئین و قانون کا درجہ رکھتا ہے اور اس کے چشم ابرو کے ایک اشارے پر حکمراں اتحاد رقص کرتا ہے تین سال کی مختصر مدت میں ایوان کو تین قائدین نصیب ہونا کس جمہوری اصول کا تقاضا ہے۔ ان میں سے ایک قائد ایوان کی مدت قیادت کو تعین تو پہلے ہی سے کردیا گیا تھا اور ایسا کرتے وقت یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس کے بعد کون قائد ہوگا اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ میر ظفر اللہ خان جمالی سے جو اٹھتے بیٹھتے باس باس کی تسبیح پڑھتے رہتے تھے کوئی ایسی گستاخی ہوگئی کہ انہیں چند روز مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا تھا اس تبدیلی نے اراکین پارلیمنٹ کی صلاحیت کار اور فیصلے کرنے میں آزادی کے بلند بانگ دعوؤں کے علاوہ ایوان میں موجود حکمراں اتحاد کی سیاسی جماعتوں کے اراکین کے دیوالیہ پن کا بھانڈا بھی پھوڑ کر رکھہ دیا۔ کوئی مانے یا مانے لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکمراں اتحاد کے قائدین و اراکین چاہے وہ ایوان کے اندر ہوں یا باہر غور و فکر اور قومی مفاد کے تعین جیسی بھاری ذمہ داریوں سے آزاد کردیئے گئے ہیں اور یہ بارگراں ایوان سے باہر بلکہ بالاتر ہستی نے اپنے سر لے لیا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ کو کس قدر اختیار و احترام حاصل ہے اس کا ادنٰی ثبوت یہ ہے کہ ایوان کی طرف سے قائم کردہ مختلف مجالس قائمہ کے سامنے وزیر و مشیر اور سیکریٹریز ہی نہیں سرکاری اداروں کے نمائندے تک پیش ہونا ضروری نہیں سمجھتے نہ انہیں مطلوبہ معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ جبکہ آج ہمارے رہبر و رہنما اور مربی امریکہ میں صدر مملکت ذاتی نوعیت کے معاملے کی وضاحت کی غرض سے بھی مجلس قائمہ میں پیش ہونے سے پس و پیش کرتے حالانکہ آئین نے انہیں ایسا کرنے سے استشنٰی دے رکھا ہے برطانیہ کے وزیر اعظم کو بھی کئی مرتبہ مختلف مجالس قائمہ کے سامنے پیش ہونے اور گھنٹوں کڑے اور تیکھے سوالوں کے جواب دیتے دیکھا گیا ہے ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ آئین کی دفعہ52(3) کے تحت صدر مملکت کے لئے لازمی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے آغاز اور ایک سال کی تکمیل کے بعد ہر نئے سال آغاز پر خطاب کرے لیکن ایسا صرف ایک مرتبہ ہوا ہے ایک وزیر کبیر نے صدر کا خطاب نہ کرنے کا سبب یہ بتایا ہے کہ وہ غیر مہذب پارلیمنٹ کو خطاب نہیں کرسکتے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایسی غیر مہذب پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرکے کوئی شخص منصب صدارت یا وزارت عظمٰی پر کیسے فائز ہوسکتا ہے اس کا جواب تو غیر مہذب پارلیمنٹ کے امور کے وزیر موصوف ہی دے سکتے ہیں ہم تو یہ جانتے ہیں کہ ملک کی تاریخ میں موجود پہلی پارلیمنٹ ہے جس کے گریجویٹ اراکین کی بھاری تعداد روشن خیالی اور جدت پسند افراد پر مشتمل ہے۔
جمہوریت الفاظ کی گردان اور بلند بانگ دعوؤں سے ثابت نہیں کی جاسکتی یہ تو کلیتاً عمل کی متقاضی ہے ۔ آمریت و ملوکیت کے مقابلہ میں جمہوریت بڑی پتہ ماری کا کام ہے اس اکھاڑے میں جنرل ڈیگال اور دوسری جنگ عظیم کے فاتح ونسٹن چرچل کو خندہ پیشانی کے ساتھہ شکست تسلیم کرتے دیکھا گیا ہے۔ ہم میں سے بیشتر ایسا مزاج نہیں رکھتے ہماری جمہوریت بلکہ آزادی تک ہمارے اقتدار سے مشروط ہے۔ بہرحال اس فیصلہ کے بعد کہ موجودہ اسمبلیاں ہی اپنی آخری ہچکی سے پہلے یعنی 16 نومبر کو اپنی مدت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ دو اور کم سے کم ایک ماہ پہلے آئندہ صدر کو بھی منتخب کریں گی ان کی اہمیت اور عزت و وقار میں دو چند اضافہ ہوگیا ہے اور امید ہے کہ اب یہ پارلیمنٹ مہذب بھی قرار دے دی جائے اس فیصلہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حکمراں اتحاد خود اپنی کارگزاری پر مطمئن نہیں اس لئے اسے یہ یقین ہے کہ آئندہ انتخابات اگر غیر جانبدرانہ ، منصفانہ اور شفاف کروانے پڑے تو عوام کا فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوگا۔ اس طرح آئندہ تشکیل پانے والی پارلیمنٹ سے جنرل پرویز مشرف کا وردی کے ساتھہ بحیثیت صدر منتخب کیا جانا ممکن نہیں رہے گا ہمیں دنیا میں سب سے زیادہ شرمندگی کا سامنا اسی سبب سے کرنا پڑا ہے کہ ہم نے آئین کو معطل ، منتخب حکومتوں کو معزول اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنا دل پسند کھیل بنا رکھا ہے امریکہ کی طرف سے پابندیاں تو ہمارے معمولات زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اور امریکہ کی طرح ہم بھی پابندیوں کے بغیر بے چین رہتے ہیں لیکن یورپی یونین اور دولت مشترکہ سے ہمارے اخراج کا واحد سبب ہمارے ہاتھوں جمہوریت کا جھٹکا ہی رہا ہے۔ انتخابات میں دھاندلیاں ہماری مزید بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ہمارے حکمراں قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر اور قومی وقار کو شخصی وقار پر ترجیح دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ نو منتخب پارلیمنٹ اور اسمبلیوں ہی کو نئی مدت کے لئے صدر کے چناؤ کا موقع دیں اس لئے آئین کی دفعہ 58 کے تحت قائد ایوان کی سفارش پر اگر ایک ڈیڑھ ماہ پہلے پارلیمنٹ کو توڑ دیا جائے تو نئی پارلیمنٹ کو آئندہ مدت کے لئے صدر منتخب کرنے کا موقع مل جائے گا ایسا کرنے سے نہ صرف پاکستان جگ ہنسائی سے بچ جائے گا بلکہ آئندہ صدر کی شخصیت بھی غیر متنازع قرار پائے گی وار ملک میں جمہوری روایات مستحکم ہوں گی۔ ویسے بھی قائد ایوان کی سفارش ، پارلیمنٹ کو توڑا جانا، غیر فطری نہیں وہاں 58 (2۔ بی) کا استعمال ہر لحاظ سے غیر فطری اور غیر جمہوری عمل ہے چاہے اس دفعہ کو زبردستی آئین کا حصہ ہی کیوں نہ بنایا گیا ہو۔ اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ملک کو دنیا میں عزت و وقار کی نظر سے دیکھا جائے اور یہاں جمہوریت فروغ پائے تو اس کے لئے ایک یا چند افراد کی انا اور ان کی ذاتی پسند و ناپسند کی نفی کرنی ہوگی غیر جمہوری رویوں کو اپنا کر جمہوریت کے فروح اور اس سے استحکام کی توقع کرنا حقیقت کے منافی ہے ہمیں چاہئے کہ ملک و قوم کے وقار اور اس کی سالمیت اور یکجہتی کے لئے محدود مفادات سے بالاتر ہوکر سوچیں جب تک ہم ذات کو ملک کے تابع نہیں کریں گے اس وقت تک ہم توہین و تضحیک کا نشانہ بنتے رہیں گے اور دنیا کی مہذب قومیں ہمارا حقہ پانی بند کرتی رہیں گی۔
No comments:
Post a Comment