وی ۔ سی ۔ آر کی درآمد پر مکمل پابندی لگائی جائے
سامان تعیش کی درآمد پر سہولتیں دینا قوم کی خدمت نہیں
روزنامہ
وفاقی وزیر غلام دستگیر خان صاحب کے دورے کے موقع پر پیش کردہ عرضداشتیں بلادی کے گزشتہ شماروں میں شائع ہوئی ہیں جن سے بیرون ملک اور خاص طور پر متحدہ عرب امارت نیز سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو پیش آمدہ مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر محنت کے متحدہ امارات کے موقع پر 27 مارچ کو پاکستانیوں کا کنونشن ہوا جس میں راقم الحروف نے بھی مقالہ پیش کیا تھا۔ اسی مقالہ کی تلخیص پیش کررہا ہوں۔
27 مارچ 82ء کو ابوظہبی میں پاکستانیوں کے کنونشن میں حسب ذیل مقالہ پیش کیا گیا۔ اس کنونشن میں وزیر محنت جناب غلام دستگیر خاں کی قیادت میں آئے ہوئے وفد نے شرکت کی۔ اگر شائع فرماسکیں تو ممنون ہوں گا۔
یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں سے حاصل زرمبادلہ کو تعمیری منصوبوں میں لگانے کے سلسلہ میں کوئی قابل ذکر قدم حکومت کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا۔ ملک سے باہر آنے والوں میں مزدور پیشہ اور ان پڑھ لوگوں کی اکثریت ہے ان سے نہ تو حکومت پاکستان نے رابطہ قائم کیا اور نہ ہی کسی اور پاکستانی ادارے نے ان کو مفید اور دیرپا منصوبوں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے اپنی کمائی کا بیشتر حصہ غیر پیداواری منصوبوں ہی میں لگانا شروع کردیا یا سامان تعیش کو جمع کرنے ہی میں انہوں نے اپنی معراج سمجھا اس سلسلے میں سرکاری اداروں نے بڑی غفلت اور غیر دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے وہ ادارے یہ سمجھتے رہے کہ غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو سامان تعیش ملک میں درآمد کرنے کی سہولتیں دینا ہی قوم اور ملک کی خدمت ہے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے آج صورتحال یہ ہے کہ خلیج کے ملکوں میں سامان تعیش اور الیکٹرونکس کے کاروبار کی ترقی یہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کی ہی مرہون منت ہے۔ ہر پاکستانی جو چھہ آٹھہ ماہ بعد اپنے ملک جاتا ہے اس کے ساتھہ سینکڑوں گز قیمتی کپڑا، کیسٹ ریکارڈ، ٹی وی ، دستی گھڑیاں ، پرفیوم کی بوتلیں، سگریٹوں کے پیکٹ تو ہوتے ہی ہیں اس کے علاوہ وی۔ سی۔ آر اور بھارتی فلموں کے کیسٹ اور دیگر اشیاء اسمگل کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی جاتی ہے۔ کامیاب کوشش سے کیا مراد ہے متعلقہ حکام یہ خوب سمجھتے ہیں ۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر اسمگلنگ کی حالیہ کوششوں کو ناکام بنانے پر محکمہ کسٹم کے اہکار مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن آئے دن ہونے والی چھوٹے اور بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی ذمہ داری بھی نہیں قبول کرنی ہوگی۔
جہاں تک ملک میں سرمایہ کاری کا تعلق ہے اس سلسلے میں صرف ایک ہی میدان زیادہ دلکش معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے فلیٹوں کی بکنگ اور پلاٹوں کی خریداری لیکن دراصل یہ شعبہ سب سے زیادہ غیر پیداوری ہے اور بیشتر واقعات ایسے ہیں کہ اس میں جو شخص ایک بار پھنس جاتا ہے وہ سالہا سال تک اس سے نہیں نکل پاتا۔ اور اسلام آباد، کرچی اور لاہور وغیرہ میں سرکاری اداروں کی طرف سے جو منصوبے پیش کئے جاتے ہیں شرائط ادائیگی کے لحاظ سے وہ اکثریت کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بار بار ان کی تاریخوں کو بڑھایا جاتا ہے۔ لیکن خریدار پھر بھی نہیں ملتے۔ کے ڈی اے کی طرف سے چھہ سال سے زیادہ عرصہ پہلے مہران ٹاؤن کا اجزاء تو ایک " کیس " بن چکا ہے۔
زرمبادلہ کے سلسلہ میں چند باتیں قابل غور ہیں۔ بہت سےپاکستانی اپنا روپیہ ہنڈی کے ذریعے بھیجتے ہیں یہ غیر قانونی بھی ہے اور حب الوطنی کے تقاضوں کے منافی بھی لیکن لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ انسان چونکہ لالچی واقع ہوا ہے اور حوالے کے ذریعے رقم بھیجنے والے کو بنکوں کے مقابلے میں بہتر ریٹ ملتا ہے۔ اس لئے وہ چند سکوں کی خاطر ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ ایسا کرکے اس نے ملک اور قوم کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں کوئی ایسا ادارہ یا ایسے افراد ہیں ہی نہیں جو لوگوں کو بتا سکیں کہ بنک کے ذریعے رقم بھیجنے سے ملک کو کیا فائدے ہوسکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی مغربی علاقوں میں بنکاری کی وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ہونی چاہئیں۔ اس لئے "حوالہ" کے ذریعے رقم بھیجنا آسان اور محفوظ طریقہ سمجھاتا ہے۔ بنکوں میں کئی دن تک ایڈوانس کا انتظار کیا جاتا ہے اور روپیہ متعلقہ افراد کو بروقت نہیں مل پاتا اس بنا پر بھی رقم ہنڈی کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم اور تکلیف دہ بات یہاں کے پاکستانی بنکوں کا حوصلہ شکن اور غیر ہمدردانہ رویّہ بھی ہے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی بنکوں کے عملے کا برتاؤ اپنے ہم وطنوں کے ساتھہ زیادہ مناسب نہیں رہا ہے اور نہ ہی ان بنکوں کے ریٹ دوسرے بنکوں یا مالی اداروں کے نرخوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس لئے جو لوگ بنکوں کے ذریعے روپیہ اپنے ملک منتقل کرتے ہیں ان کو اکثریت غیر پاکستانی بنکوں یا نجی اداروں ہی کے ذریعہ ایسا کرتے ہیں یا پھر وہ دوسرے سے بنکوں کے چکر ہی میں پڑنا مناسب نہیں سمجھتے ۔
اس سلسلہ میں چند تجاویز ہیں جنہیں ہوسکتا ہے کچھہ حضرات پسند نہ کریں جو تجاویز پیش کی جارہی ہیں وہ دو قسم کی ہیں ایک کا تعلق کسٹم سے بالفاظ دیگر درآمدی حکمت عملی سے اور دوسری قسم کا تعلق ملک کے مالیاتی اداروں سے ہے۔ لیکن ادھر دو تجویز کا مرکزی نکتہ ملک کی زرمبادلہ کے حالت کے بہتر بنانے اور ملکی صنعت کی ترقی سے ہے۔ درآمدی پالیسی سے متعلق تجاویز یہ ہیں۔
1۔ جو پاکستانی چھہ ماہ باہر رہ کر ملک واپس جائے اسے مناسب کسٹم ڈیوٹی کے ساتھہ فریج، واشنگ مشین، گیس کوکر وغیرہ درآمد کرنے کی اجازت تو ہو لیکن اشیاء کا اندراج پاسپورٹ میں کیا جائے اور ہر چھہ ماہ کی بجائے تین سال میں ایک مرتبہ یہ سامان لے جانے کی اجازت ہو۔
2۔ جو سامان کافی تعداد میں اپنے ملک میں بنایا جارہا ہے وہ سامان درآمد کرنے پر مکمل پابندی لگادی جائے البتہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی زرمبادلہ میں جو سامان خریدنا چاہیں انہیں خصوصی رعایت اور اوّلیت دی جائے۔ اس مقصد کے لئے ملک میں تیار مال کی قیمتوں کو مستحکم اور کوالٹی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔
3۔ وی سی آر کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اسے درآمد کی کوشش کرنے والے پر جرمانہ عائد کیا جائے اور وی سی آر کو ضبط کرلیا جائے۔ اس لئے کہ یہ ایک ایسا نشہ آور آلہ ہے جو روپے کنبہ ہی کو نہیں بلکہ اڑوس پڑوس کے پورے ماحول کو پراگندہ اور مسکر کردیتا ہے اس لئے اس پر منشیات کے قانون کے تحت بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔
4۔ ملک میں اس وقت جو وی سی آر ہیں ان پر ریڈیو سیٹ اور ٹی وی کی طرح لائسنس گیس مقرر کی جائے اور جو وی سی آر اب تک بغیر ڈیوٹی ادا کئے درآمد کئے گئے ہیں ان کا کھوج لگا کر ان پر مروجہ شرح سے ڈیوٹی جرمانہ کے ساتھہ وصول کی جائے۔
5۔ گھریلو دستکاری میں کام آنے والے سامان کو ڈیوٹی سے مستشنٰی قرار دیا جائے۔ مثلاً سلائی کی مشین وغیرہ۔
6۔ کچھہ سامان ایسا ہے جو ہر چھہ ماہ بعد بغیر ڈیوٹی کے درآمد کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً کیمرہ، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ اس طریقہ کار کو بدلا جائے اور تین سال تک ان اشیاء کی درآمد کی اجازت نہ دی جائے۔
دوسری قسم کی تجاویز زرمبادلہ کے سلسلے میں ہیں جن پر متعلقہ محکمے غور کرکے بہتر نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں تجاویز یہ ہیں۔
1۔ جو پاکستانی بیرون ملک سے بنکوں کے ذریعے رقم پاکستان بھیجے اسے مناسب بونس دیا جائے۔ مثال کے طور پر دس ہزار تک ڈھائی فیصد اور یہ بونس اسے چھوٹی صنعت لگانے کے لئے مشینری یا گھر میں دستکاری میں کام آنے والے آلات میں درآمد کرنے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت ہو۔ یہ رقم ایک سے زیادہ افراد مل کر استعمال کرنے کے مجاز بھی ہوں تاکہ شرکت کا کاروبار بھی فروغ پاسکے۔
2۔ تیار ملبوسات کی صنعت، مرغبانی، زراعت اور ٹرانسپورٹ کو ترقی دینے کی سلسلے میں غیر ممالک میں کام کرنے والوں کو راغب کرنے کے لئے ذرائع اختیار کئے جائیں اور انہیں اس سلسلے میں درآمد کی مراعات بھی دی جائیں اور موجودہ رعایتوں سے انہیں آگاہ کیا جائے۔
3۔ حکومت کی طرف سے چھوٹی صنعتوں کی اسکیمیں بنا کر عوام کے سامنے پیش کی جائیں تاکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک میں بے شمار صنعتیں قائم کی جاسکیں۔ نتیجتاً ملک سے بیروزگاری ، غربت اور تیار مال کے سلسلے میں غیر ممالک پر تکیہ ختم ہوسکے۔ خصوصاً بیرونی ممالک سے مستقل طور پر واپس جانے والے افراد کے لئے اس قسم کی اسکیمیں مرتب کی جائیں کہ وہ بیرونی زرمبادلہ کا استعمال اپنے اور اپنے ملک کے فائدے کے لئے بہتر طور پر کرسکیں۔
4۔ ملک کے ہر حصے میں چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے علاقوں کے جال بچھادیئے جائیں جہاں صنعتوں کے قیام کے سلسلے میں بیرون ملک کام کرنے والوں کو ترجیح دی جائے۔
5۔ بیرون ملک کام کرنے والوں کو زرعی زمین الاٹ کی جائے لیکن خود کاشت کی پابندی کے ساتھہ تاکہ اسے ایک نیا کاروبار بننے سے روکا جاسکے اور اس کی افادیت ختم نہ ہوجائے۔
6۔ ملک میں جاری بچت اسکیموں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حصہ لینے کے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں اور آئی سی پی میومل فنڈ اور این آئی ٹی یونٹ بیرون ملک فروخت کرنے کے انتظام کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے علاوہ جو رقم بنکوں کے ذریعے بھیجی جائے اس سے ان کی خریداری کو ترجیح دی جائے۔
7۔ غیر ممالک میں پاکستانی بنکوں کے ذریعے نفع نقصان کی بنیاد پر پاکستان میں جاری اسکیم کے سلسلے میں بھی یہاں سے کھاتے کھولنے کی سہولت فراہم کی جائے۔
یہ تو تھیں چند تجاویز جن پر عملدرآمد اور کامیابی کے لئے سرکاری اداروں اور غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں ہی کا نہیں بلکہ پاکستان میں ہمارے ان عزیز و اقارب اور دوست احباب کا تعاون بھی درکار ہے ۔ جو وقتاً فوقتاً ہمیں اپنی چھوٹی بڑی اور جائز و ناجائز فرمائشوں سے نوازتے رہتے ہیں۔
ساتھہ ہی ایک جائز اور ضروری رعایت کی بات اور وہ یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زرمبادلہ کی شکل یں مناسب فیس کی وصولی کے بعد پاکستان میں ان کے گھروں پر ٹیلی فون کنکشن کی فراہمی میں بھی ترجیح دی جائے۔