اصل مسٔلہ کیا ہے۔
روزنامہ جنگ پیر 23 اپریل 2007ء
گزشتہ دنوں ایک بیان صدارتی ترجمان سے منسوب اور وزیر اعظم سے منسوب دو بیانات اخبارات کی زینت بنے۔ حکومت کی تبدیلی اور ایک مخالف جماعت کے ساتھہ ڈیل کے حوالے سے تمام قیاس آرائیوں کی سختی کے ساتھہ تردید کرتے ہوئے صدارتی ترجمان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ تبدیلی یا ڈیل کے سلسلہ میں جو لوگ ابہام پیدا کررہے ہیں وہ واضح طور پر جمہوری عمل کو نقصان پہنچارہے ہیں وزیر اعظم سے منسوب بیان میں بھی دو اہم باتیں کہی گئی تھیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ قومی خزانہ لوٹنے والے واپس آئیں گے نہ عوام انہیں آنے دیں گے اور دوسری یہ کہ حکمراں مسلم لیگ ڈیل کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی۔
جہاں تک صدارتی ترجمان کے بیان کا تعلق ہے اگر وہ واقعی صدارتی ترجمان ہی کا جاری کردہ ہے تو پھر بیان میں یہ کہنے کی بجائے کہ ابہام پیدا کرنے والے جمہوری عمل کو نقصان پہنچا رہے ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی خبر دی جانی چاہئے تھی اس لئے کہ جو لوگ ابہام پیدا کرکے جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کررہے ہیں وہ صدارتی ترجمان کی طرح گمنام نہیں نہ وہ ملک سے باہر ہیں بلکہ وہ ملک کے اندر ہی ہیں بڑے معروف اور نامور لوگ ہیں بلکہ ان کا تو خود یہ دعویٰ ہے کہ وہ صدر پرویز مشرف کے مزاج شناس ہی نہیں قابل اعتماد اور حقیقی ترجمان وہی ہیں۔ وفاقی کابینہ کے چند ممتاز وزیروں ہی کی طرف سے ڈیل اور دبے الفاظ میں تبدیلی کے اشارے بڑے واضح الفاظ میں کئے جارہے ہیں لیکن صدارتی ترجمان یا حیرت انگیزطور پر اتنا بے خبر ہے یا پھر اس کی طرف سے تجاہل عارفانہ سے کام لیا جارہا ہے کہ کئی ماہ سے وہ ایک وزیروں کی طرف سے اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ قوم کو رواں تبصرے کی طرح بالخصوص ڈیل کے بارے میں کوارٹر سیمی اور فائنل کی مسلسل خبر دی جارہی ہے اور ڈیل کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے جیسے پیپلز پارٹی سرکاری لیگ میں ضم ہورہی ہو جب کہ دوسری طرف سے کم از کم یہ بات تو دو ٹوک الفاظ میں کہی جارہی ہے کہ صدر کی وردی سے متعلق کسی قسم کی سودے بازی یا ڈیل نہیں ہوگی جبکہ حکمرانوں کا تو اصل مسئلہ ہی وردی ہے۔ اگر ہم ہر قسم کے خوف اور ذہنی تخفظات سے بالاتر ہو کر سوچیں تو یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ شیروانی میں ملبوس صدر کے بارے میں یہ قیاس کہ اسے فوج کی تائید و حمایت حاصل نہیں رہے گی عساکر پاکستان پر عدم اعتماد کے مترادف ہے ہمارے فوجی جوان نظم و ضبط کے لحاظ سے دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔ وہ صدر مملکت یعنی سپریم کمانڈر کے احکامات کو ہرگز نظرانداز نہیں کریں گے۔
یہ سمجھنا درست نہیں کہ اگر باوردی صدر نہ ہوتا تو زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے وہ نہ تو سرعت کے ساتھہ حرکت میں آتی نہ سکھر کے پل کی مرمت کرکے سندھ کو صحرا ہونے سے بچاتی۔ قیام پاکستان سے آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ فوج کے جوانوں نے سرحدوں کی پکار پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے سے یا ناگہانی آفات کی صورت میں اپنے ہموطنوں کی مدد کیلئے آگے بڑھنے سے محض اس لئے گریز کیا ہو کہ ملک کا سربراہ فوجی نہیں بلکہ شہری ہے۔ بہرحال صدارتی ترجمان کو اگر پختہ یقین ہے کہ حکومت کی تبدیلی اور ڈیل کی باتیں کرنے والے واقعی جمہوریت کو نقصان پہنچارہے ہیں تو پھر اس صورتحال سے بچنے کے لئے صدر مملکت کو اپنی آستینوں کو جھاڑنا ہوگا اس لئے کہ وہ گھناؤنا کھیل کھیلنے والے چھپے بیٹھے ہیں۔
یہ کہنا کہ قومی خزانہ لوٹنے والے واپس آئیں گے نہ عوام انہیں آنے دیں گے آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی تو ہے ہی لیکن یہ ہماری طرف سے سنگین جرائم کی حوصلہ افزائی بلکہ مجرموں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔ اگر ملک کا کوئی بھی چھوٹا بڑا شہری قومی دولت کو لوٹ کر یا قومی عزت و وقار کو نقصان پہنچا کر ملک سے باہر بھاگ گیا ہے تو حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ ایسے افراد کو چاہئے وہ دنیا میں کہیں کیوں نہ چھپے بیٹھے ہوں تلاش کرکے ملک میں لائے، مقدمہ چلائے اور جرم ثابت ہوجائے تو قومی خزانہ کو پہنچایا گیا نقصان پورا بھی کیا جائے اور مجرم کو عبرتناک سزا بھی دی جائے اور کسی لٹیرے یا ملزم یا مجرم کو خود حکومت نے ملک سے بھگا دیا ہو تو ایسا کرنے والوں کو بھی ملزم کے ساتھہ پکڑ کر قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ تو ہمارے ملک کا ان پڑھ مزدور بھی جانتا ہے کہ قومی دولت کے لٹیروں کا اصل ٹھکانہ ملک میں قائم قید خانے ہیں نہ کہ انہیں بیرون ملک پرتعیش زندگی گزارنے کی اجازت۔ اس سے تو ہم لوگوں بلا واسطہ یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ وہ قومی دولت کو لوٹیں۔ ملک سے فرار ہوجائیں اور باہر جاکر چین سے اپنی زندگی بسر کریں۔ ہمارے آئین کی دفعہ 15 ہر شہری کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور رہائش اختیار کرنے کا حق دیتی ہے اس لئے ہمارا یہ کہنا کہ کسی کو ملک کے اندر آنے نہیں دیا جائے گا آئین کی کھلی خلاف ورزی بلکہ توہین ہے اگر ہم مذہب اور باعزت اقوام میں اپنا شمار کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھہ لینا ہو گا کہ اعلٰی سے اعلٰی منصب پر فائز کوئی بھی شخص آئین و قانون سے بالاتر ہے نہ کسی بھی ادنٰی سے ادنٰی شہری کو ان حقوق و اختیارات سے محروم کیا جاسکتا ہے جو آئین اور قانون کی رو سے اسے حاصل ہے۔
یہ دعویٰ خلاف حقیقت ہے کہ حکمراں مسلم لیگ ڈیل کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اگر ایسا ہوتا تو ملک کا سیاسی کلچر آج یقیناً بالکہ مختلف ہوتا اور ہم دنیا کے جمہوری ملکوں کے صف میں باعزت مقام کے حامل ہوتے۔ قائد اعظم سے منسوب کوئی بھی سیاسی جماعت ہرگز یہ نہیں کرسکتی تھی کہ ملک کا صدر باوردی ہو نیز اقتدار حاصل کرنے کی خاطر نیب زدہ اراکین پارلیمنٹ کو بلیک میل کرکے انہیں حکمراں اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاتا اور اس کے عوض قانون کو ان کے خلاف حرکت میں آنے سے روک دیا جائے۔ آئین، قانون اور روایات کی ابجد نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اکثریتی پارٹی کو حکومت سازی کی دعوت دی جائے اگر وہ پارٹی اس میں ناکام ہوجائے تو پھر دوسرے راستے اختیار کئے جائیں لیکن ہم اس مسلمہ اصول کی کبھی پابندی نہیں کرتے خاص طور پر سندھ میں تو ہمیشہ ہی اس اصول کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ہمارے ملک میں جماعتی وفاداریاں بدلنے پر پابندی رہی ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اپنی سہولت کی خاطر چند دنوں کے لئے اسے معطل کرکے گھوڑوں کی خریداری کو جائز قرار دیا اور جیسے ہی اپنا مقصد حاصل کرلیا پھر اس پابندی کو بحال کردیا۔ مہذب قومیں اس قسم کے کھیلوں کو ہر گز پسند نہیں کرتیں۔
پیپلز پارٹی کے ساتھہ ڈیل کی خبریں جب بڑی حد تک حقیقت کے قریب معلوم ہوئیں تو ہم نے یہ کہنا شروع کردیا کہ مسلم لیگ ڈیل کی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اس کا سبب یہ خوف معلوم ہوتا ہے کہ انتخابات میں امید ہے کہ پیپلز پارٹی بے نظیر کی قیادت میں ق لیگ کے مقابلہ میں بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئے گی اور ملک میں سیاست کا نقشہ بدل جائے گا اور آج جو لوگ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ماضی میں کی گئی اپنی بدعنوانیوں کی جواب دہی سے محفوظ بھی ہیں وہ بے سہارا اور تنہا رہ جائیں گے اور نتیجتاً قانون کی زد سے ان کا بچنا محال ہوجائے گا۔ دوسرے الفاظ میں قومی احتساب بیورو کے درجنوں "مطلوبین" ایوان اقتدار میں مہیا کردہ محفوظ پنا گاہ سے محروم ہوجائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھہ اگر ڈیل ہوئی بھی تو وہ ق لیگ کے ساتھہ نہیں صدر جنرل مشرف کے ساتھہ ہوگی اس لئے لیگی رہنما یہ کہنے کا حق ضرور رکھتے ہیں کہ وہ ڈیل کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے اس لئے اگر وہ ڈیل ہوجاتی ہے جس کے بہت چرچے ہیں تو ق لیگ تو ویسے ہی سیاست کے میدان سے باہر ہوجائے گی اس لئے بدقسمتی سے اس کی سیاست کا محور تو باوردی صدر ہیں اگر وہی شیروانی یا عوامی لباس میں آگئے تو پھر ق لیگ کو تحلیل ہونے سے کسی کے لئے بھی بچانا مشکل ہوجائے گا۔
ہمارے خطہ میں اتحادوں کی سیاست رواج پارہی ہے ۔ اس لئے اگر جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر میں ڈیل کے ذریعہ ہی کوئی اتحاد ہوتا ہے تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں البتہ یہ حق اس ملک کے ہر شہری کو حاصل ہے کہ وہ ایسی ڈیل یا ایسے اتحاد کی ڈٹ کر مخالفت کرے جو آمریت کو مضبوط اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا باعث بنے یا جس کے ذریعہ ملک کی آزادی اور خود مختاری پر آنچ آتی ہو اور کسی غیر ملکی قوت کی مداخلت یا مشاورت میں اضافہ ہوتا ہوقوم اب صرف قومی مفاد میں کئے گئے اتحاد ہی کی حمایت کرے گی اور وہ خوب جانتی ہے کہ قومی مفاد کیا ہیں اس لئے ہمارے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ قوم کو مکمل آزادی اور خودمختاری کے باعزت اور پروقار راستے پر گامزن ہونے دیں۔ اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کی خاطر وہ قوم کے مفادات کا سودا نہ کریں۔ یہی قوم پر ان کا بہت بڑا احسان ہوگا۔
No comments:
Post a Comment