غیر وابستہ ممالک کے سرکردہ ارکان کی ذمہ داریاں
روزنامہ
یکم ستمبر سے زمبابوے کے دارالحکومت حرارے میں غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کا آٹھواں سربراہ اجلاس ہو رہا ہے جو سمتبر تک جاری رہے گا۔ یہ تحریک دراصل اپریل 1955ء میں انڈونیشیاء کے شہر بنڈونگ میں غیر جانبدار ملکوں کی سربراہ کانفرنس کا نتیجہ ہے جو پاکستان انڈونیشیا، برما، سری لنکا اور بھارت کی دعوت پر منعقد ہوئی تھی اس میں 29 ممالک نے شرکت کی تھی۔ بنڈونگ کانفرنس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی غرض سے یوگوسلاویہ کے دارالحکومت بلغراد میں غیر وابستہ ممالک کانفرنس بلائی گئی جس میں 24 ممالک نے شرکت کی۔ کانفرنس یکم ستمبر 1961ء کو شروع ہوئی اور یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو نے اجلاس کے صدرارت کی چھہ روزہ کانفرنس کی دعوت پر یوگوسلاویہ ، مصر اور بھارت کی طرف سے دی گئی تھی۔ اس پہلی کانفرنس نے ایٹمی تجربے کرنے کی روسی ارادوں کی سخت مذمت کی اور ایک اعلان کے ذریعہ امریکہ کے صدر کینیڈی اور رو س کے وزیر اعظم خروشیف کو باہمی ملاقات کے ذریعہ سرد جنگ کو ختم کرنے اور ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کرنے کے سلسلے میں پیغامات بھیجے گئے ایک دوسرے اعلان میں کانفرنس نے دنیا بھر کے ملکوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی بلاک کے اتحادی نہ بنیں اور اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر امن بقائے باہمی پر رکھیں کانفرنس نے کسی بڑی طاقت کے ساتھہ فوجی معاہدوں کی سخت مخالفت اور قومی آزادی کی تحریکوں کی تائید و حمایت و اعلان بھی کیا نیز یہ بھی کہ دائمی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ سامرجیت اور نو آبادیاتی نظام کو اور نئے قسم کی سامراجیت کو اس کی تمام شکلوں میں بالکل ختم نہ کردیا جائے حق خود اختیاری کو بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کانفرنس نے اعلان کیا کہ پرامن طور پر مل جل کر رہنے کا اصول ہی سرد اور گرم ہر قسم کی جنگ کا واحد حل ہے۔
پاکستان کی رکنیت:
غیر وابستہ تحریک جیسا کہ نام سے ظاہر ہے صرف ان غیر جانبدار اور غیر وابستہ ممالک کو رکنیت دیتی ہے جن کا کسی بڑی طاقت کے ساتھہ فوجی معاہدہ نہ ہو۔ بنڈونگ کانفرنس کے بعد حالات نے کچھہ ایسا رخ اختیار کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین فوجی معاہدہ ہوگیا اور پاکستان ایسی تنظیم کو رکن بھی بن گیا جو فوجی نوعیت کے حامل تھے جیسے سیٹو اور سنیٹو۔ لیکن وقت کے ساتھہ ان معاہدوں نے جب اپنی افادیت کھودی اور یہ تقریباً بے اثر ہوکر رہ گئے تو پاکستان نے خود کو ہر قسم کے معاہدوں سے الگ کرلیا یہ عجیب اتفاق ہے کہ مارشل لا کے دور میں پاکستان کو غیر وابستہ تحریک میں شامل کیا گیا اور صدر محمد ضیاء الحق نے پہلی مرتبہ کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں ہونے والی غیر وابستہ ممالک کی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی جو ستمبر 1979ء میں ہوئی تھی۔ پاکستانی وفد نے کانفرنس کی کاروائی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تحریک کے رابطہ بیورو نے 5 جون 1979ء کو اپنے اجلاس منعقدہ کولمبو ہی میں پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کرکے واضح کردیا تھا کہ پاکستان اب پوری طرح غیر وابستہ ملک بن چکا ہے کیوبا کے صدر نے بھی جو کانفرنس کے صدر تھے انقلابی الفاظ میں پاکستان کا خیر مقدم کیا۔ اس مرحلہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 1979ء میں بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی جو پاکستان کے خلاف کانگریسی قیادت کی روایتی مخاصمت سے کافی حد تک پاک تھی اور بھارت نے پاکستان کی مخالفت نہیں کی ورنہ ہوسکتا تھا کہ پاکستان غیر وابستہ تحریک کی رکنیت حاصل کرنے میں ناکام رہتا جس طرح اب دولت مشترکہ کی دوبارہ رکنیت کے سلسلہ میں محض بھارت کی مخالفت ہی سب سے اہم رکاوٹ ہے۔
اراکین کی تعداد کے لحاظ سے اقوام متحدہ کے بعد غیر وابستہ تحریک دوسرے نمبر پر ہے اس کے اصولوں پر اگر سختی سے عمل کیا جائے تو حقیقت میں دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو یکہ و تنہا چھوڑ کر ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگوائی جاسکتی ہے لیکن جب تحریک کے اصولوں سے قطع نظر اس کے ممبروں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ تحریک بھی ایک فریب سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ امریکہ یا روس کسی بھی طاقت کے ساتھہ کسی ملک کی وابستگی کو اس تحریک کی رکنیت کا نااہل بنا دیتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ تحریک کے رکن ملک کی خارجہ حکمت عملی مکمل طور پرخودمختار ہو لیکن جب ہم تحریک پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک کے بانی ملکوں میں بھی ایسے ملک موجود ہیں جو کسی پہلو سے بھی غیر وابستہ نہیں ہیں کیوبا اور بھارت اس کی روشن مثال ہیں اور اتفاق سے یہ دونوں ملک اس تحریک کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں دونوں ملکوں کا جھکاؤ ہی نہیں بلکہ روس کے ساتھ ان کی دوستی کے معاہدے بھی ہیں اور اسی معاہدے کے نتیجہ میں 1971ء میں بھارت روس کی فوجی مدد سے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہمارے پڑوس میں افغانستان بھی اس تحریک کا سرگرم رکن ہے لیکن اس ملک نے روس کو فوجی اڈے ہی نہیں بلکہ خود اس کو روسی فوج ہی کے سپرد کر رکھا ہے بلکہ وہاں کی حکمت عملی ہی نہیں بلکہ داخلی پالیسی بھی روس ہی کے تحت ہے۔ دراحل نجیب اللہ اور ببرک کارمل کے روپ میں وہاں روس ہی کی حکومت قائم ہے۔ جنوبی یمن، لیبیا اور مشرق یورپ کے کئی ملک فوجی اور اقتصادی امداد تعاون کے معاہدوں کے ذریعہ روس سے وابستہ ہیں لیکن ان کا شمار غیر وابستہ ممالک کی صف اول میں ہوتا ہے پھر داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کی دھجیاں تو بھارت پوری طاقت کے ساتھہ بکھیر رہا ہے۔ اس کی زد سے نہ پاکستان محفوظ ہے اور نہ بنگلہ دیش، نہ نیپال بچا ہوا ہے اور نہ سری لنکا لیکن بھارت تحریک کی رواں مدت کا سربراہ ہے۔ تحریک نے افغانستان پر روسی یلغار کی مذمت سے آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھا بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلہ پر بھی تحریک اسی طرح بے عمل ہے جس طرح اقوام متحدہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے کے لئے بھی قراردادوں سے کام لیا جاتا رہا اور آئندہ اجلاس میں بھی جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی مذمت اور ، ایران عراق سے جنگ بند کرنے اور افغانستان میں غیر ملکی مداخلت ختم کرنے کی اپیلوں ہی پر بس کئے جانے کی امید ہے۔ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کی موجودگی میں غیر وابستہ تحریک کے نام سے کسی تنظیم کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اس لئے کہ مذمتی اور مدافعتی قراردادیں منظور کرنے میں تو اقوام متحدہ کا ادارہ بہت آگے ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چند ممالک نے اپنی چودھراہٹ کیلئے یہ ڈرامہ رچایا ہوا ہے اور چھوٹے ملک ایک فیشن یا علاقائی مجبوری کے تحت ان کے پیچھے لگنے کے لئے مجبور ہیں۔
غیر وابستگی یا غیر جانبداری اس حد تک تو تسلیم کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی دونوں بڑی طاقتوں میں سے کسی کا بھی حاشیہ بردار بننے سے بچایا جائے اور کسی بھی ملک کو اپنے ملک میں فوجی ادارے قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر وابستگی اور غیر جانبداری کا معنی اور مفہوم بدل گیا ہے کہ روس کی طرف جھکاؤ یا ظالم کو ظالم قرار نہ دینا اور مظلوم کی مدد نہ کرنا ہی غیر جانبداری قرار دی جاتی ہے حالانکہ یہ بات واضح جانبداری ہی نہیں بلکہ ظلم بھی ہے اس لئے کہ جارح کی نشاندہی اور ظالم کی مذمت نہ کرنا بھی صریح جانبداری ہے اس لحاظ سے تقریباً تمام ہی ملک اس جانبداری کے مجرم ہیں لیکن کچھہ ملکوں نے وابستگی کی پھبتی سے بچنے کے لئے اور چند ملکوں نے اس بہانے روس یا امریکہ سے فوجی اور اقتصادی امداد حاصل کرنے کی غرض سے خود کو اس تحریک سے وابستہ کررکھا ہے۔ تحریک کے پہلے اجلاس میں ہر قسم کی جنگ اور اختلافات کا واحد حل پرامن طور پر مل جل کررہنے کے اصول کو قرار دیا گیا تھا لیکن تحریک کے سرکردہ ممالک اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کرتے ہیں ایٹم بم بنارہے ہیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈے اور الزام تراشیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسلئے غیر وابستہ تحریک کے خصوصاً اہم ممالک کو چاہئے کہ خود فریبی کے خول سے باہر نکلیں اور کھل کر حقائق کا سامنا کریں اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو مل بیٹھہ کر طے کرنے کے اصول پر عمل کریں ورنہ پھر یہ تحریک بھی کسی قسم کی کوئی افادیت نہیں رکھتی۔
نشتند و گفتند و برخاستند کے اصول پر عامل تحریک کی بے عملی کے باوجود بھی اس تحریک کی اس افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کی بیشتر آبادی سے نصف سے بھی زیادہ سربراہوں کو وقتاً فوقتاً ایک جگہ مل بیٹھنے کا موقع فراہم ہوتا ہے اور اس طرح مل بیٹھنا بذات خود ایک بڑی افادیت ہے اس طرح سربراہان مملکت کو ایک دوسرے کو جاننے ان کو سمجھنے اور قریب آنے کا موقع ملتا ہے اسے اپنے ملک کے دیہاتوں کی چوپال کا نام دے لیجئے جہاں لوگ ہرروز شام کو مل بیٹھتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں ایک ساتھہ بیٹھنا بھی دنیا کو کئی شر سے محفوظ رکھتا ہے اسلئے اس قسم کی تحریکوں اور تنظیموں کا وجود بہت ضروری ہے ہوسکتا ہے کسی وقت یہی تحریکیں اور تباہی اور بربادی کی طرف بڑھنے سے روک دیں اور دنیا پرامن بقائے باہمی اور حق و انصاف کے اصولوں پر کاربند ہوجائے۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھہ۔
No comments:
Post a Comment