قابل تقلید فیصلہ

روزنامہ

خود کو قوم کا نجات دہندہ، بابائے قوم اور صاحب عقل کل، فکر و تدبر اور فہم و دانش سمجھنا، ہر قسم کی غلطیوں سے پاک اور ہر قسم کی تنقید سے بالاتر قرار دینا، مملکت کے وجود اور اس کی یکجہتی و سالمیت کو اپنے وجود سے اور اس کی عزت و وقار کو اپنی عزت و وقار سے مشروط اور ذانی یا گروہی مفادات کو قومی مفادات قرار دینا، مخالفین کو غدار وطن کی سند دے کر پس دیوار زنداں یا ملک بدر کردینا، ہر دور میں ہر آمر کے کم و بیش یہی بنیادی اصول اور طور طریقے رہے ہیں لیکن اللہ جل شانہ جن آمروں کی عقل کا انتہائی معمولی حصہ بھی سلب کرنے سے چھوڑدیتا تو وہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر قوم کے مفاد میں کوئی اچھا فیصلہ کرجاتے ہیں۔ غالباً جنرل ایوب خان کے ساتھہ بھی اسی قسم کا معاملہ پیش آیا۔ اقتدار کے نصف النہار پر جب وہ عشرہ، ترقی و خوش حالی کا جشن پوری طرح منا بھی نہیں پائے تھے کہ ملک میں ان کے خلاف تحریک شروع ہوگئی اور قوم نے صدارتی طرز حکومت اور بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو یکسر مسترد کردیا اور بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر پارلیمانی نظام پر متفق ہوگئی۔ ملک میں ہر جگہ ہڑتالیں، مظاہرے اور حقیقی پہیہ جام کے مناظر عام ہوگئے تو ان کے حوارین نے جن کے اپنے اقتدار کی بقاء کا سوال بھی تھا، اقتدار کی طوالت کو قوم کی آواز اور آئین کے مطابق قرار دینے کی خاطر ریفرینڈم کا نسخہ کیمیا پیش کیا لیکن صدر ایوب خان نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا کہ ملک کی سڑکوں پر جو کچھہ ہوتہا ہے وہی ریفرینڈم ہے۔ تقریباً پانچ ماہ سے جاری اس پوری تحریک کے دوران 70 سے زیادہ شہری فوج اور پولیس کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے جن میں کم از کم 38 افراد صرف فروری کے تیسرے ہفتے کے دوران مارے گئے۔ اس سنگین صورت حال کے پیش نظر ایوب خان نے 21 فروری کو ریڈیو پر اپنے تاریخی خطاب میں کہا۔ " میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ پاکستان کی فلاح ہے میں اس کی مٹی کے ہر ذرہ سے پیار کرتا ہوں، میں قائل ہوچکا ہوں کہ امن و امان کی بحالی کی خاطر میں جو بھی قدم اٹھاؤں گا ملک کے مستقبل اور اس کی تاریخ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ میں ہر مشکل وقت میں رہنمائی کے لئے اللہ سے دعا کرتا ہوں، اپنے ایمان کی روشنی میں، میں نے یہ اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ میں آئندہ انتخابات میں امیدوار نہیں ہوں گا۔ یہ میرا قطعی فیصلہ ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ " اس اعلان کے فوراً بعد احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوگیا، اس لئے کہ ان کا ہدف صدر ایوب تھے اور وہ آئندہ صدارتی امیدوار بھی نہیں ہوں گے۔ اس طرح ایک انتہائی دانش مندانہ فیصلے سے حالات کا رخ مڑ گیا ، یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلے کے ایک ماہ بعد یعنی 25 مارچ کو حصول اقتدار کے لئے جنرل یحیٰی کی رگ بھی پھڑک اٹھی اور اس نے آئین کو ختم، حکومت کو معزول اور ایوب خان کو مسند اقتدار سے رخصت کردیا۔ تسلیم کہ ایوب خان نے اپنے حلف کو توڑا، ملک کے آئین کو ختم کیا، حکومت کو معزول اور پارلیمنٹ کو لپیٹ کر رکھہ دیا۔ بلاشبہ وہ سیاسی عزائم بھی رکھتے تھے ، انہوں نے مادر ملت کو انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے شکست دی اور اقتدار کو میراث میں بدلنے کے لئے جانشین بھی تیار کرلیا تھا لیکن جب دیکھا کہ قوم اب مزید انہیں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تو فوج کی طاقت کے ذریعے قوم پر مسلط رہنے کے بجائے خود رخصت ہونا پسند کیا۔

آج ملک میں بم دھماکے ہوں یا خودکش حملے، پولیس اور فوج کے تربیتی مراکز میں کاروائی ہو یا نگرانی کے لئے قائم چوکیوں پر کراچی کے شرمناک واقعات ہوں یا ملک کو مارشل لاء یا ہنگامی حالات کی بھٹی میں جھونکنے کی باتیں غلط یا صحیح ان سب کے ڈانڈے امریکا تک ملائے جاتے ہیں اور بشمول پاکستان ساری دنیا کے مسلمان ( حکمرانوں کو چھوڑ کر) امریکا کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور امریکا کے وحشیانہ اقدامات سے یہ ثابت بھی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی غلط یا صحیح پاکستان بلکہ مسلم دنیا میں امریکی اقتدار اور امریکی مفادات کا نمائندہ سمجھہ لیا گیا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر ہمارے یہاں جو کچھہ ہورہا ہے وہ محض امریکا دشمنی کا نتیجہ ہے۔ بریں بناء اگر صدر جنرل پرویز مشرف فیلڈ مارشل ایوب خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ اعلان کردیں کہ وہ صدارتی انتخابات میں باوردی نہ بے وردی حصہ لیں گے اور ساتھہ ہی وہ فوج سے بھی علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں تو یقین کے ساتھہ کہا جاسکتا ہے ملک کو دہشت گردی اور خودکش حملوں جیسے افسوسناک واقعات سے فوری اور یکسر نجات مل جائے گی، علاوہ ازیں تاریخ میں اس جرأت مندانہ فیصلے کو ایثار و قربانی کی روشن مثال کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا اور دنیا میں ملک کا وقار بلند ہونے میں بھی بڑی مدد ملے گی لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج ہم جس مضطرب ، مشتعل اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں ، اس سے نجات مل جائے گی، بظاہر کوئی وجہ بھی نظر آتی کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ بھی محسوس کریں گے کہ ملک اور قوم کے مفادات پو وہ کسی بھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ اس قسم کے فیصلے میں اگر کوئی امر مانع ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ صدر مملکت ایسے لوگوں کے حصار میں ہیں جن کی اکثریت مالی، اخلاقی اور سیاسی بدعنوانیوں میں ملوث اور قانون کو مطلوب ہیں ، انکی سیاسی زندگی تو مشروط ہی صدر جنرل پرویز مشرف کے باوردی اقتدارسے ہے۔ اگر یہ عناصر خدانخواستہ جنرل پرویز کو قوم کی خواہشات اور ملک کے مفادات کے خلاف فیصلہ کروانے کی سازش میں کامیاب ہوگئے تو پھر ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا کہ قائد ملت لیاقت علی خان کے ان الفاظ کا دور شروع کردی جو انہوں نے اپنی شہادت کے وقت ادا کیے تھے۔

" اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔"

No comments:

Post a Comment