موہوم خطرات کا ڈراوا
روزنامہ جنگ ہفتہ 20 جنوری 2007ء
ہمارے حکمرانوں نے معلوم نہیں کیوں آئے دن نت نئے اور موہوم خطرات سے ہمیں ڈرانے کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ 11 ستمبر 2001ء کے بعد شروع کئے گئے طویل دورانیے کے اس خصوصی کھیل کی تازہ ترین قسط میں خبردار کیا گیا ہے کہ فرقہ ورایت کے سبب مسلم دنیا بحران کی طرف بڑھ رہی ہے مسلم دنیا واقعی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن اس کا سبب وہ فرقہ ورایت ہر گز نہیں ہے جسے ہمارے ہاں عرف عام میں لیا جاتا ہے یعنی فقہ یا مسلک کی بنیاد پر اختلاف۔ پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں الحمداللہ کہیں بھی شیعہ سنی یا سنیوں کے چاروں مسالک کے پیروکاروں کے درمیان فرقہ پرستی کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے ہمارے یہاں کبھی کبھار فرقہ ورایت کی بنا پر کوئی افسوسناک واقعہ پیش ضرور آجاتا ہے لیکن تعداد باعث شرم تو ہوسکتی ہے باعث تشویش نہیں۔ سال گزشتہ کے بارے میں ایک تھنک ٹینک کی طرف سے جاری کردہ تحقیقی جائزے سے بھی اس کی تصدیق یوں ہوتی ہے کہ سال 2006ء کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے 657 واقعات پیش آئے جن میں صرف 41 فرقہ ورانہ نوعیت کے تھے یعنی تقریباً چھہ فیصد جن کو مسلم امہ کے لئے خطرے کا باعث قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ تعالٰی کا شکر ہے کہ باقی مسلم دنیا میں کیفیت ہمارے مقابلہ میں اور زیادہ بہتر ہے۔
عراق اور البتہ شیعہ سنی اختلافات میں شدت کی خبریں ضرور مل رہی ہیں ان میں بھی دوبدو مقابلے نہیں بلکہ کبھی شیعہ آبادی میں خودکش حملوں کے حوالے سے اور کبھی سنیوں کے مارے جانے کے بارے میں کبھی کربلائے معلی اور نجف اشرف میں خونریز حملوں کے بارے میں معلوم ہوتا ہے لیکن ان میں کتنی سچائی ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ان خبروں کا منبع، امریکہ، برطانیہ اور ان کے زیر اثر ذرائع ابلاغ ہیں جو کسی واقعے کے ذمہ داروں کے نام و پتے پہلے دے دیتے ہیں اور ان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اور شناخت کے لئے انہیں دن اور ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ 1991ء میں عراق کے جنوب میں شیعہ اور شمال میں کرد علاقوں کو عراق فضائیہ کے لئے محفوظ زون امریکہ نے قائم ہی اس لئے کئے گئے تھے کہ وہاں بالخصوص شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دی جاسکے۔ عید کے دن صدر صدام حسین کو 148 افراد کی ہلاکت کے جرم میں وحشیانہ، شرمناک اور جاہلانہ انداز سے پھانسی بھی اس غرض سے دی گئی تھی کہ وہاں شیعہ اور سنی خانہ جنگی شروع ہوجائے تاکہ امریکہ اپنی مسلط کردہ حکومت کے ذریعے وہاں غیر معینہ مدت تک اپنے ناجائز قیام کا جواز پیدا کرسکے لیکن عراق عوام نے امریکی سازش کو پھر ناکام بنادیا۔ وہاں شیعہ اور سنی صدیوں سے ایک قوم کی حیثیت مثالی زندگی گزاررہے ہیں امریکہ تقریباً دو عشروں سے عراق کی شیعہ آبادی کو یہ باور کروانے کی مذموم کوشش کرتا رہا ہے کہ صدام حسین نے سنی ہونے کے ناتے اہل تشیع کا ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا ادھر کردوں پر ظلم و جبر کی داستانیں بھی امریکہ نے بہت عام کی ہیں لیکن امریکہ بھول جاتا ہے کہ کرد رو کٹر سنی ہیں پھر ان کے ساتھہ صدام حسین نے یہ رویہ کیوں اختیار کیا۔ بہرحال عراقی عوام خوب جانتے ہیں کہ صدام حسین کے یہاں شیعہ ، سنی کی کوئی تفریق نہیں تھی اس کے ظلم و ستم کا نشانہ صرف سے کے اپنے مخالفین تھے چاہے ان میں شیعہ ہوں یا سنی ہوں حتٰی کہ اس کے اپنے رشتہ دار تک نہیں بخشے گئے۔
ایک طرف تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ عالم اسلام فی الحقیقت بحران کی طرف بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس بحران کا سبب فرقہ واریت نہیں اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس بحران کا حقیقی سبب ہمیں تلاش کرنا ہوگا لیکن 11 جنوری کو شایع ہونے والے صدر جنرل پرویز مشرف کے بیان ہی نے ہماری یہ مشکل حل کردی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ "انتہا پسند وہ ہے جو انتہا پسند خیالات رکھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح ہے ار اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔" اس بیان کی روشنی میں جب عالم اسلام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ افسوسناک حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس بحران کے اصل ذمہ دار سوائے چند ہمارے اپنے ہی حکمران ہیں جن میں کچھہ مامور من اللہ ہیں اور کچھہ خود مسلط کردہ۔ ملائیشیا، ایران اور لبنان کے حکمراں البتہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کی پیداوار ہیں۔ کچھہ ایسے حکمراں بھی ہیں جو انتخابی ڈھونگ کے ذریعے برسوں سے قوم کو گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور وہ قیادت کے لحاظ سے اپنی قوم کو بانجھہ کئے جارہے ہیں۔ روشن خیالی اور جدت پسندی ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمارے بیشتر حکمران مغرب سے مرعوب اپنی محدود اور بدیسی سوچ کے مطابق پوری قوم کو ہانکنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو کسی بھی طبقے سے مشاورت کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ قوم کو روشن خیالی اور رجعت پسندی کے دو طبقوں میں تقسیم کرنا انتہائی خطرناک کھیل ہے۔ یہ اس وقت مزید خطرناک بن جاتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ روشن خیالی اٹھہ کھڑے ہوں اور رجعت پسندوں کا راستہ روکنے کے لئے ڈٹ جائیں۔ کیا ایسا کرکے ہم قوم کو باہم دست و گریباں ہوکر خانہ جنگی کی طرف بڑھنے کے لئے نہیں اکسا رہے، کیا یہ فرقہ بندی اور فرقہ پرستی نہیں ہے؟ بدقسمتی سے ہمارے بیشتر حکمراں امریکی مفادات کو قومی مفادات اور امریکہ کو محفوظ تر بنانے کی خاطر اپنی قومی کو نشانہ بنانا عین قومی سالمیت قرار دینے میں کوئی برائی نہیں سمجھتے۔ یہ بالکل درست ہے کہ انتہا پسند وہ ہے جو انتہا پسند خیالات رکھتا ہو اور ان خیالات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی بدقسمتی سے حکمرانوں کی طرف سے یہی کچھہ ہورہا ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ترقی، خوشحالی اور استحکام کی راہ پر تیزی سے گامزن ہیں دنیا میں ہمارا وقار قائم ہے دنیا بھر کے حکمراں جنرل پرویز مشرف سے بالمشافہ نہیں تو ٹیلیفون پر بات کرنے ہی کی خواہش رکھتے ہیں نیز یہ کہ ہم کشکول توڑ چکے ہیں لیکن دوسری طرف ہم مجبور ہیں کہ دنیا خاص طور پر امریکہ کو خوش اور مطمئن کرنے کی خاطر اپنے ہی شہریوں کو بمباری کا نشانہ بنائیں ، باعمل مسلمانوں کو پکڑ پکڑ کر امریکی جیلوں کی رونقیں بڑھائیں اور اس کے باوجود جھڑکیاں بھی سنتے رہیں کہ پاکستان القاعدہ کی سرگرمیوں سے چشم پوشی کررہا ہے اور طالبان کو تربیت دے کر افغانستان میں کاروائیوں کے لئے بھیج رہا ہے اور یہ سب کچھہ اس لئے ہورہا ہے کہ ہمارے یہاں چھوٹے اور بڑے اہم اور غیر اہم فیصلے پارلیمنٹ ، کابینہ حتٰی کہ وزیر اعظم کے ماورا کئے جارہے ہیں جو انتہائی خطرناک راستہ ہے، پھر ہم اپنی قوم کی فکر، اس کی مذہبی اور معاشرتی روایت و ثقافت کو بھی تضحیک و توہین کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔ آئین، انتخابی کمیشن اور قانون کا قطعی احترام نہیں کیا جاتا اور یہ سب کچھہ اس لئے کہ ہم خود کو عقل کل کر بیٹھے ہیں حالانکہ اسلام بشمول ہمارا ملک سنگین بحران کی طرف بڑھ د رہا ہے چاہے کسی کو اس کا ادراک ہو یا نہ ہو۔
سال رواں چونکہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا سال ہوسکتا ہے اگر ہم خود صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھنے کی ضد پر اڑے رہے تو ملک کو نقصان پہنچ سکتا ہے اس صورتحال سے خود کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا چھوڑ دیں اور اپنے رویوں، اپنی سوچ ، اپنے خیالات و نظریات کو قرآن حکیم کی تعلیمات کے تابع ڈھالنے کی کوشش کریں اور اپنے ذاتی یا گروہی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اپنے وجود تک کو خطرے سے محفوظ نہیں بنا پائیں گے اور یہ صورتحال خود حکمراں کے لئے بھی خطرناک ثابت ہوگی۔ غور و فکر اور باہمی مشاورت سے ہم دنیائے اسلام کو بحران کا شکار ہونے سے بچاسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment