تقسیم کشمیر کا شوشہ

روزنامہ 06 ، 06، 2003

جب سے یہ خبر آئی ہے کہ امریکی سی آئی اے نے پاکستان اور بھارت کے ایسے نقشے جاری کردیئے ہیں کن کے مطابق تقسیم کو کشمیر کا حتمی فیصلہ قرار دیا جانا ہے تو پاکستان میں بھی اس کی حمایت میں صاف آوازیں سنائی دی جانے لگی ہیں غالباً کچھہ ذمہ داران حکومت کے سپرد یہ کام کردیا گیا ہے کہ وہ تقسیم کشمیر کے حق میں رائے عامہ کو ہموار کریں۔ اسی طرح تنازع کشمیر کے متعلق پاکستان کی حکومت اور عوام کے پرانے اور منصفانہ موقف کو کمزور ثابت کرنے کیلئے بھی ملک میں ایک غیر محسوس مہم شروع کردی گئی ہے اس سلسلے کی سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تقسیم کشمیر کو ممکنہ حل قرار دینے میں خود آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعظم پیش پیش ہیں گو کسی بھی سیاسی یا حکومتی حلقے کی طرف سے اس کی تائید میں کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکومت پاکستان کی طرف سے اس کی مخالفت میں بھی کوئی بیان نہیں آیا ہے اسلئے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ سکندر حیات خان سرکاری موقف ہی کو پیش کررہے ہیں۔ موصوف نے سوال کیا ہے کہ "پنجاب اور بنگال تقسیم ہوسکتے ہیں تو کشمیر کیوں نہیں؟" ہر ہوشمند پاکستانی کو اس سوال کا جواب معلوم ہے اور وہ یہ ہے کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا واحد سبب برطانیہ اور ہندو کانگریس کا مسلم دشمن گٹھہ جوڑ تھا پھر ماؤنٹ بیٹن دیمک زدہ اور لولا لنگڑا پاکسان قائم کرنا چاہتا تھا تاکہ یہ قائم ہوتے ہی ختم ہوجائے۔ یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ تقسیم کشمیر کی تجویز پارٹیشن پلان یعنی ہندو انڈیا اور مسلم پاکستان کے قریب تر ہے پارٹیشن پلان کے سرسری مطالعے ہی سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ تقسیم کشمیر کی تجویز تو پارٹیشن پلان کی صریح خلاف ورزی ہے اس لئے کہ پارٹیشن پلان میں صاف صاف یہ بتادیا گیا تھا کہ برصغیر کی 562 ریاستوں میں سے ہر ریاست کو ایک "اکائی" کی حیثیت حاصل ہوگی اور پاکستان یا بھارت میں شامل ہونے کے فیصلہ کا اطلاق بحیثیت مجموعی پوری ریاست پر ہوگا۔ "منصوبہ تقسیم" تینوں فریقوں مسلم لیگ، کانگریس اور حکومت برطانیہ کے نمائندوں کی منظوری کے بعد نافذ العمل ہوا تھا دوسرے الفاظ میں یہ ایک ایسا معاہدہ تھا جس پر عملدرآمد کی ذمہ داری تینوں فریقوں پر عائد ہوتی تھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یہ پلان مسلمان دشمنی پر مبنی تھا لیکن نہرہ ، ماؤنٹ بیٹن سازش کو ناکام بنانے کیلئے ضروری تھا کہ جیسا بھی ملے پاکستان حاصل کرلیا جائے اگر قائد اعظم ایسا نہ کرتے تا ماؤنٹ بیٹن نے تہیہ کررکھا تھا کہ وہ اقتدار کانگریس کے حوالے کرکے بھاگ جائے گا۔ حد بندی کمیشن کے چیئرمین ریڈکلف نے اپنے فیصلے کو اسی سازش کے تحت 15 اگست 1947ء تک مسلم لیگی قیادت سے خفیہ رکھا اس فیصلے کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلم اکثریتی تحصیلیں جو پاکستان سے متصل تھیں طے شدہ اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاکستان کے بجائے بھارت کا حصہ قرار دے دی گئیں اس کا مقصد بھارت کو ریاست جموں اور کشمیر کے لئے زمینی راستہ فراہم کرنا تھا۔ ادھر تقریباً 6 ہزار مربع میل پر محیط مرشد آباد وغیرہ کا مسلم اکثریتی علاقہ بھی جو مشرقی پاکستان سے متصل تھا بھارت کا حصہ قرار دیے دیا گیا "بددیانتی" کو خالص رکھنے کیلئے ریڈ کلف نے یہ اہتمام بھی کیا کہ ہندو اکثریت کی ایک انچ زمین بھی پاکستان کا حصہ قرار نہیں دی گئی۔ ریڈ کلف کے اسی ظالمانہ اور انتہائی جانبدرانہ فیصلے کے سبب تنازع کشمیر پیدا ہوا دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں ہوئیں اور اس خطے کے عوام امن و سکون اور باہمی اعتماد کی دولت سے محروم اور غربت اور بیروزگاری کے عذاب میں آج بھی مبتلا ہیں۔

ہر شخص کی یہ تمنا ہے کہ پاک بھارت مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں لیکن یہ سمجھنا کہ ان کی کامیابی کی امید اسلئے ہے کہ اس مرتبہ برطانیہ اور امریکہ ایسا چاہتے ہیں تو یہ ہماری خام خیالی بلکہ خود فریبی ہے ہم اس تلخ حقیقت سے صرف نظر نہیں کرسکتے کہ تنازع کشمیر کے سلسلے میں برطانیہ کا بنیادی کردار رہا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا تاریخی کردار تو چھوڑیئے کہ ہم تاریخ پر اعتبار ہی نہیں کرتے ہمارے سامنے آج جو کچھہ افغانستان ، عراق اور فلسطین میں کیا جارہا ہے اور جو شام، ایران، سعودی عرب ، لیبیا اور پاکستان کے سلسلے میں کیا جاتا ہے اسے تو ہم بخوبی سمجھہ سکتے ہیں کہ مذاکرات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہمیں یہ بات سمجھہ لینی چاہئے کہ جموں بھارت کو اور کشمیر پاکستان کو ملے یا موجودہ لائن آف کنڑول کو ہی مستقل بین الاقوامی سرحد قرار دے دیا جائے ہر صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان جگھڑے ہورے رہیں گے پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگائے جاتے رہیں گے اور بعید نہیں کہ سرد جنگ ماضی کی طرح وقفے وقفے سے سرگرم جنگ کی صورت بھی اختیار کرتی رہے۔ تقسیم کشمیری عوام ہرگز قبول نہیں کریں گے اور ان کی تحریک آزادی جاری رہے گی خون بہتا رہے گا ار بھارت کی فوج آزادی کے متوالے "دہشت گردوں" کو شہید کرتی رہے گی پس ہمیں سمجھہ لینا چاہئے کہ تنازع کشمیر کا واحد منصفانہ اور پائیدار حل محض اقوام متحدہ کی منظور کردہ قراردادوں کے مطابق عوام کو حق خود ارادیت کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کرنے میں مضمر ہے۔ عالمی ادارے نے جموں و کشمیر کو علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک ریاست تسلیم کیا ہے اس حقیقت میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے تنازع کے حل میں یہ راز بھی پوشیدہ ہے کہ فیصلہ چاہے پاکستان کے حق میں ہو یا بھارت کے حق میں، کسی بھی فریق کو احساس ندامت نہیں ہوگا اور اکثریتی فیصلے کے سامنے وہ طبقہ بھی خاموش ہوجائے جو مخالف رائے رکھتا ہوگا۔ اگر کوئی تاریخ میں امر ہونا چاہتا ہے یا کسی کو امن کو نوبل انعام لینا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ دونوں ملکوں کے عوام کو تقسیم کی دائمی بھٹی میں نہ جھونکے۔ تاریخ میں نام چھوڑنے کےلئے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کو ان کی خواہش کے مطابق ریاست کے مسقبل کے فیصلہ کا اختیار دیا جائے۔ ہمیں اس خوش فہمی میں بھی مبتلا نہیں رہنا چاہئے کہ امریکہ کی گہری دلچسپی کے سبب تنازع کشمیر کا پائیدار حل نکل آئے گا۔ امریکہ بار بار یہ کہتا رہا ہے کہ وہ صرف امریکی مفادات کے مطابق کام کرے گا اور پاک بھارت تعلقات کو معمول پر آنے میں امریکہ کا مفاد نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے اختلافات ختم ہوکر دوستی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں تو صنعتی اور تجارتی ترقی میں یہ ممالک دوسرے ملکوں کر پیچھے چھوڑنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور انہیں الجھا کر رکھا ہی اس لئے گیا ہے کہ کہیں یہ کسی کی چوہدراہٹ کو ختم نہ کردیں۔

No comments:

Post a Comment