درپیش آزمائشیں

روزنامہ جنگ اتوار 25 فروری 2007ء

امریکہ کے سحر سے آزاد صاحبان فہم و فراست اور فکر و تدبر تو شروع دن ہی سے یہ سمجھتے آرہے ہیں کہ جس طرح انسانی جان دنیا میں سب سے زیادہ بے وفا اور بے ثبات ہے بالکل اسی طرح امریکہ کے ساتھہ دوستی بھی انتہائی ناپائیدار اور غیر یقینی ہے۔ یہ دوستی کس قدر طویل یا قلیل ہوگی اس کا تماتر دارومدار امریکہ کے اپنے محدود مفادات اور اس کی اپنی ضرورت پر ہے البتہ اس کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ دوستی کے دوران بھی امریکہ اپنے دوستوں خاص طور پر مسلم ممالک کو پابندیاں سہنے کا عادی بنانے کے فرض سے کبھی غافل نہیں رہتا بلکہ اب تو زیادہ تر دانشور یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جس حکمراں کو تاریخ میں نشان عبرت بنانا مقصود ہو امریکہ اس کے ساتھہ دوستی کی پینگیں بڑھاتا، اس کی تعریف و توصیف کے پل باندھتا ہے کہ وہ خود کو اپنی قوم سے بالا و برتر سمجھہ کر اس سے الگ تھلگ ہوجاتا ہے۔ ماضی کو بھول جائیے وسط ستمبر 2001ء میں ٹیلیفون پر "پتھر کے دور میں بھیج دینے" کی محبت بھری گفتگو سے امریکہ کے ساتھہ ہماری ازسرنو تو دوستی کا آغاز ہوا۔ ہم نے امریکہ کو محفوظ بنانے کی خاطر خود اپنی آزادی ، خودمختاری، سالمیت، عزت و وقار اور قومی یکجہتی سب کو داؤ پر لگادیا۔ اس راہ وفا میں ہمارے سیکڑوں فوجی اور محب وطن شہری شہید کروادیئے کچھہ ہم نے اور کچھہ امریکی فوجیوں نے بمباری کرکے کئی بستیوں کو تباہ کردیا ہم نے ان سیکڑوں مسلمانوں کو جو ہمارے لئے کبھی امن و امان کا مسئلہ نہیں بنے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا تاکہ گوانتانامو میں تاریخ کا بدترین عقوبت خانے سجا کر ہٹلر کو خراج عقیدت پیش کیا جاسکے۔ اس کے صلے میں خودکش حملوں کا تحفہ ملا جن کی زد میں عام شہری بھی ہیں، خود صدر مملکت بھی ہیں اس کے علاوہ ہمیں القاعدہ اور اب طالبان کے تربیتی کیمپوں اور مقبوضہ کشمیر میں "دہشت گرد" کاروائیوں کی سرپرستی، جوہری صلاحیت کے پھیلاؤ میں تعاون ، القاعدہ کی قیادت کو راہداری وار محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کے الزامات سے بھی نوازا گیا۔ امریکہ آج دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور عسکری قوت ہے اس کے پاس جس قسم کے جدید ترین اور مہلک ترین ہتھیار ہیں وہ ہمارے احاطہ تصور میں بھی نہیں آسکتے ایسی فوج کی طرف سے یہ الزام ہمارے لئے بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کی اتحادی فوج اس لئے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپارہی کہ پاکستان ان کی اس طرح مدد نہیں کررہا جس طرح کرنی چاہئے۔ امریکی وزیر خارجہ کو اعتراض ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں حکومت پاکستان اور قبائلی سرداروں کے ساتھہ ہونے والے سمجھوتے کے نتیجے میں طالبان مزید مضبوط ہوتے ہیں اس بیان کا مقصد اس کے سوا اور کوئی نہیں کہ ہمیں اپنے شہریوں کے ساتھہ مسلح تصادم کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے قومی یکجہتی اور جذبہ حب الوطنی کو ختم کرکے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی غلطی سے باز نہیں آنا چاہئے۔ ابتداء میں امریکہ کی طرف سے مذکورہ بالا سمجھوتے کی تائید کی لیکن افغان حکومت اور وہاں متعین اتحادی فوج کی کمان کی طرف سے مخالفت کی گئی تھی۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اسرائیل کے زیر اثر مغرب بشمول امریکہ دل سے چاہتے بھی ہیں اور ان کی کوشش بھی یہی رہتی ہے کہ کوئی مسلمان ملک مستحکم اور طاقتور نہ ہونے پائے۔ پاکستان کو کمزور ، بے اثر ار بے وقعت بنائے بغیر خطہ میں بھارت کی بالادستی قائم اور چین کے مقابلہ پر اسے کھڑا کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے محولہ بالا بیان سے پہلے نیٹو فوج کے ایک کمانڈر کا یہ بیان آچکا ہے کہ پاکستانی علاقہ میں کاروائی ان کا حق ہے لیکن وزیر خارجہ کے بیان کے فوراً بعد امریکہ کے موقر روزنامہ نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے کہ پینٹاگون یا امریکی محکمہ دفاع شمالی وزیرستان میں القاعدہ کے مبینہ تربیتی کیمپوں کو براہ راست نشانہ بنانے کے حق میں ہے۔ اخبار کے مطابق دہشت گردی مخالف کچھہ ماہرین کا خیال ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پاکستان اپنے عزم میں سنجیدہ نہیں ہے ان کا خیال یہ ہے کہ طالبان کو اب تک پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے اور اس کی وجہ ان کے مطابق یہ ہے کہ علاقے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے میں طالبان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان کے بارے میں پاک فوج کے دل میں نرم گوشے کی بات کے پیچھے دو انتہائی خطرناک مقاصد کارفرما معلوم ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ایک تو یہی ہے کہ شمالی وزیرستان میں مبینہ تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کے بہانے پر امن شہریوں اور ان کی بستیوں کو نشانہ بنا کر لوگوں کو حکومت سے متصادم کروادیا جائے دوسرا یہ کہ ایسی صورتحال سے صدر جنرل پرویز مشرف کیلئے بھی مشکلات پیدا ہوں گی اور ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوجائے گا کہ اتحادی فوج کے ساتھہ تعاون پاکستان کے بہترین قومی مفاد میں ہے لیکن اس کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ پاک فوج کو القاعدہ اور طالبان کا حامی قرار دیکر یہ واویلا مچایا جائے گا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے غیر محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور فوج کے کنٹرول میں ہونے کے سبب انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جاسکتے ہیں اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہمارا دوست امریکہ ایسی لایعنی باتیں کہہ چکا ہے اور ہائیڈروجن بم سمیت مہلک ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرہ کا مالک امریکہ جو عالمی امن، آزادی اور انسانی حقوق کا بھی واحد ٹھیکیدار بنا بیٹھا ہے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ پاکستان جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک کی حیثیت سے قائم رہے وہ انہیں ختم کرنے کیلئے کوئی بھی حربہ اختیار کرنے میں آزاد ہے اور وہ ایسا دنیا کے "وسیع تر مفاد" میں کرے گا۔ امریکہ کے اس الزام کو تو ہم پہلے ہی تسلیم کرچکے ہیں کہ ایٹمی صلاحیت کے ناجائز پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار ہمارا ہی رہا ہے اور اس اعتراف کے نتیجے میں کم از کم حکومتی سطح پر پاکستان کے بابائے ایٹم بم کو ایک عظیم قومی ہیرو سے عالمی مجرم بنا کر قید کردیا ہے۔ صوبہ سرحد کے گورنر نے کابل کے حکمرانوں اور وہاں موجود اتحادی فوجوں کو جب یہ کہ کر آئینہ دکھا دیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تم اتنا کچھہ تو کرو جتنا ہم کرچکے ہیں تو وہ برا مان گئے اور افغان وزارت خارجہ کی طرف سے ایک تیز و تند بیان میں گورنر کے بیان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت قرار دے دیا لیکن افغان اہلکار شاید یہ بھول گئے کہ ان کی طرف سے ہمارے علاقے میں توپوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بمباری کی جاتی ہے اور اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ ایسا ہی کرتے رہیں گے ان کی نظر میں مسلح دراندازی شاید مداخلت کے زمرے میں نہیں آتی ویسے بھی جو لوگ غیر ملکی فوجیوں کے زیر سایہ اور انہی کی عنایت کے طفیل حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہوں انہیں کیا معلوم کہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیا ہوتی ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے خیال میں گورنر سرحد کی طرف سے طالبان کی مزاحمت کو غیر ملکی افواج کے خلاف جدوجہد سمجھنا "دہشت گردی کو تحریک آزادی" قرار دینے کے مترادف ہے جو ان کے بقول اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اس کے دوسرے ہی دن وہاں اپنی موجودگی کو ثبوت دیتے ہوئے گورنر کے بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور وضاحت طلب کی آیا کہ بیان حکومت پاکستان کی سوچ کا عکاسی ہے۔ سچی بات پر سیخ پا ہونے کی بجائے زیادہ مناسب یہ تھا کہ گورنر کے اٹھائے گئے اس اعتراض کا جواب دیا جاتا تاکہ 2500 کلومیٹر طویل پاک ، افغان سرحد پر پاکستان نے 1000 فوجی چوکیاں قائم کی ہیں جبکہ اتحادی اور افغان افواج نے صرف 100 چوکیاں قائم کی ہیں اور وہ بھی سرحد سے تیس ، چالیس کلومیٹر دور۔ افغان حکومت ، اتحادی فوج کے کمانڈوز، امریکی وزیر خارجہ اور اب پینٹاگون کی طرف سے وقتاً فوقتاً آنے والے بیانات کا واحد مقصد جیسا کہ اس سے پہلے کالم میں لکھا جاچکا ہے اپنی ناکامیابی کی پردہ پوشی ہے۔ امریکی وزارت دفاع کی طرف سے پاکستان کی حدود میں کاروائی کی منصوبہ بندی افغانستان اور اتحادی افواج کے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ پاکستان امریکہ کا کتنا ہی قریبی اتحادی کیوں نہ ہو ہماری سرحدوں کے تقدس کی پامالی عوام ہی نہیں خود حکومت کیلئے بھی ناقابل برداشت ہوگی۔

No comments:

Post a Comment