نظریۂ پاکستان کیا تھا؟ کیا بنادیا گیا

روزنامہ

قیام پاکستان کے بعد ہی سے نظریۂ پاکستان کی من مانی تشریحات و تاویلات شروع کردی گئی تھیں چنانچہ ایک جماعت اپنے سیاسی مقاصد کیلئے نظریۂ پاکستان کو اسلام اور اسلامی نظام کے ہم معنٰی قرار دینے کی کوشش کرتی رہی عوام کی ایک خاصی تعداد اور کچھہ خواص نے سادگی میں اس تاویل کو بڑی حد تک قبول بھی کرلیا لیکن جب اس جماعت کے سیاسی مقاصد سامنے آئے تو لوگوں نے نظریہ پاکستان پر غور کرنا شروع کیا کہ وہ دراصل کیا تھا چنانچہ اس جماعت کے سیاسی غلبہ سے بچنے کے لئے بعض لوگوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنے ہی لیڈروں کی تقریروں اور بیانات کومنا فقت پر مبنی قرار دیکر دعویٰ کیا کہ "پاکستان کی بنیاد معاشی ضروریات اور تقا ضوں پر رکھی گئی تھی لیکن مسلم لیگی لیڈروں نے عوام کو محض خوش کرنے کئلیے اسلام اور مذہب کی باتیں بھی کردی تھیں تاہم پاکستان کی اساس کسی طرح مذہبی افکار و نظریات پر نہ ہے اور نہ لیڈروں نے کبھی مذہبی اساس پر پاکستان کی تعمیر کے بارے میں سوچا تھا" سیکولر ذہن کے دانشوروں کا انداز فکر یہی ہے جبکہ اسلام کے نعرے سے جان چھڑانے کے خواہشمند اکثر لوگوں نے "پاکستانی قومیت" کے نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی اس طرح انہوں نے اُسی وطنی قومیت کے نظریہ کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتارنا چاہا جس کے خلاف مسلمان برسوں جدو جہد کرتے رہے تھے اور بالآخر جس وطنی قومیت کے نظریہ کو کو ٹھکراکر انہوں نے پاکستان کو اپنی منزل قرار دیا تھا اور فکروعمل کے میدان میں طویل کشمکش کے بعد 1947ء میں انگریزوں ہندوؤں اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے علی الرعم پاکستان بنانے میں وہ کا میا ب ہوئے تھے وطنی قومیت کے نظریہ کو اپنا لر چونکہ انگریز کو ہندوستان سے نکالنا آسان نظر آتا تھا اس لئے انگریز دشمنی کے تحت بعض بڑے بڑے اہل علم بھی مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ "قومیتیں اوطان سے بنتی ہیں" لیکن سکے باوجود" وطنیت" کے بنت کو برصغیر کے مسلمانوں نے علامہ اقبال کی ہدایت اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے پر عمل کرتے ہوئے اس بت کو فی الواقع خاک میں ملادیا۔

لیکن ان رہنمایان کرام کی عقل و دانش کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جنہوں نے اسی مسلم قوم کو پاکستان کی وطنی قومیت کا درس دینا شروع کیا جس نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرکے وطنی قومیت کے نظریۂ کو ابھی کل ہی تو مسترد کیا تھا۔ پھر اسلامی نظام کے دلکش سیاسی نعرے کی مقبولیت کے ڈر سے ان حضرات نے پاکستانی قومیت کے نعرے کے ساتھہ ساتھہ صوبائی اور علاقائی " ثقافتوں" اور "قومیتیوں" کی سرپرستی بھی شروع کر دی۔ مسلم قوم کی تاریخ سے رشتہ جوڑنے کے بجائے موہنجودڑو ، پڑپہ اور گندھار تہذیب سے رشتے جوڑے جانے لگے۔

اسلامی نظام کے "خطرے" سے بچنے کے لئے رسوائے زمانہ " فرزندزمین" کا نظریہ تراشا گیا، ہر حکومت اسلام کا نام زبان سے برابر دہراتی رہی لیکن دوسری طرف کوشش یہ کرتی رہی کہ (1) اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ذہنی الجھاؤ پیدا ہو اور فرقہ ورانہ اختلافات کو اچھالا جائے ۔ (2) عام لوگوں کو حتی الوسع مادہ پرستی میں مبتلا کرکے ان کی اسلامی حس کو کند کردیا جائے۔ (3) علاقائی اور صوبائی ثقافتوں کو ابھارکر اسلامی وحدت کے تخیل کو ختم کیا جائے۔ (4) پاکستان سے باہر رہ جانے والے برصغیر کے مسلمانوں کو اور پاکستان میں باہر رہ جانے والے برصغیر کے مسلمانوں کو اور پاکستان میں آنے والے مہاجرین کو جو نظریۂ پاکستان کے علمبردار بن سکتے تھے اور بنے ہوئے تھے ان کو بے اثر کرنے کے لئے (الف) پاکستان میں مستحق بھارتی مسلمانوں کا داخلہ بند کردیا گیا۔ (ب) پاکستان میں رہنے والے مہاجرین اور بھارتی مسلمانوں کے میل جول اور تعلقات کو مشکل بلکہ ناممکن بنانے کیلئے۔

(1) کھوکھر پار کا راستہ قانونی سفر کیلئے بند کیا گیا۔

(2) ڈاک کی شرحوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا۔

(3) ہندوستان مسلمانوں کو ویزا دینے میں سخت مشکلات کھڑی کی گئیں۔

(ج) پاکستان میں آباد ہونے والے مہاجرین کو ملازمتوں میں، سیاست میں، زمینداری میں تعلیم میں ڈومیسائل اور پی آر سی کے چکر میں ڈال کر تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا کیونکہ یہ لوگ اسلام، پاکستان اور جمہوریت کے سب سے زیادہ علمبردار بنتے تھے۔

(د) 1979ء سے بننے والے شناختی کارڈ منسوخ کرکے کہا گیا ہے کہ اب صرف اسکوقومی شناختی کارڈ ملے گا جو پاکستان میں داخل ہونے کی تاریخ کا ثبوت پیش کرے اور اگر وہ خود پاکستان میں پیدا ہو تو پیدائش کے سرٹیفیکٹ کے علاوہ اپنے والد کے داخلہ پاکستان کی تاریخ کا ثبوت بھی پیش کرے۔

(ہ) پاکستان کے نوجوانوں کو ثقافت کے نام پر عریانی اور فحاشی میں مبتلا کیا گیا تاکہ وہ اسلام کا نام لینا بھول جائیں۔

ایک طرف دین سے ناواقف قیادت اور بیوروکریسی نے اسلامی نظام کا راستہ روکنے کے لئے مذکورہ بالا اور اس سے ملتی جلتی بے شمار تدابیر اختیار کیں دوسری طرف سیاسی مقاصد کے لئے اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو اپنے پرفریب نعرے میں گرفتار کرنے کیلئے کئی تدابیر اختیار کیں۔

مثلاً یہ کہ

(1) انہوں نے خود کو تحریک پاکستان کا اصل والی وارث ثابت کرنا شروع کردیا اور مسلم لیگ یا اسکی قیادت پر " اسلامی نظام" کو قائم کرنے کے نقطۂ نظر سے جو بے رحمانہ تنقیدیں انہوں نے قیام پاکستان سے قبل کی تھیں ان سب کو سختی کے ساتھہ چھپایا۔ اس طرح مسلم لیگ اور اسکی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نےپاکساتان کی جو مخالفت کی تھی اس پر بھی حتٰی الوسع پردہ ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک کے وقت صاف صاف کہا تھا۔ " کافروں کی حکومت سے بھی زیادہ مجوزہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قائم کرنا دشوار ہوگا کیونکہ پاکستان کے " نام نہاد" مسلمان حکمران اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کو جیلوں میں بھیجیں گے اور تختہ دار پر چڑھائیں گے اور پھر بھی وہ " جیتے ہی غازی رہیں گے اور مرکر رحمۃ اللہ علیہ کہلائیں گے۔"

ہاں! ان سب حقائق کو چھپا کر انہوں نے دعویٰ شروع کردیا کہ پاکستان بنا ہے تو انکی وجہ سے بنا ہے اس طرح انہوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے خود اپنے اصولی موقف سے انحراف بھی کیا اور اسلامی نظام کے قیام کا جو فطری راستہ خود انہوں نے انبیاء کی تاریخ کی روشنی میں طے کیا تھا اس کو چھوڑ کر ان مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں لگ گئے جن میں خود انکے بقول 999 فی ہزار لوگ" اصلی" نہیں محض " نسلی مسلمان" ہیں۔

(2) دوسرا طریقہ انہوں نے یہ اختیار کیا کہ نظریۂ پاکستان اور اسلام کو ہم معنی اور مترادف قرار دینے کیلئے

(الف) پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے کو خوب خوب پھیلایا۔

(ب) اپنے پرزور پروپیگینڈے سے ثابت کیا کہ اسلامی نظام کے بغیر پاکستان قائم نہیں رہ سکتا۔

(ج) مسلم قوم کی تشکیل میں نسلی تعلق، معاشی مفادات کی یکسانیت ، تاریخی روایت کی وحدت ہندوؤں کے متعصابانہ طرز عمل کے اثرات وغیرہ تمام عوامل کو نظر انداز کرکے صرف اسلامی عقیدہ کےعنصر پر سارا زور صرف کرکے ثابت کیا کہ مسلم قوم کی تشکیل محض اسلامی عقیدے پر ایمان کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 1977ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد تو نظریۂ پاکستان کی تشریح و تفسیر بس یہی رہ گئی کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے۔

لیکن ان دونوں انتہاؤں سے دور رہ کر قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفیق جناب ایم اے ایچ اصفہانی نے نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے 8 مئی 1970ء کو لکھا تھا جب پاکستان کے لئے کشمکش اپنے شباب پر تھی اس وقت ہم جس چیز کو نظریۂ پاکستان سمجھتے تھے وہ یہ بات تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک ہوم لینڈ (قومی گھر) وجود میں لایا جائے جس میں رہ کر مسلمان اپنی زندگی کو خود اپنے اپنے نور علم کے مطابق ترقی دیں اور ہندوؤں نیز انگریزوں کی بالادستی سے آزاد ہوں۔" لیکن جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ کوئی تحریک یا نظریہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتا بلکہ وہ وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ بدلتے ہوئے حالات اور مخالفانہ قوتوں کے ظہور کے حوالے سے نشوونما پاتا رہتا ہے چنانچہ تحریک پاکستان کا نظریہ بھی انہی مرحلوں سے گزرتا رہا جبکہ اس کا وہ بنیادی مقصد جس کا پہلے ذکر کرچکا ہوں جوں کا توں قائم رہا بہرحال یہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا وجود جتنا قریب تر ہوتا گیا اور یہ خواب جتنا واضح اور روشن نظر آنے لگا برصغیر کے مسلمانوں میں اتنا ہی زیادہ اس ریاست اور اس ہوم لینڈ کی آرزو اور اشتیاق پیدا ہوتا چلا گیا جس ریاست کا اقتدار ان کے پرشوق ہاتھوں میں منتقل ہونے والا تھا۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کی اس آرزو اور جذبے کی مؤثر انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے آواز بلند کی چنانچہ 1940ء سے 1948ء کے عرصے میں قائد اعظم کی تقدیر کو توجہ کے ساتھہ پڑھنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ اس دور میں اس ریاست کے بارے میں کوئی حقیقت طے نہیں کی گئیں اور نہ یہ تفصیلات اس وقت طے کرنا شاید کسی طرح مناسب ہوتا کیونکہ اس وقت بجا طور پر ساری جدوجہد اس نقطہ پر مرکوز تھی کہ کسی نہ کسی طرح برصغیر کے مسلمانوں کا ہوم لینڈ ان حکمران انگریزوں کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے جو اس لئے کسی طرح تیار نہ تھے اور ان ہندوؤں کے ہاتھوں سے اسے نکال لیا جائے جو اپنی تین چوتھائی بے رحم اکثریت کے ذریعے ہم پر ہندو راج تھوپنا چاہتے تھے۔ رفتہ رفتہ ایسے اسباب اور تصورات ابھر کر سامنے آگئے جنہوں نے مسلمانوں میں حرکت و عمل کی روح پھونکی وہ مختصراً یہ ہیں۔

(الف) اسلامی تصورات کے مطابق زندگی کی تعمیر کرنے کی خواہش

(ب) مسلم قوم پرستی۔

(ج) اسلامی جمہوریت۔

(د) اسلام کا عدل اجتماعی یا جیسا کہ قائد اعظم نے 1948ء میں اپنی چٹاکانگ والی تقریر میں کہا تھا " اسلامی سوشلزم" (اسکو دین اور منکر خدا سوشلزم" کے ساتھہ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ سوشلزم ہے جس کی برکتوں سے وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس کے اندر اخوت، مساوات حریت کا دور دورہ ہوتا ہے اور جس معاشرہ میں عام انسان کو بھی کچھہ نہ کچھہ " دخل" حاصل ہوتا ہے۔

(ہ) برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے ہوم لینڈ کی حیثیت سے پاکستان کو قائم کرنا واقعہ یہ ہے کہ پاکستان محض "فرزندان زمین" کے تحفظ کے لئے قائم نہیں کیا گیا تھا لیکن اس وقت سے اب تک " سکھر بیراج کے دروازوں سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔" چنانچہ اسی نظریہ میں حکمران پارٹی یا ٹولہ کی ضروریات کے مطابق وقتاً فوقتاً توسیع اور اضافہ ہوتا رہا مگر ان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment