وی ۔ سی ۔ آر کی درآمد پر مکمل پابندی لگائی جائے

سامان تعیش کی درآمد پر سہولتیں دینا قوم کی خدمت نہیں

روزنامہ

وفاقی وزیر غلام دستگیر خان صاحب کے دورے کے موقع پر پیش کردہ عرضداشتیں بلادی کے گزشتہ شماروں میں شائع ہوئی ہیں جن سے بیرون ملک اور خاص طور پر متحدہ عرب امارت نیز سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو پیش آمدہ مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وفاقی وزیر محنت کے متحدہ امارات کے موقع پر 27 مارچ کو پاکستانیوں کا کنونشن ہوا جس میں راقم الحروف نے بھی مقالہ پیش کیا تھا۔ اسی مقالہ کی تلخیص پیش کررہا ہوں۔

27 مارچ 82ء کو ابوظہبی میں پاکستانیوں کے کنونشن میں حسب ذیل مقالہ پیش کیا گیا۔ اس کنونشن میں وزیر محنت جناب غلام دستگیر خاں کی قیادت میں آئے ہوئے وفد نے شرکت کی۔ اگر شائع فرماسکیں تو ممنون ہوں گا۔

یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانیوں سے حاصل زرمبادلہ کو تعمیری منصوبوں میں لگانے کے سلسلہ میں کوئی قابل ذکر قدم حکومت کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا۔ ملک سے باہر آنے والوں میں مزدور پیشہ اور ان پڑھ لوگوں کی اکثریت ہے ان سے نہ تو حکومت پاکستان نے رابطہ قائم کیا اور نہ ہی کسی اور پاکستانی ادارے نے ان کو مفید اور دیرپا منصوبوں میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے اپنی کمائی کا بیشتر حصہ غیر پیداواری منصوبوں ہی میں لگانا شروع کردیا یا سامان تعیش کو جمع کرنے ہی میں انہوں نے اپنی معراج سمجھا اس سلسلے میں سرکاری اداروں نے بڑی غفلت اور غیر دور اندیشی کا ثبوت دیا ہے وہ ادارے یہ سمجھتے رہے کہ غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کو سامان تعیش ملک میں درآمد کرنے کی سہولتیں دینا ہی قوم اور ملک کی خدمت ہے حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے آج صورتحال یہ ہے کہ خلیج کے ملکوں میں سامان تعیش اور الیکٹرونکس کے کاروبار کی ترقی یہاں کام کرنے والے پاکستانیوں کی ہی مرہون منت ہے۔ ہر پاکستانی جو چھہ آٹھہ ماہ بعد اپنے ملک جاتا ہے اس کے ساتھہ سینکڑوں گز قیمتی کپڑا، کیسٹ ریکارڈ، ٹی وی ، دستی گھڑیاں ، پرفیوم کی بوتلیں، سگریٹوں کے پیکٹ تو ہوتے ہی ہیں اس کے علاوہ وی۔ سی۔ آر اور بھارتی فلموں کے کیسٹ اور دیگر اشیاء اسمگل کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی جاتی ہے۔ کامیاب کوشش سے کیا مراد ہے متعلقہ حکام یہ خوب سمجھتے ہیں ۔ ملک کے اندر اور ملک کے باہر اسمگلنگ کی حالیہ کوششوں کو ناکام بنانے پر محکمہ کسٹم کے اہکار مبارکباد کے مستحق ہیں لیکن آئے دن ہونے والی چھوٹے اور بڑے پیمانے پر اسمگلنگ کی ذمہ داری بھی نہیں قبول کرنی ہوگی۔

جہاں تک ملک میں سرمایہ کاری کا تعلق ہے اس سلسلے میں صرف ایک ہی میدان زیادہ دلکش معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے فلیٹوں کی بکنگ اور پلاٹوں کی خریداری لیکن دراصل یہ شعبہ سب سے زیادہ غیر پیداوری ہے اور بیشتر واقعات ایسے ہیں کہ اس میں جو شخص ایک بار پھنس جاتا ہے وہ سالہا سال تک اس سے نہیں نکل پاتا۔ اور اسلام آباد، کرچی اور لاہور وغیرہ میں سرکاری اداروں کی طرف سے جو منصوبے پیش کئے جاتے ہیں شرائط ادائیگی کے لحاظ سے وہ اکثریت کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بار بار ان کی تاریخوں کو بڑھایا جاتا ہے۔ لیکن خریدار پھر بھی نہیں ملتے۔ کے ڈی اے کی طرف سے چھہ سال سے زیادہ عرصہ پہلے مہران ٹاؤن کا اجزاء تو ایک " کیس " بن چکا ہے۔

زرمبادلہ کے سلسلہ میں چند باتیں قابل غور ہیں۔ بہت سےپاکستانی اپنا روپیہ ہنڈی کے ذریعے بھیجتے ہیں یہ غیر قانونی بھی ہے اور حب الوطنی کے تقاضوں کے منافی بھی لیکن لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ انسان چونکہ لالچی واقع ہوا ہے اور حوالے کے ذریعے رقم بھیجنے والے کو بنکوں کے مقابلے میں بہتر ریٹ ملتا ہے۔ اس لئے وہ چند سکوں کی خاطر ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے وہ یہ نہیں جانتا کہ ایسا کرکے اس نے ملک اور قوم کو کتنا بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں کوئی ایسا ادارہ یا ایسے افراد ہیں ہی نہیں جو لوگوں کو بتا سکیں کہ بنک کے ذریعے رقم بھیجنے سے ملک کو کیا فائدے ہوسکتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور شمالی مغربی علاقوں میں بنکاری کی وہ سہولتیں حاصل نہیں ہیں جو ہونی چاہئیں۔ اس لئے "حوالہ" کے ذریعے رقم بھیجنا آسان اور محفوظ طریقہ سمجھاتا ہے۔ بنکوں میں کئی دن تک ایڈوانس کا انتظار کیا جاتا ہے اور روپیہ متعلقہ افراد کو بروقت نہیں مل پاتا اس بنا پر بھی رقم ہنڈی کے ذریعے بھیجی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم اور تکلیف دہ بات یہاں کے پاکستانی بنکوں کا حوصلہ شکن اور غیر ہمدردانہ رویّہ بھی ہے یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی بنکوں کے عملے کا برتاؤ اپنے ہم وطنوں کے ساتھہ زیادہ مناسب نہیں رہا ہے اور نہ ہی ان بنکوں کے ریٹ دوسرے بنکوں یا مالی اداروں کے نرخوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اس لئے جو لوگ بنکوں کے ذریعے روپیہ اپنے ملک منتقل کرتے ہیں ان کو اکثریت غیر پاکستانی بنکوں یا نجی اداروں ہی کے ذریعہ ایسا کرتے ہیں یا پھر وہ دوسرے سے بنکوں کے چکر ہی میں پڑنا مناسب نہیں سمجھتے ۔

اس سلسلہ میں چند تجاویز ہیں جنہیں ہوسکتا ہے کچھہ حضرات پسند نہ کریں جو تجاویز پیش کی جارہی ہیں وہ دو قسم کی ہیں ایک کا تعلق کسٹم سے بالفاظ دیگر درآمدی حکمت عملی سے اور دوسری قسم کا تعلق ملک کے مالیاتی اداروں سے ہے۔ لیکن ادھر دو تجویز کا مرکزی نکتہ ملک کی زرمبادلہ کے حالت کے بہتر بنانے اور ملکی صنعت کی ترقی سے ہے۔ درآمدی پالیسی سے متعلق تجاویز یہ ہیں۔

جو پاکستانی چھہ ماہ باہر رہ کر ملک واپس جائے اسے مناسب کسٹم ڈیوٹی کے ساتھہ فریج، واشنگ مشین، گیس کوکر وغیرہ درآمد کرنے کی اجازت تو ہو لیکن اشیاء کا اندراج پاسپورٹ میں کیا جائے اور ہر چھہ ماہ کی بجائے تین سال میں ایک مرتبہ یہ سامان لے جانے کی اجازت ہو۔

جو سامان کافی تعداد میں اپنے ملک میں بنایا جارہا ہے وہ سامان درآمد کرنے پر مکمل پابندی لگادی جائے البتہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی زرمبادلہ میں جو سامان خریدنا چاہیں انہیں خصوصی رعایت اور اوّلیت دی جائے۔ اس مقصد کے لئے ملک میں تیار مال کی قیمتوں کو مستحکم اور کوالٹی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔

وی سی آر کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور اسے درآمد کی کوشش کرنے والے پر جرمانہ عائد کیا جائے اور وی سی آر کو ضبط کرلیا جائے۔ اس لئے کہ یہ ایک ایسا نشہ آور آلہ ہے جو روپے کنبہ ہی کو نہیں بلکہ اڑوس پڑوس کے پورے ماحول کو پراگندہ اور مسکر کردیتا ہے اس لئے اس پر منشیات کے قانون کے تحت بھی پابندی لگائی جاسکتی ہے۔

ملک میں اس وقت جو وی سی آر ہیں ان پر ریڈیو سیٹ اور ٹی وی کی طرح لائسنس گیس مقرر کی جائے اور جو وی سی آر اب تک بغیر ڈیوٹی ادا کئے درآمد کئے گئے ہیں ان کا کھوج لگا کر ان پر مروجہ شرح سے ڈیوٹی جرمانہ کے ساتھہ وصول کی جائے۔

گھریلو دستکاری میں کام آنے والے سامان کو ڈیوٹی سے مستشنٰی قرار دیا جائے۔ مثلاً سلائی کی مشین وغیرہ۔

کچھہ سامان ایسا ہے جو ہر چھہ ماہ بعد بغیر ڈیوٹی کے درآمد کیا جاسکتا ہے ۔ مثلاً کیمرہ، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ وغیرہ اس طریقہ کار کو بدلا جائے اور تین سال تک ان اشیاء کی درآمد کی اجازت نہ دی جائے۔

دوسری قسم کی تجاویز زرمبادلہ کے سلسلے میں ہیں جن پر متعلقہ محکمے غور کرکے بہتر نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں تجاویز یہ ہیں۔

جو پاکستانی بیرون ملک سے بنکوں کے ذریعے رقم پاکستان بھیجے اسے مناسب بونس دیا جائے۔ مثال کے طور پر دس ہزار تک ڈھائی فیصد اور یہ بونس اسے چھوٹی صنعت لگانے کے لئے مشینری یا گھر میں دستکاری میں کام آنے والے آلات میں درآمد کرنے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت ہو۔ یہ رقم ایک سے زیادہ افراد مل کر استعمال کرنے کے مجاز بھی ہوں تاکہ شرکت کا کاروبار بھی فروغ پاسکے۔

تیار ملبوسات کی صنعت، مرغبانی، زراعت اور ٹرانسپورٹ کو ترقی دینے کی سلسلے میں غیر ممالک میں کام کرنے والوں کو راغب کرنے کے لئے ذرائع اختیار کئے جائیں اور انہیں اس سلسلے میں درآمد کی مراعات بھی دی جائیں اور موجودہ رعایتوں سے انہیں آگاہ کیا جائے۔

حکومت کی طرف سے چھوٹی صنعتوں کی اسکیمیں بنا کر عوام کے سامنے پیش کی جائیں تاکہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ملک میں بے شمار صنعتیں قائم کی جاسکیں۔ نتیجتاً ملک سے بیروزگاری ، غربت اور تیار مال کے سلسلے میں غیر ممالک پر تکیہ ختم ہوسکے۔ خصوصاً بیرونی ممالک سے مستقل طور پر واپس جانے والے افراد کے لئے اس قسم کی اسکیمیں مرتب کی جائیں کہ وہ بیرونی زرمبادلہ کا استعمال اپنے اور اپنے ملک کے فائدے کے لئے بہتر طور پر کرسکیں۔

ملک کے ہر حصے میں چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کے علاقوں کے جال بچھادیئے جائیں جہاں صنعتوں کے قیام کے سلسلے میں بیرون ملک کام کرنے والوں کو ترجیح دی جائے۔

بیرون ملک کام کرنے والوں کو زرعی زمین الاٹ کی جائے لیکن خود کاشت کی پابندی کے ساتھہ تاکہ اسے ایک نیا کاروبار بننے سے روکا جاسکے اور اس کی افادیت ختم نہ ہوجائے۔

ملک میں جاری بچت اسکیموں میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو حصہ لینے کے زیادہ مواقع فراہم کئے جائیں اور آئی سی پی میومل فنڈ اور این آئی ٹی یونٹ بیرون ملک فروخت کرنے کے انتظام کا جائزہ لیا جائے۔ اس کے علاوہ جو رقم بنکوں کے ذریعے بھیجی جائے اس سے ان کی خریداری کو ترجیح دی جائے۔

غیر ممالک میں پاکستانی بنکوں کے ذریعے نفع نقصان کی بنیاد پر پاکستان میں جاری اسکیم کے سلسلے میں بھی یہاں سے کھاتے کھولنے کی سہولت فراہم کی جائے۔

یہ تو تھیں چند تجاویز جن پر عملدرآمد اور کامیابی کے لئے سرکاری اداروں اور غیر ممالک میں کام کرنے والے پاکستانیوں ہی کا نہیں بلکہ پاکستان میں ہمارے ان عزیز و اقارب اور دوست احباب کا تعاون بھی درکار ہے ۔ جو وقتاً فوقتاً ہمیں اپنی چھوٹی بڑی اور جائز و ناجائز فرمائشوں سے نوازتے رہتے ہیں۔

ساتھہ ہی ایک جائز اور ضروری رعایت کی بات اور وہ یہ کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے زرمبادلہ کی شکل یں مناسب فیس کی وصولی کے بعد پاکستان میں ان کے گھروں پر ٹیلی فون کنکشن کی فراہمی میں بھی ترجیح دی جائے۔

نظریۂ پاکستان کیا تھا؟ کیا بنادیا گیا

روزنامہ

قیام پاکستان کے بعد ہی سے نظریۂ پاکستان کی من مانی تشریحات و تاویلات شروع کردی گئی تھیں چنانچہ ایک جماعت اپنے سیاسی مقاصد کیلئے نظریۂ پاکستان کو اسلام اور اسلامی نظام کے ہم معنٰی قرار دینے کی کوشش کرتی رہی عوام کی ایک خاصی تعداد اور کچھہ خواص نے سادگی میں اس تاویل کو بڑی حد تک قبول بھی کرلیا لیکن جب اس جماعت کے سیاسی مقاصد سامنے آئے تو لوگوں نے نظریہ پاکستان پر غور کرنا شروع کیا کہ وہ دراصل کیا تھا چنانچہ اس جماعت کے سیاسی غلبہ سے بچنے کے لئے بعض لوگوں نے قیام پاکستان سے قبل اپنے ہی لیڈروں کی تقریروں اور بیانات کومنا فقت پر مبنی قرار دیکر دعویٰ کیا کہ "پاکستان کی بنیاد معاشی ضروریات اور تقا ضوں پر رکھی گئی تھی لیکن مسلم لیگی لیڈروں نے عوام کو محض خوش کرنے کئلیے اسلام اور مذہب کی باتیں بھی کردی تھیں تاہم پاکستان کی اساس کسی طرح مذہبی افکار و نظریات پر نہ ہے اور نہ لیڈروں نے کبھی مذہبی اساس پر پاکستان کی تعمیر کے بارے میں سوچا تھا" سیکولر ذہن کے دانشوروں کا انداز فکر یہی ہے جبکہ اسلام کے نعرے سے جان چھڑانے کے خواہشمند اکثر لوگوں نے "پاکستانی قومیت" کے نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کی اس طرح انہوں نے اُسی وطنی قومیت کے نظریہ کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں اتارنا چاہا جس کے خلاف مسلمان برسوں جدو جہد کرتے رہے تھے اور بالآخر جس وطنی قومیت کے نظریہ کو کو ٹھکراکر انہوں نے پاکستان کو اپنی منزل قرار دیا تھا اور فکروعمل کے میدان میں طویل کشمکش کے بعد 1947ء میں انگریزوں ہندوؤں اور نیشنلسٹ مسلمانوں کے علی الرعم پاکستان بنانے میں وہ کا میا ب ہوئے تھے وطنی قومیت کے نظریہ کو اپنا لر چونکہ انگریز کو ہندوستان سے نکالنا آسان نظر آتا تھا اس لئے انگریز دشمنی کے تحت بعض بڑے بڑے اہل علم بھی مسلمانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ "قومیتیں اوطان سے بنتی ہیں" لیکن سکے باوجود" وطنیت" کے بنت کو برصغیر کے مسلمانوں نے علامہ اقبال کی ہدایت اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے پر عمل کرتے ہوئے اس بت کو فی الواقع خاک میں ملادیا۔

لیکن ان رہنمایان کرام کی عقل و دانش کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے جنہوں نے اسی مسلم قوم کو پاکستان کی وطنی قومیت کا درس دینا شروع کیا جس نے ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرکے وطنی قومیت کے نظریۂ کو ابھی کل ہی تو مسترد کیا تھا۔ پھر اسلامی نظام کے دلکش سیاسی نعرے کی مقبولیت کے ڈر سے ان حضرات نے پاکستانی قومیت کے نعرے کے ساتھہ ساتھہ صوبائی اور علاقائی " ثقافتوں" اور "قومیتیوں" کی سرپرستی بھی شروع کر دی۔ مسلم قوم کی تاریخ سے رشتہ جوڑنے کے بجائے موہنجودڑو ، پڑپہ اور گندھار تہذیب سے رشتے جوڑے جانے لگے۔

اسلامی نظام کے "خطرے" سے بچنے کے لئے رسوائے زمانہ " فرزندزمین" کا نظریہ تراشا گیا، ہر حکومت اسلام کا نام زبان سے برابر دہراتی رہی لیکن دوسری طرف کوشش یہ کرتی رہی کہ (1) اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ذہنی الجھاؤ پیدا ہو اور فرقہ ورانہ اختلافات کو اچھالا جائے ۔ (2) عام لوگوں کو حتی الوسع مادہ پرستی میں مبتلا کرکے ان کی اسلامی حس کو کند کردیا جائے۔ (3) علاقائی اور صوبائی ثقافتوں کو ابھارکر اسلامی وحدت کے تخیل کو ختم کیا جائے۔ (4) پاکستان سے باہر رہ جانے والے برصغیر کے مسلمانوں کو اور پاکستان میں باہر رہ جانے والے برصغیر کے مسلمانوں کو اور پاکستان میں آنے والے مہاجرین کو جو نظریۂ پاکستان کے علمبردار بن سکتے تھے اور بنے ہوئے تھے ان کو بے اثر کرنے کے لئے (الف) پاکستان میں مستحق بھارتی مسلمانوں کا داخلہ بند کردیا گیا۔ (ب) پاکستان میں رہنے والے مہاجرین اور بھارتی مسلمانوں کے میل جول اور تعلقات کو مشکل بلکہ ناممکن بنانے کیلئے۔

(1) کھوکھر پار کا راستہ قانونی سفر کیلئے بند کیا گیا۔

(2) ڈاک کی شرحوں میں غیر معمولی اضافہ کردیا گیا۔

(3) ہندوستان مسلمانوں کو ویزا دینے میں سخت مشکلات کھڑی کی گئیں۔

(ج) پاکستان میں آباد ہونے والے مہاجرین کو ملازمتوں میں، سیاست میں، زمینداری میں تعلیم میں ڈومیسائل اور پی آر سی کے چکر میں ڈال کر تیسرے درجے کا شہری بنا دیا گیا کیونکہ یہ لوگ اسلام، پاکستان اور جمہوریت کے سب سے زیادہ علمبردار بنتے تھے۔

(د) 1979ء سے بننے والے شناختی کارڈ منسوخ کرکے کہا گیا ہے کہ اب صرف اسکوقومی شناختی کارڈ ملے گا جو پاکستان میں داخل ہونے کی تاریخ کا ثبوت پیش کرے اور اگر وہ خود پاکستان میں پیدا ہو تو پیدائش کے سرٹیفیکٹ کے علاوہ اپنے والد کے داخلہ پاکستان کی تاریخ کا ثبوت بھی پیش کرے۔

(ہ) پاکستان کے نوجوانوں کو ثقافت کے نام پر عریانی اور فحاشی میں مبتلا کیا گیا تاکہ وہ اسلام کا نام لینا بھول جائیں۔

ایک طرف دین سے ناواقف قیادت اور بیوروکریسی نے اسلامی نظام کا راستہ روکنے کے لئے مذکورہ بالا اور اس سے ملتی جلتی بے شمار تدابیر اختیار کیں دوسری طرف سیاسی مقاصد کے لئے اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو اپنے پرفریب نعرے میں گرفتار کرنے کیلئے کئی تدابیر اختیار کیں۔

مثلاً یہ کہ

(1) انہوں نے خود کو تحریک پاکستان کا اصل والی وارث ثابت کرنا شروع کردیا اور مسلم لیگ یا اسکی قیادت پر " اسلامی نظام" کو قائم کرنے کے نقطۂ نظر سے جو بے رحمانہ تنقیدیں انہوں نے قیام پاکستان سے قبل کی تھیں ان سب کو سختی کے ساتھہ چھپایا۔ اس طرح مسلم لیگ اور اسکی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نےپاکساتان کی جو مخالفت کی تھی اس پر بھی حتٰی الوسع پردہ ڈالنے کی کوشش کی حالانکہ انہوں نے قیام پاکستان کی تحریک کے وقت صاف صاف کہا تھا۔ " کافروں کی حکومت سے بھی زیادہ مجوزہ پاکستان میں اسلامی نظام کا قائم کرنا دشوار ہوگا کیونکہ پاکستان کے " نام نہاد" مسلمان حکمران اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کو جیلوں میں بھیجیں گے اور تختہ دار پر چڑھائیں گے اور پھر بھی وہ " جیتے ہی غازی رہیں گے اور مرکر رحمۃ اللہ علیہ کہلائیں گے۔"

ہاں! ان سب حقائق کو چھپا کر انہوں نے دعویٰ شروع کردیا کہ پاکستان بنا ہے تو انکی وجہ سے بنا ہے اس طرح انہوں نے عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے خود اپنے اصولی موقف سے انحراف بھی کیا اور اسلامی نظام کے قیام کا جو فطری راستہ خود انہوں نے انبیاء کی تاریخ کی روشنی میں طے کیا تھا اس کو چھوڑ کر ان مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں لگ گئے جن میں خود انکے بقول 999 فی ہزار لوگ" اصلی" نہیں محض " نسلی مسلمان" ہیں۔

(2) دوسرا طریقہ انہوں نے یہ اختیار کیا کہ نظریۂ پاکستان اور اسلام کو ہم معنی اور مترادف قرار دینے کیلئے

(الف) پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کے نعرے کو خوب خوب پھیلایا۔

(ب) اپنے پرزور پروپیگینڈے سے ثابت کیا کہ اسلامی نظام کے بغیر پاکستان قائم نہیں رہ سکتا۔

(ج) مسلم قوم کی تشکیل میں نسلی تعلق، معاشی مفادات کی یکسانیت ، تاریخی روایت کی وحدت ہندوؤں کے متعصابانہ طرز عمل کے اثرات وغیرہ تمام عوامل کو نظر انداز کرکے صرف اسلامی عقیدہ کےعنصر پر سارا زور صرف کرکے ثابت کیا کہ مسلم قوم کی تشکیل محض اسلامی عقیدے پر ایمان کی وجہ سے ہوئی ہے۔ 1977ء میں مارشل لاء لگنے کے بعد تو نظریۂ پاکستان کی تشریح و تفسیر بس یہی رہ گئی کہ اسلام ہی نظریۂ پاکستان ہے۔

لیکن ان دونوں انتہاؤں سے دور رہ کر قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمد رفیق جناب ایم اے ایچ اصفہانی نے نظریۂ پاکستان کی وضاحت کرتے ہوئے 8 مئی 1970ء کو لکھا تھا جب پاکستان کے لئے کشمکش اپنے شباب پر تھی اس وقت ہم جس چیز کو نظریۂ پاکستان سمجھتے تھے وہ یہ بات تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک ہوم لینڈ (قومی گھر) وجود میں لایا جائے جس میں رہ کر مسلمان اپنی زندگی کو خود اپنے اپنے نور علم کے مطابق ترقی دیں اور ہندوؤں نیز انگریزوں کی بالادستی سے آزاد ہوں۔" لیکن جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ کوئی تحریک یا نظریہ ایک حالت پر قائم نہیں رہتا بلکہ وہ وقت گزرنے کے ساتھہ ساتھہ بدلتے ہوئے حالات اور مخالفانہ قوتوں کے ظہور کے حوالے سے نشوونما پاتا رہتا ہے چنانچہ تحریک پاکستان کا نظریہ بھی انہی مرحلوں سے گزرتا رہا جبکہ اس کا وہ بنیادی مقصد جس کا پہلے ذکر کرچکا ہوں جوں کا توں قائم رہا بہرحال یہ ضرور ہوا کہ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا وجود جتنا قریب تر ہوتا گیا اور یہ خواب جتنا واضح اور روشن نظر آنے لگا برصغیر کے مسلمانوں میں اتنا ہی زیادہ اس ریاست اور اس ہوم لینڈ کی آرزو اور اشتیاق پیدا ہوتا چلا گیا جس ریاست کا اقتدار ان کے پرشوق ہاتھوں میں منتقل ہونے والا تھا۔ قائد اعظم نے مسلمانوں کی اس آرزو اور جذبے کی مؤثر انداز میں ترجمانی کرتے ہوئے آواز بلند کی چنانچہ 1940ء سے 1948ء کے عرصے میں قائد اعظم کی تقدیر کو توجہ کے ساتھہ پڑھنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ اس دور میں اس ریاست کے بارے میں کوئی حقیقت طے نہیں کی گئیں اور نہ یہ تفصیلات اس وقت طے کرنا شاید کسی طرح مناسب ہوتا کیونکہ اس وقت بجا طور پر ساری جدوجہد اس نقطہ پر مرکوز تھی کہ کسی نہ کسی طرح برصغیر کے مسلمانوں کا ہوم لینڈ ان حکمران انگریزوں کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے جو اس لئے کسی طرح تیار نہ تھے اور ان ہندوؤں کے ہاتھوں سے اسے نکال لیا جائے جو اپنی تین چوتھائی بے رحم اکثریت کے ذریعے ہم پر ہندو راج تھوپنا چاہتے تھے۔ رفتہ رفتہ ایسے اسباب اور تصورات ابھر کر سامنے آگئے جنہوں نے مسلمانوں میں حرکت و عمل کی روح پھونکی وہ مختصراً یہ ہیں۔

(الف) اسلامی تصورات کے مطابق زندگی کی تعمیر کرنے کی خواہش

(ب) مسلم قوم پرستی۔

(ج) اسلامی جمہوریت۔

(د) اسلام کا عدل اجتماعی یا جیسا کہ قائد اعظم نے 1948ء میں اپنی چٹاکانگ والی تقریر میں کہا تھا " اسلامی سوشلزم" (اسکو دین اور منکر خدا سوشلزم" کے ساتھہ گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے۔ وہ سوشلزم ہے جس کی برکتوں سے وہ معاشرہ وجود میں آتا ہے جس کے اندر اخوت، مساوات حریت کا دور دورہ ہوتا ہے اور جس معاشرہ میں عام انسان کو بھی کچھہ نہ کچھہ " دخل" حاصل ہوتا ہے۔

(ہ) برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے ہوم لینڈ کی حیثیت سے پاکستان کو قائم کرنا واقعہ یہ ہے کہ پاکستان محض "فرزندان زمین" کے تحفظ کے لئے قائم نہیں کیا گیا تھا لیکن اس وقت سے اب تک " سکھر بیراج کے دروازوں سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔" چنانچہ اسی نظریہ میں حکمران پارٹی یا ٹولہ کی ضروریات کے مطابق وقتاً فوقتاً توسیع اور اضافہ ہوتا رہا مگر ان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مغربی ذرائع ابلاغ اور ہمارا احساس کمتری

روزنامہ

یہ مغربی ذرائع ابلاغ کی کرشمہ سازی اور ہمارے احساس کمتری اور کم فہمی کا شاہکار ہے کہ جن اصطلاحات اور استعارات کو ہمیں بدنام کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے انہی اصطلاحات او استعارات کو ہم اپنے لئے اعزاز و افتخار سمجھہ کر قبول کرلیتے ہیں۔ ہمارے حکمراں اور ہمارے کئی دانشور "مذہبی دہشت گردی" مسلم شدت پسندی اور "مسلم عسکریت پسندی" جیسی اصطلاحات کو بھی بلا سوچے سمجھے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کرکے بے دریغ استعمال کرنے لگتے ہیں۔ ہر اس تنظیم پر پابندی لگادیتے ہیں جن پر دوسرے پابندی لگاتے ہے اور اس سلسلے میں ثبوت کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کرتے جبکہ پاکستان میں کام کرنے والی تنظیمیں نہ دہشت گرد ہیں نہ ان کے لیڈروں نے اس ملک میں چھوٹے بڑے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے کوئی مانے یا نہ مانے ایسا کرکے ہم بلاواسطہ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ پاکستان میں ایسی تنظیمیں ہیں جو بھارت میں ہی نہیں بلکہ خود پاکستان کے اندر امریکیوں، فرانسیسیوں اور مختلف مذہبی فرقوں کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں کا ارتکاب کرتی ہیں اور ایسا کرنے کے لئے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہاں دہشت گردی کی تربیت کے مرکز بھی ہیں۔ مدرسوں میں چھاپے بلاجواز تونہیں مارے جارہے غیر ملکی طلباء کو مدرسوں سے یونہی تو نہیں واپس بھیجا جارہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی قیادت اس قدر سحر زدہ ہوچکی ہے کہ وہ امریکہ کے ہر حکم پر "معمول" کی طرح عمل کرنے ہی میں عافیت سمجھتی ہے۔ امریکی صدر بش نے "عالمی اتحاد" کے دلفریب نام سے جو جنگ شروع کی ہے اس میں ہر اول دستے کے طور پر شریک ہونے والوں کے پیش نظر بھی یہی مقصد ہے ۔ اسی عالمی اتحاد کا نتیجہ ہے کہ آج مسلمان نہ گھروں میں محفوظ ہیں نہ غاروں میں، نہ مسجدوں میں نہ مدرسوں میں۔

پاکستان میں جو کچھہ آج ہورہا ہے وہ ہر لحاظ سے تشویشناک ہے۔ یہاں اب جہاد کی تیاری تو دور کی بات ہے اس کی تبلیغ بھی جرم بن چکا ہے ایسی تنظیموں اور افراد کو نشانہ ستم بنایا جارہا ہے ، اسلام سے نسبت رکھنے والی فلاحی تنظیموں کے اثاثے ضبط کرکے زکٰوۃ صدقات پر بھی بندش لگائی جارہی ہے اور اس طرح غیر ملکی اور لادینی این جی اوز کے لئے کام کرنے کے لئے میدان کھلا چھوڑا جارہا ہے تاکہ وہ یہاں دوسرے مذاہب اور خلاف اسلام تظریات کو فروغ دے سکیں اور کھلم کھلا یہ کہا جارہا ہے کہ اسلامی تنظیموں کی طرف سے خدمت خلق نہیں کی جارہی۔ سای طرح جو جماعتیں علامہ اقبال کے اس نظریہ پر جو دراصل اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہے یعنی

جدا ہو ویں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

پر عمل پیرا ہیں وہ بھی ہدف تنقید و تضحیک بنائی جارہی ہیں اور ان کے مقابلے میں ان جماعتوں اور لیڈروں کو آگے بڑھایا جارہا ہے جن کو یہ معلوم نہیں ہے کہ بابائے قوم حضرت قائد اعظم نے 11 اگست 1947ء سے پہلے یا اس کے بعد اپنی زندگی کوئی اورتقریر بھی کی تھی، ہم مغرب کی خوشنودی حاصل کرنے کی دوڑ میں کس قدر دیوانے ہوگئے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہم رواداری کے حامل روشن خیال اور دہشت گردی کے مخالف جدید اسلام کی تلاش میں سرگرداں ہیں انہیں 14 سو سال پہلے کا اسلام جس میں قائد اعظم کے بقول انصاف اور رواداری کا درس دیا گیا تھا پسند نہیں ، اس لئے کہ مغرب بھی اس "اسلام کو پسند نہیں کرتا"۔ یہ عناصر مخلوط محفلوں کو رواج دینے کے لئے بھی بہت بے چین نظر آتے ہیں کہ معاشرہ کو اسی طرح بآسانی ٹوٹ پھوٹ کا شکار بنا کر مادر پدر آزادی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت پر حلف اٹھانا ہر مسلمان شہری کیلئے ضروری ہے لیکن اب قوم کے سر سے یہ بوجھ بھی اتارا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں جیسا نام رکھنے والا کوئی بھی شخص مسلم معاشرہ پر شب خون مارنے میں آزاد ہوجائے۔

مخلوط طریقہ انتخاب بھی اب ملک میں رائج کیا جارہا ہے اور خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ اگلے قدم آئین کی وہ شق ہی کہیں ختم نہی کردی جائے جس کے مطابق صدر اور وزیر اعظم کیلئے مسلمان ہونا لازمی شرط ہے۔ ویسے بھی امریکہ کو توہین رسالت کا قانون پسند ہے نہ حدود آرڈیننس اسلئے اس سے نجات پانا ضروری سمجھا جارہا ہے۔ عملاً قوانین سرد خانہ میں ڈال دیئے گئے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ حدود آرڈیننس کی " خامیاں" دور کرنے کی غرض سے یہ اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجا جارہا ہے۔

پاکستان ٹیلیویژن سے پیش کئے جانے والے پروگراموں کو دیکھہ کر کوئی تمیز ہین نہیں کرسکتا کہ یہ پاکستان کا کوئی چینل ہے یا بھارت کا۔ پھر تہواروں اور ثقافت کے نام فحاشی وار عریانیت کو فروغ دیا جارہا ہے شاید ان سب کا مقصد مغرب پر یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم تم سے الگ نہیں ہیں۔ لیکن یہ سب کچھہ ایسا ہی ہے جیسے ہنس اپنی چال سے شرمندہ ہوکر کوے کی چال چلنا چاہتا ہو۔ ہمارے یہاں دینی مدرسے برطانوی دور غلامی میں بھی بلا روک ٹوک چل رہے تھے اور آزادی کے بعد بھی نصف صدی تک ان کی راہ میں روڑے نہیں اٹکائے گئے لیکن اب امریکہ کی نظر سے جب ہم نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو دینی تعلیم کی بجائے مسلمانوں کو دہشت گردی اور فرقہ پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور یہاں سے فارغ التحصیل نوجوان پاکستان ہی میں نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر ، چیچنیا، افغانستان ، فلپائن بلکہ امریکہ اور برطانیہ تک میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے ذمہ دار ہیں۔ پھر مدرسوں میں غیر ملکی طلباء جہاد کی تعلیم و تربیت بھی حاصل کرتے ہوئے محسوس ہوئے ۔ اسلئے پاکستان سے تمام غیر ملکی طلباء کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ غیر محسوس طریقہ پر پاکستان میں ہر ایک پھر رومن رسم الخط کو فروغ دینے کی سازش بھی کی جارہی ہے ۔ اخبارات و رسائل اور ٹیلیویژن پر شائع ہونے اور نظر آنے والے اشتہارات اور پروگرام اس کا ہر روز ثبوت پیش کررہے ہیں پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور حکومت میں بھی ایسی کوشش کی گئی تھی جو رائے عامہ کے دباؤ کے تحت اپنی موت آپ مرگئی لیکن اس بار بغیر کسی اعلان کے ہر کام کیا جارہا ہے قوم کے دانشور حضرات کو اس طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جن حقائق کو ذکر کیا گیا ہے ان کے پس پردہ مقاصد پر غور کرتے ہیں تو نہ چاہنے کے باوجود اس کا منطقی نتیجہ سیکولر ازم ہی کی صورت میں نکلے گا اور یہ دعوی کہ "پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور یہ اسلامی جمہوریہ ہی رہے گا" بہرحال یہ بات تو سب ہی کو سمجھہ لینی چاہئے کہ پاکستان نہ ترکی ہے نہ بھارت جہاں کوئی "اتا" بن سکتا ہے نہ "مہاتما" پاکستان کو اسلام سے "آزاد" کروانے کی کوشش کرنے والے پہلے بھی ناکام و نامراد رہے تھے اور اب بھی اس مملکت خدا داد کو امریکہ کی جھولی میں ڈالنے کا انجام بھی ناکامی کے سوا کچھہ نہیں ہوگا۔ اسلام سے الگ پاکستان کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اسلئے کہ پہلے مسلمان متحد ہوئے اور انہوں نے اسلام کی خاطر اس کا مطالبہ کیا پھر یہ ملک بنا اور اسی اسلام کی بنیاد پر انشاء اللہ تا ابد قائم بھی رہے گا۔

مصافحہ امن دوستی یا کمزوری کا مظہر؟

روزنامہ

" اپنی بات ختم کرتے ہوئے میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی کی طرف حقیقی اور مخلصانہ دوستی کا ہاتھہ بڑھاتا ہوں۔ آئیے جنوبی ایشیا میں امن و ہم آہنگی اور ترقی کی خاطر مل جل کر اپنے سفر کا اغاز کریں۔" 5 جنوری کو نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں سارک سربراہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں ان الفاظ کے ساتھہ اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے صدر جنرل پرویز مشرف بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کے نشست پر گئے اور گرمجوشی کے ساتھہ ان سے مصافحہ کیا۔ پورے ایوان نے تالیاں بجا کر اس اقدام کی پرزور تائید و تحسین کی۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں صدر پرویز مشرف کے اس جذبۂ خیرسگالی کو نمایاں جگہ دی گئی اور مصافحہ کرنے کے اس منظر کو عالمی میڈیا پر بار بار دکھایا جاتا رہا۔ بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے اس رویے کے جواب میں کسی خاص جذباتی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا البتہ اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے یہ کہہ کر پاکستان کے صدر کو مشورہ دیا۔" مجھے خوشی ہے کہ صدر مشرف نے میری طرف دوستی کا ہاتھہ بڑھایا ہے۔ آپ حضرات کے سامنے میں ان سے مصافحہ کیا ہے۔ اب صدر مشرف کو چاہئے کہ وہ پاکستان یا اپنے زیر قبضہ علاقے میں ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دیں جن سے دہشت گردوں کو بھارت میں تشدد میں مدد ملتی ہے۔"

پاکستان کے سرکاری حلقے واجپائی کی سرد مہری پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویا پرویز مشرف صاحب کے مصافحے سے ہماری امن پسندی کا سند حاصل ہوگئی ہے جب کہ 4 جنوری کو کھٹمنڈو پہنچنے پر صدر پاکستان نے کہا تھا۔ " ہم مذاکرات چاہتے ہیں مگر یک طرفہ خواہش پر مذاکرات نہیں ہوسکتے" نیز یہ بھی کہ " بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کی درخواست کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ملاقات کے لئے درخواست نہیں کی جاتی۔"

بھارت کی طرف سے دھمکیوں سے پر توہین آمیز بیانات مسلسل آتے رہے ہیں۔ بھارت نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم " پاکستان کا حال بھی افغانستان جیسا کردیں گے۔" یہ بھی کہ " ہم پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش کو دوبادہ متحد کرنے کے لئے تیار ہیں۔" گویا وہ اکھنڈ بھارت کا خواب بھی دیکھہ رہے ہیں۔ وزیر اعظم واجپائی کے دورہ حکومت میں ہزاروں بےگناہ کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔ آج بھی بھارتی فوجی آزاد کشمیر اور پاکستان کے علاقوں میں فائرنگ کرکے شہریوں اور فوجیوں کا نشانہ بنارہے ہیں۔ اس طرح بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ اٹل بہاری واجپائی کے ہاتھہ معصوم اوربے گناہ کشمیری بچوں، عورتوں اور مردوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ۔ ان سے موجودہ حالات میں ہاتھہ ملانا قابل فخر نہیں۔ روس ، امریکہ اور اسرائیل کی شہ پر واجپائی کی گردن اکڑی ہوئی ہے۔ ایسے شخص کے سامنے امن اور دوستی کی بھیک مانگنا حکمرانوں کو کیوں کر گوارا ہوا یہ بات ناقابل فہم ہے۔

کوئی پچاس برس قبل جب بھارت نے پاکستان کی سرحدوں پر فوجیں لگادی تھیں۔ کراچی کے شہری بڑے جلوس کی صورت میں وزیر اعظم ہاؤس پہنچے تو وزیر اعظم خان لیاقت علی خاں نے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے کہ ہم حملے کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ آپ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں اور اطمینان کے ساتھہ اپنا کام کرتے رہیں اور پھر اپنا مکا ہوا لہراتے ہوئے کہا " بھارت کو ہمارا جواب یہ ہے" چند دن بعد ہی بھارتی فوج سرحدوں سےواپس گئی۔" آج ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے، نصف صدی بعد ہم " مکے سے مصافحے" پر آگئے۔

ان باتوں کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اپنے پڑوسی بھارت کے ساتھہ امن اور دوستی سے رہنا نہیں چاہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ 15 اگست 1947ء کو اپنے ظہور سے بھی بہت پہلے سے اس کے ساتھہ دوستی اور محبت کو پروان چڑھانے کی خاطر ہم قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں لیکن اس کے جواب میں بھارتی قیادت نے ہمیں کبھی اپنے نزدیک نہیں آنے دیا۔ ہر مرحلے پر دھونس، دھمکیاں اور ضد کا مظاہرہ جاری رہا۔ اس کے باوجود ہم نے امن و آشتی اور دوستی و محبت کے راستے کو ترک نہیں کیا۔ جنرل پرویز مشرف کو بھی یہ سمجھہ لینا چاہئے کہ ان کے مصافحے کا واجپائی نے جس سرد مہری سے جواب دیا ، وہ بھارت کا وتیرہ ہے۔

گاندھی جی کا قتل ہو یا اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کی ہلاکتیں، ان کا سب سے پہلے الزام پاکستان ہی پر لگایا گیا۔ آسام، ناگالینڈ اور جھاڑکھنڈ میں علیحدگی پسندوں کی سرگرمیاں ہوں یا سکھوں اورتاملوں کی آزادی کی تحریکیں، بابری مسجد کی شہادت کے ردعمل میں بمبئی اور دوسرے شہروں میں ہندو مسلم فسادات ہوں یا نیپال میں بھارت مخالف مظاہرے، ایسے کتنے ہی واقعات ہیں جن کا الزام بھارت نے پاکستان کے سرتھونپنے کی کوشش نہ کی ہو۔ ہمارے حکمراں اس افسوس ناک حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ افغانستان پرروسی حملے کے بعد ہی سے پاکستان میں بھارت نے تخریب کاری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ اب تک جاری ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ہزاروں بے گناہ شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بھارت کے کیمپوں میں سینکڑوں پاکستانیوں کو تخریب کاری اور دہشت گردی کی تربیت دے کار پاکستان بھیجا جاتا رہا ہے۔ یہاں کتنی تنظیمیں اور افراد ہوں گے جن کو تخریب کاری اور منافرت کو فروغ دینے کی غرض سے مالی امداد دی جارہی ہوگی لیکن ہمارے حکومتی ادارے بھارت کے تربیت یافتی تخریب کاروں اور دہشت گردوں کے بجائے مجاہدین القاعدہ اور طالبان کے اراکین اور دینی تعلیم کے فروغ کے لئے کوشاں مدرسوں کی چھان بین میں مصروف ہے اس لئے کہ امریکہ یہ چاہتا ہے۔

حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کرنے والوں کے سرپرستوں کو بھارت سے طلب کرے جن میں ایڈوانی جیسے وزراء شامل ہیں لیکن افسوس ہے کہ ہم امریکہ کے اشارے پر بھارت کی فرمائش پر اس کو خوش کرنے شوق میں اپنے یہاں سیاسی اور دینی رہنماؤں، سیاسی کارکنوں اور مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی حمایت کرنے والے نوجوانوں کے خلاف بالواسطہ طور پر ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی تنظیمیں موجود ہیں جن کی سرپرستی 13 دسمبر 2001ء تک موجودہ حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ امریکہ اور بھارت کی چال کو سمجھنے کے بجائے ہم اپنے مایہ ناز سائنس دانوں، فلاح عامہ کے کاموں میں مصروف مخیر افراد کا دائرہ تنگ کرکے اپنا قومی تشخص بری طرح سے مجروح کررہے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم اور پاکستان صدر کے اختیارات میں سات دن کا فرق ہے۔ اٹل بہاری واجپائی منتخب وزیر اعظم ہیں لیکن اس حد سے آگے نہیں جاسکتے جو ان کی پارٹی، حکومت میں ان کے حلیف اور حزب اختلاف کے رہنماؤں نے ان کے مقرر کردی ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے کہ اس پیمانے پر سودے بازی کے لئے کیا کچھہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ تمام پتے سامنے لاکر اپنی اس حیثیت کو کمزور نہیں کرنا چاہتے جو انہیں اس وقت حاصل ہورہی ہے۔ ادھر جنرل پرویز مشرف غیر منتخب ہیں اور تمام اختیارات کے واحد مالک ہیں۔ انہیں نہ پارلیمنٹ کو جواب دینا ہے نہ اپنے رائے دہندگان کے پاس جانا ہے۔ وہ 4 جنوری کو کچھہ اور 5 جنوری کو اس کے برعکس کچھہ کہہ یا کرسکتے ہیں لیکن ہمیں حیرت اس امر پر ہے کہ انہوں نے امن اور دوستی کے لئے اتنا آگے بڑھنا کیسے منظور کرلیا کہ بھارے اور شیر بن گیا۔

جنرل پرویز مشرف سے زیادہ اس حقیقت سے کون واقف ہوگا کہ جب ایک فریق جنگ کی باتیں اور اس کی تیاری بھی کررہا ہو تو دوسرے فریق کی طرف سے اس کی اپیل اور دوستی کا ہاتھہ بڑھانا کمزوری پر دلالت کرتا ہے جو جنگی حکمت عملی کے خلاف ہے۔ پھر آپ لاکھہ کہتے رہیں کہ جہادی اور دینی تنظیموں کے خلاف کاروائی کا بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور بھارت کے مطالبے سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس بےوقت عمل سے ہماری کمزوری کا ثبوت فراہم ہوتا ہے۔ بھارت جیسے ظالم کے پڑوس میں رہتے ہوئے باعزت زندگی گزارنے کے لئے چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس بنیادی شرط ہے۔

مسلم لیگ اور اس کی تنظیم نو

روزنامہ

مسلم لیگ قائد اعظم کا ورثہ تو ہے ہی لیکن یہ ان لاکھوں مردوں، عورتوں ، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کا ورثہ بھی ہے۔ جنہوں نے بابائے قوم کی قیادت میں مسلم لیگ کے سبز ہلالی پرچم تلے مسلمانوں کے لئے آزاد اور خودمختار مملکت کے قیام کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا مسلم لیگ ان معصوم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کا ورثہ بھی ہے جو آج تک ہندو اور سکھہ گھرانوں میں زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ بھارت کے ان کروڑوں مسلمانوں کا بھی ورثہ ہے جو آئے دن ہندو فرقہ پرستی کا نشانہ محض اس لئے بنائے جارہے ہیں کہ انہوں نے یا ان کے آباؤ اجداد نے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کے لئے جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا تھا مسلم لیگ ان کروڑوں گمنام کارکنوں کا ورثہ بھی ہے جنہوں نے قائد کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے برصغیر کے چپہ چپہ پر "لے کے رہیں گے پاکستان " اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا للہ کے نعروں کی گونج پہنچائی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بزرگوں کے سامنے آج بھی جب مسلم لیگ کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے لیکن وائے قسمت کہ ہم نے جس طرح پاکستان کی شکل بگاڑ کر اسے کیا سے کیا بنادیا ہے اسی طرح مسلم لیگ کی صورت بھی مسخ کرکے رکھہ دی گئی ہے۔ بلکہ صحیح صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی توڑ پھوڑ سے پہلے مسلم لیگ ہی کا حلیہ بگاڑا گیا اس لئے کہ متحد اور منظم مسلم لیگ کی موجودگی میں پاکستان کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکتی تھی تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کارشیطانی میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی مخالفین کی عیاری کے ساتھہ خود مسلم لیگ کے لیڈروں کی مفاد پرستی اور عوام اور کارکنوں کی سادگی کا بھی بڑا حصہ ہے جب عوام نے ملکی معاملات اور مسلم لیگ کے امور میں دلچسپی لینی کم کردی تو مفاد پرست ٹولہ نے اس سے پوا فائدہ اٹھایا اور اس نے مسلم لیگ کو بے اثر بانے اور ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے سلسلہ میں منصوبہ بندی پر تیزی کے ساتھہ عملدرآمد شروع کردیا۔ پاکستان اور مسلم لیگ ہر پہلا بھرپور وار قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کی صورت میں کیا گیا پھر الحاج خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمٰی سے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور گورنر جنرل کی طرف سے برطرفی کے بعد مسلم لیگ کی کونسل کی خاموشی اور بلاجواز نئے صدر کے انتخاب کا واقعہ ہے اور اسی کے بعد مسلم لیگ اپنا اثر تیزی سے کھونے لگی اور یہی سازش عناصر کا منصوبہ تھا۔ اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ سے تقریباً دو سال قبل ہی ایسے حالات پیدا کردیئے گئے کہ مسلم لیگ اقتدار سے محروم کردی گئی اور اس کی جگہ مخالفین پاکستان کی قیادت میں قائم ری پبلکن پارٹی مسند اقتدار پر متمکن کردی گئی۔ اس پارٹی کا قیام اور اور اقتدار محلاتی سازش کا مرہوں منت تھا اس لئے یہ عوام کی تائید اور حمایت سے محروم ہی رہی۔ اسی قسم کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد 1985ء میں غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب قومی اسمبلی کے قائد ایوان محمد خان جونیجو نے ازسر نو مسلم لیگ کو منظم کیا لیکن یہ تنظیم بھی اسمبلی کے اراکین ہی پر مشتمل تھی اس لئے یہ بھی عوام میں کوئی اثر قائم کرنے میں ناکام رہی۔

جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کو جماعتوں کے خلاف تھے لیکن انہوں نے مسلم لیگ کے قیام کی اجازت دے کر اس کی نشاۃ ثانیہ کا تاریخی موقعہ فراہم کیا تھا لیکن افسوس کہ اس کی تنظیم کی طرف کچھہ بھی توجہ نہ دی گئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مسلم لیگ پر اجاہ داری قائم کرکے اس کی تنظیم کی راہیں مسدود کرکے رکھہ دی گئیں تھیں تو بیجا نہ ہوگا۔ وزیر اعظم ، وزراء اعلٰی اور مرکزی اور صوبائی وزیروں نے مسلم لیگ کے عہدے حاصل کرکے مسلم لیگیوں کو مسلم لیگ سے دور رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرلیا تھا۔ محمد خان جونیجو تقریباً ڈھائی سال تک مسلم لیگ کی صدارت کے ساتھہ ساتھہ وزارت عظمٰی کے منصب پر فائز رہے لیکن اس دور میں مخلص اور بے لوث کارکنوں اور پرانے لیڈروں کو جس طرح نظر انداز کیا گیا اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی اور اس کا سب سے زیادہ بھونڈا مظاہرہ سندھ میں کیا گیا حالانکہ پاکستان مسلم لیگ کے صدر کا تعلق بھی اسی صوبہ سے تھا یہی نہیں بلکہ موصوف نے آج تک کراچی حیدرآباد یا سکھر میں مسلم لیگ کے کارکنوں سے ملنےیا ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے اس سے قبل مسلم لیگ کے صدر پیر صاحب پگارا رہے لیکن انہوں نے بھی کئی برسوں تک اس طرف توجہ نہیں دی بلکہ انہوں نے اسی کو غنیمت جانا کہ حنوط شدہ بندر کے ہاتھہ میں مسلم لیگ کا جھنڈا تھما کر اسے اپنے ڈرائنگ روم میں سجادیا جائے۔ مسلم لیگ جیسی عظیم اور ملی جماعت کے ساتھہ یہ مذاق توہین کے مترادف تھا۔ بہرحال قائدین لیگ کا یہ رویہ مسلم لیگ کے ساتھہ ان کے خلوص اور وابستگی کا ایک پیمانہ ہے یہ تلخ حقیقت ہے کہ جونیجو صاحب کے دوراقتدار میں ملازمت ، ترقیوں اور دیگر مراعات کے سلسلہ میں اس طبقہ کو پوری طرح نظر انداز کیا گیا جو اسلام پاکستان اور مسلم لیگ کے ساتھہ ہمیشہ سے مخلص رہا ہے لیکن اس کا اطلاق صرف صوبہ سندھ پر ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ کی مسلم لیگی کابینہ کے اراکین نے بھی جن میں سے بیشتر کا تعلق شہری حلقوں سے تھانہ تو اپنے علاقوں کے لئے کوئی کام کئے نہ مسلم لیگ کی طرف ہی کوئی توجہ دی ، ہاں انہوں نے اپنے گروہ بنانے میں ضرور دلچسپی لی جس کا نتیجہ 1988ء کے عام انتخابات میں سامنے آگیا کہ سندھ سے بشمول محمد خان جونیجو اور پیر صاحب پگارا ایک بھی مسلم لیگی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔

پنجاب مسلم لیگ نے اپنے صوبہ میں تنظیم اور کارکنوں کے ساتھہ رابطہ پر شروع سے توجہ دی تھی جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ وہاں آج مسلم لیگی ہی وزیر اعلٰی ہے لیکن دکھہ کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت شروع دن سے میاں نواز شریف کی اقتدار سے محروم کردینے کے لئے سرگرداں رہی ہے اور اب اس دوڑ میں پی پی کی حکومت بھی شامل ہے۔ مسلم لیگ کی موجودہ قیادت فعال سرگرم عمل بے لوث اور جرأتمند نواز شریف کو کیوں راستہ سے بنانا چاہتی ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے آئندہ قائد نواز شریف ہی ہوں گے۔ صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں مسلم لیگی وزرائے اعلٰی کے امکانات کی راہ میں رکاوٹوں کی ذمہ داری بھی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت ہی پر عائد ہوتی ہے اس لئے کہ صوبہ سرحد میں جونیجو گروپ اور نواز شریف گروپ کے چکر میں اختلافات کو اس طرح سامنے لایا گیا کہ جونیجو گروپ کے زیادہ تر ارکان شیرپاؤ کے دست و پا بن گئے اور اس طرح وہاں آئی جے آئی اقتدار سے محروم کردی گئی بلوچستان میں جو کھیل کھیلا گیا وہ بھی مسلم لیگ کے شایان شان نہیں تھا اور اس کا سبب بھی مرکزی قیادت کی کمزوری ہی تھا۔

سندھ کے مسلئہ پر بھی مسلم لیگ کی قیادت کا رویہ شروع سے مایوس کن رہا ہے۔ حیدرآباد تو ہمیشہ سے مسلم لیگ کا شہر رہا ہے اور آج بھی یہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ اگر کسی جماعت کو قبول کرسکتا ہے تو وہ صرف مسلم لیگ ہی ہے لیکن اس شہر پر کئی بار قیامت کے پہاڑ ٹوٹے لیکن مرکزی اور صوبائی قیادت کو کبھی یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ ذاتی طور پر نہ سہی بیانات کے ذریعہ ہی ان کے زخموں پر مرہم رکھتے۔ قیادت کے اسی سلوک کی بنا پر مقامی مسلم لیگ بھی میدان میں نکل کر کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے اور لوگ تویہ تک کہتے ہیں کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی قائدین بالواسطہ پیپلز پارٹی کو تقویت پہنچارہے ہیں۔ یہ خیال کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو لیکن مسلم لیگ نے سندھ کی حد تک تو پی پی کے لئے میدان پوری طرح خالی چھوڑا ہوا ہے۔

مسلم لیگ کی تنظیم نو کے سلسلہ یں تقریباً دو سال سے خبریں آرہی ہیں اس سلسلہ میں جن حضرات کے ذمہ کام سپرد کیا گیا تھا ان میں سے بیشتر کو پی پی میں مسلم لیگ نظر آنے لگی اور وہ وہاں چلے گئے مرکز صوبہ سندھ اور سرحد کی مسلم لیگی کابینہ کے کئی اراکین بھی اقتدار کی دیوی کے قدموں میں جا گرے اور مسلم لیگ کو چھوڑ گئے یہ سب حقائق اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ کے قائد محمد خان جونیجو فرد شناس نہیں ہیں اور نہ وہ بروقت صحیح فیصلہ کرکے اس پر عملدر آمد کی صلاحیت رکھتے ہیں محمد خان جونیجو شریف النفس انسان ضرور ہیں لیکن قائد کے لئے ضروری ہے کہ وہ شرافت کے ساتھہ قوت فیصلہ اور فرد شناسی کی صلاحیتوں کا مالک بھی ہو اور فیصلوں کو پوری طرح اور بروقت عمل کروانے کی ہمت رکھتا ہو۔ کسی مصلحت کی بنا پر کسی خاص شخصیت کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے اس لئے کہ پاکستان اور مسلم لیگ کا استحکام لازم و ملزم ہیں اور ہماری مختصر تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلم لیگ کی کمزوری اور اس کے انتشار کے نتیجہ یہ میں پاکستان دو ٹکڑوں میں منتشر ہاگیا افر اب بھی ہم نے اس کلیہ کی طرف توجہ نہیں دی اور مسلم لیگ کو خالصتاً قومی نقطہ نظر سے منظم اور متحد نہیں کیا تو خدا نہ کرے ہمیں اور بھی سانحات کا سامنا کرنے پڑے گا۔ پاکستان کے استحکام اور اس کی سالمیت کے ساتھہ یہاں جمہوری اصولوں کے فروغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلم لیگ کو کم از کم اس قدر منظم اور فعال تو بنادیا جائے کہ وہ اگر حکومت تشکیل دینے کی حیثیت میں نہ ہو تب بھی کسی بھی برسراقتدار جماعت کو ملک میں من مانی کرنے اور اس کے اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی اجازت نہ دے لیکن یہ حیثیت حاصل کرنے کے لئے ہمیں قائد اعظم کے اصولوں کی پیروی کرنی ہوگی اور ان کے اصول مافوقی یا ناقابل عمل نہیں ہیں۔

ملک اور قوم کو درپیش پیچیدہ اور پریشان کن حالات سے جلد از جلد نجات پانے کے لئے ضروری ہے کہ مسلم لیگ کو اس کا کھویا ہوا مقام بلا تاخیر حاصل ہو اور یہ کام محض بیانات جاری کرکے پورا نہیں کیا جاسکتا اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اعلٰی ترین سطح پر بھی اگر قربانی کی ضرورت محسوس کی جائے تو اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ ہر سطح کی قیادت کو اپنے گھروں سے باہر نکل کر سندھ کے ریگزاروں، بلوچستان کے چٹیل میدانوں ، صوبہ سرحد کے پہاڑوں اور پنجاب کے سرسبز شاداب کھیتوں میں جانا ہوگا لیکن آغاز کار سے پہلے مسلم لیگ کو مفاد پرست خوشامدی اور بے اصول سیاستدانوں سے نجات دلا کر ایسے بااصول مخلص اور بے لوث افراد کے ہاتھوں میں اس کی قیادت دینی ہوگی جو معاملہ فہم وسیع النظر اور فرد شناس بھی ہوں اور وہ ہر قسم کے ذہنی تحفظات سے آزاد ہوکر فیصلہ کرنے اور اس پر عملدرآمد کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ صوبہ سرحد کے علاوہ کراچی اور حیدرآباد میں مسلم لیگ گروہوں میں تقسیم ہے پنجاب کی قیادت کو زک پہنچانے کی کوشش میں بھی مسلم لیگ کی مرکزی قیادت ملوث ہے۔ یہ سب کچھہ جانے یا انجانے میں مسلم لیگ کے خلاف سازش کا شکار ہونے سے بچانا مقصود ہے تو پھر مسلم لیگ کی طرف فوری توجہ دی جائے اور اس سلسلہ میں مسلم لیگ ان بزرگ رہنماؤں سے بھی ضرور مشورہ کرنا چاہئے جو حالات یا عمر کے تقاضوں کے تحت خاموش بیٹے ہیں لیکن الحمدللہ کہ وہ آج بھی ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم مولانا ظفر انصاری ہیں جنہوں نے علمائے کرام کو مسلم لیگ میں شامل کرنے کے علاوہ قوم کے اہم ترین وقت میں مسلم لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری کی حیثیت سے فرائض بھی انجام دیئے اس طرح آپ کو قائد اعظم اور قائد ملت کے بہت قریب رہنے کا شرف حاصل رہا ہے قیام پاکستان کے بعد بھی علماء کے 22 نکات اور قرار داد مقاصد کی تدوین کے علاوہ دستور سازی کے ہر مرحلہ پر آپ نے جو نمایاں اور فعال کردار ادا کیا ہے سب ہی اس سے واقف ہیں۔ مولانا اسماعیل ذبیح بھی اس سلسلہ میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم لیگ کو صحیح معنوں میں مسلم لیگ کی حیثیت دینا مقصود ہو۔

مادر ملت کی معاملہ فہمی اور پیش بینی

روزنامہ

مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے اس عظیم بھائی کی صحبت میں گزارا جس نے محض اپنی فہم و فراست اور عزم و حوصلہ کی بناء پر ہندو اور انگریز کے گٹھہ جوڑ کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن پاکستان کا قیام ممکن کردکھایا۔ اس بطل جلیل کی بہن کو بھی اللہ تعالٰی نے بڑی خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ معاملہ فہم ، بے باک، فرض شناس اور زبردست قوت فیصلہ رکھتی تھیں۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد سے مختلف مواقع پر انہوں نے قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے سیاسی بددیانتی، اقرباپروری اور ہر قسم کی عصبیت پر بروقت اور کھل کر تنقید کی اور قوم کو ان سے بچنے کی تلقین کی ۔ مادرملت کی معاملہ کی نوعیت کو سمجھنے اور اس سے متعلق فوری فیصلہ کرنے کے علاوہ آنے والے واقعات کی پیشن بینی کی کس قدر صلاحیت رکھتی تھیں اس کا اندازہ صرف ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے جس کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔

یہ 17 اکتوبر1967ء کی بات ہے غالباً اسی دن آئی آئی چندریگر صاحب وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے والے تھے۔ میں صبح کے وقت مادر ملت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حاضری کا مقصد ان کو حیدرآباد میں طلباء کی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دینا تھا۔ یہ دعوت دو وجوہ کی بناء پر قبول نہیں کی جاسکی ۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ آپ انہی تاریخوں میں ملک کے شمالی علاقوں کے دورے پر تشریف لے جارہی تھیں اور دوسری وجہ حیدرآباد میں قیام کے لئے مناسب جگہ کی عدم دستیابی تھی۔ میں نے حیدرآباد کی دو سیاسی شخصیتوں کی رہائش گاہوں میں سے کسی ایک پر قیام کی تجویز پیش کی لیکن محترمہ نے کسی سیاسی شخصیت کی رہائش گاہ پر رکنے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ اس سے قبل وہ ایک سیاسی رہنما کے مکان پر قیام کرچکی تھیں لیکن بعد میں میزبان کافی عرصہ تک اس مہمان نوازی کے طفیل سیاسی اور مالی فائدے اٹھاتے رہے تھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات مادر ملت تک پہنچ گئی تھی اس لئے آپ نے کسی بھی سیاستدان کے یہاں ٹھہرنے سے انکار کردیا اور اس طرح حیدرآباد تشریف لانے کی دعوت کا معاملہ ختم ہوگیا۔

اس کے بعد مادر ملت نے چند دن پہلے حیدرآباد کے جلسۂ عام میں وزیر اعظم حیسن شہید سہروردی کے جلسۂ عام میں گڑ بڑ کی وجہ دریافت کی اور پھر سوال کیا کہ چندریگر وزارت بنارہے ہیں۔ اس کے بارے میں لوگوں کو کیا خیال ہے ۔ عام لوگوں کی طرح میں بھی یہ سمجھہ رہا تھا کہ کابینہ کی اس تشکیل میں مادر ملت کا مشورہ ضرور شامل ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ نفسیاتی اور تاریخی طور پر مسلم لیگ کو چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ تو اس بات پر خوش ہیں کہ مسلم لیگ کے نمائندے کی حیثیت سے چندریگر صاحب وزیر اعظم بن رہے ہیں ۔ پھر میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ میں ذاتی طور پر اس وزارت سازی کے خلاف ہوں۔ انہوں نے پوچھا کیوں! میں نے جواب میں عرض کیا کہ چندریگر صاحب قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد ہیں اس لئے قانونی اور جمہوری روایات کے مطابق انہیں اپنی کابینہ بنانے کے دعوت دی جانی چاہئے تھی نہ یہ کہ وہ ری پبلکن پارٹی کے ساتھہ مخلوط کابینہ بناتے جبکہ اب تک مسلم لیگ ، ری پبلکن پارٹی کو تسلیم ہی نہیں کرتی اور آج اس کے ساتھہ مل کر کابینہ کی تشکیل کے لئے رضامندی اصولوں پر سودے بازی کے مترادف ہے۔ مادر ملت نے صوفہ کے ہتھے پر زور دار مکّہ مارا اور کہا " یہی میں بھی کہتی ہوں کہ مخلوط حکومت بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔" آپ نے مزید کہا کہ چندریگر کہتے ہیں کہ انہوں نے ری پبلکن پارٹی سے ون یونٹ اور جداگانہ انتخابات کی بات منوالی ہے لیکن ڈاکٹر خان کل کہے گا کہ جداگانہ انتخابات مشرقی پاکستان کا مسئلہ ہے اور ون یونٹ مغربی پاکستان کا اس لئے اس لئے چلو جداگانہ انتخابات کے بارے میں مشرقی پاکستان والوں سے رائے لیتے ہیں اور ون یونٹ کے سلسلہ میں مغربی پاکستان والوں سے اور اس طرح مسلم لیگ کی ایک بات بھی نہیں چل پائے گی اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سکندر مرزا چندریگر کو لات مار کر پرائم منسٹر ہاؤس سے نکال باہر کرے گا اور پھر یہ لوگوں میں آکر واویلا مچائے گا کہ ہمیں نکال دیا۔

مادر ملت کہ یہ باتیں سنیں تو بڑی حیرت ہوئی میں نے عرض کیا کہ عام تاثر رو یہی دیا جارہا ہے کہ چندریگر صاحب کی مخلوط حکومت کی تشکیل میں آپ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ مادر ملت نے جواب دیا" ہر گز نہیں۔ کل چند ریگر ڈھاکہ سے آیا ،رات نشتر بھی آگئے لیکن مجھہ سے نہ تو چندریگر نے ملاقات کی نہ سردار نشتر نے، اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ میں انہیں اس سلسلہ میں کیا کہوں گی اور یہ لوگ وزارت بنانے کا موقعہ ہاتھہ سے جانے نہیں دینا چاہتے ۔"

چندریگر صاحب کی کابینہ کے حلف اٹھانے کے غالباً دو روز بعد دو جملوں پر مشتمل مادر ملت کا ایک مختصر بیان اخبارات میں شائع ہوا جس میں انہوں نے یہ بات واضح کردی تھی کہ چندریگر کابینہ کی تشکیل میں ان کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ 57 دن کے اندر اندر ملک میں وہی صورتحال سامنے آگئی جس کو محترمہ نے پہلے ہی دن بھانپ لیا تھا۔ جداگانہ انتخابات اور ون یونٹ کے مسئلوں کو جوں کا توں چھوڑ کر چندریگر صاحب ملک کے مختصر ترین مدت کے وزیر اعظم کی حیثیت حاصل کرکے پرائم منسٹر ہاؤس سے باہر آنے پر مجبور کردیئے گئے اور ڈاکٹر خان صاحب نے سکندر مرزا سے مل کر وہی چال چلی جس کا اندازہ مادر ملت نے پہلے ہی لگا لیا تھا۔ معاملہ فہمی اور دور بینی کی ایسی ہی صلاحتیں کامیاب سیاسی زندگی کا ملازمہ ہیں افسوس ہے کہ ہم آج ایسے صاحب صلاحیت سیاستدانوں سے محروم ہیں۔

قابل تقلید فیصلہ

روزنامہ

خود کو قوم کا نجات دہندہ، بابائے قوم اور صاحب عقل کل، فکر و تدبر اور فہم و دانش سمجھنا، ہر قسم کی غلطیوں سے پاک اور ہر قسم کی تنقید سے بالاتر قرار دینا، مملکت کے وجود اور اس کی یکجہتی و سالمیت کو اپنے وجود سے اور اس کی عزت و وقار کو اپنی عزت و وقار سے مشروط اور ذانی یا گروہی مفادات کو قومی مفادات قرار دینا، مخالفین کو غدار وطن کی سند دے کر پس دیوار زنداں یا ملک بدر کردینا، ہر دور میں ہر آمر کے کم و بیش یہی بنیادی اصول اور طور طریقے رہے ہیں لیکن اللہ جل شانہ جن آمروں کی عقل کا انتہائی معمولی حصہ بھی سلب کرنے سے چھوڑدیتا تو وہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر قوم کے مفاد میں کوئی اچھا فیصلہ کرجاتے ہیں۔ غالباً جنرل ایوب خان کے ساتھہ بھی اسی قسم کا معاملہ پیش آیا۔ اقتدار کے نصف النہار پر جب وہ عشرہ، ترقی و خوش حالی کا جشن پوری طرح منا بھی نہیں پائے تھے کہ ملک میں ان کے خلاف تحریک شروع ہوگئی اور قوم نے صدارتی طرز حکومت اور بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو یکسر مسترد کردیا اور بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر پارلیمانی نظام پر متفق ہوگئی۔ ملک میں ہر جگہ ہڑتالیں، مظاہرے اور حقیقی پہیہ جام کے مناظر عام ہوگئے تو ان کے حوارین نے جن کے اپنے اقتدار کی بقاء کا سوال بھی تھا، اقتدار کی طوالت کو قوم کی آواز اور آئین کے مطابق قرار دینے کی خاطر ریفرینڈم کا نسخہ کیمیا پیش کیا لیکن صدر ایوب خان نے یہ کہہ کر اس تجویز کو رد کردیا کہ ملک کی سڑکوں پر جو کچھہ ہوتہا ہے وہی ریفرینڈم ہے۔ تقریباً پانچ ماہ سے جاری اس پوری تحریک کے دوران 70 سے زیادہ شہری فوج اور پولیس کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے جن میں کم از کم 38 افراد صرف فروری کے تیسرے ہفتے کے دوران مارے گئے۔ اس سنگین صورت حال کے پیش نظر ایوب خان نے 21 فروری کو ریڈیو پر اپنے تاریخی خطاب میں کہا۔ " میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ پاکستان کی فلاح ہے میں اس کی مٹی کے ہر ذرہ سے پیار کرتا ہوں، میں قائل ہوچکا ہوں کہ امن و امان کی بحالی کی خاطر میں جو بھی قدم اٹھاؤں گا ملک کے مستقبل اور اس کی تاریخ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ میں ہر مشکل وقت میں رہنمائی کے لئے اللہ سے دعا کرتا ہوں، اپنے ایمان کی روشنی میں، میں نے یہ اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ میں آئندہ انتخابات میں امیدوار نہیں ہوں گا۔ یہ میرا قطعی فیصلہ ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ " اس اعلان کے فوراً بعد احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوگیا، اس لئے کہ ان کا ہدف صدر ایوب تھے اور وہ آئندہ صدارتی امیدوار بھی نہیں ہوں گے۔ اس طرح ایک انتہائی دانش مندانہ فیصلے سے حالات کا رخ مڑ گیا ، یہ الگ بات ہے کہ اس فیصلے کے ایک ماہ بعد یعنی 25 مارچ کو حصول اقتدار کے لئے جنرل یحیٰی کی رگ بھی پھڑک اٹھی اور اس نے آئین کو ختم، حکومت کو معزول اور ایوب خان کو مسند اقتدار سے رخصت کردیا۔ تسلیم کہ ایوب خان نے اپنے حلف کو توڑا، ملک کے آئین کو ختم کیا، حکومت کو معزول اور پارلیمنٹ کو لپیٹ کر رکھہ دیا۔ بلاشبہ وہ سیاسی عزائم بھی رکھتے تھے ، انہوں نے مادر ملت کو انتخابی دھاندلیوں کے ذریعے شکست دی اور اقتدار کو میراث میں بدلنے کے لئے جانشین بھی تیار کرلیا تھا لیکن جب دیکھا کہ قوم اب مزید انہیں برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تو فوج کی طاقت کے ذریعے قوم پر مسلط رہنے کے بجائے خود رخصت ہونا پسند کیا۔

آج ملک میں بم دھماکے ہوں یا خودکش حملے، پولیس اور فوج کے تربیتی مراکز میں کاروائی ہو یا نگرانی کے لئے قائم چوکیوں پر کراچی کے شرمناک واقعات ہوں یا ملک کو مارشل لاء یا ہنگامی حالات کی بھٹی میں جھونکنے کی باتیں غلط یا صحیح ان سب کے ڈانڈے امریکا تک ملائے جاتے ہیں اور بشمول پاکستان ساری دنیا کے مسلمان ( حکمرانوں کو چھوڑ کر) امریکا کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور امریکا کے وحشیانہ اقدامات سے یہ ثابت بھی ہے۔ اس سلسلے میں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی غلط یا صحیح پاکستان بلکہ مسلم دنیا میں امریکی اقتدار اور امریکی مفادات کا نمائندہ سمجھہ لیا گیا ہے۔ اس کے ردعمل کے طور پر ہمارے یہاں جو کچھہ ہورہا ہے وہ محض امریکا دشمنی کا نتیجہ ہے۔ بریں بناء اگر صدر جنرل پرویز مشرف فیلڈ مارشل ایوب خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ اعلان کردیں کہ وہ صدارتی انتخابات میں باوردی نہ بے وردی حصہ لیں گے اور ساتھہ ہی وہ فوج سے بھی علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں تو یقین کے ساتھہ کہا جاسکتا ہے ملک کو دہشت گردی اور خودکش حملوں جیسے افسوسناک واقعات سے فوری اور یکسر نجات مل جائے گی، علاوہ ازیں تاریخ میں اس جرأت مندانہ فیصلے کو ایثار و قربانی کی روشن مثال کے طور پر بھی یاد رکھا جائے گا اور دنیا میں ملک کا وقار بلند ہونے میں بھی بڑی مدد ملے گی لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آج ہم جس مضطرب ، مشتعل اور غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہیں ، اس سے نجات مل جائے گی، بظاہر کوئی وجہ بھی نظر آتی کہ جنرل پرویز مشرف اپنے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ بھی محسوس کریں گے کہ ملک اور قوم کے مفادات پو وہ کسی بھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ اس قسم کے فیصلے میں اگر کوئی امر مانع ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ صدر مملکت ایسے لوگوں کے حصار میں ہیں جن کی اکثریت مالی، اخلاقی اور سیاسی بدعنوانیوں میں ملوث اور قانون کو مطلوب ہیں ، انکی سیاسی زندگی تو مشروط ہی صدر جنرل پرویز مشرف کے باوردی اقتدارسے ہے۔ اگر یہ عناصر خدانخواستہ جنرل پرویز کو قوم کی خواہشات اور ملک کے مفادات کے خلاف فیصلہ کروانے کی سازش میں کامیاب ہوگئے تو پھر ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں رہتا کہ قائد ملت لیاقت علی خان کے ان الفاظ کا دور شروع کردی جو انہوں نے اپنی شہادت کے وقت ادا کیے تھے۔

" اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔"

غیر وابستہ ممالک کے سرکردہ ارکان کی ذمہ داریاں

روزنامہ

یکم ستمبر سے زمبابوے کے دارالحکومت حرارے میں غیر وابستہ تحریک کے رکن ممالک کا آٹھواں سربراہ اجلاس ہو رہا ہے جو سمتبر تک جاری رہے گا۔ یہ تحریک دراصل اپریل 1955ء میں انڈونیشیاء کے شہر بنڈونگ میں غیر جانبدار ملکوں کی سربراہ کانفرنس کا نتیجہ ہے جو پاکستان انڈونیشیا، برما، سری لنکا اور بھارت کی دعوت پر منعقد ہوئی تھی اس میں 29 ممالک نے شرکت کی تھی۔ بنڈونگ کانفرنس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی غرض سے یوگوسلاویہ کے دارالحکومت بلغراد میں غیر وابستہ ممالک کانفرنس بلائی گئی جس میں 24 ممالک نے شرکت کی۔ کانفرنس یکم ستمبر 1961ء کو شروع ہوئی اور یوگوسلاویہ کے صدر مارشل ٹیٹو نے اجلاس کے صدرارت کی چھہ روزہ کانفرنس کی دعوت پر یوگوسلاویہ ، مصر اور بھارت کی طرف سے دی گئی تھی۔ اس پہلی کانفرنس نے ایٹمی تجربے کرنے کی روسی ارادوں کی سخت مذمت کی اور ایک اعلان کے ذریعہ امریکہ کے صدر کینیڈی اور رو س کے وزیر اعظم خروشیف کو باہمی ملاقات کے ذریعہ سرد جنگ کو ختم کرنے اور ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کرنے کے سلسلے میں پیغامات بھیجے گئے ایک دوسرے اعلان میں کانفرنس نے دنیا بھر کے ملکوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی بلاک کے اتحادی نہ بنیں اور اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد پر امن بقائے باہمی پر رکھیں کانفرنس نے کسی بڑی طاقت کے ساتھہ فوجی معاہدوں کی سخت مخالفت اور قومی آزادی کی تحریکوں کی تائید و حمایت و اعلان بھی کیا نیز یہ بھی کہ دائمی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ سامرجیت اور نو آبادیاتی نظام کو اور نئے قسم کی سامراجیت کو اس کی تمام شکلوں میں بالکل ختم نہ کردیا جائے حق خود اختیاری کو بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کانفرنس نے اعلان کیا کہ پرامن طور پر مل جل کر رہنے کا اصول ہی سرد اور گرم ہر قسم کی جنگ کا واحد حل ہے۔

پاکستان کی رکنیت:

غیر وابستہ تحریک جیسا کہ نام سے ظاہر ہے صرف ان غیر جانبدار اور غیر وابستہ ممالک کو رکنیت دیتی ہے جن کا کسی بڑی طاقت کے ساتھہ فوجی معاہدہ نہ ہو۔ بنڈونگ کانفرنس کے بعد حالات نے کچھہ ایسا رخ اختیار کیا کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین فوجی معاہدہ ہوگیا اور پاکستان ایسی تنظیم کو رکن بھی بن گیا جو فوجی نوعیت کے حامل تھے جیسے سیٹو اور سنیٹو۔ لیکن وقت کے ساتھہ ان معاہدوں نے جب اپنی افادیت کھودی اور یہ تقریباً بے اثر ہوکر رہ گئے تو پاکستان نے خود کو ہر قسم کے معاہدوں سے الگ کرلیا یہ عجیب اتفاق ہے کہ مارشل لا کے دور میں پاکستان کو غیر وابستہ تحریک میں شامل کیا گیا اور صدر محمد ضیاء الحق نے پہلی مرتبہ کیوبا کے دارالحکومت ہوانا میں ہونے والی غیر وابستہ ممالک کی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی جو ستمبر 1979ء میں ہوئی تھی۔ پاکستانی وفد نے کانفرنس کی کاروائی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تحریک کے رابطہ بیورو نے 5 جون 1979ء کو اپنے اجلاس منعقدہ کولمبو ہی میں پاکستان کی مکمل حمایت کا اعلان کرکے واضح کردیا تھا کہ پاکستان اب پوری طرح غیر وابستہ ملک بن چکا ہے کیوبا کے صدر نے بھی جو کانفرنس کے صدر تھے انقلابی الفاظ میں پاکستان کا خیر مقدم کیا۔ اس مرحلہ پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ 1979ء میں بھارت میں جنتا پارٹی کی حکومت تھی جو پاکستان کے خلاف کانگریسی قیادت کی روایتی مخاصمت سے کافی حد تک پاک تھی اور بھارت نے پاکستان کی مخالفت نہیں کی ورنہ ہوسکتا تھا کہ پاکستان غیر وابستہ تحریک کی رکنیت حاصل کرنے میں ناکام رہتا جس طرح اب دولت مشترکہ کی دوبارہ رکنیت کے سلسلہ میں محض بھارت کی مخالفت ہی سب سے اہم رکاوٹ ہے۔

اراکین کی تعداد کے لحاظ سے اقوام متحدہ کے بعد غیر وابستہ تحریک دوسرے نمبر پر ہے اس کے اصولوں پر اگر سختی سے عمل کیا جائے تو حقیقت میں دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کو یکہ و تنہا چھوڑ کر ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگوائی جاسکتی ہے لیکن جب تحریک کے اصولوں سے قطع نظر اس کے ممبروں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ تحریک بھی ایک فریب سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ امریکہ یا روس کسی بھی طاقت کے ساتھہ کسی ملک کی وابستگی کو اس تحریک کی رکنیت کا نااہل بنا دیتی ہے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ تحریک کے رکن ملک کی خارجہ حکمت عملی مکمل طور پرخودمختار ہو لیکن جب ہم تحریک پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تحریک کے بانی ملکوں میں بھی ایسے ملک موجود ہیں جو کسی پہلو سے بھی غیر وابستہ نہیں ہیں کیوبا اور بھارت اس کی روشن مثال ہیں اور اتفاق سے یہ دونوں ملک اس تحریک کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں دونوں ملکوں کا جھکاؤ ہی نہیں بلکہ روس کے ساتھ ان کی دوستی کے معاہدے بھی ہیں اور اسی معاہدے کے نتیجہ میں 1971ء میں بھارت روس کی فوجی مدد سے پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہوا۔ ہمارے پڑوس میں افغانستان بھی اس تحریک کا سرگرم رکن ہے لیکن اس ملک نے روس کو فوجی اڈے ہی نہیں بلکہ خود اس کو روسی فوج ہی کے سپرد کر رکھا ہے بلکہ وہاں کی حکمت عملی ہی نہیں بلکہ داخلی پالیسی بھی روس ہی کے تحت ہے۔ دراحل نجیب اللہ اور ببرک کارمل کے روپ میں وہاں روس ہی کی حکومت قائم ہے۔ جنوبی یمن، لیبیا اور مشرق یورپ کے کئی ملک فوجی اور اقتصادی امداد تعاون کے معاہدوں کے ذریعہ روس سے وابستہ ہیں لیکن ان کا شمار غیر وابستہ ممالک کی صف اول میں ہوتا ہے پھر داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کی دھجیاں تو بھارت پوری طاقت کے ساتھہ بکھیر رہا ہے۔ اس کی زد سے نہ پاکستان محفوظ ہے اور نہ بنگلہ دیش، نہ نیپال بچا ہوا ہے اور نہ سری لنکا لیکن بھارت تحریک کی رواں مدت کا سربراہ ہے۔ تحریک نے افغانستان پر روسی یلغار کی مذمت سے آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھا بیت المقدس اور فلسطین کے مسئلہ پر بھی تحریک اسی طرح بے عمل ہے جس طرح اقوام متحدہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے کے لئے بھی قراردادوں سے کام لیا جاتا رہا اور آئندہ اجلاس میں بھی جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کی مذمت اور ، ایران عراق سے جنگ بند کرنے اور افغانستان میں غیر ملکی مداخلت ختم کرنے کی اپیلوں ہی پر بس کئے جانے کی امید ہے۔ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کی موجودگی میں غیر وابستہ تحریک کے نام سے کسی تنظیم کی کوئی ضرورت نہیں رہتی اس لئے کہ مذمتی اور مدافعتی قراردادیں منظور کرنے میں تو اقوام متحدہ کا ادارہ بہت آگے ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چند ممالک نے اپنی چودھراہٹ کیلئے یہ ڈرامہ رچایا ہوا ہے اور چھوٹے ملک ایک فیشن یا علاقائی مجبوری کے تحت ان کے پیچھے لگنے کے لئے مجبور ہیں۔

غیر وابستگی یا غیر جانبداری اس حد تک تو تسلیم کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی دونوں بڑی طاقتوں میں سے کسی کا بھی حاشیہ بردار بننے سے بچایا جائے اور کسی بھی ملک کو اپنے ملک میں فوجی ادارے قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر وابستگی اور غیر جانبداری کا معنی اور مفہوم بدل گیا ہے کہ روس کی طرف جھکاؤ یا ظالم کو ظالم قرار نہ دینا اور مظلوم کی مدد نہ کرنا ہی غیر جانبداری قرار دی جاتی ہے حالانکہ یہ بات واضح جانبداری ہی نہیں بلکہ ظلم بھی ہے اس لئے کہ جارح کی نشاندہی اور ظالم کی مذمت نہ کرنا بھی صریح جانبداری ہے اس لحاظ سے تقریباً تمام ہی ملک اس جانبداری کے مجرم ہیں لیکن کچھہ ملکوں نے وابستگی کی پھبتی سے بچنے کے لئے اور چند ملکوں نے اس بہانے روس یا امریکہ سے فوجی اور اقتصادی امداد حاصل کرنے کی غرض سے خود کو اس تحریک سے وابستہ کررکھا ہے۔ تحریک کے پہلے اجلاس میں ہر قسم کی جنگ اور اختلافات کا واحد حل پرامن طور پر مل جل کررہنے کے اصول کو قرار دیا گیا تھا لیکن تحریک کے سرکردہ ممالک اپنے پڑوسی ملکوں کے خلاف جنگ کی تیاریاں کرتے ہیں ایٹم بم بنارہے ہیں اور ان کے خلاف پروپیگنڈے اور الزام تراشیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسلئے غیر وابستہ تحریک کے خصوصاً اہم ممالک کو چاہئے کہ خود فریبی کے خول سے باہر نکلیں اور کھل کر حقائق کا سامنا کریں اور چھوٹے چھوٹے مسائل کو مل بیٹھہ کر طے کرنے کے اصول پر عمل کریں ورنہ پھر یہ تحریک بھی کسی قسم کی کوئی افادیت نہیں رکھتی۔

نشتند و گفتند و برخاستند کے اصول پر عامل تحریک کی بے عملی کے باوجود بھی اس تحریک کی اس افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دنیا کی بیشتر آبادی سے نصف سے بھی زیادہ سربراہوں کو وقتاً فوقتاً ایک جگہ مل بیٹھنے کا موقع فراہم ہوتا ہے اور اس طرح مل بیٹھنا بذات خود ایک بڑی افادیت ہے اس طرح سربراہان مملکت کو ایک دوسرے کو جاننے ان کو سمجھنے اور قریب آنے کا موقع ملتا ہے اسے اپنے ملک کے دیہاتوں کی چوپال کا نام دے لیجئے جہاں لوگ ہرروز شام کو مل بیٹھتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں ایک ساتھہ بیٹھنا بھی دنیا کو کئی شر سے محفوظ رکھتا ہے اسلئے اس قسم کی تحریکوں اور تنظیموں کا وجود بہت ضروری ہے ہوسکتا ہے کسی وقت یہی تحریکیں اور تباہی اور بربادی کی طرف بڑھنے سے روک دیں اور دنیا پرامن بقائے باہمی اور حق و انصاف کے اصولوں پر کاربند ہوجائے۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھہ۔

سندھ کا مسئلہ (جواب الجواب)

روزنامہ

" سندھ کا مسئلہ تصویر کا دوسرا رخ" کے جواب میں جناب محمد نسیم نے جو قانون داں بھی ہیں 12 فروری 1987ء کے روزنامہ جنگ میں بغیر کسی دلیل کے جس طرح اپنا جواب دعویٰ پیش کیا ہے۔ راقم الحروف بھی ان کی تلقید کرتے ہوئے یہ کہہ کر اپنا جواب دے سکتا ہے کہ " تصویر کا دوسرا رخ" ہی صحیح ہے اورباقی سب " نقلی رخ" ہیں لیکن " غلط سلط توجیح" اور " بھونڈے انداز" کی نوازشات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے بھائی سے یہ درخواست ضروری ہے کہ " تصویر کا دوسرا رخ" کو دوبارہ پڑھنے کی زحمت کریں اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھہ اس کے مندرجات پر غور کرکے فیصلہ کرنے کی کوشش کریں کہ " سچ" اور " تلخ" فی الحقیقت کیا ہے؟ پھر خود ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے مضمون کو بھی بغور پڑھا جائے گا تو نسیم صاحب کو اسی میں "اصل رخ" مل جائے گا اور " اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے" اور خواہ مخواہ دوسروں کو مورود الزام نہ ٹھہرانے کے مشورے کا روئے سخن خود جناب ہی کی طرف ہوجائے گا۔

ڈاکٹر صاحب کے مضمون " سندھ کا مسئلہ" میں درج ہے " اس وقت واقعہ یہ ہے کہ ایک عام سندھی نواجوان ان کے صوبے کے افراد کو " دیسی سامراج" کی علامت اور اس " نئے نو آبادیاتی نظام" کے ذریعہ ظلم و استحصال کا " مجرم" گردانتا ہے۔" پھر یہ فیصلہ بھی موصوف ہی کا ہے کہ " اصولی اور مجموعی اعتبار سے سندھ کی شکایات بے بنیاد نہیں ہیں۔" یہی نہیں بلکہ 1983ء میں " تحریک بحالی جمہوریت" کے نام سے سندھ میں جس پرتشدد طریقے پر بالخصوص سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگوں نے اپنی بے چینی کا اظہار کیا تھا اس کے بعد میاں ممتاز محمد خان دولتانہ اور صوبہ پنجاب سےتعلق رکھنے والے سیاسی قائدین، علمائے دین، مقتدر صحافیوں اور دیگر ذمہ دار حضرات نے سندھ کے ساتھہ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے سدباب کے سلسلے میں اپنے صوبے ہی سے دردمندانہ اپیلیں کی تھیں ان اصحاب نے سندھ کی ملازمتیں مقامی افراد کو دیئے جانے کے مطالبے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے بڑے بھائی کا کردار ادا کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔ راقم الحروف پہلے پاکستانی اور پھر سندھی ہے اس نے محض الزام تراشی کی خاطر اپنے بھائیوں کو سندھ کے تمام تر مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ " تصویر کا دوسرا رخ" اس جذبے کے تحت پیش کیا گیا تھاکہ یہ بات کھل کر ہوجائے تاکہ لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی اور جنم لینے والی بدگمانیاں کوئی خطرناک رخ اختیارنہ کر پائیں۔ ہر محب وطن پاکستانی کا یہ فرض ہے کہ اگر ملک کو درپیش پیچیدہ مسائل کے حل کے سلسلے میں اگر وہ کچھہ مدد کرسکے تو ضرور کرے۔ اس لئے کہ جس طرح انسانی زندگی کے لئے صحت ایک بنیادی شرط ہے اسی طرح کسی ملک کی ترقی و یکجہتی اور اس کے استحکام کے لئے مختلف طبقوں کے درمیان عدل اور اعتماد کی فضا انتہائی ضروری ہے۔ اس لئے قوم کے حساس اور صاحب فکر افراد کو چاہئے کہ وہ ضد، ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہوکر مسائل کا حل پیش کریں بصورت دیگر قوم کے مختلف طبقوں کے درمیان بعد میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا اور اس کا نتیجہ ہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں دیکھہ چکے ہیں۔

راقم الحروف کو اتفاق ہے کہ " صوبہ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کے وسائل تجارت، صنعت، انتظامیہ، بلدیات وغیرہ غرض یہ کہ ہر شعبہ پر غیر سندھیوں یعنی سندھی نہ بولنے والے طبقے کا قبضہ ہے۔" لیکن ان قابضین میں اردو بولنے والوں کا حصہ بہت ہی کم ہے۔ " اصلی رخ" کے " نقلی رخ" ہونے کا ثبوت تو اس ایک مثال ہی سے مل جاتا ہے کہ جناب نے کراچی، حیدرآباد اور سکھر کی بلدیات کے اراکین کا توڑ کردیا لیکن پولیس، واپڈا، اسٹیل ملز، پی آئی اے، شپ یارڈ اور دوسرے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کا ذکر مناسب نہیں سمجھا گیا۔ مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے کا مطالبہ اسی لئے کیا جاتا رہا ہے کہ " تعلیم یافتہ سندھیوں کا جم غفیر ہے جو نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہے" اور ان سرگرداں سندھیوں میں سندھی اور اردو بولنے والے تمام ہی سندھی شامل ہیں۔ " سندھیوں یعنی سندھی بولنے والوں کا اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں " ہوجانے کے خطرے کا سبب تو راقم الحروف " دوسرا رخ" میں بیان کرہی چکا ہے لیکن اسی سیاق و سباق میں 14 فروری 1987ء کو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے اس بیان کو بھی پڑھ لینا ضروری ہے جس میں موضوف نے کہا ہے کہ " سندھ میں انتقال آبادی کے رجحان کی روک تھام کے لئے اگر کوئی قانون بنایا گیا تو وہ غیر اسلامی نہیں ہوسکتا۔"

جہاں تک ملازمتوں کا تعلق ہے تو یہاں 85-1984ء کے دوران صرف پولیس افسران کی تعداد کا جائزہ ہی کافی ہے جس کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ عوام کے اس مطالبے کے باوجود کہ پولیس میں مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے حالیہ برسوں میں غیر سندھیوں کی بھرتی کے رجحان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

"اصلی رخ" میں دکھایا گیا ہے کہ " کراچی 2 لاکھہ کی آبادی والے شہر سے پھیل کر اسی پچاسی لاکھہ باشندوں کا شہر ہوگیا ہے۔" اس سلسلے میں کراچی کی آبادی میں اضافے کی رفتار کا جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ اسی اضافے میں تشویشناک صورت حال کے ذمہ دار اردو بولنے والے سندھی ہیں یا اس کے پیچھے کوئی اور عوامل کار فرما ہیں۔ سرکاری مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی میں 1931ء میں 3 لاکھہ، 1941ء میں 4 لاکھہ 36ہزار، 1951ء میں 10لاکھہ 70 ہزار، 1961ء میں 9لاکھہ 13ہزار، 1972ء میں 35لاکھہ 15ہزار اور 1981ء میں 51لاکھہ افراد پر مشتمل تھی۔ 1941ء اور 1951ء کے دوران آبادی میں ڈھائی گنا اضافے کا قدرتی عمل کے علاوہ سب سے بڑا سبب بلاشبہ بھارت سے آنے والے مہاجرین ہی تھے لیکن 1951ء تک مہاجرین کی آمدنی رفتار بہت کم ہوگئی تھی اور پھر تو پاکستان میں داخلہ بھی بند کردیا گیا تھا اس لئے 1961ء میں کراچی کی آبادی میں دگنا اضافہ قابل غور ہے اس لئے کہ اسی مدت کے دوران ون یونٹ تشکیل دیا گیا اور پھر اکتوبر1985ء میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا پھر 1961ء کے مقابلے میں 1972ء میں بھی آبادی تقریباً دگنی ہوگئی، اب یا تو یہ کہا جائے کہ کراچی میں آباد سندھی اور اردو بولنے والے سندھیوں کے ہاتھ " فروغ خاندان" کا کوئی نایاب نسخہ آگیا تھا کہ ان کی آبادی دس سال کے اندر اندر دگنی ہوگئی یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ اضافہ دوسرے صوبوں سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب ممکن ہوا۔ الزام برائے الزام کی خاطر تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد مشرقی پاکستان سے "بہاری" آئے تھے لیکن یہاں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہاں سے بنگالی بھائی بھی بڑی تعداد میں گئے تھے پھر اس سے قبل ٹرینیں بھر بھر کر نئے دارالحکومت اسلام آباد کی رونق بڑھانے کے لئے بھی ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کراچی سے منتقل ہوگئے تھے پھر 1981ء میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 4 سال کے دوران یہ آبادی ڈیڑھ گنا پھر بڑھ گئی اس میں خود اندروں سندھ سے نقل مکانی کرنے والوں کا بھی کچھہ حصہ ہوکستا ہے لیکن دوسری طرف ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا یہ دعویٰ بھی قابل غور ہے کہ مہاجر نے " خوفزدہ" ہو کر ملک سے "راہ فرار" اختیار کی اور " کراچی میں ایک بڑی تعداد ایسے مہاجر خاندانوں کی ہے جن کی پوری نوجوان نسل ملک سے باہر جاچکی ہے۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ کراچی میں بہت سے بڑے بڑے مکانوں اور عالیشان کوٹھیوں میں اب صرف بوڑھے والدین رہتے ہیں یا جب وہ بھی کسی بیٹے یا بیٹی کے پاس گئے ہوتے ہیں تو صرف مالی اور چوکیدار" اگر حقیقت یہی ہے ہے تو پھر اردو بولنے والوں تعداد میں تو بہت کمی ہوجانی چاہئے اور اگر بات یہی ہے تو پھر انہی کو اس اضافے کا ذمہ دار کیوں قرار دیا جارہا ہے؟

کراچی کے قدیم باشندوں کی زبوں حالی انتہائی قابل افسوس ہے لیکن اس کا ذکر کرنے کا مقصد کیا یہ ہےکہ اس کی ذمہ داری بھی اردو بولنے والوں ہی کے سرمنڈھ دی جائے۔ کراچی ہی پر کیا منحصر ہے سندھ کے دیہات کی حالت بھی بہت خراب ہے لیکن یہ سوال تو طویل عرصے تک یہاں متعین مارشل لاء ایڈمنسٹریڑوں اور ان سیکریٹریوں سے پوچھا جائے جو صوبہ کے سیاہ و سفید کے مالک رہے ہیں یا پھر اس کا جواب جناب ممتاز بھٹو، جناب غلام مصطفٰی جتوئی یا ان کے جانشین دیں جنہیں ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سندھ کے بااختیار وزیر اعلٰی رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۔ ہمیں ان تمام باتوں پر ٹھنڈے دماغ کے ساتھہ غور کرنا چاہئے۔ مشتعل ہونے سے بات بگڑ جاتی ہے۔ ویسے راقم الحروف نے 1966ء میں اس صورت حال کی نشاندہی ان الفاظ میں کی تھی "سندھ کے دیہی علاقوں میں کہی ہزاروں خاندان بے گھر ہیں جن کے لئے کم لاگت کے مکانات تعمیر کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیر ضروری اور غیر منافع بخش منصوبوں پر کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے بجائے بے گھر افراد کی جلد از جلد اور مستقل آباد کاری کا فوری انتظام کیا جائے" (روزنامہ جنگ 10 جون 1966ء)

" ہمارے پارسی بھائی جن کا کراچی شہر کے بنانے میں نمایاں حصہ تھا 1947ء سے پہلے یہ سب سے فعال طبقہ تھا۔ اب عنقا ہوگئے ہیں۔ " تو یہ بھی بتا دیا جائے کہ اس میں 1947ء کے بعد پاکستان آنے والے افراد کس طرح ذمہ دار ہیں اور پھر کراچی سے تو ہمارے" ہندو اور سکھہ بھائی" بھی عنقا ہوچکے ہیں جبکہ "ہندو بھائیوں" نے تو کراچی میں عامل کالونی جیسی صاف ستھری بستی اور حیدرآباد میں ہیرآباد جیسا مسلمانوں کے لئے "ممنوعہ" علاقہ بھی آباد کیا ہوا تھا پھر یہی "ہندو بھائی" ہمارے قدیم سندھی بھائیوں کا خون چوسنے اور انہیں دبانے کا فریضہ "بطریق احسن" ادا کرنے میں بھی بڑے فعال تھے۔

"جھگڑے کی بنیادی وجہ" یہ نہیں ہےکہ " وہ بھائی جو 1947ء کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں سے سندھ میں آئے انہوں نے تاریخی رواج کے مطابق اپنے آپ کو ابھی تک اس علاقے کی تہذیب میں مدغم نہیں کیا۔" بلکہ اصل جھگڑا اور بنیادی مسئلہ سندھی نوجوانوں میں تکلیف دہ حد تک بے روزگاری اور اقتدار میں سندھی عوام کی طویل عرصے تک عدم شرکت ہے اور اس آگ میں سندھی اور اردو بولنے والے یکساں جل رہے ہیں۔ اردو بولنے والے سندھیوں پر یہ الزام کہ وہ مقامی تہذیب اور طرز معاشرت کو اپنانے سے گریزاں ہیں محض سندھ کے ان دونوں طبقوں کو آپس میں لڑانے کی مذموم کوشش ہی قرار دی جاسکتی ہے ورنہ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ کوئی صوبہ بھی یکساں طرز معاشرت کا دعویٰ نہیں کرسکتا اس لئے کہ قبیلوں، خاندانوں اور علاقوں کے افراد کے درمیان لباس ، زبان، لب و لہجہ، رسم و رواج حتیٰ کہ غذا تک میں بڑا نمایاں فرق موجود ہے پھر تعلیم یافتہ ، غیر تعلیم یافتہ ، امیر غریب سے اور شہر میں رہنے والا دیہات میں رہنے والے سے مختلف طرز معاشرت کا حامل ملے گا اور یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے جو سندھ پر بھی یکساں صادق آتی ہے۔ پھر تہذیب و تمدن لباس کی تبدیلی کے عمل کے طرز پر فوری طور پر تبدیلی نہیں کی جاسکتی یہ تو غیر مرئی طور پر آہستہ آہستہ پیدا اور ظاہر ہوتی ہے۔ تہذیب کا عمل جامد و ساکت نہیں بلکہ ہمیشہ متحرک رہنے والا ہوتا ہے۔ یہ کبھی یکساں نہیں رہتی۔ 1947ء اور آج کے دیہاتوں کی تہذیب تک میں نمایاں فرق ملے گا خود قدیم سندھی تہذہب و تمدن کے علمبرداروں کی بود و باش اور رہن سہن کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا وہ سندھ کے نہیں بلکہ یورپ کے کسی شہر کے باسی ہوں۔

سندھی زبان نہ سیکھنے کی شکایت کو اس پس منظر میں دیکھنا چاہئے کہ اردو بولنے والے اتنی تعداد میں آگئے کہ ان کا کام سندھی بولنے بغیر بھی چل جاتا ہے۔ شہروں میں ہر شخص اردو بولتا ہے لیکن جہاں اردو بولنے کی تعداد سندھی بولنے والوں سے کم ہے وہاں سب سندھی بولتے ہیں اور یہ بات صرف سندھ ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ خلیج عرب کے شہر دبئی تک میں مقامی ٹیکسی ڈرائیور اور ایرانی دکاندار تک اردو میں بات کرنے ہیں اور وہ اس پر سبکی محسوس نہیں کرتے وہ جانتے ہیں کہ اردو ان کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے علاوہ بھارت کے علاقوں مدراس، کیرالہ، اور گواتک کے باشندے اردو ہی بولتے ہیں بلکہ دبئی اور قرب و جوار میں کام کرنے والے صومالی باشندے تک اردو کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں بلکہ راقم الحروف ایک ایسے صامالی باشندے کو بھی جانتا ہے جو اپنے ہم وطنوں میں پاکستانی کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اردو بولنے والے سندھیوں کو چاہئے کہ وہ سندھی پڑھنے، سندھی سمجھنے اور سندھی بولنے کی استطاعت پیدا کریں اس لئے کہ جس علاقے میں وہ رہتے ہیں اس علاقہ کی زبان سے اجنبیت کو بہرحال مناسب ہی قرار دیا جائے گا اور جب تک ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے جو آج کل ملک کی ایک بڑی پارٹی کے سیکریٹری جنرل ہیں سندھی بولنے والوں پر پڑھنے اور اردو بولنے والوں پر سندھی سیکھنے کی پابندی ختم نہیں کی تھی ان مختلف الزبان افراد میں یگانگت کا جذبہ برابر پرورش پا رہا تھا۔

ملک کے موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کی شکایات پر ناک بھوں چڑھانے یا جوابی شکایات پیش کرنے کے بجائے افہام و تفہیم سے کام لیا جائے اور جائز شکایات کو دور کرنے کے لئے مناسب کاروائی کی جائے۔ اس ضمن میں بڑے بھائی کی حیثیت سے حالات کو سنبھالنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بڑے بھائی ہی پر عائد رہے گی اور سندھ، بلوچستان اور سرحد کی شکایت کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ وہ اپنی بڑائی کا ثبوت دیتے ہوئے چھوٹے بھائیوں کے ساتھہ ہونے والے موجودہ سلوک کے خلاف نہ تو کوئی قدم اٹھاتا ہے اور نہ ہی ان کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔

"اصلی رخ" میں اس بات سے کہ "شہروں اور گاؤں میں جو اچھا علاقہ اور مکان تھا وہ سب کا سب انہیں (مہاجرین) کو لینے دیا، مہاجر ہی کلیم کنندہ تھا۔ اس صورت حال پر جب سندھیوں نے آواز احتجاج بلند کرنے کی کوشش کی تو سنی ان سنی کردی گئی۔ حقائق و واقعات سے صاحب مضمون کی نہ صرف عدم واقفیت کا ثبوت فراہم ہوتا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ صوبہ کے تمام مسائل کا واحد ذمہ دار مہاجرہی ہے، اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ مہاجرین کو جو بھی اچھے برے مکان شہروں اور دیہات میں ملے وہ متروکہ املاک تھی جو بھارت میں چھوڑی گئی ان کی جائیداد کے بدلے میں انہیں دی گئی۔ مہاجرین بھارت میں بہت کچھہ چھوڑ کر آئے تھے لیکن بہتوں کے دعوے کے مقابلے میں بھی بہت کم معاوضے ادا کئے گئے پھر جس انداز سے خصوصاً مکانات کا قبضہ دیا گیا اس کے نتیجے میں آپس کی مقدمہ بازی اور تنازعات کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا اس کے مقابلے میں بھارت نے شرنارتھیوں کے مبالغہ آمیز دعوؤں کو بھی منظور کرلیا اور دوسری طرف مسلمانوں کی متروکہ املاک کی قیمت کم مقرر کی ادھر پاکستان کی حکومت نے مہاجرین کی چھوڑی ہوئی جائیداد کی کم قیمت منظور کی اور پھر دعوؤں کی مالیت بھی کم کردی اس طرح مہاجرین کو دہرا نقصان پہنچایا گیا حکومت کی پالیسی سے لاکھوں خاندانوں کے دعوے منظور ہی نہیں ہوسکے اور انہیں اپنی چھوڑی ہوئی جائیداد کے بدلے میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ملی نتیجتہً ان میں بے چینی پیدا ہوئی اور ان تمام باتوں کے باوجود خود سندھ کے ایک قائم مقام وزیر اعلٰی سیّد قائم علی شاہ نے سندھ اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں یہ بتایا کہ مہاجرین کو سندھ کی متروکہ اراضی کا صرف 25 فیصد اور متروکہ مکانات اور دکانوں کا صرف 27 فیصد ملا اور اس بات کی سرکاری ریکارڈ سے ڈاکٹر اسرار احمد اور جناب نسیم خود ہی تصدیق کرسکتے ہیں۔

جہاں تک آواز احتجاج کی سنی ان سنی کرنے کا تعلق ہے تو اس بات کا تعلق تو حکومت سے تھا۔ دعوؤں کے سلسلے میں تمامتر پالیسی حکومت نے بنائی تھی اس ضمن میں مہاجر، پنجابی، پٹھان متحدہ محاذ کی تشکیل کا حوالہ اس لئے بے محل ہے کہ اس محاذ میں پنجابی اور پٹھان بھی شامل تھے۔ صرف مہاجر ہی نہیں۔

ہاں سندھ کی زرعی اراضی کو مقامی ہاریوں کو نہ دینے کے خلاف البتہ آواز کو دبایا گیا اور مقامی لوگوں کو ملازمتیں دینے کے مطالبے کو بھی درخود اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ راقم الحروف نے نیلام کے ذریعہ زمینوں کو ٹھکانے لگانے کے خلاف ایک بیان میں کہا تھا " زمینوں کو نیلام کرنا اس علاقے کے غریب اور مستحق کسانوں کو زمین سے محروم کرنے کے برابر ہے۔ مہاجرین کو بھی زمین دی جائے جن کا پیشہ کھیتی باڑی ہے۔

اس تمام تلخ اور شیریں بیانی کا مقصد کسی صوبے کے لوگوں پر الزام لگانا نہیں بلکہ اس کے پیچھے یہ خواہش کارفرما ہے کہ ملک میں موجود بے اعتمادی کی فضا ختم ہو اور لوگ باہم شیر و شکر ہوکررہنا شروع کریں لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک وسیع النظری کا مظاہرہ کرے اور کھلے دل کے ساتھہ ایک دوسرے کی شکایات کو دور کرنے کے سلسلے میں خلوص نیت اور عدل کے ساتھہ کوشش کرے اسی طرح ملک میں اٹھنے والے فتنوں کا خاتمہ ممکن ہے اور اس کے لئے ہمارے قائدین اور اصحاب فکر و دانش کے قول و فعل میں تضاد کو ختم کرنا ہوگا جب تک یہ نہیں ہوتا اس وقت تک ہم یونہی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوتے " اور بعید از حقیقت" الزامات سے ایک دوسرے کو نوازتے رہیں گے۔