بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ اور اس کے ذمے دار
روزنامہ ایکسپریس
بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر دہشت گردوں کے عملے اور ہلاک شدگان کی تعداد سے قطع نظر یہ معاملہ اس لئے زیادہ سنگین ہے کہ اس کی زد میں ایک ادارہ آیا ہے جو جمہوریت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ احترام آدمیت پر یقین رکھنے والا کوئی بھی امن پسند اس قسم کے گھناؤنے واقعات کی مذمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کاروائی کا پریشان کن اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کے حکمراں اور ان کے انتہا پسند حواری اس واقعہ سے وقتی سیاسی فائدہ اٹھانے کے شوق میں پاکستان کے خلاف اخلاق سے گری ہوئی اشتعال انگیز زبان استعمال کرکے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں مبتلا علاقائی امن و سلامتی کو داؤ پر لگانے کی غلطی کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے اس واقع پر صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت نے شدید مذمت کرتے ہوئے بھارتی حکومت اور عوام سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کسی بھی جہادی تنظیم یا رہنما نے اس واقعے کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ بھارتی حکومت پر انتہا پسند عناصر کا دباؤ ہے کہ پاکستان کے خلاف کاروائی میں تاخیر نہ کی جائے۔ ان کے خیال میں پاکستان کی فوج کا بڑا حصہ طالبان یا القاعدہ کے کارکنوں کی پاکستان آمد روکنے کے لئے سرحد پر تعینات ہے۔ اس کے علاوہ اہم تنصیبات پر بھی فوجی جوان تعینات ہیں لہٰذا " پاکستان کو سبق سکھانے کا یہ بہترین موقع ہے۔"
بھارتی حکومت کے موقف، پاکستان کے اظہار مذمت اور جہادی تنظیموں کے اعلان لا تعلقی کے باوجود انصاف کا تقاضا ہے کہ غم و غصے کے ماحول سے نکل کر ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ اس کاروائی کا غیر جانبدرانہ جائزہ لیا جائے تاکہ انسانیت اور امن و سلامتی کی دشمن ان عناصر تک پہنچنے میں آسانی ہو جو گھناؤنی حرکتوں سے ہمسایہ ملکوں کو لڑا کر کروڑوں انسانوں کی جان و مال کے لئے شدید خطرات پیدا کرنے کی مذموم سازش کے ذمے دار ہیں۔ یہ مفروضہ کہ پاکستان " اس واقعہ کا ذمہ دار ہے۔" یہ الزام اس لئے بے بنیاد ثابت ہو جاتا ہے کہ ایسی کسی کاروائی سے پاکستان کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ ہے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں ہونے والے ہر ناخوشگوار واقعہ کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا جاتا رہا ہے۔
2 اکتوبر1986ء کو بھارت کے وزیر اعظم راجیوگاندھی پر قاتلانہ حملے کا ذمے دار بھی پاکستان کو قرار دیا گیا۔ حملہ آور کو پہلے دن ہندو نوجوان اور دوسرے دن سکھہ نوجوان بتایا گیا جس نے مبینہ طور پرپاکستان میں فوجی تربیت حاصل کرنے کا اعتراف کیا۔ حملے کے ڈرامے کا مقصد راجیوگاندھی کی گرتی ہوئی ساکھہ کو سہارا دینا تھا۔
حالیہ برسوں میں کھٹمنڈو سے دہلی جانے والے طیارے کو اغوا کرکے پہلے لاہور پھر امرتسر اور وہاں سے لاہور لایا گیا لیکن بعد میں اغوا کنندگان اسے قندھار لے گئے۔ جہاں سودے بازی کے دوران میں مولانا مسعود اظہر کی رہائی عمل میں آئی۔ بھارت نے عادت کے مطابق پاکستان ہی کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا۔
پاکستان پر الزام تراشی میں بھارت کس قدر مشتاق ہے اس کا ثبوت حال ہی میں بمبئی سے دہلی جانے والے طیارے کی اغوا کی جھوٹی داستان ہے۔ خبر ملتے ہی بھارت کے ذرائع ابلاغ اور حالات حاضرہ کے ماہرین نے ہر ہر پہلو سے پاکستان کو اغوا کا ذمہ دار قرار دیا، لیکن سارے الزامات غلط نکلے اور یہ راز کھلا کہ اغوا کا یہ ڈرامہ سلامتی کے انتظامات جانچنے کی غرض سے رچایا گیا تھا۔
حالات و شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو اپنے ملک کے خلاف دہشت گردی کرکے سیاسی یا مادی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ میں زیر بحث انسداد دہشت گردی کا قانون پوٹو (Prevention of Terrorism Ordinance) حکومت اور حزب اختلاف کے مابین شدید اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے۔ اپوزیشن اسے کالا قانون اور جمہوریت کا قاتل قرار دے رہی ہے۔ صحافی برادری، غیر سیاسی تنظیمیں اورآزادی کی تحریکیں بھی اس قانون کے خلاف ہیں۔ معرکہ کارگل میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کیلئے جو تابوت بنوائے گئے تھے ان کی لاگت پر ایوان میں بہت شور ہے۔ حزب اختلاف اس سنگین بدعنوانی کا ذمے دار وزیر دفاع جارج فرنانڈس کو قرار دیتے ہوئے برطرفی کا مطالبہ کررہی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جارج فرنانڈس کو بدعنوانی کے الزامات پر کابینہ سے پہلے بھی علیحدہ کیا جاچکا ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں چند صوبوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جن میں سب سے اہم اور آبادی کے لحاظ سے بھارت کا سب سے بڑا صوبہ یو پی ہے۔ وہاں حکمراں جماعت کو سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ بابری مسجد کے حوالے سے بی جے پی حکومت کو دشواریاں درپیش ہیں اور انتہا پسند جماعت وشوا ہندو پریشد اور متعصب ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھہ کا سخت دباؤ ہے۔
بھارت میں صرف کشمیر ہی کی تحریک آزادی نہیں چل رہی، آسام اور ناگالینڈ میں بھی ایسی تحریکیں کئی برسوں سے جاری ہیں جو بڑی موثر اور فعال ہیں۔ اس تحریک کے نوجوانوں نے پولیس اور فوج کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ تھانے، فوجی چوکیاں، فوجی سازوسامان سے امدادی ٹرینیں اور غیر آسامی باشندے ان کے خاص ہدف ہیں۔ نکسل باڑی تو ان سے بھی پہلے سے حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ تاملوں کی اپنی تحریک بھی بڑی سرگرم ہے۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو انتخابی مہم کے دوران ایک تامل خاتون نے خودکش بم دھماکہ کرکے ہلاک کردیا تھا جس کا پہلا ملزم پاکستان بنا، لیکن بعد میں حقیقت حال کا پتہ چلا تو پاکستان کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی گئی اور کسی بھارتی کو اپنی غلطیوں پرمعذرت چاہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ جھاڑ کھنڈ اور بہار وغیرہ میں بھی بھارت مخالف تحریکیں جاری ہیں۔
11 ستمبر کے بعد بھارت کے حکمرانوں نے کورس کے انداز میں امریکہ کی طرف سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف ہرقسم کی سہولت اور تعاون فراہم کرنے کی پیشکش کی تاکہ پاکستان پر سبقت لے جانے اور اپنی اس دہشت گردی پر پردہ ڈالنے میں جو وہ مقبوضہ کشمیر میں کرتا رہا ہے، کامیاب ہوسکے۔ امریکہ نے اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کو امداد و تعاون کیلئے منتخب کیا۔ امریکہ کے اس اقدام کو بھارت کے لیڈروں نے توہین سمجھتے ہوئے خفگی کا اظہار بھی کیا لیکن امریکہ نے دفاعی معاہدہ کر کے بھارے کی ناراضگی دور کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارے سازش کے تحت امریکہ کا حلیف اول بننے کی کوشش کررہا تھا لیکن افغانستان کی مہم سے بھارت کو دور رکھنے سے وہ خواب چکنا چور ہوگئے جو بھارت نے اس پیشکش کے پیچھے دیکھے تھے۔ پاکستان کے ایٹمی اور دیگر حساس تنصیبات کو حملوں کا نشانہ بنانا اور دہشت گردی کے الزام لگا کر پاکستان کے خلاف کاروائی اس کا مقصد تھا۔ بھارت کی سازش بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ جہاں تک بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا تعلق ہے یہ بھی مشکوک معاملہ ہے۔ فوجی لباس پہنے " 5 دہشت گرد" فوجی گاڑی میں پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہوئے، داخلی دروازے پر گاڑی کو روکا گیا۔ نہ جانے والوں کی شناخت کی گئی ، نہ ہتھیاروں کی جانچ کرنے والے آلے سے دیکھا گیا نہ گاڑی کی تلاشی لی گئی اور دہشت گرد گولہ بارود کے ساتھہ عمارت تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ غریب مالی اور کانسٹیبلوں پر فائرنگ بھی کردی۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ واقعی دہشت گرد ہوتے تو باہر چند افراد کو ہلاک و زخمی کرنے بجائے عمارت کے اندر جاتے، جہاں وزیر اور اراکین پارلیمنٹ بڑی تعداد میں موجود تھے۔ دہشت گردوں نے جیسے ہی فائرنگ شروع کی، عمارت کے اندر داخلے کے تمام دروازے بند کردیئے گئے، کتنے مزے کی بات ہے کہ اس پورے ڈرامے کی فلم بندی کے لئے ٹیلی ویژن کا کیمرہ مین وہاں آگیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ڈرامے کی فلم بنانے کا پورا اہتمام تھا۔ ظاہر ہے واقعہ کو صرف بیان کرنے سے اثر انگیزی پیدا نہیں ہوتی۔
مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کو اس قسم کے حملے کی زد میں آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے۔ پھر رکن پارلیمنٹ پھولن دیوی کو پارلیمنٹ کے رہائشی کمپلیکس میں دن دہاڑے قتل کردیا گیا تھا اور دعوے کے مطابق انٹیلی جنس کی طرف سے حملے کے امکانات کا اشارہ بھی دیا جاچکا تھا تو پھر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ ان حملہ آوروں کا پارلیمنٹ میں داخلہ کسی مدد یا تعاون کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔ پھر یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ حفاظتی عملہ یا محکمہ کی طرف سے کسی غفلت کی نشاندہی بھی نہیں کی جارہی ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اس حملے کے سلسلے میں نئی دہلی اور مقبوضہ کشمیر میں چند گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ زیر حراست افراد بھارتی اور کشمیری مسلمان ہیں لیکن کسی ثبوت کے بغیر ان سب کو پاکستانی بتایا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم نے اپنے بیانات میں کہا کہ حملہ آور تربیت یافتہ تھے اور ان کا مقصد اراکین پارلیمنٹ کو ہلاک کرنا یا انہیں یرغمال بنا کر مطالبات منوانا تھا۔ 14 دسمبر ہی کو بھارتی وزیر خارجہ نے لشکر طیبہ کو حملہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت کے پاس اس سلسلے میں " فنی شہادت" موجود ہے۔ برا ہو دہلی کے پولیس کمشنر کا جس نے اپنے وزیر اعظم اور وزراء کے دعوؤں کی پول یہ کہہ کر کھول دی کی حملہ آوروں کا تعلق لشکر طیبہ سے نہیں جیش محمد سے ہے اور یہ کہ حملہ آور پہلے ہوائی اڈے گئے لیکن انہوں نے ارادہ بدل دیا اور پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ تو وہ تربیت یافتہ تھے اور نہ ان کا کوئی خاص ہدف تھا۔ اگر ان کا کسی جہادی تنظیم سے تعلق ہوتا یا وہ آئی ایس آئی کی ہدایت کے مطابق کام کررہے ہوتے تو ان کا نشانہ متعین اور واضح ہوتا۔ پاکستان نے بھارت کے الزام کو بجا طور پر مسترد کرتے ہوئے مشترکہ تفتیش کی پیشکش کی۔ بھارت نے اسے مسترد کردیا۔ بھارت ایسی کوئی تجویز تسلیم کر بھی نہیں سکتا۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ڈرامے میں اس کی کس قدرکمزوریاں ہیں۔
بھارت کیلئے یہ امر لازمی طور پر تقویت اور اطمینان کا باعث ہوگا کہ امریکہ کے ساتھہ اس کا دفاعی معاہدہ ہوگیا ہے۔ اب افغانستان میں ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے جس کے وزیر بون سے اپنے ملک جانے کے بجائے بھارت یاترا کو زیادہ مقدم بلکہ مقدس سمجھتے ہیں لیکن بنگلہ دیش میں پاکستان دوست خالدہ ضیاء کا برسراقتدار آنا، نیپال میں بھارت مخالف جذبات میں اضافہ، اسلامی تنظیم کانفرنس کی کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی بھرپور حمایت، مقبوضہ کشمیر میں مجاہدین کے ہاتھوں بھارتی فوجوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں، صوبائی انتخابات میں جو عنقریب ہونے والے ہیں، شکست کے آثار، پوٹو کو منظور کروانے میں مشکلات ، افغانستان میں " دہشت گردی" کے خلاف مہم میں پاکستان کی حمایت پر دنیا بھر کے قائدین کی مسلسل ستائش جیسے معاملات نے بھارت کی قیادت کو مایوسی کا شکار بلکہ نفسیاتی مریض بنادیا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ پارلیمنٹ پر حملے کی منصوبہ بندی خالصتاً " ساختہ ہندوستان" ہے۔ یہی سبب ہے کہ بھارتی حکومت کے تمام کل پرزے بڑی شد و مد کے ساتھہ پاکستان پر اس کا الزام عائد کررہے ہیں اور ایسی اشتعال انگیز زبان استعمال کی جارہی ہے کہ دنیا کے ذرائع ابلاغ اس پر توجہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اس سلسلے میں وہ حفاظتی انتظامات میں خامیوں کی تحقیق بھی کروانے کے حق میں نہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر انتظامات ناقص ہوتے تو آج ارکان پارلیمنٹ یہاں زندہ نہ ہوتے۔ یہ بھی احمقانہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حملہ آوروں میں سے کسی نے پارلیمنٹ کے اندر بم چھپا دیا تھا جسے فرض شناس پولیس نے تلاش کرکے ناکارہ بنادیا۔ واقعاتی طور پر بم کا چھپایا جانا ممکن ہی نہیں تھا اس لئے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے دروازے بند کردیئے گئے تھے اور فی الحقیقت کوئی بم چھپا دیا تھا تو اس کا ذمے دار رکن پارلیمنٹ یا کسی وزیر کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس لئے بغیر تلاشی کے عمارت کے اندر جانے کی اجازت صرف انہی کو حاصل ہے۔ اگر ( بہ قول ان کے) حملہ آور اندر جانے میں کامیاب ہوجاتا تو آج پارلیمنٹ کے کتنے لوگ زندہ ہوتے اس کے بارے میں کچھہ نہیں کہا جاسکتا۔
بھارت سے زیادہ اس حقیقت سے اور کون واقف ہوگا کہ پاکستانی قوم کو اپنی آزادی سے بھی پہلے سے دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ اس کے باوجود ہم پسند نہیں کرتے کہ دشمن کے خلاف بھی کوئی دہشت گردی کی جائے۔ ہمیں اس سے سخت نفرت ہے لیکن اگر بھارت اس خوش فہمی میں ہے کہ ہم اس کی دھمکیوں سے ڈر کر ناجائز مطالبے مان لیں گے تو اس کی خام خیالی ہے۔ بھارت کو چاہئے کہ جنگی جنون کو ہوا دے کر پہلے سے موجود کشیدگی میں اضافہ نہ کرے۔ علاقہ کا چوہدری بننے کے شوق میں وہ چوتھی مرتبہ ہمیں اپنی جارحیت کا نشانہ بنا کر خودکشی کا ارادہ رکھتا ہے۔
No comments:
Post a Comment